اے صنم جس نے تجھے چاند سی (بنا موسیقی) مکیش

عاطف سعد 2

محفلین
مکیش چند ماتھر، جسے مکیش کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک مشہور ہندوستانی پلے بیک گلوکار تھے جو 1940 سے 1970 کی دہائی تک میوزک انڈسٹری میں سرگرم رہے۔ وہ اپنی پُرجوش اور سریلی آواز کے لیے جانا جاتا تھا اور ان کا شمار ہندوستانی سنیما کے عظیم پلے بیک گلوکاروں میں ہوتا ہے۔ مکیش نے ہندی اور پنجابی سمیت مختلف زبانوں میں متعدد مقبول گانوں کو اپنی آواز دی ہے۔ ان کے گانے آج بھی موسیقی کے شائقین کی طرف سے پسند کیے جاتے ہیں۔

 
محمد رفیع کے بعد مکیش ، واہ مزا آگیا ۔آپ کا انتخاب لاجواب ہے ۔مکیش نے شروع شروع میں کے ایل سہگل کی ہوبہو نقل کی مثلاً دل جلتا ہے تو جلنے دے آنسو نہ بہا فریاد نہ کر اور پھر سہگل صاحب جن کا مکیش سے کچھ ہی پہلے تک طوطی بول رہا تھا پس منظر میں چلے گئے اور مکیش صاحب منظر عام پر چھاتے چلے گئے ۔جیسے کے ایل سہگل کے ہمعصر گلوکاروں کاایک میلہ ساتھا ایسے ہی مکیش کے ہم عصروں میں محمد رفیع، ہیمنت کمار،مہندر کپور،طلعت محمود،کشور کمار،لتا،آشا، اوشا، شمشاد بیگم،مبارک بیگم، سمن کلیان پوراور مناڈے نے خوب خوب دھوم مچائی ۔یہ گانا جس سے ساز الگ کرلیے گئے ہیں راج کپور کی سپرہٹ فلم دیوانہ سے ہے۔ شنکر جے کشن کی موسیقی میں حسرت جے پوری کے بول مکیش نے اِس خوبی سے ادا کیے ہیں کہ فلمی شاعری کا اعتبار جمتا چلا گیا حالانکہ فلمی شاعری میں سکہ بند شعرائے کرام نے بھی فلمی تقاضوں کے پیشِ نظر کبھی کبھی شعری پیمانوں کاپاس نہ رکھا بلکہ انھیں پاش پاش کردیا کرتے تھے ۔ یہ عیب موسیقی چھپالیا کرتی تھی، شاید اسی لیے فلمی شاعری عوام الناس تو کیا خاص الخواص تک کے دلوں کی دھڑکن تو ضرور بنی مگر علمی اور ادبی مقام حاصل نہ کرسکی۔
آپ کی پیشکش مکیش کا گیت لاجواب ہے اور گیت سے ساز الگ کرنے کے لیے جو سافٹ وئیراور اپلی کیشنس درکار ہوتی ہیں ان پہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ مہارت آپ کے اعلیٰ ذوق کی گواہ بھی ہے، واہ!
 
آخری تدوین:

عاطف سعد 2

محفلین
محمد رفیع کے بعد مکیش ، واہ مزا آگیا ۔آپ کا انتخاب لاجواب ہے ۔مکیش نے شروع شروع میں کے ایل سہگل کی ہوبہو نقل کی مثلاً دل جلتا ہے تو جلنے دے آنسو نہ بہا فریاد نہ کر اور پھر سہگل صاحب جن کا مکیش سے کچھ ہی پہلے تک طوطی بول رہا تھا پس منظر میں چلے گئے اور مکیش صاحب منظر عام پر چھاتے چلے گئے ۔جیسے کے ایل سہگل کے ہمعصر گلوکاروں کاایک میلہ ساتھا ایسے ہی مکیش کے ہم عصروں میں محمد رفیع، ہیمنت کمار،مہندر کپور،طلعت محمود،کشور کمار،لتا،آشا، اوشا، شمشاد بیگم،مبارک بیگم، سمن کلیان پوراور مناڈے نے خوب خوب دھوم مچائی ۔یہ گانا جس سے ساز الگ کرلیے گئے ہیں راج کپور کی سپرہٹ فلم دیوانہ سے ہے۔ شنکر جے کشن کی موسیقی میں حسرت جے پوری کے بول مکیش نے اِس خوبی سے ادا کیے ہیں کہ فلمی شاعری کا اعتبار جمتا چلا گیا حالانکہ فلمی شاعری میں سکہ بند شعرائے کرام نے بھی فلمی تقاضوں کے پیشِ نظر کبھی کبھی شعری پیمانوں کاپاس نہ کیا ۔ شاید اسی لیے فلمی شاعری عوام الناس تو کیا خاص الخواص تک کے دلوں کی دھڑکن تو ضرور بنی مگر علمی اور ادبی مقام حاصل نہ کرسکی۔
آپ کی پیشکش مکیش کا گیت لاجواب ہے اور گیت سے ساز الگ کرنے کے لیے جو سافٹ وئیراور اپلی کیشنس درکار ہوتی ہیں ان پہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے ،ساتھ اعلیٰ ذوق کی گواہ بھی ، واہ!
آپ جتنی معلومات تو نہیں ہیں بس شاعری اور موسیقی کے حوالے سے مجھے رفیع صاحب کے ساتھ مکیش اور طلعت صاحب پسند ہیں۔ ویسے آپ خاصی معلومات رکھتے ہیں ۔
 
چندپاکستانی نغمے بھی اس عمل سے گزریں تو پتہ چلے رُشدی ، سلیم رضا، مہدی حسن، مسعود رانا، نورجہاں ، رونالیلیٰ ،مالا وغیرہ کی آواز کی پچ کیا تھی۔مزید یہ کہ ہمارے فلمی تقاضو ں نے میڈم نورجہاں کے گلے کا کیا حشر کیا تھا کہ اُنھیں گلے میں پٹی سی لپیٹنا پڑگئی تھی گو وہ فیشن یا ایک ادا تھی اُن کی مگر اشارہ اور استعارہ بھی تھافلم کے ’’۔صنعتی۔ ‘‘رویوں کا:
آئی ہوں کہاں سے کون ہوں میں ممکن ہے تو مجھ کو جان سکے
۔تاریخ۔۔ سے۔ پردہ ۔اٹھتا ۔ہے ۔پہچان۔ اگر ۔پہچان۔ سکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آدیکھ موہن جوڈارومیں یہ بگڑی ہوئی تصویر میری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نورجہاں فلم ۔’’اِک گناہ اور سہی‘‘۔​
 
آخری تدوین:
مجھے رفیع صاحب کے ساتھ مکیش اور طلعت صاحب پسند ہیں۔
اور جدیدٹیکنالوجی کی بنیاد پر یہ تجربات بھی فن و ہنر کی خدمت کے زُمرے میں آکر آپ کو رفیع، مکیش اور طلعت محمود کی صف میں لاکھڑا کرتے ہیں۔علم و فن اور ہنر ویسے بھی انسان کو اوجِ کمال پر پہنچانے کاذریعہ ہیں۔ دنیا کا نقشہ ہر عہد میں انہی سے بدلاہے اور آیندہ کا سوچ کرتو ابھی سے حیرت ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔
 
آخری تدوین:
Top