خواجہ غلام فرید اے حسن حقیقی نورِ ازل

فرحت کیانی

لائبریرین
واہ واہ۔ سبحان اللہ۔
کیا عمدہ کلام انتخاب کیا ہے۔ بہت شکریہ فراز۔ :)
یہ کلام پٹھانے خان نے بھی گایا ہے نا؟ اور پھر کوک سٹوڈیو میں اریب اظہر نے بھی شاید؟
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
اے حسن حقیقی نور ازل
تینوں واجب تے امکان کہوں
تینوں خالق ذات قدیم کہوں​
تینوں حادث خلق جہان کہوں​
تینوں مطلق محض وجود کہوں​
تینوں علمیہ اعیان کہوں​
ارواح نفوس عقول مثال​
اشباح عیان نہان کہوں​
تینوں عین حقیقت ماہیت​
تینوں عرض صفت تے شان کہوں​
انواع کہوں اوضاع کہوں​
اطوار کہوں اوزان کہوں​
تینوں عرش کہوں افلاک کہوں​
تینوں ناز نعیم جنان کہوں​
تینوں تت جماد نبات کہوں​
حیوان کہوں انسان کہوں​
تینوں مسجد مندر دیر کہوں
تینوں پوتھی تے قرآن کہوں
تسبیح کہوں زنار کہوں
تینوں کفر کہوں ایمان کہوں
تینوں بادل برکھا گاج کہوں
تینوں بجلی تے باران کہوں
تینوں آب کہوں تے خاک کہوں
تینوں باد کہوں نیران کہوں
تینوں وسرت لچھمن رام کہوں
تینوں سیتا جی جانان کہوں
بلدیو جسودا نند کہوں
تینوں کشن کنیہا کان کہوں
تینوں برما بشن گنیش کہوں
مہا دیو کہوں بھگوان کہوں
تینوں گیت گرنت تے بید کہوں​
تینوں گیان کہوں اگیان کہوں​
تینوں آدم حوا شیث کہوں​
تینوں نوح کہوں طوفان کہوں​
تینوں ابراہیم خلیل کہوں​
تینوں موسی بن عمران کہوں​
تینوں ہر دل دا دلدار کہوں​
تینوں احمدؐ عالی شان کہوں​
تینوں شاہد ملک حجاز کہوں​
تینوں باعث کون مکان کہوں​
تینوں ناز کہوں انداز کہوں​
تینوں حور پری غلمان کہوں​
تینوں نوک کہوں تینوں ٹوک کہوں​
تینوں سرخی کجلہ پان کہوں​
تینوں طبلہ تے تنبور کہوں​
تینوں ڈھولک سر تے تان کہوں​
تینوں حسن تے ہار سنگار کہوں​
تینوں عشوہ غمزہ آن کہوں​
تینون عشق کہوں تینوں علم کہوں​
تینوں وہم یقین گمان کہوں​
تینون حسن قوی ادراک کہوں​
تینوں ذوق کہوں وجدان کہوں​
تینوں سکر کہوں سکران کہوں​
تینوں حیرت تے حیران کہوں​
تسلیم کہوں تلوین کہوں​
تمکین کہوں عرفان کہوں​
تینون سنبل سوسن سرو کہوں​
تینوں نرگس نافرمان کہوں​
تینوں لالہ داغ تے باغ کہوں​
گلزار کہون بستان کہوں​
تینوں خنجر تیر تفنگ کہوں​
تینوں برچھا بانک سنان کہوں​
تینوں تیر خدنگ کمان کہوں​
سوفار کہوں پیکان کہوں​
بے رنگ کہوں بے مشل کہوں​
بے صورت ہر ہر آن کہوں​
سبوح کہوں قدوس کہوں​
رحمان کہون سبحان کہوں​
کر توبہ ترت فرید سدا​
ہر شے نوں پر نقصان کہوں​
اسے پاک الکھ بے عیب کہوں​
اسے حق بے نام نشان کہوں​
خواجہ غلام فرید
بقو ل نایاب صاحب یہ کسی
کاغذ چننے والے مجذوب​
کا کلام تو ہو سکتا ہے، البتہ کوئی ہوشمند مومن، مسلمان اس سے اتفاق نہیں کر سکتا۔​
تینوں وسرت لچھمن رام کہوں
تینوں سیتا جی جانان کہوں
بلدیو جسودا نند کہوں
تینوں کشن کنیہا کان کہوں
تینوں برما بشن گنیش کہوں
مہا دیو کہوں بھگوان کہوں
یہ اشعار صریح شرک سے بھرے ہیں، چاہےں تو کسی مفتی سے فتویٰ لے لیں۔
 

باباجی

محفلین
بقو ل نایاب صاحب یہ کسی
کاغذ چننے والے مجذوب​
کا کلام تو ہو سکتا ہے، البتہ کوئی ہوشمند مومن، مسلمان اس سے اتفاق نہیں کر سکتا۔​
تینوں وسرت لچھمن رام کہوں

تینوں سیتا جی جانان کہوں
بلدیو جسودا نند کہوں
تینوں کشن کنیہا کان کہوں
تینوں برما بشن گنیش کہوں
مہا دیو کہوں بھگوان کہوں
یہ اشعار صریح شرک سے بھرے ہیں، چاہےں تو کسی مفتی سے فتویٰ لے لیں۔
میرے محترم بھائی
آپ بیشک اس کلام کو غیر متفق یا نا پسند کی ریٹنگ دیں
لیکن احترام ملحوظ رکھیں
کیا آپ کے اندر یہ اہلیت ہے کہ آپ کلام کے مقابلے اس سے اچھا کوئی کلام لکھ سکیں ؟؟؟
اگر نہیں تو پھر آپ ایک کچرا چننے والے سے بھی گئے گزرے ہیں میرے بھائی
ہر کسی کی الگ سوچ الگ سوچ اور الگ نظریہ ہوتا ہے
اگر آپ ریٹنگز دیکھیں تو آپ نے ہی غیر متفق کی ریٹنگ دی ہے
مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ، بس آپ نے کچھ الفاظ ایسے استعمال کیئے مجھے مناسب نہیں لگے
اگر ہم کسی مفتی کے فتوے کو یہ کہہ کر مسترد کردیں کہ یہ تو پیسے لے کر کسی بھی قسم کا فتوٰی د یدے گا ، تو آپ کو کیسا لگے گا ؟؟؟
بھائی احترام بہت اعلیٰ و ارفع شے ہے
آپ سے گزارش ہے کہ آپ جو مرضی ریٹنگ دیں جو اتفاق کریں یا اعتراض کریں ، صرف احترام کا خیال رکھیں
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
عالی جناب محترمی بابا جی!
ہم نے آپ کی شان میں تو ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
پھر آپ کے نزدیک لاہور جیسے بڑے شہر کوئی ایک مفتی تو ایسا ضرور ہوگا جس کے دِل میں خوف خُدا ہو اور بقول آپ کے وہ کسی قسم کے پیسے لے کر فتویٰ نہ دیتا ہو۔مجھے آپ سے پوری ہمدردی ہے۔
ہم نے آپ کے خلاف کوئی فتویٰ صادر نہیں کیا۔ہم نے محض اپنی ناپسند کا اظہار کیا ہے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ ہم الم غلم سب کچھ پسند کر لیں۔اور ایمان کی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ آپ بھی ہوش کے ناخن لیجیے۔
ہم تو چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی تمام مومن مسلمانوں کو ایمان پر قائم رکھے اور ایمان کے ساتھ اس دُنیا سے اُٹھائے۔ جن اشعار کی ہم نے نشاندہی کی ہے وہ تو سرارسر شرک ہیں، سرارسر شرک ہیں، سرارسر شرک ہیں، ۔۔۔۔،۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔،
 

الف نظامی

لائبریرین
بقو ل نایاب صاحب یہ کسی
کاغذ چننے والے مجذوب​
کا کلام تو ہو سکتا ہے، البتہ کوئی ہوشمند مومن، مسلمان اس سے اتفاق نہیں کر سکتا۔​
تینوں وسرت لچھمن رام کہوں

تینوں سیتا جی جانان کہوں
بلدیو جسودا نند کہوں
تینوں کشن کنیہا کان کہوں
تینوں برما بشن گنیش کہوں
مہا دیو کہوں بھگوان کہوں
یہ اشعار صریح شرک سے بھرے ہیں، چاہےں تو کسی مفتی سے فتویٰ لے لیں۔
آپ کے خیال میں آخری تین اشعار کا "ان اشعار" سے کیا ربط ہو سکتا ہے؟
جب کہ پہلا شعر یہ ہو
اے حسن حقیقی نور ازل
تینوں واجب تے امکان کہوں
آخری تین اشعار:
سبوح کہوں قدوس کہوں
رحمان کہون سبحان کہوں
کر توبہ ترت فرید سدا
ہر شے نوں پر نقصان کہوں
اسے پاک الکھ بے عیب کہوں
اسے حق بے نام نشان کہوں
 

نایاب

لائبریرین
بقو ل نایاب صاحب یہ کسی
کاغذ چننے والے مجذوب​
کا کلام تو ہو سکتا ہے، البتہ کوئی ہوشمند مومن، مسلمان اس سے اتفاق نہیں کر سکتا۔​
تینوں وسرت لچھمن رام کہوں

تینوں سیتا جی جانان کہوں
بلدیو جسودا نند کہوں
تینوں کشن کنیہا کان کہوں
تینوں برما بشن گنیش کہوں
مہا دیو کہوں بھگوان کہوں
یہ اشعار صریح شرک سے بھرے ہیں، چاہےں تو کسی مفتی سے فتویٰ لے لیں۔

محترم بھائی ۔۔۔۔۔۔۔ بہت افسوس ہوا کہ آپ جیسی صاحب علم ہستی صرف " ناموں " کو لیکر " فتوی " کی مہر لگانے پر اتر آئی ۔
میرے محترم بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوچھنے والا نے پوچھا ۔۔۔۔ کہ تجھے آخر کہوں کیا ۔۔۔۔۔؟
کہ " لا الہ " کا اقرار کرواتے " الا " کی قید لگا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ خود کو " اللہ " کہا ۔ جو کہ " للہ " لہ " ہ " تک پہنچتے " وہ " کو ثابت کر گیا ۔
یاد رہے کہ جن ناموں پر آپ اعتراض کر رہے ہیں ۔ یہ زمانہ قبل ازاسلام کے ہیں ۔ آپ ان پر شرک کا فتوی جب دیں جب یہ کلام کہنے والا یہ کہہ رہا ہو کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ہی کشن کنہیا تو ہی کان ہے ۔۔۔۔۔۔
بنا سمجھے کلام آپ کی جانب سے شرک کا فتوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبحان اللہ
اس کلام کی ابتدا و انتہا پر غور کیجئے گا ۔ بات سمجھ آ جائے گی ۔ ان شاءاللہ
ذرا یہ بھی پڑھیئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا​
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مٹ گئے ، پامال ہو گئے لیکن
کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا
ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو

ہر ذرے میں کس شان سے تو جلوہ نما ہے
حیراں ہے مگر عقل میں کیسا ہے تو کیا ہے
تجھے دیر و حرم میں میں نے ڈھونڈا تو نہیں ملتا
مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دل میں دیکھا ہے
جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں
پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا
تم اک گورکھ دھندہ ہو

کوئی صف میں تمہاری کھو گیا ہے
اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے
نہ بت خانے نہ کعبے میں ملا ہے
مگر ٹوٹے ہوئے دل میں ملا ہے
عدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے
کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے
نہیں ہے تو تو پھر انکار کیسا
نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے
میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
اگر وہ تو نہیں تو اور کیا ہے
نہیں آیا خیالوں میں اگر تو
تو پھر میں کیسے سمجھا تو خدا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو

حیران ہوں
میں حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو ، کیا ہو
ہاتھ آؤ تو بت ، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو
اصل میں جو مل گیا ، لا الہ کیونکر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا
فلسفی کو بحث میں اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
چھپتے نہیں ہو ، سامنے آتے نہیں ہو تم
جلوہ دکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تم
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تم
جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تم
حیراں ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح
حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم
یہ معبد و حرم ، یہ کلیسا و دہر کیوں
ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تم
بس تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو

نت نئے نقش بناتے ہو ، مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
زندگی کتنے ہی مردوں کو عطا کی جس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی
طور ہی ، بن کے تجلی سے جلا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعاں
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو
بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شہ مصر بنا دیتے ہو
جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں انا الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں اڑا دیتے ہو
جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو
جوت سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوئے تھر میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو “مہینوال” تصور کر لے
اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
ناز خیالوی
 

نایاب

لائبریرین
جب اک کاغذ چننے والے مجذوب نے " بابا چھتری والے " کے ہاں جمی اک محفل میں دن بھر کے جمع کردہ پھٹے پرانے کاغذوں کو اک اک کر لہراتے یہ کلام پڑھا تھا ۔۔

محترم فارقلیط بھائی ۔ یہ مجذوب جو دن بھر کے جمع کردہ پھٹے پرانے کاغذ اک اک کر کے لہرا رہا تھا ۔ ان کاغذوں پر کیا تحریر تھا ؟ آپ شاید سوچ بھی نہیں سکتے ۔ یہ اخباروں کتابوں اشتہاروں کے وہ پھٹے زمین پر بکھرے ٹکڑے تھے جن پر آیات قرانی احادیث اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام مبارک تحریر تھا ۔ اس شخص نے اپنی مجذوبیت میں اپنی زندگی کو اس ہی کام کے لیئے وقف کر دیا تھا ۔ ساری زندگی کاغذ جمع کرتے اور انہیں کہیں صاف جگہ دفن کرتے گزار دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانے کیسا مشرک تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
پوچھنے والا نے پوچھا ۔۔۔ ۔ کہ تجھے آخر کہوں کیا ۔۔۔ ۔۔؟​
کلامِ مذکور میں کون پوچھ رہا ہے؟
کس سے پوچھ رہا ہے؟
کلام مذکور میں یہ الفاظ کہاں ہیں؟"
کہ تجھے آخر کہوں کیا ؟​
"
یہ تو آپ کا مفروضہ ہے۔ یہاں تو کہنے والا براہِ راست، نورِ ازل کے حسنِ حقیقی سے مخاطب ہے:
اور جیسے کوئی اپنے محبوب کو رِجھانے کے لیے اُسے مختلف ناموں سے پکارتا ہے اُسی طرح یہاں
شاعر نورِازل کے حسن حقیقی کو مختلف ناموں سے پکارنے لگتا ہے۔نہ کہیں سوالیہ اندازہے اور نہ ہی سوالیہ نشان۔
یہاں تو سپاٹ بیانیہ ہے۔پھر بھی اگر آپ بضد ہیں تورہیں۔مودبانہ گزارِش ہے کہ فلسفہ توحید پر از سرِ
نو نظر ثانی کیجیے: یہ بھی جان لیجیے کہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنیٰ توقیفی ہیں۔ اور بقول قرآن اللہ عزوجل
کو اسمائے حسنیٰ ہی سے پکارنا چاہیے۔جب نص قرآنی موجود ہو تب تجھے کس نام سے پکاروں؟ پوچھنے کا
سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ہمارے یہاں اردو اسکولوں میں کچھ دنوں سے ایک حمد پڑھائی جا رہی تھی:
مساجد میں تو ہے، شوالوں میں توہے۔جب مفتیان کرام کی خدمت میں استفتاء پیش کیا گیا۔ تو بریلوی
اور دیوبندی دونوں جماعتوں کے مفتیانِ کرام نے بیک آواز حمد کے اس شعر کو سراسر شرک قرار دِیا۔
اردو محفل ایک سوشل فورم ہے۔ یہاں اپنی پسند ناپسند کے اظہار کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ہم نے
اپنی نا پسند کا اظہار محض کیا ہے۔ ہم اپنے خیالات، اپنے عقائد کسی پر زبردستی لادنا نہیں چاہتے۔ تاہم
اگر آپ اپنی بات منوانے پر مصر رہے تو حضورِ والا ایسی اُردو محفل کو ہمارا آخری سلام۔
 

نایاب

لائبریرین
کلامِ مذکور میں کون پوچھ رہا ہے؟
کس سے پوچھ رہا ہے؟
کلام مذکور میں یہ الفاظ کہاں ہیں؟"
کہ تجھے آخر کہوں کیا ؟​
"
یہ تو آپ کا مفروضہ ہے۔ یہاں تو کہنے والا براہِ راست، نورِ ازل کے حسنِ حقیقی سے مخاطب ہے:
اور جیسے کوئی اپنے محبوب کو رِجھانے کے لیے اُسے مختلف ناموں سے پکارتا ہے اُسی طرح یہاں
شاعر نورِازل کے حسن حقیقی کو مختلف ناموں سے پکارنے لگتا ہے۔نہ کہیں سوالیہ اندازہے اور نہ ہی سوالیہ نشان۔
یہاں تو سپاٹ بیانیہ ہے۔پھر بھی اگر آپ بضد ہیں تورہیں۔مودبانہ گزارِش ہے کہ فلسفہ توحید پر از سرِ
نو نظر ثانی کیجیے: یہ بھی جان لیجیے کہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنیٰ توقیفی ہیں۔ اور بقول قرآن اللہ عزوجل
کو اسمائے حسنیٰ ہی سے پکارنا چاہیے۔جب نص قرآنی موجود ہو تب تجھے کس نام سے پکاروں؟ پوچھنے کا
سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ہمارے یہاں اردو اسکولوں میں کچھ دنوں سے ایک حمد پڑھائی جا رہی تھی:
مساجد میں تو ہے، شوالوں میں توہے۔جب مفتیان کرام کی خدمت میں استفتاء پیش کیا گیا۔ تو بریلوی
اور دیوبندی دونوں جماعتوں کے مفتیانِ کرام نے بیک آواز حمد کے اس شعر کو سراسر شرک قرار دِیا۔
اردو محفل ایک سوشل فورم ہے۔ یہاں اپنی پسند ناپسند کے اظہار کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ہم نے
اپنی نا پسند کا اظہار محض کیا ہے۔ ہم اپنے خیالات، اپنے عقائد کسی پر زبردستی لادنا نہیں چاہتے۔ تاہم
اگر آپ اپنی بات منوانے پر مصر رہے تو حضورِ والا ایسی اُردو محفل کو ہمارا آخری سلام۔


میرے محترم بھائی ۔ اب آپ ان شعروں پہ غور کر لیں ۔ کہ کہنے والے نے کیا کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے خیال میں آخری تین اشعار کا "ان اشعار" سے کیا ربط ہو سکتا ہے؟
جب کہ پہلا شعر یہ ہو
اے حسن حقیقی نور ازل
تینوں واجب تے امکان کہوں
آخری تین اشعار:
سبوح کہوں قدوس کہوں
رحمان کہون سبحان کہوں
کر توبہ ترت فرید سدا
ہر شے نوں پر نقصان کہوں
اسے پاک الکھ بے عیب کہوں
اسے حق بے نام نشان کہوں
 

نایاب

لائبریرین
کلامِ مذکور میں کون پوچھ رہا ہے؟
کس سے پوچھ رہا ہے؟
کلام مذکور میں یہ الفاظ کہاں ہیں؟"
کہ تجھے آخر کہوں کیا ؟​
"
یہ تو آپ کا مفروضہ ہے۔ یہاں تو کہنے والا براہِ راست، نورِ ازل کے حسنِ حقیقی سے مخاطب ہے:
اور جیسے کوئی اپنے محبوب کو رِجھانے کے لیے اُسے مختلف ناموں سے پکارتا ہے اُسی طرح یہاں
شاعر نورِازل کے حسن حقیقی کو مختلف ناموں سے پکارنے لگتا ہے۔نہ کہیں سوالیہ اندازہے اور نہ ہی سوالیہ نشان۔
یہاں تو سپاٹ بیانیہ ہے۔پھر بھی اگر آپ بضد ہیں تورہیں۔مودبانہ گزارِش ہے کہ فلسفہ توحید پر از سرِ
نو نظر ثانی کیجیے: یہ بھی جان لیجیے کہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنیٰ توقیفی ہیں۔ اور بقول قرآن اللہ عزوجل
کو اسمائے حسنیٰ ہی سے پکارنا چاہیے۔جب نص قرآنی موجود ہو تب تجھے کس نام سے پکاروں؟ پوچھنے کا
سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ہمارے یہاں اردو اسکولوں میں کچھ دنوں سے ایک حمد پڑھائی جا رہی تھی:
مساجد میں تو ہے، شوالوں میں توہے۔جب مفتیان کرام کی خدمت میں استفتاء پیش کیا گیا۔ تو بریلوی
اور دیوبندی دونوں جماعتوں کے مفتیانِ کرام نے بیک آواز حمد کے اس شعر کو سراسر شرک قرار دِیا۔
اردو محفل ایک سوشل فورم ہے۔ یہاں اپنی پسند ناپسند کے اظہار کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ہم نے
اپنی نا پسند کا اظہار محض کیا ہے۔ ہم اپنے خیالات، اپنے عقائد کسی پر زبردستی لادنا نہیں چاہتے۔ تاہم
اگر آپ اپنی بات منوانے پر مصر رہے تو حضورِ والا ایسی اُردو محفل کو ہمارا آخری سلام۔

میرے محترم بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ فلسفہ توحید کو اللہ تعالی نے قصہ ابراہیم علیہ السلام میں پوری معنویت سے کھلے طور بیان فرما دیا ہے ۔۔۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے ارشاد ربانی ہے کہ آپ توحید خالص کے علم بردار اور ہر شائبۂ شرک سے پاک ہستی ہیں ۔ اک ایسے مشرک خاندان میں جنم لیتے اور ایسے باپ کے زیر سایہ زندگی گزارتے جو کہ شرک کا سب سے بڑا علمبردار اور بتوں کی نگہبانی کرنے والا پروہت تھا ۔ آپ نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے والد اور اپنی قوم کو مختلف طریقوں سے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ۔ اللہ واحد و لاشریک ہے ۔ اسی نسبت سے اک رات آپ نے اس ستارے کو دیکھ کر جس ستارے کی آپ کی قوم پرستش کرتی تھی ۔ اپنی قوم سے کہا کہ ۔۔۔ یوں لگتا ہے کہ " یہی میرا رب ہے " بلا شبہ آپ مشرک نہیں تھے لیکن اپنی قوم کو سمجھانے کے لیئے انہوں نے ایسا کہا ۔ اور جب یہ ستارہ ڈوب گیا تو کہا کہ " میں ڈوبنے والوں سے محبت نہیں کرتا " میرا رب تو وہ ہے جو کہ جس ستارے کو چاہے روشن کر دے اور جس کو چاہے اس کو بجھا دے ڈبو دے ۔ جو ستارہ کسی دورے کے حکم پر روشنی اور تاریکی کا محتاج ہو وہ خدا کیسے ہو سکتا ہے ۔۔؟
پھر انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ " یہ چودھویں کا چاند میرا رب ہے "
یہ منور و مکمل ہے اور زمین پر چاندنی بکھیر رہا ہے ۔ کوئی ستارہ اس کے مماثل روشن و منور نہیں ۔
اور پھر چاند گھٹنے لگا اس کی چاندنی کم ہونے لگی تو اپنی قوم کو مخاطب کرتے فرمایا کہ " اگر میرا رب مجھے سیدھی راہ نہ دکھلائے تو میں بھٹک جاؤں ۔ " یہ چاند میرا رب کیسے ہو سکتا ہے جو کہ کسی دوسرے کے حکم پر اک باریک لکیر کی صورت طلوع ہوتے سفر کرتے مہ تاباں کے درجہ پر پہنچ مکمل روشن ہوا اور پھر اسی کے حکم پر زوال کی جانب رواں ہوتے معدوم ہو گیا "
" پھر اک دن جب سورج نصف النہار پر قائم روشنی بکھیر رہا تھا ۔ آپ نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ " یہی سب کا رب ہے " یہ آسمان پر سب سے بڑا ہے ۔ اس کے سامنے ہر روشنی مدہم ہے ۔ یہ ساری دنیا کو فیض پہنچا رہا ہے ۔ اور جب شام کو سورج غروب ہوا تو آپ اپنی قوم کو مخاظب کرتے پکار اٹھے کہ " یہ میرا رب نہیں ۔" یہ بھی کسی کے حکم پر طلوع و غروب ہونے کا پابند ہے ۔:
اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ﴿الانعام:۷۹﴾
میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا ہے جو زمین و آسمان کی خالق ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
میرے محترم بھائی آپ سے یہ گفتگو صرف علم واسطے ہے ۔ کچھ بھی ایسا منوانے کی کوشش نہیں ہے جو کہ جہل و تاریکی میں شمار ہو ۔
نیتوں کا حال صرف سچا رب ہی جانتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
ٹیڑھی کھیڑ۔۔۔
ایک بچے نے کسی پیدائشی نابینا فقیر سے پوچھا کہ بابا کھیر کھاؤ گے۔ فقیر نے پوچھا کھیر کیسی ہوتی ہے۔ بچہ بولا سفید رنگ کی ہوتی ہے۔ فقیر نے پوچھا سفید رنگ کیسا ہوتا ہے۔ بچہ بولا جیسا بگلے کا ہوتا ہے۔ فقیر نے پوچھا کہ بگلا کیسا ہوتا ہے۔ بچے نے اپنا بازو الٹی ل کی طرح موڑ کر اس پر فقیر کا ہاتھ پھیرا اور بولا بگلا ایسا ہوتا ہے۔ فقیر بولا۔ نا بیٹا میں ایسی ٹیڑھی کھیر نہیں کھاتا۔۔۔

لا تمثیل لہُ ولا مثال لہ۔۔۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
آپ نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے والد اور اپنی قوم کو مختلف طریقوں سے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ۔ اللہ واحد و لاشریک ہے ۔ اسی نسبت سے اک رات آپ نے اس ستارے کو دیکھ کر جس ستارے کی آپ کی قوم پرستش کرتی تھی ۔ اپنی قوم سے کہا کہ​
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حضورِ والا! حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا علیہ الصلوۃ والتسلیم نہ صرف نبی بلکہ اولوالعزم رسول ہیں۔ اپنی امت کو توحید کی تعلیم دینا اور اس کا تزکیہ کرنا آپ کے منصبِ رسالت کا حصہ تھا۔اسی لیے آپ کا وہ فعل حکمت کے تحت تھا۔ فلسفہ تعلیم اور طریقہ تعلیم کی کتابیں اُٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگاکہ تعلیم کے طریقوں میں تعلیم کا ہر ہرعمل(ٹھوس سے مجرد کی طرف، نامعلوم سے معلوم کی طرف، آسان سے مشکل کی طرف)کے اُصولوں پرمنحصر ہوتا ہے۔ لہذا حضرتِ ابراہیم علیہ السلام نے بھی

اول الذکر دو طریقوں(ٹھوس سے مجرد کی طرف، نامعلوم سے معلوم کی طرف)پر عمل کرتے ہوئے ستارے، چاند اور سورج جیسے (ٹھوس مادوں)اجرام فلکی کی مثالیں دیتے ہوئے اپنی امت کو توحید کے مجرد تصور کی تعلیم دی تھی۔ معاذاللہ! یہاں شاعرمنصب نبوت پر فائز ہے نہ منصبِ رِسالت پر۔ پھر وہ کس اُمت کی تعلیم کے لیے
نورِ ازل کے حسنِ حقیقی کو​
اُلوہیت و معبودیت کے دعوے داروں اور باطل معبودوں کے ناموں سے پُکار رہا ہے؟
مجھ سے کہا گیا کہ آپ ان تین شعروں پر غور کر لیں:
سبوح کہوں قدوس کہوں
رحمان کہون سبحان کہوں
کر توبہ ترت فرید سدا
ہر شے نوں پر نقصان کہوں
  • اسے پاک الکھ بے عیب کہوں
  • اسے حق بے نام نشان کہوں
  • اس سلسلہ میں بس اِتنا عرض کرنا ہے کہ کسی دعوتِ ط عام کے لیے عمدہ قسم کی بریانی تیار کی جائے اور اُس میں چند قطرے شراب یا پیشاب کے گر جائیں تو کیا وہ بریانی کھانے کے قابل رہ جائے گی؟
  • اگر ان تین شعروں کا یہ مطلب نکلتا ہو کہ مذکورہ بالا اشعار میں جن معبودانِ باطل کےنام سے تجھے پکارنے کا میں نے گناہ کیا ہے میں اس سے توبہ کرتا ہوں اور تجھ سے رجوع کرتا ہوں ۔ اگر واقعتا یہ معنی ہیں۔ تو پھر یہ عاصی،یہ خاطی،یہ گنہ گار، واقعی آپ حضرات کا دِل دُکھانے کا گنہگار ہے۔ تب تو بندہ شرمساراورسارے محفلین کے حضور آپ سے دست بستہ معافی کا خواستگار۔ اور اگر اَیسا نہیں، یقینا! اَیسا نہیں ہوگا (ان شاء اللہ)تو پھر خواہ "اے حسن حقیقی نور ازل" کو آپ اپنا وظیفہ بنا لیں اور تا حیات اس کی مداوِمت فرمائیں۔ خواہ اس سے دست بردار ہو جائیں اور اس سے اپنی براءت کا اظہار کر لیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اس نا چیز کا اس موضوع پر آخری مراسلہ ہوگا۔ اس کے بعد اس موضوع پر کسی بھی مراسلہ یا سوال کا جواب نہیں دیا جائے گا۔
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حضورِ والا! حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا علیہ الصلوۃ والتسلیم نہ صرف نبی بلکہ اولوالعزم رسول ہیں۔ اپنی امت کو توحید کی تعلیم دینا اور اس کا تزکیہ کرنا آپ کے منصبِ رسالت کا حصہ تھا۔اسی لیے آپ کا وہ فعل حکمت کے تحت تھا۔ فلسفہ تعلیم اور طریقہ تعلیم کی کتابیں اُٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگاکہ تعلیم کے طریقوں میں تعلیم کا ہر ہرعمل(ٹھوس سے مجرد کی طرف، نامعلوم سے معلوم کی طرف، آسان سے مشکل کی طرف)کے اُصولوں پرمنحصر ہوتا ہے۔ لہذا حضرتِ ابراہیم علیہ السلام نے بھی

اول الذکر دو طریقوں(ٹھوس سے مجرد کی طرف، نامعلوم سے معلوم کی طرف)پر عمل کرتے ہوئے ستارے، چاند اور سورج جیسے (ٹھوس مادوں)اجرام فلکی کی مثالیں دیتے ہوئے اپنی امت کو توحید کے مجرد تصور کی تعلیم دی تھی۔ معاذاللہ! یہاں شاعرمنصب نبوت پر فائز ہے نہ منصبِ رِسالت پر۔ پھر وہ کس اُمت کی تعلیم کے لیے
نورِ ازل کے حسنِ حقیقی کو​
اُلوہیت و معبودیت کے دعوے داروں اور باطل معبودوں کے ناموں سے پُکار رہا ہے؟
مجھ سے کہا گیا کہ آپ ان تین شعروں پر غور کر لیں:
سبوح کہوں قدوس کہوں
رحمان کہون سبحان کہوں

کر توبہ ترت فرید سدا


ہر شے نوں پر نقصان کہوں

  • اسے پاک الکھ بے عیب کہوں
  • اسے حق بے نام نشان کہوں
  • اس سلسلہ میں بس اِتنا عرض کرنا ہے کہ کسی دعوتِ ط عام کے لیے عمدہ قسم کی بریانی تیار کی جائے اور اُس میں چند قطرے شراب یا پیشاب کے گر جائیں تو کیا وہ بریانی کھانے کے قابل رہ جائے گی؟
  • اگر ان تین شعروں کا یہ مطلب نکلتا ہو کہ مذکورہ بالا اشعار میں جن معبودانِ باطل کےنام سے تجھے پکارنے کا میں نے گناہ کیا ہے میں اس سے توبہ کرتا ہوں اور تجھ سے رجوع کرتا ہوں ۔ اگر واقعتا یہ معنی ہیں۔ تو پھر یہ عاصی،یہ خاطی،یہ گنہ گار، واقعی آپ حضرات کا دِل دُکھانے کا گنہگار ہے۔ تب تو بندہ شرمساراورسارے محفلین کے حضور آپ سے دست بستہ معافی کا خواستگار۔ اور اگر اَیسا نہیں، یقینا! اَیسا نہیں ہوگا (ان شاء اللہ)تو پھر خواہ "اے حسن حقیقی نور ازل" کو آپ اپنا وظیفہ بنا لیں اور تا حیات اس کی مداوِمت فرمائیں۔ خواہ اس سے دست بردار ہو جائیں اور اس سے اپنی براءت کا اظہار کر لیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اس نا چیز کا اس موضوع پر آخری مراسلہ ہوگا۔ اس کے بعد اس موضوع پر کسی بھی مراسلہ یا سوال کا جواب نہیں دیا جائے گا۔
میرے محترم بھائی آپ شایدصاحب کلام کے بارے نہیں جانتے ۔ اور ان کا یہ کلام جس زمانے میں جن لوگوں کے سامنے آیا تھا ۔ ان کے مذاہب سے بھی انجان محسوس ہوتے ہیں ۔اور اس کلام کی معنویت آپ سے اوجھل ہے ۔ سو اس کلام کی حکمت بارے آپ سے کلام کرنا آپ کا وقت ضائع کرنا ہے ۔ آپ بصد شوق و رغبت اس کلام پر " شرک " فتوی لگائیں ۔ آپ اپنی " نیت و عمل " کا اجر پائیں گے اور ہم اپنی " نیت و عمل " کا اجر ۔۔۔۔۔۔۔۔ والسلام علیکم
 

باباجی

محفلین
عالی جناب محترمی بابا جی!
ہم نے آپ کی شان میں تو ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
پھر آپ کے نزدیک لاہور جیسے بڑے شہر کوئی ایک مفتی تو ایسا ضرور ہوگا جس کے دِل میں خوف خُدا ہو اور بقول آپ کے وہ کسی قسم کے پیسے لے کر فتویٰ نہ دیتا ہو۔مجھے آپ سے پوری ہمدردی ہے۔
ہم نے آپ کے خلاف کوئی فتویٰ صادر نہیں کیا۔ہم نے محض اپنی ناپسند کا اظہار کیا ہے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ ہم الم غلم سب کچھ پسند کر لیں۔اور ایمان کی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ آپ بھی ہوش کے ناخن لیجیے۔
ہم تو چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی تمام مومن مسلمانوں کو ایمان پر قائم رکھے اور ایمان کے ساتھ اس دُنیا سے اُٹھائے۔ جن اشعار کی ہم نے نشاندہی کی ہے وہ تو سرارسر شرک ہیں، سرارسر شرک ہیں، سرارسر شرک ہیں، ۔۔۔ ۔،۔۔۔ ۔۔،۔۔۔ ۔۔،
جناب آپ میرے بزرگ ہیں
مجھے آپ جو مرضی کہہ سکتے ہیں
لیکن آپ کو یہ بھی پتا ہے کہ یہاں ہر مکتبہ فکر کے لوگ موجود ہیں
میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ صرف محتاط انداز میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کریں
آپ پر کوئی اپنی مرضی نہیں تھوپے گا ، اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کی مخالفت آپ سے زیادہ ہم کریں گے جناب
میں ذاتی طور پر یہ نہیں چاہتا کہ کوئی بے معنی بحث شروع ہو
اور اللہ کا شکر ہے سر جی کہ میں اپنی حیثیت، سوچ اور سمجھ کے مطابق ایمان پر قائم رہنے کی کوشش کرتا ہوں
مقصد تھا وحدانیت کا اظہار جو کہ صاحب کلام نے اپنے انداز اور اپنی سوچ کے مطابق کیا
سب کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں
لیکن ناپسندیدگی کا اظہار مناسب الفاظ میں ہونا چاہیئے
کسی کی تضحیک نہیں ہونی چاہیئے بس

شکریہ
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
جناب آپ میرے بزرگ ہیں
مجھے آپ جو مرضی کہہ سکتے ہیں
لیکن آپ کو یہ بھی پتا ہے کہ یہاں ہر مکتبہ فکر کے لوگ موجود ہیں
میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ صرف محتاط انداز میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کریں
آپ پر کوئی اپنی مرضی نہیں تھوپے گا ، اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کی مخالفت آپ سے زیادہ ہم کریں گے جناب
میں ذاتی طور پر یہ نہیں چاہتا کہ کوئی بے معنی بحث شروع ہو
اور اللہ کا شکر ہے سر جی کہ میں اپنی حیثیت، سوچ اور سمجھ کے مطابق ایمان پر قائم رہنے کی کوشش کرتا ہوں
مقصد تھا وحدانیت کا اظہار جو کہ صاحب کلام نے اپنے انداز اور اپنی سوچ کے مطابق کیا
سب کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں
لیکن ناپسندیدگی کا اظہار مناسب الفاظ میں ہونا چاہیئے
کسی کی تضحیک نہیں ہونی چاہیئے بس
شکریہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے اپنے زندگی میں عمدا نہ سہوا، کسی کی تضحیک نہ کبھی کی ہے اور نہ ہی اَیسا کرنے کاکبھی خیال آیا۔ ہنوز میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میرے کن الفاظ کو آپ نے کسی کی تضحیک پر محمول کیا۔ میں نے نہ توکسی کے خلاف کوئی حکم لگایااورنہ کسی کو مشرک کہا، نہ کافر۔بلکہ جو لوگ مسلمانوں ہی کے خلاف بات بات میں شرک اور کفر کے فتاویٰ صادر کرے پھرتے ہیں، میں ان کو عالم تو کجا مسلمان ہی نہیں سمجھتا۔تاہم میرے کسی لفظ سے کسی کے دِل کو ٹھیس پہنچی ہے تو میں دست بستہ اس سے معافی کا خواستگار ہوں، لیکن مجھے یہ تو بتایا جائے کہ میرا قصور کیا ہے؟ تاکہ میں بھی محفلین سے گفت و شنید کے آداب سیکھ سکوں۔ میں نے اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کے سبب صرف اور صرف کلام کے اُن اَشعار کے بارے میں اپنی نا پسندیدگی کا محض اظہار کیاتھاجن میں شرک کا شائبہ محسوس ہوا۔اب یہ تو آپ حضرات کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ پہلے صاحب کلام کی عظمت و معرفت کا سکہ ہمارے دِلوں میں بٹھاتے، اُس کلام کے پس منظر سے ہمیں واقف کرواتے، پھر اس کو محفل میں پیش کرتے۔آپ نے تو بس کاتا اور لے دوڑی والا معاملہ کیا۔اور مجھ سا کم علم اُلجھ کر رہ گیا۔ستم بالائے ستم یہ کہ پھر بھی آپ حضرات منطقی دَلائل دے کر By hook or crookکسی طرح یا تو مجھےقائل کرنے کی کوشش میں لگے رہے، یا پھرخطاوار، قصوروار، عاصی اور گنہگار ہونے کا احساس کروانے میں جٹے رہے۔
اور مجھے بخوبی علم ہے کہ یہاں ہر مکتب فکر کے لوگ موجود ہیں، بریلوی اور دیوبندی میں منقسم محض اہل سنت والجماعت ہی نہیں بلکہ، شیعہ، اہل حدیث اور دیگر کئی مکاتب فکر کے لوگ ۔اور کسی کے مسلک، مذہب یا عقائد پر میں نے کبھی کوئی چوٹ نہیں کی اور نہ کر سکتا ہوں۔ انڈیا کے پورے صوبہ گجرات میں واحد شخص ہوں جس کا ہر مکتبِ فکر کے علمائے کرام احترام کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تقریبا ہر مکتب فکرکے قرآن مجید کے اُردو تراجم کا گجراتی زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت مجھے نصیب ہے۔ اِمام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے کنز الایمان کو گجراتی رسم الخط میں تبدیل کرنا ہو یا گجراتی زبان میں ترجمہ، ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے عرفان القرآن کا ہندی زبان میں ترجمہ، مولانا مودودی صاحب کے ترجمہ قرآن تفہیم القرآن کے گجراتی ترجمہ کا پروف ریڈنگ، سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی مد ظلہ العالی کی سید التفاسیر المعروف بہ تفسیر اشرفی کی پروف ریڈنگ کی سعادت اور شیعوں اور اہل حدیث حضرات کے علماء کے اردو تراجم کا گجراتی ترجمہ اور پروف ریڈنگ کا شرف اس ناچیز کو حاصل ہے۔ آج تک کسی سے کو ئی جھگڑا نہیں ہوا۔
قصہ مختصر، یہ ناچیز صوفیائے کرام کے مسلک پر قائم اور [ARABIC]اِن الشرک لظلم عظیم [/ARABIC]سے خائف ہے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
میرے محترم بھائی آپ شایدصاحب کلام کے بارے نہیں جانتے ۔ اور ان کا یہ کلام جس زمانے میں جن لوگوں کے سامنے آیا تھا ۔ ان کے مذاہب سے بھی انجان محسوس ہوتے ہیں ۔اور اس کلام کی معنویت آپ سے اوجھل ہے ۔ سو اس کلام کی حکمت بارے آپ سے کلام کرنا آپ کا وقت ضائع کرنا ہے ۔ آپ بصد شوق و رغبت اس کلام پر " شرک " فتوی لگائیں ۔ آپ اپنی " نیت و عمل " کا اجر پائیں گے اور ہم اپنی " نیت و عمل " کا اجر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ والسلام علیکم
حضورِ والا ! بڑا کرم ہوگا کہ آپ مجھے اس کلام کا عرفان عطا فرما دیں۔ جس زمانے اور جن مذاہب سے میں انجان ہوں اُن کا علم عطا فرما دیں ۔ میں آپ سے جھولی پھیلا کر سوال کرتا ہوں کہ اس کلام کی حکمت عیاں فرما دیں۔ یاد رکھیے حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اگر کسی علم والے سے اُس کے علم کے متعلق سوال کیا جائے اور وہ باوجود علم ہونے کے سائل کو جواب نہ دے تو روزِ قِیامت اُس کے منہ میں آگ کی لگام لگائی جائے گی۔
 

باباجی

محفلین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے اپنے زندگی میں عمدا نہ سہوا، کسی کی تضحیک نہ کبھی کی ہے اور نہ ہی اَیسا کرنے کاکبھی خیال آیا۔ ہنوز میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میرے کن الفاظ کو آپ نے کسی کی تضحیک پر محمول کیا۔ میں نے نہ توکسی کے خلاف کوئی حکم لگایااورنہ کسی کو مشرک کہا، نہ کافر۔بلکہ جو لوگ مسلمانوں ہی کے خلاف بات بات میں شرک اور کفر کے فتاویٰ صادر کرے پھرتے ہیں، میں ان کو عالم تو کجا مسلمان ہی نہیں سمجھتا۔تاہم میرے کسی لفظ سے کسی کے دِل کو ٹھیس پہنچی ہے تو میں دست بستہ اس سے معافی کا خواستگار ہوں، لیکن مجھے یہ تو بتایا جائے کہ میرا قصور کیا ہے؟ تاکہ میں بھی محفلین سے گفت و شنید کے آداب سیکھ سکوں۔ میں نے اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کے سبب صرف اور صرف کلام کے اُن اَشعار کے بارے میں اپنی نا پسندیدگی کا محض اظہار کیاتھاجن میں شرک کا شائبہ محسوس ہوا۔اب یہ تو آپ حضرات کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ پہلے صاحب کلام کی عظمت و معرفت کا سکہ ہمارے دِلوں میں بٹھاتے، اُس کلام کے پس منظر سے ہمیں واقف کرواتے، پھر اس کو محفل میں پیش کرتے۔آپ نے تو بس کاتا اور لے دوڑی والا معاملہ کیا۔اور مجھ سا کم علم اُلجھ کر رہ گیا۔ستم بالائے ستم یہ کہ پھر بھی آپ حضرات منطقی دَلائل دے کر By hook or crookکسی طرح یا تو مجھےقائل کرنے کی کوشش میں لگے رہے، یا پھرخطاوار، قصوروار، عاصی اور گنہگار ہونے کا احساس کروانے میں جٹے رہے۔
اور مجھے بخوبی علم ہے کہ یہاں ہر مکتب فکر کے لوگ موجود ہیں، بریلوی اور دیوبندی میں منقسم محض اہل سنت والجماعت ہی نہیں بلکہ، شیعہ، اہل حدیث اور دیگر کئی مکاتب فکر کے لوگ ۔اور کسی کے مسلک، مذہب یا عقائد پر میں نے کبھی کوئی چوٹ نہیں کی اور نہ کر سکتا ہوں۔ انڈیا کے پورے صوبہ گجرات میں واحد شخص ہوں جس کا ہر مکتبِ فکر کے علمائے کرام احترام کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تقریبا ہر مکتب فکرکے قرآن مجید کے اُردو تراجم کا گجراتی زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت مجھے نصیب ہے۔ اِمام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے کنز الایمان کو گجراتی رسم الخط میں تبدیل کرنا ہو یا گجراتی زبان میں ترجمہ، ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے عرفان القرآن کا ہندی زبان میں ترجمہ، مولانا مودودی صاحب کے ترجمہ قرآن تفہیم القرآن کے گجراتی ترجمہ کا پروف ریڈنگ، سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی مد ظلہ العالی کی سید التفاسیر المعروف بہ تفسیر اشرفی کی پروف ریڈنگ کی سعادت اور شیعوں اور اہل حدیث حضرات کے علماء کے اردو تراجم کا گجراتی ترجمہ اور پروف ریڈنگ کا شرف اس ناچیز کو حاصل ہے۔ آج تک کسی سے کو ئی جھگڑا نہیں ہوا۔
قصہ مختصر، یہ ناچیز صوفیائے کرام کے مسلک پر قائم اور [ARABIC]اِن الشرک لظلم عظیم [/ARABIC]سے خائف ہے۔
ارے نہیں جناب ایسا نہ کہیں
آپ میرے بزرگ اور سینئر ہیں اور آپ کی بات ٹھیک ہے کہ ہمیں پہلے آپ کو صاحب کلام کا تعارف کروانا چاہیئے تھا
جو ہم نے نہیں کیا اور چڑھ دوڑے آپ پر
اس کے لیئے میں آپ سے معافی کا طلبگار ہوں
آپ ماشاءاللہ صوفیاء و اولیاء کے کلام سے واقف ہیں
صاحب کلام خواجہ غلام فرید( رح) ہیں جن کے بارے میں آپ یقیناً جانتے ہوں گے
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
:AOA: صاحب کلام خواجہ غلام فرید( رحمۃ اللہ علیہ) سے قطعی واقف نہیں ہوں۔ اب تو ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہوں۔ خدارا کرم فرمائیے۔​
 
Top