پاکستانی
محفلین
نظم ۔ اسرارالحق مجاز
شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تلک دربدر مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
میرے سینے پر مگر چلتی ہوئی شمشیر سی
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
یہ رُو پھیلی چھاؤں یہ آکاش پر تاروں کا جال
جیسے صُوفی کا تصوّر جیسے عاشق کا خیال
آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ مے خانے میں چل
پھر کسی شہنازِ لالہ رُخ کے کاشانے میں چل
یہ نہیں ممکِن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
راستے میں رُک کے دَم لے لوں میری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں ، میری فطرت نہیں
اور کوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
اک محل کی آڑھ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب
جیسے مُلا کا عمامہ جیسے بنئے کی کتاب
جیسے مُفلس کی جوانی جیسے بیوہ کا شباب
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
مُفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے
سینکڑوں چنگیز اور نادر ہیں نظر کے سامنے
سینکڑوں سُلطان و جابر ہیں نظر کے سامنے
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
بڑھ کے اس اِندر سبھا کا سازوساماں پھونک دوں
اِس کا گلشن پھونک دوں اُس کا شبستاں پھونک دوں
تختِ سُلطاں کیا میں ساراقصرِ سُلطاں پھونک دوں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
اسرارالحق مجازجگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تلک دربدر مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
میرے سینے پر مگر چلتی ہوئی شمشیر سی
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
یہ رُو پھیلی چھاؤں یہ آکاش پر تاروں کا جال
جیسے صُوفی کا تصوّر جیسے عاشق کا خیال
آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ مے خانے میں چل
پھر کسی شہنازِ لالہ رُخ کے کاشانے میں چل
یہ نہیں ممکِن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
راستے میں رُک کے دَم لے لوں میری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں ، میری فطرت نہیں
اور کوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
اک محل کی آڑھ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب
جیسے مُلا کا عمامہ جیسے بنئے کی کتاب
جیسے مُفلس کی جوانی جیسے بیوہ کا شباب
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
مُفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے
سینکڑوں چنگیز اور نادر ہیں نظر کے سامنے
سینکڑوں سُلطان و جابر ہیں نظر کے سامنے
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
بڑھ کے اس اِندر سبھا کا سازوساماں پھونک دوں
اِس کا گلشن پھونک دوں اُس کا شبستاں پھونک دوں
تختِ سُلطاں کیا میں ساراقصرِ سُلطاں پھونک دوں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں