الف نظامی
لائبریرین
کیجیے جو ستم رہ گئے ہیں
جان دینے کو ہم رہ گئے ہیں
بن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں
کھوئےکھوئےسےہم رہ گئےہیں
جان دینے کو ہم رہ گئے ہیں
بن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں
کھوئےکھوئےسےہم رہ گئےہیں
دو قدم چل کے راہِ وفا میں
تھک گئے تم کہ ہم رہ گئے ہیں
تھک گئے تم کہ ہم رہ گئے ہیں
بانٹ لیں سب نے آپس میںخوشیاں
میرے حصے میں غم رہ گئے ہیں
میرے حصے میں غم رہ گئے ہیں
اب نہ اٹھنا سرہانے سے میرے
اب تو گنتی کے دم رہ گئے ہیں
اب تو گنتی کے دم رہ گئے ہیں
قافلہ چل کے منزل پہ پہنچا
ٹھہروٹھہرو! کہ ہم رہ گئے ہیں
ٹھہروٹھہرو! کہ ہم رہ گئے ہیں
دیکھ کر ان کےمنگتوں کی غیرت
دنگ اہلِ کرم رہ گئے ہیں
دنگ اہلِ کرم رہ گئے ہیں
ان کی ستاریاں کچھ نہ پوچھو
عاصیوں کے بھرم رہ گئے ہیں
عاصیوں کے بھرم رہ گئے ہیں
اے صبا ! ایک زحمت ذرا پھر
اُن کی زلفوں میں خم رہ گئے ہیں
کائناتِ جفا و وفا میں
ایک تم ایک ہم رہ گئے ہیں
اُن کی زلفوں میں خم رہ گئے ہیں
کائناتِ جفا و وفا میں
ایک تم ایک ہم رہ گئے ہیں
آج ساقی پلا شیخ کو بھی
ایک یہ محترم رہ گئے ہیں
ایک یہ محترم رہ گئے ہیں
یہ گلی کس کی ہے اللہ اللہ
اٹھتے اٹھتے قدم رہ گئے ہیں
اٹھتے اٹھتے قدم رہ گئے ہیں
وہ تو آ کر گئے بھی کبھی کے
دل پہ نقش قدم رہ گئے ہیں
دل پہ نقش قدم رہ گئے ہیں
دل نصیر ان کا تھا ،لے گئے وہ
ہم خدا کی قسم رہ گئے ہیں
ہم خدا کی قسم رہ گئے ہیں
دورِ ماضی کی تصویرِ آخر
اے نصیر ! ایک ہم رہ گئے ہیں
(سید نصیر الدین نصیر)
بطرزِ قوالی
اے نصیر ! ایک ہم رہ گئے ہیں
(سید نصیر الدین نصیر)
بطرزِ قوالی
مدیر کی آخری تدوین: