محمد ریحان قریشی
محفلین
آئنے کے سامنے یہ سر جھکا پاتا ہوں میں
غیر تو پھر غیر ہیں خود سے بھی شرماتا ہوں میں
اے غمِ ہستی مجھے یوں چھوڑ کر تنہا نہ جا
اے شبِ ماتم تری فرقت میں گھبراتا ہوں میں
جس سے آ جاتی ہے ہر مخفی حقیقت سامنے
وہ طلسمِ چشم بستن تجھ کو دکھلاتا ہوں میں
جس کے پہلو میں چھپے ہیں سب سوالوں کے جواب
آہ اس افسانۂ ہستی کو جھٹلاتا ہوں میں
گفتگو میری نہیں جز پیرویِ سامری
اس فسونِ عاجزی پر کتنا اتراتا ہوں میں
میں کہ ہوں بزمِ دو عالم کا وہ عیشِ دائمی
مدتِ رقصِ شرر میں ختم ہو جاتا ہوں میں
تو مجھے مل کر بھی اے ریحان ملتا ہی نہیں
جب بھی پاتا ہوں تجھے کھویا ہوا پاتا ہوں میں
غیر تو پھر غیر ہیں خود سے بھی شرماتا ہوں میں
اے غمِ ہستی مجھے یوں چھوڑ کر تنہا نہ جا
اے شبِ ماتم تری فرقت میں گھبراتا ہوں میں
جس سے آ جاتی ہے ہر مخفی حقیقت سامنے
وہ طلسمِ چشم بستن تجھ کو دکھلاتا ہوں میں
جس کے پہلو میں چھپے ہیں سب سوالوں کے جواب
آہ اس افسانۂ ہستی کو جھٹلاتا ہوں میں
گفتگو میری نہیں جز پیرویِ سامری
اس فسونِ عاجزی پر کتنا اتراتا ہوں میں
میں کہ ہوں بزمِ دو عالم کا وہ عیشِ دائمی
مدتِ رقصِ شرر میں ختم ہو جاتا ہوں میں
تو مجھے مل کر بھی اے ریحان ملتا ہی نہیں
جب بھی پاتا ہوں تجھے کھویا ہوا پاتا ہوں میں