فرخ منظور
لائبریرین
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں
ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر!
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم
تو اور ہمیں ناشاد نہ کر!
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ
یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر!
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
جس دن سے ملے ہیں دونوں کا
سب چین گیا، آرام گیا
چہروں سے بہار صبح گئی
آنکھوں سے فروغ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا
ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں
رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
آنکھوں میں تصور،دل میں خلش
سر دھنتے ہیں آہیں بھرتےہیں
اے عشق! یہ کیسا روگ لگا
جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں؟
یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں
رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہر وقت خلش بے
خواب ہوں میں،بیدار ہے وہ
جینے سے ادھر بیزار ہوں میں
مرنے پہ ادھر تیار ہے وہ
اور ضبط کہے فریاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا
گھبرائےہوئے سے رہتے ہیں
ہر وقت تصور کر کر کے
شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
کملائے ہوئے پھولوں کی طرح
کملائے ہوئے سے رہتے ہیں
پامال نہ کر، برباد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
بیددر! ذرا انصاف تو کر!
اس عمر میں اور مغموم ہے وہ!
پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی
تاروں کی طرح معصوم ہے وہ!
یہ حسن ، ستم! یہ رنج،غضب!
مجبور ہوں میں! مظلوم ہے وہ!
مظلوم پہ یوں بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
اے عشق خدارا دیکھ کہیں
وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو !
وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو !
وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو !
ناموس کا اس کے پاس رہے
وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو!
اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
امید کی جھوٹی جنت کے
رہ رہ کے نہ دکھلا خواب ہمیں!
آئندہ کی فرضی عشرت کے
وعدوں سے نہ کر بیتاب ہمیں!
کہتا ہے زمانہ جس کو خوشی
آتی ہے نظر کمیاب ہمیں!
چھوڑ ایسی خوشی کویاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
کیا سمجھےتھےاور تو کیا نکلا
یہ سوچ کےہی حیران ہیں ہم!
ہے پہلے پہل کا تجربہ اور
کم عمر ہیں ہم، انجان ہیں ہم!
اے عشق ! خدارا رحم و کرم!
معصوم ہیں ہم ،نادان ہیں ہم!
نادان ہیں ہم، ناشاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
وہ راز ہے یہ غم آہ جسے
پا جائے کوئی تو خیر نہیں!
آنکھوں سےجب آنسو بہتےہیں
آجائے کوئی تو خیر نہیں!
ظالم ہے یہ دنیا، دل کو یہاں
بھا جائے کوئی تو خیر نہیں!
ہے ظلم مگر فریاد نہ کر!
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر!
دو دن ہی میں عہد طفلی کے
معصوم زمانے بھول گئے!
آنکھوں سےوہ خوشیاں مٹ سی گئیں
لب کووہ ترانےبھول گئے!
ان پاک بہشتی خوابوں کے
دلچسپ فسانے بھول گئے!
ان خوابوں سے یوں آزاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
اس جان حیا کا بس نہیں کچھ
بے بس ہے پرائے بس میں ہے
بے درد دلوں کو کیا ہے خبر
جو پیار یہاں آپس میں ہے
ہے بے بسی زہر اور پیار ہے رس
یہ زہر چھپا اس رس میں ہے
کہتی ہے حیا فریاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا
ہر جذب نہاں پر رو دینا!
آہنگ طرب پر جھک جانا
آواز و فغاں پر رو دینا!
بربط کی صدا پر رو دینا
مطرب کے بیاں پر رو دینا!
احساس کو غم بنیاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
ہر دم ابدی راحت کا سماں
دکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر!
للہ حبابِ آب رواں پر
نقش بقا تحریر نہ کر!
مایوسی کے رمتے بادل پر
امید کے گھر تعمیر نہ کر!
تعمیر نہ کر، آباد نہ کر !
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر!
جی چاہتا ہے اک دوسرے کو
یوں آٹھ پہر ہم یاد کریں!
آنکھوں میں بسائیں خوابوں کو
اور دل میں خیال آباد کریں!
خلوت میں بھی ہوجلوت کاسماں
وحدت کو دوئی سےشاد کریں!
یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
دنیا کا تماشا دیکھ لیا
غمگین سی ہے ، بے تاب سی ہے!
امید یہاں اک وہم سا ہے
تسکین یہاں اک خواب سی ہے!
دنیا میں خوشی کا نام نہیں
دنیا میں خوشی نایاب سی ہے!
دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
(اختر شیرانی)
اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں
ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر!
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم
تو اور ہمیں ناشاد نہ کر!
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ
یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر!
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
جس دن سے ملے ہیں دونوں کا
سب چین گیا، آرام گیا
چہروں سے بہار صبح گئی
آنکھوں سے فروغ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا
ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں
رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
آنکھوں میں تصور،دل میں خلش
سر دھنتے ہیں آہیں بھرتےہیں
اے عشق! یہ کیسا روگ لگا
جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں؟
یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں
رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہر وقت خلش بے
خواب ہوں میں،بیدار ہے وہ
جینے سے ادھر بیزار ہوں میں
مرنے پہ ادھر تیار ہے وہ
اور ضبط کہے فریاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا
گھبرائےہوئے سے رہتے ہیں
ہر وقت تصور کر کر کے
شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
کملائے ہوئے پھولوں کی طرح
کملائے ہوئے سے رہتے ہیں
پامال نہ کر، برباد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
بیددر! ذرا انصاف تو کر!
اس عمر میں اور مغموم ہے وہ!
پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی
تاروں کی طرح معصوم ہے وہ!
یہ حسن ، ستم! یہ رنج،غضب!
مجبور ہوں میں! مظلوم ہے وہ!
مظلوم پہ یوں بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
اے عشق خدارا دیکھ کہیں
وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو !
وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو !
وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو !
ناموس کا اس کے پاس رہے
وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو!
اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
امید کی جھوٹی جنت کے
رہ رہ کے نہ دکھلا خواب ہمیں!
آئندہ کی فرضی عشرت کے
وعدوں سے نہ کر بیتاب ہمیں!
کہتا ہے زمانہ جس کو خوشی
آتی ہے نظر کمیاب ہمیں!
چھوڑ ایسی خوشی کویاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
کیا سمجھےتھےاور تو کیا نکلا
یہ سوچ کےہی حیران ہیں ہم!
ہے پہلے پہل کا تجربہ اور
کم عمر ہیں ہم، انجان ہیں ہم!
اے عشق ! خدارا رحم و کرم!
معصوم ہیں ہم ،نادان ہیں ہم!
نادان ہیں ہم، ناشاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
وہ راز ہے یہ غم آہ جسے
پا جائے کوئی تو خیر نہیں!
آنکھوں سےجب آنسو بہتےہیں
آجائے کوئی تو خیر نہیں!
ظالم ہے یہ دنیا، دل کو یہاں
بھا جائے کوئی تو خیر نہیں!
ہے ظلم مگر فریاد نہ کر!
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر!
دو دن ہی میں عہد طفلی کے
معصوم زمانے بھول گئے!
آنکھوں سےوہ خوشیاں مٹ سی گئیں
لب کووہ ترانےبھول گئے!
ان پاک بہشتی خوابوں کے
دلچسپ فسانے بھول گئے!
ان خوابوں سے یوں آزاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
اس جان حیا کا بس نہیں کچھ
بے بس ہے پرائے بس میں ہے
بے درد دلوں کو کیا ہے خبر
جو پیار یہاں آپس میں ہے
ہے بے بسی زہر اور پیار ہے رس
یہ زہر چھپا اس رس میں ہے
کہتی ہے حیا فریاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا
ہر جذب نہاں پر رو دینا!
آہنگ طرب پر جھک جانا
آواز و فغاں پر رو دینا!
بربط کی صدا پر رو دینا
مطرب کے بیاں پر رو دینا!
احساس کو غم بنیاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
ہر دم ابدی راحت کا سماں
دکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر!
للہ حبابِ آب رواں پر
نقش بقا تحریر نہ کر!
مایوسی کے رمتے بادل پر
امید کے گھر تعمیر نہ کر!
تعمیر نہ کر، آباد نہ کر !
اے عشق ہمیں بر باد نہ کر!
جی چاہتا ہے اک دوسرے کو
یوں آٹھ پہر ہم یاد کریں!
آنکھوں میں بسائیں خوابوں کو
اور دل میں خیال آباد کریں!
خلوت میں بھی ہوجلوت کاسماں
وحدت کو دوئی سےشاد کریں!
یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
دنیا کا تماشا دیکھ لیا
غمگین سی ہے ، بے تاب سی ہے!
امید یہاں اک وہم سا ہے
تسکین یہاں اک خواب سی ہے!
دنیا میں خوشی کا نام نہیں
دنیا میں خوشی نایاب سی ہے!
دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر!
اے عشق ہمیں برباد نہ کر!
(اختر شیرانی)