تنگ آکر ہم نےعدنان بھائی کا نمبر ملا کر فون پکڑادیا: ’’ عدنان بھائی سے بات کرو۔ ہوسکتا ہے وہ تمہیں راضی کرلیں۔‘‘
خیر عدنان بھائی تو اسے کیا راضی کرتے الٹا اسی نے عدنان بھائی کو راضی کرلیا!!!
ہماری تشویش لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی تھی کہ اب تک اس پوشیدہ مرض کے ڈانڈے نہ مل سکے کہ اے خان واپس کیوں جانا چاہتا ہے۔ ہماری کھید کرید جاری تھی۔
’’شادی کی کوئی خبر۔‘‘ ہم نے تفتیش آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
’’ابا راضی نہیں ہوتے۔‘‘ بے زاری سے جوب دیا۔
ہمیں لگا کہ ڈانڈے کچھ کچھ ملنے لگے ہیں۔ ہم نے ڈانڈے مزید ملانے کا سلسلہ مزید تیز کیا۔
’’یہاں کوئی لڑکی پسند آئی؟‘‘ ڈانڈے ملانے کے لیے ہمارا اگلا سوال۔
’’مجھے تو بہت پسند آئی، پر ابا کو نہیں ۔‘‘ اس کا چہرہ بجھ گیا، منہ لٹک گیا اور کندھے ڈھلک گئے۔ ہم پُر جوش ہوگئے۔ گویا ڈانڈے صحیح صحیح ملنے لگے ہیں۔
’’ابا کو لڑکی نہیں پسند تو کہہ دو کہ ابا شادی آپ کو نہیں کرنی۔‘‘
’’ہاں وہ تو ہے پر ابا راضی ہوں گے تو شادی ہوگی ورنہ نہیں۔‘‘ لہجے سے اداسی اپنے بال کھولے سونے کی تیاریاں کرتی نظر آئی۔
’’ابا کو کیا چیز پسند نہیں آئی؟ شکل یا عادات؟‘‘
’’نہیں شکل تو بہت اچھی ہے۔‘‘ لہجہ بے اختیار جذباتی اور تیز ہوگیا ۔
’’پھر عادات پسند نہیں؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’کون سی عادت بری لگتی ہے؟‘‘
’’بس جی وہ پردہ نہیں کرتی ہے ناں بس ابا کو وہی اچھا نہیں لگتا۔‘‘
’’ہمم۔‘‘ ہم ہنکارا بھر کر رہ گئے۔ اس کے سوا کر بھی کیا سکتے تھے۔ ابا لوگوں سے کون ٹکر لے سکتا ہے۔ خیر ہمیں خوشی ہوئی کہ ہمارے ڈانڈے اب اپنے ملنے کے لیے صحیح رُخ پر سفر طے کرنے لگے ہیں۔
’’اچھا اب سمجھ میں آگیا ۔ یہ ابا سے ناراض ہو کر جانے کی ضد ہے۔‘‘ ہم نے ڈانڈے ملانے کے لیے آخری پتہ پھینکا۔ وہ مسکرانے لگا، نظریں چُرانے لگا، خاموش لفظوں سے بتانے لگا کہ ہمارے ڈانڈے بالکل صحیح مل گئے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا: ’’اچھا عمران بھائی اب اجازت دیں؟‘‘
’’ اگر نہ دی تو؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’پھر ہم نہیں جائیں گے۔ میزبان کی خواہش کا احترام کریں گے۔‘‘ ہم نے اسے ستانا مناسب نہ سمجھا اور آرام سے اجازت دے دی۔
جاتے جاتے گھر کے باہر کھڑے ہوکر سیلفی دے گیا۔
بقول
فہیم بھائی سیلفی نہ دیتا تو کیا کیمرہ دیتا!!!