فراز اے عشق جنوں پیشہ - احمد فراز کی کتاب "اے عشق جنوں پیشہ" سے انتخاب

فاتح آپ کہیں اور ہم نہ مانیں ایسے تو حالات نہیں، لیں جی غزل حاضر ہے احمد فراز کی

اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے

محبتوں میں تو ملنا ہے یا اجڑ جانا
مزاجِ عشق میں کب اعتدال رکھا ہے

ہوا میں نشہ ہی نشہ فضا میں رنگ ہی رنگ
یہ کس نے پیرہن اپنا اچھا رکھا ہے

بھلے دنوں کا بھروسا ہی کیا رہیں نہ رہیں
سو میں نے رشتہ غم کو بحال رکھا ہے

ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ خدا
سبھی نے وعدہ فردا پہ ٹال رکھا ہے

حسابِ لطفِ حریفاں کیا ہے جب تو کھلا
کہ دوستوں نے زیادہ خیال رکھا ہے

بھری بہار میں اک شاخ پر کھلا ہے گلاب
کہ جیسے تو نے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے

فراز عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
یہ کس نے فتنہ ہجر و وصال رکھا ہے


اے عشق جنوں پیشہ
 
لیں فاتح وارث نے ایک تیر سے کتنے ہی شکار کر ڈالے ، وہ شعر جو اس دن مجھے پورا یاد نہیں آ رہا تھا وہ پورا لکھ دیا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے

اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں
مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے

کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں
کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے

شائستگیِ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا
نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے

کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزمِ جاں میں
کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے

عشاق کے مانند کئی اہل ہوس بھی
پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے

سب خواہشیں پوری ہوں فراز ایسا نہیں ہے
جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے
ص116
اصل پوسٹ بذریعہ محب علوی
 

فاتح

لائبریرین
گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا

دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
اُس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا

ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا

باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کفِ دلدار پر اچھا لگا

کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا

ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا

اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا

میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فراز
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
ص 50
 

فاتح

لائبریرین
اے عشق جنوں پیشہ

عمروں کی مسافت سے
تھک ہار گئے آخر

سب عہد اذیّت کے
بیکار گئے آخر

اغیار کی بانہوں میں
دلدار گئے آخر

رو کر تری قسمت کو
غمخوار گئے آخر

یوں زندگی گزرے گی
تا چند وفا کیشا

وہ وادیء الفت تھی
یا کوہِ الَم جو تھا

سب مدِّ مقابل تھے
خسرو تھا کہ جم جو تھا

ہر راہ میں ٹپکا ہے
خوننابہ بہم جو تھا

رستوں میں لُٹایا ہے
وہ بیش کہ کم جو تھا

نے رنجِ شکستِ دل
نے جان کا اندیشہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ اہلِ ریا بھی تو
ہمراہ ہمارے تھے

رہرو تھے کہ رہزن تھے
جو روپ بھی دھارے تھے

کچھ سہل طلب بھی تھے
وہ بھی ہمیں پیارے تھے

اپنے تھے کہ بیگانے
ہم خوش تھے کہ سارے تھے

سو زخم تھے نَس نَس میں
گھائل تھے رگ و ریشہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو جسم کا ایندھن تھا
گلنار کیا ہم نے

وہ زہر کہ امرت تھا
جی بھر کے پیا ہم نے

سو زخم ابھر آئے
جب دل کو سیا ہم نے

کیا کیا نہ مَحبّت کی
کیا کیا نہ جیا ہم نے

لو کوچ کیا گھر سے
لو جوگ لیا ہم نے

جو کچھ تھا دیا ہم نے
اور دل سے کہا ہم نے

رکنا نہیں درویشا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوں ہے کہ سفر اپنا
تھا خواب نہ افسانہ

آنکھوں میں ابھی تک ہے
فردا کا پری خانہ

صد شکر سلامت ہے
پندارِ فقیرانہ

اس شہرِ خموشی میں
پھر نعرہء مستانہ

اے ہمّتِ مردانہ
صد خارہ و یک تیشہ

اے عشق جنوں پیشہ
اے عشق جنوں پیشہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
ص 25
احمد فراز کی کتاب "اے عشق جنوں پیشہ" کی پہلی نظم "اے عشق جنوں پیشہ"
 
Top