محمد رفیع کے بعد مکیش ، واہ مزا آگیا ۔آپ کا انتخاب لاجواب ہے ۔مکیش نے شروع شروع میں کے ایل سہگل کی ہوبہو نقل کی مثلاً دل جلتا ہے تو جلنے دے آنسو نہ بہا فریاد نہ کر اور پھر سہگل صاحب جن کا مکیش سے کچھ ہی پہلے تک طوطی بول رہا تھا پس منظر میں چلے گئے اور مکیش صاحب منظر عام پر چھاتے چلے گئے ۔جیسے کے ایل سہگل کے ہمعصر گلوکاروں کاایک میلہ ساتھا ایسے ہی مکیش کے ہم عصروں میں محمد رفیع، ہیمنت کمار،مہندر کپور،طلعت محمود،کشور کمار،لتا،آشا، اوشا، شمشاد بیگم،مبارک بیگم، سمن کلیان پوراور مناڈے نے خوب خوب دھوم مچائی ۔یہ گانا جس سے ساز الگ کرلیے گئے ہیں راج کپور کی سپرہٹ فلم دیوانہ سے ہے۔ شنکر جے کشن کی موسیقی میں حسرت جے پوری کے بول مکیش نے اِس خوبی سے ادا کیے ہیں کہ فلمی شاعری کا اعتبار جمتا چلا گیا حالانکہ فلمی شاعری میں سکہ بند شعرائے کرام نے بھی فلمی تقاضوں کے پیشِ نظر کبھی کبھی شعری پیمانوں کاپاس نہ رکھا بلکہ انھیں پاش پاش کردیا کرتے تھے ۔ یہ عیب موسیقی چھپالیا کرتی تھی، شاید اسی لیے فلمی شاعری عوام الناس تو کیا خاص الخواص تک کے دلوں کی دھڑکن تو ضرور بنی مگر علمی اور ادبی مقام حاصل نہ کرسکی۔
آپ کی پیشکش مکیش کا گیت لاجواب ہے اور گیت سے ساز الگ کرنے کے لیے جو سافٹ وئیراور اپلی کیشنس درکار ہوتی ہیں ان پہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ مہارت آپ کے اعلیٰ ذوق کی گواہ بھی ہے، واہ!