کاشفی
محفلین
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
اے جنوں کچھ تو کُھلے آخر میں کس منزل میں ہوں
ہوں جوارِ یار میں یا کوچۂ قاتل میں ہوں
پا بہ جولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب
میں سفیرِ حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں
جشنِ فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے
حال میں ہوں اور زندہ اپنے مستقبل میں ہوں
دم بخود ہوں اب سرِ مقتل یہ منظر دیکھ کر
میں کہ خود مقتول ہوں لیکن صفِ قاتل میں ہوں
اک زمانہ ہو گیا بچھڑے ہوئے جس سے سرورؔ
آج اُسی کے سامنے ہوں اور بھری محفل میں ہوں
(سُرُور بارہ بنکوی)
اے جنوں کچھ تو کُھلے آخر میں کس منزل میں ہوں
ہوں جوارِ یار میں یا کوچۂ قاتل میں ہوں
پا بہ جولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب
میں سفیرِ حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں
جشنِ فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے
حال میں ہوں اور زندہ اپنے مستقبل میں ہوں
دم بخود ہوں اب سرِ مقتل یہ منظر دیکھ کر
میں کہ خود مقتول ہوں لیکن صفِ قاتل میں ہوں
اک زمانہ ہو گیا بچھڑے ہوئے جس سے سرورؔ
آج اُسی کے سامنے ہوں اور بھری محفل میں ہوں