اے عشق ہماری گلیوں میں

اگر کوئی مضائقہ نہ ہو تو ہمارا نام لگا دیجئے۔ یہ الزام ہم ہی قبول کر لیتے ہیں۔ :) :) :)
یوں دل نہ لگے نہ درد اٹھے
مت روز ملو تو اچھا ہے
نہ پیار بڑھے نہ جھگڑا ہو
تم دور بسو تو اچھا ہے


کسی پھول سے ملتے چہرے کو
مری دنیا دیکھنا چاہے گی
گر پاس تمہارے کچھ بھی نہیں
پردے میں رہو تو اچھا ہے


لے کر زنجیریں ہاتھوں میں
کچھ لوگ تمہاری تاک میں ہیں
اے عشق ہماری گلیوں میں
نہ اور پھرو تو اچھا ہے


الزام اپنے سر لینے والے شاعر: مزمل شیخ بسمل
 

ماہی احمد

لائبریرین
یوں دل نہ لگے نہ درد اٹھے
مت روز ملو تو اچھا ہے
نہ پیار بڑھے نہ جھگڑا ہو
تم دور بسو تو اچھا ہے


کسی پھول سے ملتے چہرے کو
مری دنیا دیکھنا چاہے گی
گر پاس تمہارے کچھ بھی نہیں
پردے میں رہو تو اچھا ہے


لے کر زنجیریں ہاتھوں میں
کچھ لوگ تمہاری تاک میں ہیں
اے عشق ہماری گلیوں میں
نہ اور پھرو تو اچھا ہے
الزام اپنے سر لینے والے شاعر: مزمل شیخ بسمل
استغفرللہ۔۔۔
 

سمیع نوید

محفلین
ٹیگ:
اگر کوئی دوست شاعر کا نام جانتا ہو تو مہربانی فرما کر لکھ دیجیئے :)
یہ میری غزل ہے
پوری غزل یہ ہے
یوں دل نہ لگے، نہ ہی درد اٹھے ، مت روز ملو تو اچھا ہے
نہ ہی پیار بڑھے، نہ یہ جھگڑا ہو ، تم دور بسو تو اچھا ہے

کسی پھول سے ملتے چہرے کو مری دنیا دیکھنا چاہے گی
گر پاس تمھارے کچھ بھی نہیں ، پردے میں رہو تو اچھا ہے

اس پیار کی سندر بانہوں میں اب بانہیں ڈال کے سو بھی چُکو
یوں جی جی کر یاں مرنے سے ، مر مر کے جیو تو اچھا ہے

لے کر زنجیریں ہاتھوں میں کچھ لوگ تمھاری تاک میں ہیں
اے عشق ہماری گلیوں میں مت اور پھرو تو اچھا ہے

اب پیار سے کیوں گھبرائیں ہم ، اس ہجر کو بھی تڑپائیں ہم
ہم تم پہ مریں تو اچھا ہے ، تم ہم پہ مرو تو اچھا ہے

ان لوگوں میں کچھ چھپ چھپ کر عاشق بھی تمھارے بیٹھے ہیں
کوئی اور ہنسے تو ٹھیک صنم ، یہاں تم نہ ہنسو تو اچھا ہے

افسانہ عشق کا کہنے میں ، یہاں سچا کوئی نہیں ہوتا
نہ ہی میری سنو تو اچھا ہے ، نہ ہی اس کی سنو تو اچھا ہے

سب چین ہمارا چھن ہے گیا ، سب نیند ہماری لٹ ہے چُکی
اے چاند ہمارے اور ہمیں اچھے نہ لگو تو اچھا ہے

یہ راہیں پیار کی راہیں ہیں ، ان راہوں میں اے میرے نوید
چل چل کے گرو ، گر گر کے اٹھو ، اٹھ اٹھ کے تھکو تو اچھا ہے
سمیع نوید
 

سمیع نوید

محفلین
یہ میری غزل ہے
پوری غزل یہ ہے

یوں دل نہ لگے، نہ ہی درد اٹھے ، مت روز ملو تو اچھا ہے
نہ ہی پیار بڑھے، نہ یہ جھگڑا ہو ، تم دور بسو تو اچھا ہے

کسی پھول سے ملتے چہرے کو مری دنیا دیکھنا چاہے گی
گر پاس تمھارے کچھ بھی نہیں ، پردے میں رہو تو اچھا ہے

اس پیار کی سندر بانہوں میں اب بانہیں ڈال کے سو بھی چُکو
یوں جی جی کر یاں مرنے سے ، مر مر کے جیو تو اچھا ہے

لے کر زنجیریں ہاتھوں میں کچھ لوگ تمھاری تاک میں ہیں
اے عشق ہماری گلیوں میں مت اور پھرو تو اچھا ہے

اب پیار سے کیوں گھبرائیں ہم ، اس ہجر کو بھی تڑپائیں ہم
ہم تم پہ مریں تو اچھا ہے ، تم ہم پہ مرو تو اچھا ہے

ان لوگوں میں کچھ چھپ چھپ کر عاشق بھی تمھارے بیٹھے ہیں
کوئی اور ہنسے تو ٹھیک صنم ، یہاں تم نہ ہنسو تو اچھا ہے

افسانہ عشق کا کہنے میں ، یہاں سچا کوئی نہیں ہوتا
نہ ہی میری سنو تو اچھا ہے ، نہ ہی اس کی سنو تو اچھا ہے

سب چین ہمارا چھن ہے گیا ، سب نیند ہماری لٹ ہے چُکی
اے چاند ہمارے اور ہمیں اچھے نہ لگو تو اچھا ہے

یہ راہیں پیار کی راہیں ہیں ، ان راہوں میں اے میرے نوید
چل چل کے گرو ، گر گر کے اٹھو ، اٹھ اٹھ کے تھکو تو اچھا ہے
سمیع نوید
 

زبیر حسین

محفلین
یہ میری غزل ہے
پوری غزل یہ ہے
یوں دل نہ لگے، نہ ہی درد اٹھے ، مت روز ملو تو اچھا ہے
نہ ہی پیار بڑھے، نہ یہ جھگڑا ہو ، تم دور بسو تو اچھا ہے

کسی پھول سے ملتے چہرے کو مری دنیا دیکھنا چاہے گی
گر پاس تمھارے کچھ بھی نہیں ، پردے میں رہو تو اچھا ہے

اس پیار کی سندر بانہوں میں اب بانہیں ڈال کے سو بھی چُکو
یوں جی جی کر یاں مرنے سے ، مر مر کے جیو تو اچھا ہے

لے کر زنجیریں ہاتھوں میں کچھ لوگ تمھاری تاک میں ہیں
اے عشق ہماری گلیوں میں مت اور پھرو تو اچھا ہے

اب پیار سے کیوں گھبرائیں ہم ، اس ہجر کو بھی تڑپائیں ہم
ہم تم پہ مریں تو اچھا ہے ، تم ہم پہ مرو تو اچھا ہے

ان لوگوں میں کچھ چھپ چھپ کر عاشق بھی تمھارے بیٹھے ہیں
کوئی اور ہنسے تو ٹھیک صنم ، یہاں تم نہ ہنسو تو اچھا ہے

افسانہ عشق کا کہنے میں ، یہاں سچا کوئی نہیں ہوتا
نہ ہی میری سنو تو اچھا ہے ، نہ ہی اس کی سنو تو اچھا ہے

سب چین ہمارا چھن ہے گیا ، سب نیند ہماری لٹ ہے چُکی
اے چاند ہمارے اور ہمیں اچھے نہ لگو تو اچھا ہے

یہ راہیں پیار کی راہیں ہیں ، ان راہوں میں اے میرے نوید
چل چل کے گرو ، گر گر کے اٹھو ، اٹھ اٹھ کے تھکو تو اچھا ہے
سمیع نوید
دو دن کم سات سال ہو گئے۔۔ اچھا کیا اپنی چیز آ کر سنبھال لی ۔

محفل میں خوش آمدید۔
 
آخری تدوین:
یہ میری غزل ہے
پوری غزل یہ ہے
یوں دل نہ لگے، نہ ہی درد اٹھے ، مت روز ملو تو اچھا ہے
نہ ہی پیار بڑھے، نہ یہ جھگڑا ہو ، تم دور بسو تو اچھا ہے

کسی پھول سے ملتے چہرے کو مری دنیا دیکھنا چاہے گی
گر پاس تمھارے کچھ بھی نہیں ، پردے میں رہو تو اچھا ہے

اس پیار کی سندر بانہوں میں اب بانہیں ڈال کے سو بھی چُکو
یوں جی جی کر یاں مرنے سے ، مر مر کے جیو تو اچھا ہے

لے کر زنجیریں ہاتھوں میں کچھ لوگ تمھاری تاک میں ہیں
اے عشق ہماری گلیوں میں مت اور پھرو تو اچھا ہے

اب پیار سے کیوں گھبرائیں ہم ، اس ہجر کو بھی تڑپائیں ہم
ہم تم پہ مریں تو اچھا ہے ، تم ہم پہ مرو تو اچھا ہے

ان لوگوں میں کچھ چھپ چھپ کر عاشق بھی تمھارے بیٹھے ہیں
کوئی اور ہنسے تو ٹھیک صنم ، یہاں تم نہ ہنسو تو اچھا ہے

افسانہ عشق کا کہنے میں ، یہاں سچا کوئی نہیں ہوتا
نہ ہی میری سنو تو اچھا ہے ، نہ ہی اس کی سنو تو اچھا ہے

سب چین ہمارا چھن ہے گیا ، سب نیند ہماری لٹ ہے چُکی
اے چاند ہمارے اور ہمیں اچھے نہ لگو تو اچھا ہے

یہ راہیں پیار کی راہیں ہیں ، ان راہوں میں اے میرے نوید
چل چل کے گرو ، گر گر کے اٹھو ، اٹھ اٹھ کے تھکو تو اچھا ہے
سمیع نوید
اردو محفل میں خوش آمدید جناب۔ اپنا مزید کلام بھی عنایت فرئیے۔
 

سمیع نوید

محفلین
اردو محفل میں خوش آمدید جناب۔ اپنا مزید کلام بھی عنایت فرئیے۔
سلامت رہیے۔

تُو بھی اب ہم سے یہ پوچھے گا کدھر جاتے ہیں؟
تجھ سے ملنے ہی تو جاتے ہیں، جدھر جاتے ہیں

ہم کو بزدل تو سمجھتے ہو مگر کیا سمجھو
ایسے حالات میں سب لوگ ہی ڈر جاتے ہیں

ہم کو آوارہ اگر جانو تو پھر تم جانو
ورنہ ہم لوٹ کے تو اپنے ہی گھر جاتے ہیں

اچھی صورت ہی یہاں جلد بگڑ جاتی ہے
اچھے موسم ہی یہاں جلد گزر جاتے ہیں

تم اگر جاؤ بھی تو چھپ کے چلے جاتے ہو
ہم اگر جائیں تو پھر پیشِ نظر جاتے ہیں

تم بکھرنے سے ذرا اور سنور جاتے ہو
ہم سنورنے سے ذرا اور بکھر جاتے ہیں

تم ہو ویسے ہی تو پھر اپنی بھی سُستی ہو گی
ورنہ کوشش سے یہاں لوگ سدھر جاتے ہیں

ہم تو آئے تھے یہاں دوست! ہمیشہ رہنے
تم اگر کہتے ہو تو آج ہی مر جاتے ہیں
سمیع نوید
 

ماہی احمد

لائبریرین
یہ میری غزل ہے
پوری غزل یہ ہے
یوں دل نہ لگے، نہ ہی درد اٹھے ، مت روز ملو تو اچھا ہے
نہ ہی پیار بڑھے، نہ یہ جھگڑا ہو ، تم دور بسو تو اچھا ہے

کسی پھول سے ملتے چہرے کو مری دنیا دیکھنا چاہے گی
گر پاس تمھارے کچھ بھی نہیں ، پردے میں رہو تو اچھا ہے

اس پیار کی سندر بانہوں میں اب بانہیں ڈال کے سو بھی چُکو
یوں جی جی کر یاں مرنے سے ، مر مر کے جیو تو اچھا ہے

لے کر زنجیریں ہاتھوں میں کچھ لوگ تمھاری تاک میں ہیں
اے عشق ہماری گلیوں میں مت اور پھرو تو اچھا ہے

اب پیار سے کیوں گھبرائیں ہم ، اس ہجر کو بھی تڑپائیں ہم
ہم تم پہ مریں تو اچھا ہے ، تم ہم پہ مرو تو اچھا ہے

ان لوگوں میں کچھ چھپ چھپ کر عاشق بھی تمھارے بیٹھے ہیں
کوئی اور ہنسے تو ٹھیک صنم ، یہاں تم نہ ہنسو تو اچھا ہے

افسانہ عشق کا کہنے میں ، یہاں سچا کوئی نہیں ہوتا
نہ ہی میری سنو تو اچھا ہے ، نہ ہی اس کی سنو تو اچھا ہے

سب چین ہمارا چھن ہے گیا ، سب نیند ہماری لٹ ہے چُکی
اے چاند ہمارے اور ہمیں اچھے نہ لگو تو اچھا ہے

یہ راہیں پیار کی راہیں ہیں ، ان راہوں میں اے میرے نوید
چل چل کے گرو ، گر گر کے اٹھو ، اٹھ اٹھ کے تھکو تو اچھا ہے
سمیع نوید
ارے واہ!!!
بہت خوب کلام ہے!!!
مزید بھی شریکِ محفل کیجیے گا!:)
 
Top