اے سید ابرار کے دلدار سپاہی۔ قائد اعظم کے بارے میں ایک تحریر

ماہ دسمبر کومسیحاؤں سے گہری ٓنسبت ہے اس ماہ کی 25تاریخ عیسائیوں اور مسلمانوں کو انکے مسیحا کے یاد دلاتی ہے عیسائی اپنے مسیحا کو اپنے مذہبی روایات کے مطابق یاد کرتے ہیں اور مسلمانان پاکستان اپنے مسیحا سپاہی کواپنے تاریخی حقائق کے حوالے سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
مولانا عبدالستار خان نیازی نے ایک دفعہ اپنے مسیحا پر ناز کرتے ہوئے عیسائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ تمھارا مسیحا توتمہارے بقول ایک بارمصلوب کیا گیا مگر ہمارا مسیحااپنی قوم کی خاطر سالہا سال سولی پر لٹکتا رہا۔ہمارے محبوب قائد کی یہ قربانیاں اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں مگر ہماری بد قسمتی ہے کہ ہندو بنیے کے ذہنی غلام ،اسلام اور پاکستان کے غدار بعض مذہبی اور سیاسی مفاد پرست اور گمراہ ٹولے حضرت قائد اعظم واکبرمحمد علی جناح3 کی شان میں ہر زہ سرائیاں کرتے ہیں ان کی دینی اور روحانی حیثیت کو مشکوک کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے مناسب یہی ہے کہ حضرت قائد اعظم کی زندگی کے دینی اور روحانی پہلوؤں کی جانب نہایت اختصار سے اشارہ کر دیا جائے۔
حضرت قائد اعظم3 کو قدرت نے منافقت اور گفتارو کردار میں تضاد کی خامی سے مطلقاًپاک رکھا ہے قائد اعظم جو کلمات اپنی زباں سے ادا فرماتے تھے ان کلمات کی لاج بھی رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی جلوتوں کی گفتاراور خلوتوں کے کردار میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔
قرآن کریم اہل ایمان کیلئے رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے حضرت قائد اعظم 3 بھی قرآن کو ہی اپنا آخری رہبر و رہنما تصور کرتے تھے آپ کے نظریات قرآن و حدیث کے بارے میں وہی تھے جو ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے ہونے چاہئیں۔15مارچ1946ء کوشیلانگ کے مسلمانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم 3 نے فرمایا :اور ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنی مقدس کتاب قرآن مجید کی تعلیم کی طرف رجوع کریں ہم کو احادیث اور اسلام کی زبر دست روایات پر عمل کرنا چاہئیے اگر ہم قرآن مجید کے احکامات پر عمل پیرا ہوں احادیث اور اسلامی روایات کوصحیح طور پر سیکھیں اور سمجھیں تو ہماری ہدایت کیلئے ان میں تمام احکامات اور ہدایات موجود ہیں۔
حضرت قائد اعظم 3اسلام کے سوا کسی نظام سے مطمئن نہیں تھے بلکہ ان تمام نظاموں کو باطل اور کافرانہ نظام قرار دیتے تھیحضرت قائد اعظم 3نے اسلام کے مقابلے میں آنے والے تمام باطل نظاموں کا مکروہ چہرہ قوم کے سامنے بے نقاب کرتے ہوئے 26نومبر1946ء کو نئی دہلی میں تحریک پاکستان کے کارکن ڈاکٹر سید بدرالدین احمد سے گفتگو کے دوران فرمایا تھا۔’’مسٹربدرالدین میں مطمئن ہوں کہ قرآن و سنت کے زندہ جاوید قانون پر مبنی ریاست (پاکستان ) دنیا کی بہترین اور مثالی سلطنت ہو گی یہ اسلامی ریاست اسی طرح سوشلزم ،کیمونزم ،مارکسزم،کیپٹل ازم کا قبرستان بن جائے گی جس طرح سرور کائنات 3کا مدینہ اس وقت کے تمام نظام ہائے فرسودہ کا گورستان بنا‘‘اسی گفتگو میں ایک جگہ فرمایا:’’سوشلزم ،کیمونزم مارکسزم،کیپٹل ازم،ہندو ازم،امپیریل ازم ،امریکہ ازم،روس ازم،ماڈرن ازم یہ سب دھوکہ اور فریب ہیں مختصر یہ سمجھ لویہ نمرود،قارون،شداد،اور ہرمزدک کے نظریات ہیں جنھیں نئے رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے آ پ اسے کیوں نہیں سمجھتے کہ ان نظاموں علمبردارایسے لوگ تھے جو انسانوں کے لباس میں بھیڑیے تھے اور آج بھی ایسے لوگ ان کی علمبرداری کر رہے ہیں‘‘ قائد اعظم 3نے اپنی اس طویل گفتگو میں مزید فرمایاکہ ’’میں تو اسلام کے کامل نظامِ زندگی،خدائی قوانین کی بادشاہت پر یقین رکھتا ہوں‘‘
رسول خدا 3کی مثال پیش کرتے ہوئے قائد اعظم 3 نے فرمایاحضرت محمد 3بیک وقت صدر مملکت اور پیغمبر تھے آپ 3 کے نظام سلطنت کاڈھانچہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے بہترین ہے۔حضرت قائداعظم کے ان فرمودات سے یہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ آپ انسان کے بنائے نظاموں سے بیزار تھے۔نظام اورقانون سازی کے اختیار کامالک صرف اللہ تعالیٰ کوہی سمجھتے تھے۔ان فرامین سے حضرت قائداعظم کی سیاسی فکراور اسلام سے گہری وابستگی کھل کرسامنے آجاتی ہے۔اب ہم حضرت قائدکے چند ذاتی اورخلوت میں پیش آنے والے واقعات کاذکر کریں گے۔عبدالرشید بٹلر بیان کرتے ہیں(یہ واقعہ روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی نے بھی 25دسمبر 1997ء میں شائع کیا)
قائداعظم گورنرہاؤس پشاور میں آئے تورات دوبجے میں نے انھیں کافی پیش کی۔اس وقت سردار عبدالرب نشتر بابائے قوم سے ملاقات کے لیے گورنرہاؤس میں موجود تھے۔وہ ملاقات کرکے کوئی اڑھائی بجے کے لگ بھگ چلے گئے ہونگے کہ سیکورٹی والوں نے مجھے طلب کرلیا کیونکہ اس شب قائد کے کمرے سے جانے والا آخری سرکاری اہلکارمیں تھا۔سیکورٹی والوں نے مجھ سے پوچھا کہ اس وقت کہیں کوئی شخص تونظر نہیں آیاکیونکہ جس کمرے میں قائداعظم ٹھہرے تھے اس سے ٹھک ٹھک کی آوازیں آرہی تھی۔سکیورٹی والوں کوخدشہ ہوا کہ قائداعظم پرکو ئی حملہ نہ کیا جارہاہو۔ان کے دروازے پردستک دینے کی کسی کوجرات نہ تھی۔چنانچہ مجھے ایک روشندان سے جھانک کرقائداعظم کے بارے میں معلوم کرنے کاکہاگیا۔یہ کام نہایت رازداری سے ہورہاتھا۔میں نے جونہی روشندان سے اندر جھانکاتودیکھا۔قائداعظم فرش پرچل رہے تھے۔اوران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔یہ بات میرے لیے تشویش کاباعث بنی اورمیں اس کی وجہ معلوم کرنے کے لیے روشنداں سے جھانکتارہا۔لکڑی کے فرش پرچلنے کی وجہ سے قائداعظم کے جوتوں کی آواز پیدا ہورہی تھی۔اورجب آواز رک جاتی تووہ کمرے میں موجود انگیٹھی پراپنی دونوں کہنیاں رکھ کرایک کتاب سے کچھ پڑھتے اورپھرٹہل ٹہل کراس پرغور کرتے اورروتے۔سکیورٹی والوں نے مجھے بتایا کہ قائدنے کمرے میں انگریز ی ترجمے والا قرآن رکھاہوا ہے اس پرمیں سمجھ گیا کہ قائداعظم ایک یادوآیات پڑھ کران کاترجمہ پڑھنے کے بعد کمرے میں گھوم گھوم کران پرغور کرتے اوریہ معانی ومطالب ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کاموجب ہیں۔قائداعظم کے سپاہی منیراحمد کہنے لگے کہ یہ توبابا ئے قوم کاروزانہ کامعمول ہے اسی طرح منشی عبدالرحمن خان اپنی کتاب قائداعظم کامذہب اور عقیدہ میں مولانا شبیر علی تھانوی کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ مولاناحسرت موہانی نے بیان کیاہے کہ میں ایک روز جناح صاحب کی کوٹھی پرصبح ایک نہایت ضروری کام سے پہنچا۔ملازم سے میں نے اطلاع کرنے کوکہا۔ملازم نے کہاکہ اس وقت ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں ۔آپ تشریف رکھےئے تھوڑی دیر میں جناح صاحب خود تشریف لے آئیں گے۔‘‘
چونکہ مجھے نہایت ضروری کام تھا،اورمیں اس کوجلد سے جلد جناح صاحب سے کہنا چاہتاتھااس لیے مجھے ملازم پرغصہ آیا اورخود کمرہ میں چلا گیاایک کمرے سے دوسرے کمرہ میں پھر تیسرے کمرہ میں پہنچاتو برابر کے کمرہ سے مجھے کسی کے بہت ہی بلک بلک کررونے اورکچھ کہنے کی آواز آئی۔آواز چونکہ جناح صاحب کی تھی۔اس لیے میں گھبرایااورپردہ آہستہ سے اٹھایا تودیکھتاہوں کہ جناح صاحب سجدہ میں پڑے ہیں۔اوربہت ہی بے قراری کے ساتھ کچھ مانگ رہے ہیں۔میں دبے پاؤں وہیں سے واپس آگیا۔اوراب توجب جاتاہوں اورملازم کہتاہے کہ اندر ہیں تومیں سمجھتاہوں کہ سجدہ میں پڑے دعاکررہے ہیں۔میرے تصور میں ہروقت وہی تصور اوروہی آواز رہتی ہے۔
اسی طرح نواب صدیق علی خان اپنی کتاب بے تبغ سپاہی میں بیان کرتے ہیں کہ انگلستان کے بادشاہ جارج ششم کے زمانے میں قائداعظم انگلستان تشریف لے گئے۔گفت وشنید جاری تھی کہ قصر بکنگھم سے ظہر انہ کی دعوت موصو ل ہوئی۔مگر حضرت قائداعظم نے احترام رمضان کے پیش نظرت شاہی دستر خوان کویہ کہہ کرٹھکرادیاکہ
’’یہ رمضان المبارک کامقدس مہینہ ہے۔اس میں مسلمان روزے رکھتے ہیں۔‘‘مذکورہ واقعات اوران جیسے دیگر بے شمارواقعات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے،کہ قائداعظم ایک پکے سچے اورصصحیحالعقیدہ مسلمان تھے۔نہ صرف وہ اپنی ذات میں اسلام کے پابند تھے بلکہ اسلام کوبطور نظام پاکستان میں بھی نافذ کرناچاہتے تھے۔
محمد سلیم ساقی اپنی کتاب مقام واحترام قائداعظم میں آپ کاایک جملہ نقل کرتے ہیں۔کہ قائداعظم نے فرمایا کہ میں پاکستان میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ کانظام لاناچاہتاہوں ۔‘‘
’’گویا قائد کے لئے نمونہ عمل مغربیت نہیں بلکہ خلافت راشدہ تھی‘‘
میں اپنے اس محبوب قائداعظم کے بارے میں مزید کچھ بھی نہیں کہوں گابلکہ 109برس کے بزرگ کابیان نقل کرکے فیصلہ قارئین پرچھوڑوں گا۔یہ بیان حضرت امیرملت پیرسید جماعت علی شاہ صاحب کاہے جوانھوں نے بنارس میں اپریل 1946میں 500کے لگ بھگ مشائخ عظام 7000علماء کرام اوردولاکھ مسلمانوں کے عظیم مجمع کے سامنے دیاتھاآپ نے فرمایا۔
میں کہتا ہوں کہ وہ (محمد علی جناح )ولی اللہ ہے آپ لوگ اپنی رائے سے کہتے ہیں میں قرآن وحدیث کی روسے کہتاہوں ۔ہے کوئی مائی کالال مسلمان جس کے ساتھ ہندوستان کے دس کروڑمسلمان والہانہ محبت رکھتے ہوں ۔۔۔۔؟یہ توقرآن کافیصلہ ہے اب رہی میری عقیدت تو تم اس کوکافرکہومیں اس کوولی اللہ کہتاہوں۔آج میں وہ اشعاربھی دہراناچاہوں گاجوعلامہ پیر محمد عبدالصبور بیگ باغدروی نے وزیر آباد کے مقام پرجلسہ میں 1943ء میں اپنے قائد کی شان میں پڑھے تھے۔
اے سید ابرار کے دلدار سپاہی
توحید ورسالت کے پرستار سپاہی
اسلام کی عظمت کے علمدار سپاہی
آزادی کامل کے طلب گار سپاہی
اٹھ قوم کی بگڑی ہوئی تقدیر بنا دے
ہر بچہء مسلم کو جہانگیر بنا دے

 
جزاک اللہ کامران اختر بھائی۔آپ نے بہت ہی اعلیٰ اور زبردست لکھا ہے۔
میرے گھرانے نے مجھے آج تک یہی تعلیم دی ہے کہ قائداعظم ہمارے محسن ہیں۔وہ ایک سچے پکے مسلمان تھے
لیکن جب آج کے نام نہاد دانشوروں کو سیکولرازم کی رٹ لگائے سنتا ہوں تو بے اختیار لعنتیں بھیجتا ہوں
کیوں یہ دو کوڑی کے دونشور میرے دل سے قائداعظم کی قدر کو کم نہیں کرسکتے۔میرا نقطہ نظر بھی وہی ہے جو حضرت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب کا ہے۔
میرا قائد عظیم ہے۔
اے قائد تجھے سلام
 
جزاک اللہ کامران اختر بھائی۔آپ نے بہت ہی اعلیٰ اور زبردست لکھا ہے۔
میرے گھرانے نے مجھے آج تک یہی تعلیم دی ہے کہ قائداعظم ہمارے محسن ہیں۔وہ ایک سچے پکے مسلمان تھے
لیکن جب آج کے نام نہاد دانشوروں کو سیکولرازم کی رٹ لگائے سنتا ہوں تو بے اختیار لعنتیں بھیجتا ہوں
کیوں یہ دو کوڑی کے دونشور میرے دل سے قائداعظم کی قدر کو کم نہیں کرسکتے۔میرا نقطہ نظر بھی وہی ہے جو حضرت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب کا ہے۔
میرا قائد عظیم ہے۔
اے قائد تجھے سلام

پھر نسل نو کو کیسے باور کرانا چاہیے کہ قائد سیکولر نہیں تھے۔
کوئی تجویز ہو تو شئیر کر لیں۔
 
Top