قیصرانی
لائبریرین
19 زندگی کی ابتداء
1953 میں ایک طالبعلم مُلر نے یونیورسٹی آف شکاگو میں تجربہ کے لیے دو بوتلیں لیں۔ ایک میں اس نے ایسا پانی ڈالا جو سائنسی اندازے کے مطابق ابتدائی دور کے سمندر جیسا تھا جبکہ دوسرے میں اس نے میتھین، امونیا اور ہائیڈروجن سلفائیڈ کا آمیزہ ڈالا جو ابتداء میں زمین کی فضاء میں بکثرت پایا جاتا تھا۔ پھر اس نے دونوں بوتلوں کو ربر کی نلیوں سے جوڑا اور آسمانی بجلی کی نقل کرتے ہوئے بجلی کے جھٹکے دیے۔ چند دن بعد بوتلوں کا پانی سبز اور زرد ہو گیا اور اس میں امائینو ایسڈ، فیٹی ایسڈ، شوگر اور دیگر آرگینک مرکبات پیدا ہو گئے۔ مُلر کے نگران اور نوبل انعام یافتہ سائنس دان ہیرلڈ اُرے نے خوشی کا اظہار کچھ ایسے کیا، ‘اگر خدا نے زندگی اس طرح نہیں بنائی تو حیرت کی بات ہوگی’۔اس وقت کے صحافیوں نے اس تجربے کی کچھ ایسے تصویر کشی کی کہ جیسے ان بوتلوں کو ہلاتے ہی زندہ جاندار نکلنا شروع ہو جائیں گے۔ بعد میں یہ بات واضح ہوئی کہ زندگی کی ابتداء اتنی بھی سادہ نہیں تھی۔ نصف صدی کے تجربات کے بعد بھی زندگی کی ابتداء کے تجربے میں کامیابی سے اتنے ہی دور ہیں جتنے 1953 میں تھے اور یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے ہم اس طرح زندگی نہیں پیدا کر سکتے۔ سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ زمین کی ابتداء میں مُلر اور اُرے کے تجربے والے مرکبات نہیں بلکہ ان کی جگہ نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مرکبات تھے جو کیمیائی تعامل میں کم ہی دلچسپی دکھاتے ہیں۔ ان مرکبات کو مُلر والے تجربے میں استعمال کرنے سے ہمیں ایک ہی امائینو ایسڈ ملا ہے۔ ویسے بھی امائینو ایسڈ پیدا کرنا کوئی خاص مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ پروٹین کی تیاری ہے۔
پروٹین کی تیاری میں یوں سمجھیں کہ بہت زیادہ امائینو ایسڈ کو ایک لڑی میں پرونا پڑتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انسانی جسم میں لگ بھگ 10 لاکھ اقسام کی پروٹین ہیں جن میں سے تقریباً ہر ایک کی تیاری ایک معجزہ ہے۔ شماریات کے کسی بھی قانون کے مطابق پروٹین کی تیاری ممکن نہیں۔ امائینو ایسڈ کو زندگی کی بنیادی اکائی کہا جاتا ہے۔ ایک پروٹین بنانے کے لیے آپ کو بہت سارے امائینو ایسڈ ایک خاص طور پر جوڑنے پڑتے ہیں۔ یہ عمل ویسے ہی ہے جیسے ہم حروف کو خاص ترتیب سے جوڑ کر الفاظ بناتے ہیں۔ لفظ کولاجن لکھنے کے لیے ہمیں 7 حروف درکار ہیں لیکن کولاجین بنانے کے لیے ہمیں 1٫055 امائینو ایسڈ مخصوص ترتیب سے رکھنے ہوں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آپ پروٹین کو نہیں بناتے بلکہ پروٹین خودبخود، اچانک اور بغیر کسی رہنمائی کے بنتی ہے۔
اب سوچیے کہ 1٫055 مختلف مالیکیولوں کا اچانک ہی ایک خاص ترتیب سے ایک وقت اور ایک ہی جگہ اکٹھا ہونا ناممکن ہے۔ اس سارے کام کو سمجھنے کے لیے ذرا ایک مثال دیکھیے۔ کسی قمار خانے والی جوئے کی مشین کا سوچیں جو 27 میٹر چوڑی ہو تاکہ اس پر 1٫055 وہیل لگ سکیں۔ ہر وہیل پر 20 مختلف نمبر ہوں جو 20 عام سے امائینو ایسڈ کو ظاہر کرتے ہوں (زمین پر اس وقت امائینو ایسڈ کی معلوم تعداد 22 ہے جو قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے صرف 20 ہی زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ آخری امائینو ایسڈ 2002 میں اوہائیو یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا تھا جو محض ایک جاندار میں پایا جاتا ہے)۔ اب سوچیے کہ اگر آپ اس مشین پر جوا کھیلیں تو اس بات کے کیا امکانات ہیں کہ 1٫055 وہیل پر مخصوص نمبر ایک ہی وقت آئیں؟ اگر ہم ایک سادہ سی پروٹین بھی بنانا چاہیں تو بھی ہمیں 200 امائینو ایسڈ درکار ہیں جو 10260 میں سے ایک امکان ہے یعنی 1 کے بعد 260 صفریں۔ یہ تعداد پوری کائنات میں موجود ایٹموں کی تعداد سے زیادہ ہے۔
مختصراً پروٹین بہت پیچیدہ چیزیں ہیں۔ ہموگلوبن جیسی سادہ پروٹین میں 146 امائینو ایسڈ ہوتے ہیں تاہم اس کے بننے کے امکانات 10190 میں سے ایک ہیں۔ اس لیے کیمبرج یونیورسٹی کے کیمسٹ میکس پیروٹز کو اس کا عقدہ حل کرنے میں 23 سال لگے۔ ایک پروٹین کے پیدا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسا سمجھیے کہ طوفانی ہوا کا بگولا کسی کباڑ خانے میں گھس کر نکلے تو پیچھے پورا جمبو جیٹ تیار ہو۔
ایک پروٹین کی تیاری اتنی مشکل ہے جبکہ ہم کئی لاکھ اقسام کی پروٹین کی بات کر رہے ہیں جو شاید دس لاکھ اقسام ہو۔ ان میں سے ہر ایک پروٹین منفرد اور ہماری بقاء کے لیے لازمی ہے۔ پروٹین کا بننا تو ہم نے دیکھا، اب یہ بھی دیکھیے کہ پروٹین کو قابلِ استعمال ہونے کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ تیاری کے بعد پروٹین ایک انتہائی مخصوص شکل میں بھی ڈھل جائے۔ اس ناممکن امر کے پورا ہونے پر بھی پروٹین اگر اپنی نقل نہ تیار سکے تو بیکار ہے۔ کوئی بھی پروٹین اپنی نقل نہیں تیار کر سکتی۔ اس مقصد کے لیے ہمیں ڈی این اے درکار ہوتا ہے۔ نقل کے لیے ڈی این اے جادو جیسا کام کرتا ہے۔ اپنی نقل تیار کرنے میں ڈی این اے کو چند سیکنڈ ہی لگتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ ڈی این اے اور کوئی کام نہیں کر سکتا۔ اب ذرا سوچیے کہ پروٹین ڈی این اے کے بغیر بیکار ہیں اور پروٹین کے بغیر ڈی این اے بیکار ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ پروٹین اور ڈی این اے ایک ہی وقت میں ارتقاء کے مراحل سے گزرے تاکہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کو تیار ہوں؟ اگر ایسا ہے تو کمال ہے۔
مزید دیکھیے۔ ڈی این اے، پروٹین اور زندگی کے لیے درکار دیگر اجزاء کو کسی جھلی کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کوئی بھی ایٹم یا مالیکیول اکیلا زندہ نہیں ہوتا۔ اپنے جسم سے آپ ایک ایٹم کو نوچ کر الگ کریں تو وہ ایٹم زندہ نہیں ہوگا۔ تاہم جب یہ سب ایٹم مل کر ایک خلیے کے اندر جمع ہوتے ہیں تو وہ خلیہ زندہ ہوتا ہے۔ اگر خلیہ نہ ہو تو یہ سب دلچسپ کیمیائی مرکبات ہی رہیں گے لیکن زندگی نہیں بن سکتے۔ ایک سائنس دان ڈیوس کا خیال ہے کہ اگر ہر چیز کو دیگر تمام چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ زندہ ہو سکیں تو پھر یہ سب اکٹھے کیسے ہوئے؟ یوں سمجھیے کہ آپ کے باورچی خانے میں موجود تمام تر اجزاء خود مل کر کیک بنے اور پھر جب ضرورت پڑی تو اس کیک نے تقسیم ہو کر مزید کیک پیدا کرنا شروع کر دیے۔ اسی معجزے کو ہم زندگی کا نام دیتے ہیں۔ اب آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ زندگی کی ابتداء کو سمجھنا اتنا مشکل کیوں ہے۔
اس سارے معجزے کی وجہ کیا ہے؟ ایک امکان تو یہ ہے کہ شاید یہ اتنا بڑا معجزہ نہیں جتنا کہ دکھائی دیتا ہے۔ پروٹین بظاہر اتنی پیچیدہ لگتی ہیں۔ ایسا بھی تو ممکن ہے کہ پروٹین یک بیک اس طرح نہ پیدا ہوئی ہوں بلکہ وقفے وقفے سے مختلف امائینو ایسڈ ملتے رہے ہوں اور آخر میں ایک پروٹین تیار ہو گئی ہو؟ یعنی پروٹین پیدا نہ ہوئی ہو بلکہ ارتقاء سے گزر کر بنی ہو؟
فرض کریں کہ آپ تمام ضروری اجزاء جیسا کہ کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور دیگر چیزیں لے کر ایک ڈبے میں پانی کے ساتھ ڈال کر ہلاتے ہیں تو انسان باہر نکل آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ناقابلِ یقین دکھائی دے گی۔ اکثر سائنس دان یہی کہتے ہیں۔ لیکن ‘اندھا گھڑی ساز’ میں رچرڈ ڈاکنز کا خیال ہے کہ پروٹین کی ابتداء بتدریج ہوئی۔ شاید کسی وجہ سے دو یا تین امائینو ایسڈ جمع ہوئے ہوں۔ کچھ عرصے بعد ان کے ساتھ ایک اور آن کر مل گیا ہو اور اس سے انہیں کوئی اضافی فائدہ ہوا ہو اور یہ سلسلہ چلتا رہے؟
زندگی سے جڑے کیمیائی تعامل عام سی بات ہیں۔ شاید ان عوامل کو ہم مُلر اور اُرے کی مانند لیبارٹری میں تو نہ کر سکیں لیکن فطرت میں ہمیں یہ عوامل ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ بہت ساری اقسام کے مالیکیول آپس میں مل کر لمبی لمبی زنجریں بناتے ہیں جنہیں پولیمر کہا جاتا ہے۔ شوگر مسلسل نشاستہ بناتی رہتی ہیں۔ کرسٹل یعنی قلمیں بہت سے ایسے کام کرتی ہیں جو زندگی سے متعلق سمجھے جاتے ہیں، جیسا کہ اپنی نقل تیار کرنا، آس پاس ہونے والے عوامل پر ردِ عمل ظاہر کرنا اور مخصوص ترتیب سے پیچیدہ تر ہوتے جانا۔ تاہم کرسٹل کبھی زندہ نہیں ہو پاتے۔ البتہ یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ پیچیدگی فطری اور اچانک وقوع پذیر ہونے والا کام ہے جو قدرتی طور پر اور مسلسل ہوتا رہتا ہے۔ کائنات میں مختلف مقامات پر زندگی کا ہونا یا نہ ہونا الگ امر ہے لیکن خود بخود پیدا ہونے والا توازن ہمیں ہر جگہ ملتا ہے چاہے وہ انوکھے ڈیزائن والے برف کے گالے ہوں یا پھر زحل کے دائرے۔
توازن اور اجتماع کی یہ خوبیاں اتنی فطری ہیں کہ زندگی کا جنم لینا شاید ہماری توقع سے بھی زیادہ عام ہو۔ بیلجیم نژاد نوبل انعام یافتہ بائیو کیمسٹ کرسچیان ڈی ڈو کے خیال میں، ‘جہاں جہاں مناسب حالات ہوں، وہاں وہاں زندگی کا جنم لینا شاید ایک لازمی امر ہو’۔ اس کے خیال میں ہر کہکشاں میں ایسی صورتحال لاکھوں مرتبہ پیش آ سکتی ہے۔
ظاہر ہے کہ ہمیں بنانے والے کیمیائی اجزاء میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ کسی بھی جاندار کو بنانے کے لیے آپ کو چار بنیادی اجزاء درکار ہوتے ہیں: کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن۔ اس کے علاوہ سلفر، فاسفورس، کیلشیم اور فولاد کی بھی معمولی سی مقداریں درکار ہوں گی۔ انہیں لگ بھگ تین درجن مختلف ترتیبوں سے ملائیں تو شوگر، ایسڈز اور دیگر بنیادی مرکبات بن جائیں گے جن سے آپ کوئی بھی زندہ چیز بنا سکتے ہیں۔ ڈاکنز کے خیال میں، ‘ہمیں بنانے والے اجزاء میں کوئی خاص بات نہیں۔ ہر جاندار چیز اسی طرح مالیکیولوں کا مجموعہ ہے جیسے بے جان چیزیں’۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زندگی بے شک جتنی بھی عجیب، اطمینان بخش اور معجزانہ کیوں نہ لگے، لیکن ناممکن نہیں۔ ہمارا اپنا وجود اسی بات کا ثبوت ہے۔ تاہم یہ بات واضح رہے کہ زندگی کی ابتداء سے متعلق چھوٹی چھوٹی باتیں ابھی تک پوری طرح معلوم نہیں۔ مثال کے طور پر زندگی کی ابتداء سے متعلق ہر نظریے کا لازمی جزو پانی ہے چاہے وہ ڈارون کا نظریہ ہو یا پھر موجودہ دور کا نظریہ کہ سمندر میں آتش فشانی گرم بھاپ کے سوراخوں سے زندگی کی ابتداء ہوئی۔ تاہم یہ سب نظریے اس امر کو بھول جاتے ہیں کہ مانومر کو پولی مر یعنی پروٹین بننے کے لیے جس عمل کی ضرورت ہوتی ہے، اسے عملِ تبخیر کہتے ہیں۔ ایک درسی کتاب میں اس کا ہلکا سا اشارہ دیا گیا ہے۔ یہ کچھ ایسے ہی ہے جیسے آپ پانی کے گلاس میں چینی کا چمچ ڈالیں اور وہ چینی کی ڈلی بن کر نکلے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تاہم فطرت میں ایسے بھی ہوتا ہے۔ اس سے متعلق کیمیائی عمل تو بہت پیچیدہ ہے جسے اس طرح سمجھیں کہ جب آپ مانومر کو گیلا کریں تو وہ پولی مر نہیں بن سکتے، تاہم جب زمین پر زندگی کی ابتداء ہو رہی تھی، تب ایسا ممکن تھا۔ اگرچہ تب ایسا ممکن کیسے تھا اور اب ممکن کیوں نہیں، یہ حیاتیات کا ابھی تک ناقابلِ حل معمہ ہے۔
موجودہ دہائیوں میں سائنس کے لیے سب سے بڑی حیرت کا سبب یہ امر تھا کہ زمین پر زندگی کی ابتداء کب ہوئی۔ 1950 کی دہائی تک یہ بات عام سمجھی جاتی تھی کہ زندگی کی ابتداء کو 60 کروڑ سال سے کم کا عرصہ ہوا ہے۔ 1970 تک بعض سائنس دانوں کا نظریہ اڑھائی ارب سال قبل تک پہنچ گیا تھا۔ تاہم موجودہ نظریہ 3.85 ارب سال زمین کی ابتدائی حالت سے متعلق ہے کیونکہ زمین کی سطح آج سے لگ بھگ 3.9 ارب سال قبل ٹھوس بنی تھی۔
نیو یارک ٹائمز میں لکھے مضمون میں سٹیفن گولڈ نے کہا، ‘اس عجلت سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مناسب ماحول والے سیاروں پر بیکٹیریا جیسے جانداروں کا پیدا ہونا کوئی مشکل نہیں’۔ ایک اور جگہ پر اس نے لکھا کہ، ‘زندگی کا اتنا جلدی شروع ہونا کیمیائی اعتبار سے لازمی امر تھا’۔
زندگی کی ابتداء میں اتنی عجلت سے بعض سائنس دانوں کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے زندگی کی ابتداء میں ہمیں بیرونی امداد حاصل تھی۔ طویل عرصے سے نظریہ موجود ہے کہ زمین پر زندگی باہر سے آئی ہے۔ 1871 میں لارڈ کیلون نے برٹش ایسوسی ایشن برائے ترقی سائنس میں یہ بات کہی کہ زندگی کے جراثیم شاید کسی شہابِ ثاقب کی مدد سے زمین پر پہنچے ہوں۔ تاہم 1969 تک اس بارے کم ہی لوگوں کو یقین تھا۔ اسی سال آسٹریلیا میں ہزاروں لوگوں نے بلند بانگ دھماکے سنے اور آسمان پر مغرب کی جانب آتشیں گولے کو حرکت کرتے دیکھا۔ اس گولے سے عجیب طرح کی آوازیں آ رہی تھیں اور اس سے پیدا ہونے والی بو کو بعض لوگوں نے میتھی لیٹڈ سپرٹ جبکہ کچھ لوگوں نے محض ناقابلِ برداشت بو کہا۔
یہ آتشیں گولہ میلبورن کے شمال میں موجود وادئ گولبرن کے قصبے مرچیسن کے اوپر پھٹا اور اس کے ٹکڑے زمین پر پہنچے۔ ان میں سے بعض تو پانچ کلو وزنی بھی تھے۔ خوش قسمتی سے کوئی زخمی نہیں ہوا۔ اس قسم کا شہابِ ثاقب بہت نایاب ہے اور اسے کاربونیشیئس کونڈرائیٹ کہتے ہیں۔ قصبے کے رہائشیوں نے تقریباً 90 کلو پتھر جمع کیے۔ اتفاق دیکھیے کہ محض دو ماہ قبل ہی اپالو 11 کے خلاء باز چاند سے پتھروں کا تھیلا لائے تھے اور اب دنیا بھر سے چوٹی کی لیبارٹریاں خلائی پتھروں کی خواہش سے ہلکان ہو رہی تھیں۔
مرچیسن کا شہابِ ثاقب ساڑھے چار ارب سال پرانا نکلا اور اس میں 74 مختلف اقسام کے امائینو ایسڈ چپکے ہوئے تھے۔ ان میں سے 8 امائینو ایسڈ ارضی پروٹین کی تیاری میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ 2001 میں ایمس ریسرچ سینٹر، کیلیفورنیا کے محققین نے اعلان کیا کہ اس شہابِ ثاقب سے پیچیدہ شوگر کی ایسی لڑیاں بھی ملی ہیں جنہیں پولائل کہا جاتا ہے اور یہ آج تک زمین کے علاوہ اور کہیں دریافت نہیں ہوئیں۔
1969 کے بعد سے اب تک اس نوعیت کے اور بھی کئی شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرائے ہیں۔ ان میں سے ایک جنوری 2000 میں کینیڈا کی ریاست یوکون کی جھیل ٹیگش میں آن گرا اور اسے شمالی امریکہ کے زیادہ تر حصوں میں گزرتے دیکھا گیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری کائنات میں آرگینک مرکبات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہیلی کا دمدار ستارہ بھی ایک چوتھائی آرگینک مالیکیول سے بنا ہے۔ ان کی مناسب مقدار کو آپ کسی بھی مناسب حالت والے سیارے جیسا کہ زمین سے ٹکرائیں تو زندگی کے ابتدائی اجزاء تیار ہو جائیں گے۔
خلاء سے زندگی کی زمین کو منتقلی کے نظریات کو ‘پین سپرمیا’ کہتے ہیں۔ ان میں دو بنیادی مشکلات ہیں۔ اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ زندگی کی ابتداء اصل میں کیسے ہوئی بلکہ یہ نظریات محض یہ بتاتے ہیں کہ کہیں سے بنی بنائی زندگی زمین تک آن پہنچی۔ دوسرا یہ کہ اس نظریے کے ماننے والے انتہائی معزز اور قابلِ احترام سائنس دان اس طرح کے اندازے لگانا شروع ہو جاتے ہیں جو کسی بھی طور پر سائنس دان کو زیب نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر ڈی این کے دریافت کنندہ سائنس دانوں میں سے ایک فریڈرک کرک نے اعلان کیا کہ، ‘زمین پر زندگی باہر سے آئی ہے’۔ اگر نوبل انعام یافتہ سائنس دان کی بجائے کسی اور نے یہ جملہ کہا ہوتا تو اسے شاید خبطی قرار دے دیا جاتا۔ فریڈ ہوئل اور اس کے ساتھی چندرا وکرما سنگھے نے پین سپرمیا کے نظریے کو مزید مشکوک بناتے ہوئے کہا کہ نہ صرف زندگی بلکہ آج کل کی بہت ساری بیماریاں جیسا کہ ببونک طاعون اور نزلہ جیسی بیماریاں بھی خلاء سے ہی آئی ہیں۔ تاہم ان نظریات کو بائیو کیمسٹوں نے بہ آسانی غلط ثابت کیا۔
تاہم زندگی چاہے جیسے بھی شروع ہوئی ہو، محض ایک بار ہی شروع ہوئی۔ شاید یہ علمِ حیاتیات کی سب سے انوکھی حقیقت ہے۔ آج جتنے بھی جانور اور پودے اور دیگر جاندار زندہ ہیں، ایک ہی جاندار سے نکلے ہیں۔ انتہائی قدیم زمانے میں چند چھوٹے کیمیائی تھیلے زندہ ہو گئے۔ انہوں نے کچھ غذائی اجزاء جذب کیے اور پھر مر گئے۔ شاید بہت بار ایسا ہوا ہو۔ تاہم اس بار اس تھیلے نے ایک انوکھا کام کیا۔ اس نے اپنی اگلی نسل پیدا کی۔ ایک جاندار سے جینیاتی مواد دوسرے جاندار کو منتقل ہوا اور یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے چل پڑا۔ یہ لمحہ ہم سب کی تخلیق کا لمحہ تھا۔ حیاتیات دان اسے ‘بگ برتھ’ یعنی عظیم پیدائش بھی کہتے ہیں۔
آپ دنیا میں کسی بھی کونے پر چلے جائیں، کسی بھی پودے، جانور، یا کسی بھی جاندار کو دیکھیں تو اس کی جینیاتی ڈکشنری اور جینیاتی زبان ایک ہی ہوگی۔ میٹ رڈلی کے مطابق، ‘تمام جاندار ایک ہی ہیں’۔ ہم سب کے سب جاندار ایک ہی حیاتیاتی سلسلے سے منسلک ہیں جو چار ارب سال سے جاری و ساری ہے۔ اگر آپ انسان کے جینیاتی مواد کا ایک حصہ لے کر اسے پھپھوندی میں لگا دیں تو پھپھوندی اسے ویسے ہی استعمال کرنے لگے گی جیسا وہ بنا ہی اس کے لیے ہو۔ درحقیقت یہ اس کا اپنا ہی حصہ ہے۔
زندگی کی ابتداء یا اس سے ملتی جلتی کوئی شئے وکٹوریا بینیٹ کی الماری کے ایک خانے پر رکھی ہے۔ وکٹوریا آئسو ٹوپ جیو کیمسٹ ہے جو اس وقت آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی ان کینبرا کی ارضیاتی سائنس کے شعبے میں کام کر رہی ہے۔ یہ امریکی سائنس دان 1989 میں دو سال کے لیے آسٹریلیا آئی اور یہیں کی ہو رہی۔ 2001 کے اواخر میں جب میں نے ملاقات کی تو اس نے مجھے پتھر کا ایک موٹا سا ٹکڑا تھما دیا۔ یہ ٹکڑا سفید کوارٹز اور بھورے سبز رنگ کے کلائینو پاروکسین کی پتلی پتلی پٹیوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ چٹان گرین لینڈ کے جزیرے اکالیا سے آئی تھی جہاں 1997 میں انتہائی قدیم چٹانیں ملی تھیں۔ یہ چٹان لگ بھگ 3.85 ارب سال پرانی ہے اور اس دور کے بحری گاد کو ظاہر کرتی ہے۔
بینٹ نے کہا، ‘ہم اس پتھر کو توڑے بغیر نہیں کہہ سکتے کہ اس میں قدیم جانداروں کی باقیات موجود ہیں یا نہیں لیکن جہاں سے اسے نکالا گیا ہے، وہاں قدیم ترین زندہ جاندار بھی نکالے گئے ہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اس پتھر میں بھی کوئی نہ کوئی متحجر یعنی فاسل جاندار موجود ہوں گے۔ خوردبینی جانداروں کی موجودگی کو ان کے فاسلز سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ تاہم اس پتھر کو توڑ کر ہم ان کیمیائی مادوں کو جان سکتے ہیں جو ان جانداروں نے اپنے پیچھے چھوڑے ہوں گے۔ اگرچہ یہ زندگی کی انتہائی قدیم حالت تھی لیکن بہرحال زندگی تو تھی۔ نہ صرف یہ جاندار زندہ رہے بلکہ انہوں نے دیگر جانداروں کو بھی جنم دیا’۔
یہی زندگی آخرکار موجودہ جانداروں کا سبب بنی۔
اگر آپ کو مس بینیٹ کی طرح قدیم چٹانوں سے دلچسپی ہے تو یہ جگہ آپ کے لیے جنت ثابت ہوگی۔ 1970 کی دہائی میں ایک سائنس دان بل کامپسٹن نے دنیا کی پہلی سینسیٹو ہائی ریزولیوشن آئن مائیکرو پروب یعنی شرمپ بنائی۔ یہ مشین زرکون کی انتہائی معمولی قلموں میں موجود یورینیم کی شرح انحطاط کو ناپتی ہے۔ بسالٹ کے علاوہ دیگر تمام چٹانوں میں زرکون پائی جاتی ہے اور انتہائی مستحکم ہونے کی وجہ سے سب ڈکشن کے علاوہ تمام تر قدرتی عوامل کو سہ سکتی ہے۔ سب ڈکشن کا عمل دراصل دو ٹیکٹانک پلیٹوں کے رگڑنے اور ایک تہہ کے دوسری کے نیچے گھس کر ختم ہو جانے کو کہتے ہیں۔ تاہم گرین لینڈ اور آسٹریلیا کے کچھ علاقوں کی چٹانیں ہمیشہ ہی اس قدرتی عمل سے بچی رہی ہیں۔ کامپٹن کی مشین انہی چٹانوں کی عمر کو حیرت انگیز درستگی سے ناپ سکتی ہے۔ پہلی شرمپ پرانے پرزوں سے بنائی گئی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے کباڑی کی دکان سے نکلی ہو تاہم اس نے بہترین کام کیا۔ پہلے باقاعدہ ٹیسٹ میں اس مشین نے ایک چٹان کو 3.4 ارب سال پرانا بتایا۔ یہ چٹان مغربی آسٹریلیا سے آئی تھی۔
بینیٹ نے بتایا، ‘اس وقت بہت مسئلے پیدا ہوئے تھے کہ ایک بالکل ہی نئی مشین نے اتنے اہم موضوع پر اتنی جلدی کیسے نتیجہ نکال لیا’۔
پھر ہم نے ہال میں جا کر شرمپ دوم دیکھی۔ ساڑھے تین میٹر لمبی اور ڈیڑھ میٹر اونچی سٹین لیس سٹیل کی ٹھوس مشین تھی۔ اس کے ایک سرے پر ایک سکرین لگی ہوئی تھی جہاں ایک باب نامی ایک سائنس دان بیٹھا مختلف ہندسوں کو بدلتے دیکھ رہا تھا۔ صبح چار بجے سے دوپہر تک اس سائنس دان کو یہ مشین استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ بینیٹ نے بتایا کہ یہ کہ مشین 24 گھنٹے چلتی ہے اور اس پر وقت لینا آسان نہیں۔ کسی بھی جیو کیمسٹ سے پوچھیں کہ یہ مشین کیسے کام کرتی ہے تو وہ آپ کو انتہائی تفصیل سے اس کے بارے بتانے لگ جائے گا کہ آئسو ٹوپ کتنے عام ہوتے ہیں اور آئیونائزیشن کیسے کام کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مختصراً یوں سمجھ لیں کہ یہ مشین کسی بھی نمونے پر چارج ایٹموں کی بوچھاڑ کرتی ہے اور پھر سیسے اور یورینیم کی مقدار کے فرق کو انتہائی درستگی سے ناپ کر اس کی عمر کا درست تخمینہ دیتی ہے۔ بوب نے بتایا کہ ایک نمونے پر 17 منٹ لگتے ہیں اور ہر چٹان سے کم از کم بارہ نمونے چیک کرنے ہوتے ہیں تاکہ نتائج قابلِ بھروسہ ہوں۔ اس مشین پر کام کرنے کے لیے ہر سائنس دان کو تمام تر مرحلے خود ہی کرنے ہوتے ہیں۔
ارتھ سائنس کا شعبہ کافی عجیب سا تھا۔ کچھ کچھ دفتر، کچھ کچھ لیبارٹری اور کچھ کچھ مشین ورکشاپ جیسا۔ بینیٹ نے بتایا، ‘ہم ساری مشینیں خود ہی بناتے ہیں۔ شیشے والا کاریگر ابھی ریٹائر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پتھروں کو کاٹنے کے لیے دو ملازمین بھی ہیں’۔ میری آنکھوں میں حیرت دیکھ کر بینٹ نے وضاحت کی، ‘ہمارے ہاں بہت ساری چٹانیں اور پتھر آتے ہیں۔ انہیں ٹیسٹ کرنے سے قبل ہمیں پوری تسلی کرنی ہوتی ہے کہ اس میں کوئی بیرونی ملاوٹ نہ ہو اور نہ ہی اس سے پہلے والے نمونے کی باقیات اس سے مل جائیں۔ حتیٰ کہ گرد بھی نہیں۔ بہت طویل اور خشک کام ہے’۔ پھر ہم نے پتھر توڑنے والی مشینیں دیکھیں جن کے کاریگر شاید کافی پینے گئے ہوئے تھے۔ مشینوں کے ساتھ ہی بڑے بڑے ڈبے ہر سائز کے پتھروں سے بھرے ہوئے تھے۔
اس چکر کے بعد جب ہم بینٹ کے دفتر پہنچے تو دیوار پر مجھے ایک پینٹنگ لگی دکھائی دی جس میں آج سے ساڑھے تین ارب سال قبل کی زمین دکھائی گئی تھی۔ زندگی کا آغاز ہو چکا تھا اور اس دور کو ‘آرکیئن’ دور کہتے ہیں۔ انتہائی عجیب و غریب سرزمین تھی جس میں لاوا اگلتے آتش فشاں اور بھاپ اڑاتا ہوا تانبے کی رنگت کا سمندر بھی موجود تھا۔ زندگی کی ابتداء اور تسلسل کے لیے انتہائی ناسازگار ماحول لگ رہا تھا۔ میں نے پوچھا، ‘کیا یہ پینٹنگ حقیقت سے قریب تر ہو سکتی ہے؟’
بینٹ نے جواب دیا، ‘مفکرین کا ایک گروہ یہ سوچتا ہے کہ ابتداء میں سورج بہت مدھم تھا اور بالائی فضاء کے بغیر اس مدھم سورج کی بالائے بنفشی شعاعیں ہر طرح کے کیمیائی بانڈ کو توڑ دیتی تھیں۔ اس کے باوجود یہاں دیکھیں، جاندار تقریباً سطح سمندر تک پہنچ گئے تھے’۔
میں نے پوچھا، ‘کیا ہمیں واقعی معلوم نہیں کہ اس وقت زمین کیسی ہوگی؟’
بینٹ نے اثبات میں سر ہلایا۔
میں نے پھر پوچھا، ‘کچھ بھی ہو، اس وقت کی زمین پر زندگی کا تصور محال ہے’۔
بینٹ نے جواب دیا، ‘پھر بھی زندگی کے لیے کچھ نہ کچھ تو ہوگا ہی، ورنہ زندگی کیسے شروع ہوتی’۔
یہ زمین تو واقعی ہمارے لیے مناسب نہیں تھی۔ اگر آپ آج ٹائم مشین کی مدد سے واپس آرکیئن دور میں چلے جائیں تو مشین سے قدم باہر رکھتے ہی آپ واپس لوٹ آئیں گے۔ آکسیجن کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوگی اور زہریلے بخارات کی صورت میں ہائیڈروکلورک ایسڈ اور سلفیورک ایسڈ آپ کے کپڑے گلا کر آپ کی جلد پر آبلے ڈال دیں گے اور نہ ہی ہمیں مصوروں کی بنائی ہوئی قدیم زمین کے خوبصورت مناظر ملیں گے۔ کیمیائی بخارات سے سورج کی روشنی زمین کی سطح تک نہیں پہنچ پائے گی اور وقفے وقفے سے ہونے والے آسمانی بجلی کی چمک سے ہی آپ کچھ دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے۔ یعنی ایسی زمین جو تھی تو ہماری زمین لیکن اسے کوئی پہچان نہ سکتا۔
اس دور میں اہم واقعات کم ہی ہوتے تھے۔ دو ارب سال تک بیکٹیریا ہی زندگی کی واحد علامت تھے۔ وہ پیدا ہوتے، اپنی نسل بڑھاتے اور پھیلتے رہے لیکن انہوں نے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کی۔ پہلے ارب سال کے دوران بیکٹیریا کی ایک قسم جسے ہم سائنو بیکٹیریا یا بلیو گرین الجی کہتے ہیں، نے اپنی خوراک کے لیے پانی میں موجود ہائیڈروجن کو استعمال کرنا سیکھ لیا۔ یہ بیکٹیریا پانی جذب کرتے اور ہائیڈروجن کشید کر کے آکسیجن کو بطور فضلہ خارج کر دیتے۔ یہ ضیائی تالیف کی قدیم ترین شکل تھی۔ ساگان اور مارگولیس کے مطابق، زمین کی تاریخ میں ضیائی تالیف سب سے اہم میٹابولک عمل ہے اور یہ عمل پودوں کی بجائے بیکٹیریا کی ایجاد ہے۔
سائنو بیکٹیریا نے پوری دنیا میں پھیل کر اسے آکسیجن سے بھرنا شروع کر دیا۔ تاہم وہ جاندار جو آکسیجن کے بغیر زندہ رہتے ہیں، یعنی اس دور کے تقریباً تمام جاندار، ان کے لیے یہ صورتحال تکلیف دہ تھی کہ آکسیجن ان کے لیے زہرِ قاتل تھی۔ ہمارے خون میں سفید خلیات بیکٹیریا کو مارنے کے لیے آکسیجن استعمال کرتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے افراد آکسیجن کے اس پہلو سے ناواقف ہیں کہ ہم نے ارتقاء کے عمل سے آکسیجن کو اپنے لیے مفید بنا لیا ہے۔ یہ آکسیجن ہی ہے جو لوہے کو زنگ لگاتی اور مکھن کو سڑاتی ہے۔ تاہم ہمارے لیے بھی آکسیجن ایک حد تک مفید ہے۔ ہمارے خون میں آکسیجن کی مقدار ماحول میں موجود مقدار کا محض دس فیصد ہوتی ہے۔
آکسیجن استعمال کرنے والے نئے جانداروں کو دو فائدے ہوئے۔ ایک تو آکسیجن سے توانائی کی بڑی مقدار آسانی سے ملتی ہے تو دوسرا یہ بھی کہ دشمن جاندار پیچھا چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں سے کچھ جاندار دلدلی زمین اور جھیلوں کی تہہ میں چلے گئے تو دیگر نے بہت عرصے بعد ارتقاء کے عمل کے بعد زمینی جانوروں کے نظامِ انہضام کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ ہماری خوراک کو ہضم کرنے کے عمل میں ان کی مدد لازمی ہے جبکہ آکسیجن کی معمولی سی مقدار بھی انہیں مار سکتی ہے۔ بے شمار دیگر اقسام کے جاندار بدل نہ سکے اور معدوم ہو گئے۔
سائنو بیکٹیریا بہت مقبول تھے۔ پہلے پہل تو ان کی خارج کی ہوئی اضافی آکسیجن لوہے سے مل کر فیرک آکسائیڈ بناتی رہی جو پرانے سمندروں کی تہہ میں بیٹھ جاتے تھے۔ کروڑوں سال تک جاری اس عمل سے ہمارے آج کے دور کے لوہے کی معدنی ذخائر بنے۔ اگر آپ اس پروٹیروزوئک دور میں واپس چلے جائیں گے تو آپ کو اکا دکا ہی جاندار دکھائی دیں گے جو کہیں ڈھکے ہوئے تالابوں کے کنارے یا ساحلِ سمندر پر چٹانوں پر چپکے ہوں گے۔ دیگر تمام اقسام کی زندگی نظروں سے اوجھل تھی۔
تاہم ساڑھے تین ارب سال قبل کچھ خاص ہوا۔ جہاں جہاں سمندر کم گہرے تھے، مختلف اجسام نمودار ہونے لگ گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سائنو بیکٹیریا لیسدار ہوتے گئے اور مختلف خوردبینی گرد و غبار ان سے چپکنے لگ گئے۔ اس طرح وہ عجیب اجسام بننے لگے جنہیں ہم سٹرومیٹولائٹس کہتے ہیں۔ ان کی اشکال اور حجم فرق ہوتے ہیں۔ بعض جگہ ان کی شکل گوبھی کے پھول جیسی تو کبھی گدے جیسی اور کبھی مینار نما ہوتی ہے۔ یہ مینار دس سے لے کر سو میٹر تک بلند ہوتے تھے۔ ایک طرح سے یہ زندہ چٹانیں تھیں۔ کچھ جاندار ان کی سطح پر تو کچھ سطح کے نیچے ایک دوسرے کی مدد سے زندہ رہتے تھے۔ اسے ہم دنیا کا پہلا ماحولیاتی نظام کہہ سکتے ہیں۔
بہت برسوں تک سائنس دان سٹرومیٹولائٹس کو فاسلز سے ہی سمجھتے رہے لیکن 1961 میں عجیب واقعہ رونما ہوا جب شمال مغربی آسٹریلیا کے ساحل پر شارک بے کے مقام پر زندہ سٹرومیٹولائٹس دکھائی دیے۔ یہ بات اتنی عجیب تھی کہ سائنس دانوں کو یہ حقیقت قبول کرنے میں کئی برس لگے۔ یہ جگہ انتہائی دور افتادہ ہونے کے باوجود سیاحوں کے لیے کشش رکھتی ہے۔ حکومت نے اس جگہ پانی پر لکڑی کے تختوں سے راستے بنا دیے ہیں جہاں لوگ چل کر قریب سے انہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ان کا رنگ بھورا ہے اور دیکھنے میں گائے کے گوبر کے بہت بڑے ڈھیر پانی کی سطح سے ذرا نیچے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ساڑھے تین ارب سال پرانے زندہ اجسام کو دیکھنا اپنے میں ایک حیرت انگیز تجربہ ہے۔ رچرڈ فورٹی کے مطابق، ‘یہ وقت کے سفر کے مترادف ہے۔ اگر دنیا کو ان کی اصل قدر کا پتہ چلے تو یہ مصر کے اہراموں کی طرح مشہور ہو جائیں’۔ اندازہ ہے کہ ان چٹانوں کے ہر مربع گز میں تقریباً تین ارب انفرادی جاندار موجود ہیں۔ اگر آپ انہیں قریب سے دیکھیں تو بعض مساموں سے ہوا کے چھوٹے چھوٹے بلبلے نکلتے دکھائی دیتے ہیں جو آکسیجن پر مشتمل ہوتے ہیں۔ دو ارب سال تک ایسی ہی کوششوں سے جا کر زمین کی فضاء میں آکسیجن کی مقدار 20 فیصد تک پہنچی ہے جس سے پیچیدہ جانداروں کا وجود ممکن ہوا ہے۔
اندازہ ہے کہ یہ اجسام زمین پر سب سے سست رفتاری سے اگنے والے جاندار ہیں اور یہ بات کسی شک کے بناء کہی جا سکتی ہے کہ یہ جاندار سب سے نایاب بھی ہیں۔ پیچیدہ جانداروں کے وجود کو ممکن بنانے والے یہ جاندار انہی جانداروں کے ہاتھوں تقریباً ہر جگہ سے ناپید ہو گئے جن کے وجود کی راہ انہوں نے ہموار کی تھی۔ شارک بے میں ان کے ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پانی انتہائی کھارا ہے اور کوئی ایسا جانور نہیں رہ سکتا جو سٹرومیٹولائٹس کو کھائے۔
حیات کی اتنی سست رفتاری شاید اسی وجہ سے تھی کہ پہلے سادہ جاندار فضاء میں مناسب مقدار میں آکسیجن پہنچا دیں۔ رچرڈ فورٹی کے مطابق، ‘جانوروں کے پاس کام کرنے کی توانائی ہی نہیں تھی’۔ دو ارب سال یعنی زمین کی تاریخ کے 40 فیصد حصہ گزرنے کے بعد فضاء میں آکسیجن کی مقدار موجودہ سطح تک پہنچی۔ تاہم جب یہ مرحلہ سر ہوا تو اچانک ایک بالکل ہی نئی قسم کے خلیے نمودار ہوئے جن میں ایک مرکزہ اور چند دیگر چھوٹے چھوٹے حصے ایک جھلی میں جمع تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اتفاقی طور پر یا جان بوجھ کر کسی بیکٹیریا نے دوسرے کو اپنے اندر سمو لیا ہوگا اور یہ رشتہ دونوں کو ہی راس آ گیا۔ قیدی بیکٹیریا کو ہم مائٹو کونڈریا کے نام سے جانتے ہیں۔ اس رشتے سے ہی پیچیدہ جانداروں کا وجود ممکن ہوا۔ پودوں میں اسی طرح کا ایک اور عمل ہوا جس میں ضیائی تالیف والے کلوروپلاسٹ کا جنم ہوا۔
مائٹو کونڈریا کا کام آکسیجن کی مدد سے خوراک سے توانائی نکالنا ہے۔ اس کام کے بغیر یک خلوی جاندار کبھی بھی کثیر خلوی نہ بن سکتے۔ مائٹو کونڈریا انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں اور ریت کے ایک ذرے میں ایک ارب بھی سما جائیں۔ لیکن یہ بہت بھوکے ہوتے ہیں۔ آپ جو کچھ بھی کھاتے ہیں، انہی کی نظر ہوتا ہے۔
ان کے بغیر ہم دو منٹ بھی نہیں زندہ رہ سکتے۔ تاہم دو ارب سال کے تعلق کے باوجود بھی مائٹوکونڈریا ہمارے لیے آج بھی اجنبی ہیں۔ ان کا اپنا ڈی این اے، آر این اے اور رائبوسوم ہوتے ہیں۔ جس خلیے میں موجود ہوتے ہیں، اس سے قطع نظر ان کی افزائشِ نسل کا الگ وقت ہوتا ہے۔ ان کی شکل اور ان کا کام بیکٹیریا جیسا ہی ہوتا ہے اور بعض اوقات اینٹی بائیوٹیکس ان پر بھی اسی طرح اثر کرتی ہے جیسے بیکٹیریا پر۔ ان کی اپنی جینیاتی زبان ان کے میزبان خلیے سے الگ ہوتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ یہ دو ارب سال گزرنے کے بعد بھی مہمان ہی ہیں۔
ان خلیوں کو یوکیریوٹ (حقیقی مرکزے والے) کہا جاتا ہے۔ دوسری طرح کے خلیے پروکیریوٹ یعنی قبل از مرکزے والے کہلاتے ہیں۔ ان کا وجود ہماری متحجراتی تاریخ یعنی فاسل ریکارڈ میں اچانک ہی نمودار ہوتا ہے۔ سب سے پرانے یوکیریوٹ خلیے گرائیپینیا کہلاتے ہیں جو مشی گن میں 1992 میں دریافت ہوئے۔ ایسے فاسل ایک بار ملے اور اگلے 50 کروڑ سال تک ان کا کوئی وجود نہیں ملتا۔
زمین پر زندگی نے ایک قدم اور آگے بڑھا لیا تھا۔ پروکیریوٹ کی نسبت یوکیریوٹ دس ہزار گنا زیادہ بڑے اور ان کا ڈی این اے ہزار گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔ پروکیریوٹ کو کیمیائی مادوں سے بھرے تھیلے سے ذرا زیادہ کچھ کہہ لیں تو یوکیریوٹ زندہ جاندار تھے۔ اسی طرح کے اہم واقعات کے بعد اب جانداروں کی دو اقسام بن چکی ہیں۔ ایک وہ جو آکسیجن خارج کرتے ہیں جیسا کہ پودے اور دوسرے وہ جو آکسیجن جذب کرتے ہیں، یعنی کہ انسان اور دیگر عام جانور۔
یک خلوی یوکیریوٹ کو پہلے پہل پروٹوزوا کہتے ہیں مگر آج کل پروٹسٹس کہلاتے ہیں۔ پروکیریوٹ کی بہ نسبت یوکیریوٹ ڈیزائن اور نفاست کے شاہکار ہیں۔ سادہ سا امیبا جس کی زندگی کا مقصد بظاہر صرف زندہ رہنا ہے، میں 40 کروڑ بٹ کے برابر ڈی این اے ہوتا ہے جو 500 صفحات کی 80 کتابوں کے برابر ہے۔
بالآخر یوکیریوٹ خلیوں نے ایک نیا کام سیکھا جس پر شاید ایک ارب سال لگے ہوں گے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے مل کر کثیر خلوی جاندار بنانا سیکھ لیے۔ اسی سے موجودہ جانداروں کا وجود ممکن ہوا۔ کرہ ارض پر زندگی نے ایک اور قدم بڑھا لیا تھا۔
تاہم یہ بات واضح رہے کہ اس وقت تک زمین پر زندگی محض خوردبینی جانداروں تک ہی محدود تھی۔