الف نظامی

لائبریرین
اے تیر غمت را دلِ عشاق نشانہ
خلقے بتو مشغول و تو غائب ز میانہ

مجنوں صفتم در بدر و خانہ بخانہ
شاید کہ بہ بینم رخِ لیلے بہ بہانہ

گہ معتکفِ مسجد و گہ ساکنِ دیرم
یعنی کہ ترا می طلبم خانہ بخانہ

حاجی بہ رہِ کعبہ و من طالبِ دیدار
اُو خانہ ہمی جوید و من صاحبِ خانہ

تقصیرِ ہلالی بامیدِ کرمِ تُست
یعنی کہ گنہ را بِہ ازیں نیست بہانہ

از مولٰنا ہلالی اَستر آبادی رحمۃ اللہ علیہ
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ کیا لاجواب کلام ہے، کیا خوبصورت شاعری ہے!

ایک بات یہ نظامی صاحب کہ اگر اسکا ترجمہ آپ کے پاس ہے تو وہ بھی پوسٹ کر دیں ورنہ یہ خاکسار کم از کم اس غزل کا تو ترجمہ کر ہی دے گا :)
 

الف نظامی

لائبریرین
واہ واہ کیا لاجواب کلام ہے، کیا خوبصورت شاعری ہے!

ایک بات یہ نظامی کہ اگر اسکا ترجمہ آپ کے پاس ہے تو وہ بھی پوسٹ کر دیں ورنہ یہ خاکسار کم از کم اس غزل کا تو ترجمہ کر ہی دے گا :)

شکریہ وارث بھائی ، اسی لیے تو لکھا ہے کہ ترجمہ مل جائے آپ کی توجہ سے:)
 

محمد وارث

لائبریرین
حاضر حضور :)

اے تیر غمت را دلِ عشاق نشانہ
خلقے بتو مشغول و تو غائب ز میانہ

اے کہ تیرے غم کے تیر کا نشانہ عشاق کا دل ہے، خلقت تجھ میں مشغول ہے اور تو درمیان سے غائب ہے!

مجنوں صفتم در بدر و خانہ بخانہ
شاید کہ بہ بینم رخِ لیلے بہ بہانہ

میں، مجنوں کی طرح در بدر اور خانہ بخانہ (پھرتا ہوں) شاید کہ کسی بہانے ہی سے رخ لیلیٰ کا دیدار ہو جائے!

گہ معتکفِ مسجد و گہ ساکنِ دیرم
یعنی کہ ترا می طلبم خانہ بخانہ

کبھی میں مسجد میں حالتِ اعتکاف میں ہوں اور کبھی مندر کا ساکن ہوں، یعنی میں خانہ بخانہ تیرا ہی طالب ہوں (کہ مسجد و مندر میں تو ہی ہے)!

حاجی بہ رہِ کعبہ و من طالبِ دیدار
اُو خانہ ہمی جوید و من صاحبِ خانہ

حاجی کعبے کا مسافر ہے اور میں تیرے دیدار کا طالب ہوں، یعنی وہ تو گھر ڈھونڈتا ہے اور میں گھر والے کو!

تقصیرِ ہلالی بامیدِ کرمِ تُست
یعنی کہ گنہ را بِہ ازیں نیست بہانہ

ہلالی کی تقصیروں کو تیرے کرم کی ہی امید ہے یعنی کہ گناہوں کو اس سے بہانہ مراد نہیں ہے (بلکہ اعتراف کرتا ہوں کہ گنہگار ہوں اور تیرے کرم ہی سے امید ہے)

از مولٰنا ہلالی اَستر آبادی رحمۃ اللہ علیہ
 

الف نظامی

لائبریرین
خمسہ بر غزلِ مولٰنا ہلالی اَستر آبادی از سید نصیر الدین نصیر

از حسن تو افتادہ چہ شورے بہ زمانہ
عالَم ہمہ جویائے تو اے درِ یگانہ
ہر کس ز تو دارد بہ لبِ خویش فسانہ
اے تیر غمت را دلِ عشاق نشانہ
خلقے بتو مشغول و تو غائب ز میانہ


از دردِ تو دارم بہ دلِ خویش خزانہ
فارغ شدہ از عزت و ناموسِ شہانہ
فرہاد وَشم بہرِ تو شیرینِ زمانہ
مجنوں صفتم در بدر و خانہ بخانہ
شاید کہ بہ بینم رخِ لیلے بہ بہانہ


دیوانہ تو ہستم و بیگانہ ز غیرم
مانندِ صبا بہرِ تو اے لالہ ! بہ سیرم
در ذوقِ تمنائے تو پراں شدہ طیرم
گہ معتکفِ مسجد و گہ ساکنِ دیرم
یعنی کہ ترا می طلبم خانہ بخانہ


باطعنہ و تشنیع مرا نیست سروکار
گردم پئے آں یار بہ ہر کوچہ و بازار
باشد کہ رسم در حرمِ دوست بہ یکبار
حاجی بہ رہِ کعبہ و من طالبِ دیدار
اُو خانہ ہمی جوید و من صاحبِ خانہ



بنگر بہ نصیر آن کہ شہیدِ کرمِ تست
آسودگی اُو ز نویدِ کرمِ تست
مایوس مگرداں کہ بعیدِ کرمِ تست
تقصیرِ ہلالی بامیدِ کرمِ تُست
یعنی کہ گنہ را بِہ ازیں نیست بہانہ


"عرشِ ناز" از سید نصیر الدین نصیر سے لیا گیا کلام
 

الف نظامی

لائبریرین
دو اشعار سید انور حسین نفیس رقم کے قلم سے
01nq2.jpg
 

فاتح

لائبریرین
نظامی صاحب یہ خوبصورت کلام ارسال فرمانے پر آپ کا بہت شکریہ اور وارث صاحب، آپ کا بھی شکریہ کہ آپ کے بغیر اسے سمجھنا میرے لیے نا ممکن تھا۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
حضور اس کا بھی ترجمہ عطا ہو کہ ہم بھی داد دینے والوں کی فہرست میں شامل ہو سکیں۔

بھئی یہاں سے آگے میرے پر جلنے شروع ہو جاتے ہیں کہ قیافے اور قافیے سے ہی کام نکالتا ہوں :)

بہرحال ابھی گھر جا رہا ہوں، انشاءاللہ آج رات کو کوشش کرونگا!
 

محمد وارث

لائبریرین
جیسے کہ عرض کر چکا ہوں کہ فارسی میں درک نہیں ہے فقط شد بد ہے سو اسی سے کام چلاتا ہوں اگر ترجمے میں کوئی خامی یا غلطی ہو تو پیشگی معذرت خواہ ہوں!

از حسن تو افتادہ چہ شورے بہ زمانہ
عالَم ہمہ جویائے تو اے دُرِ یگانہ
ہر کس ز تو دارد بہ لبِ خویش فسانہ
اے تیر غمت را دلِ عشاق نشانہ
خلقے بتو مشغول و تو غائب ز میانہ

یہ تیرے حسن ہی سے ہے جو بھی زمانے میں زندگی اور ہنگامہ ہے!
اے گوہرِ یگانہ سارا عالم ہر وقت تیری تلاش میں ہی ہے!
ہر کوئی اپنی زبان پر تیرے متعلق اپنا ہی فسانہ رکھتا ہے (ہر کسی کی اپنی وارداتِ قلبی ہے)
اے کہ تیرے غم کے تیر کا نشانہ عشاق کا دل ہے۔
خلقت تجھ میں مشغول ہے اور تو درمیان سے غائب ہے!


از دردِ تو دارم بہ دلِ خویش خزانہ
فارغ شدہ از عزت و ناموسِ شہانہ
فرہاد وَشم بہرِ تو شیرینِ زمانہ
مجنوں صفتم در بدر و خانہ بخانہ
شاید کہ بہ بینم رخِ لیلے بہ بہانہ

میں اپنے دل میں تیرے درد کا خزانہ رکھتا ہوں!
میں عزت و ناموسِ شاہانہ سے گزر چکا ہوں!
اے شیرینِ زمانہ میں تیرے لیے فرہاد کی مانند ہو چکا ہوں!
میں، مجنوں کی طرح در بدر اور خانہ بخانہ (پھرتا ہوں)
شاید کہ کسی بہانے ہی سے رخ لیلیٰ کا دیدار ہو جائے!


دیوانہ تو ہستم و بیگانہ ز غیرم
مانندِ صبا بہرِ تو اے لالہ ! بہ سیرم
در ذوقِ تمنائے تو پراں شدہ طیرم
گہ معتکفِ مسجد و گہ ساکنِ دیرم
یعنی کہ ترا می طلبم خانہ بخانہ

میں تیرا دیوانہ ہوں اور غیر سے بیگانہ ہوں!
اے لالہ، تیرے لیے میں صبا کی مانند گردش میں ہوں!
تیری تمنا کے ذوق میں میری (روح کا) طائر پرواز میں ہے!
(اور) کبھی مسجد میں معتکف ہے اور کبھی دیر کا ساکن ہے!
یعنی کہ خانہ بخانہ مجھے تیری ہی طلب ہے!


باطعنہ و تشنیع مرا نیست سروکار
گردم پئے آں یار بہ ہر کوچہ و بازار
باشد کہ رَسَم در حرمِ دوست بہ یکبار
حاجی بہ رہِ کعبہ و من طالبِ دیدار
اُو خانہ ہمی جوید و من صاحبِ خانہ

طعنہ و تشنیع سے مجھے کوئی کام نہیں ہے!
میں تو اس یار کے واسطے ہر کوچہ و بازار کی گرد بنا ہوں!
شاید کہ میں ایسے اور ایکبار ہی دوست کے حرم تک پہنچ جاؤں!
حاجی کعبے کا مسافر ہے اور میں تیرے دیدار کا طالب ہوں
وہ تو گھر ڈھونڈتا ہے اور میں گھر والے کو!



بنگر بہ نصیر آں کہ شہیدِ کرمِ تست
آسودگیِ اُو ز نویدِ کرمِ تست
مایوس مگر داں کہ بعیدِ کرمِ تست
تقصیرِ ہلالی بامیدِ کرمِ تُست
یعنی کہ گنہ را بِہ ازیں نیست بہانہ

نصیر کی طرف بھی دیکھ کہ وہ تیرے کرم کا شہید ہے!
اس کی آسودگی تو تیرے کرم کی نوید پر ہی ہے!
مایوس ہے مگر جانتا ہے کہ (مایوسی) تیرے کرم سے دور ہے!
ہلالی کی تقصیروں کو (بھی) تیرے کرم کی ہی امید ہے!
یعنی کہ گناہوں کو اس سے (تیرے کرم کی آس سے) بہانہ مراد نہیں ہے!
 

حسان خان

لائبریرین
تقصیرِ ہلالی بامیدِ کرمِ تُست
یہ غزل ہلالی جغتائی استرآبادی کی نہیں، بلکہ خیالی بُخارائی کی ہے۔ اور اِس کی شُہرت کی وجہ وہ مُخمّس ہے جو اِس پر شیخ بہائی نے لکھی تھی۔ مقطع میں تخلُّص بھی 'ہلالی' کی بجائے 'خیالی' کا آئے گا۔
 
Top