مجاز اے غمِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں - اسرار الحق مجاز

شمشاد

لائبریرین
فرخ بھائی بہت شکریہ یہ نظم شریک محفل کرنے کا۔
اس کو کسی فلم میں بھی گایا گیا ہے۔

ایک اور نظم ہے " اے روشنیوں کے شہر بتا" وہ بھی اگر کہیں سےمل جائے تو شریک محفل کریں۔
 

مغزل

محفلین
اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں--- نظم ’’ آوارہ ‘‘ ---- اسرار الحق مجاز

اسرار الحق مجاز کی نظم -- ’’ آوارہ ‘‘

شہر کي رات اور ميں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتي جاگتي سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غير کي بستي ہے کب تک در بدر مارا پھروں

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

جھلملاتے قمقموں کي راہ ميں زنجير سي
رات کے ہاتھوں ميں دن کي موہني تصوير سي
ميرے سينے پر مگر چلتي ہوئي شمشير سي

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

يہ روپہلي چھاؤں، يہ آکاش پر تاروں کا جال
جيسے صوفي کا تصور، جيسے عاشق کا خيال
آہ! ليکن کون جانے کون سمجھے جي کا حال

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

پھر وہ ٹوٹا ایک ستارہ، پھر وہ چھوٹي پھلجھڑي
جانے کس کي گود ميں آئے يہ موتي کي لڑي
ہوک سي سينے ميں اٹھي، چوٹ سي دل پر پڑي

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

رات ہنس ہنس کر يہ کہتي ہے کہ ميخانے ميں چل
پھر کسي شہناز ِ لالہ رخ کے کاشانے ميں چل
يہ نہيں ممکن تو پھر اے دوست! ويرانے ميں چل

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

ہر طرف بکھري ہوئي رنگينياں رعنائياں
ہر قدم پر عشرتيں ليتي ہوئي انگڑائياں
بڑھ رہي ہيں گود پھيلائے ہوئے رسوائياں

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

راستے ميں رک کے دم لے لوں، یہ مري عادت نہيں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں، مري فطرت نہيں
اور کوئي ہم نوا مل جائے، يہ قسمت نہيں

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

منتظر ہے ايک طوفان ِ بلا ميرے ليے
اب بھي جانے کتنے دروازے ہيں وا ، ميرے ليے
پر مصيبت ہے مرا عہد ِ وفا ميرے ليے

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

جي ميں آتا ہے کہ اب عہد ِ وفا بھي توڑ دوں
ان کو پا سکتا ہوں ميں، يہ آسرا بھي چھوڑ دوں
ہاں مناسب ہے يہ زنجير ِ ہوا بھي توڑ دوں

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

اک محل کي آڑ سے نکلا وہ پيلا ماہتاب
جيسے ملا کا عمامہ، جيسے بنيے کي کتاب
جيسے مفلس کي جواني، جيسے بيوہ کا شباب

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

دل ميں اک شعلہ بھڑک اٹھا ہے آخر کيا کروں
ميرا پيمانہ چھلک اٹھا ہے آخر کيا کروں
زخم سينے کا مہک اٹھا ہے آخر کيا کروں

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

مفلسي اور يہ مظاہر ہيں نظر کے سامنے
سينکڑوں چنگيز و نادر ہيں نظر کے سامنے
سينکڑوں سلطان جابر ہيں نظر کے سامنے

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

لے کے اک چنگيز کے ہاتھوں سے خنجر توڑ دوں
تاج پر اس کے دمکتا ہے جو پتھر توڑ دوں
کوئي توڑے يا نہ توڑے، ميں ہي بڑھ کر توڑ دوں

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

بڑھ کے اس اندر سبھا کا ساز و ساماں پھونک دوں
اس کا گلشن پھونک دوں، اس کا شبستاں پھونک دوں
تخت ِ سلطاں کيا ميں سارا قصر ِ سلطاں پھونک دوں

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

جي ميں آتا ہے يہ مردہ چاند تارے نوچ لوں
اس کنارے نوچ لوں، اور اس کنارے نوچ لوں
ايک دو کا ذکر کيا، سارے کے سارے نوچ لوں

اے غم ِ دل کيا کروں، اے وحشت ِ دل کيا کروں

اسرار الحق مجاز
 
السلام علیکم۔ آپ جیسے عظیم شخصیتوں سے پہلی مرتبہ مخاطب ہونے کی جسارت کی ہے۔ کچھ شبہات ہیں جنکے لئے آپ کو زحمت دے رہاہوں۔ ایک مصرہ (آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال) جب گانے میں سنا تو ایسا تھا(آہ لیکن کون سمجھے کون جانے جی کا حال) اور ایک اور جگہ (راستے میں رُک کے دَم لے لوں میری عادت نہیں) پر ایسا لکھا ہے جبکہ گانے میں ہے۔۔۔یہ میری عادت نہیں۔ آپ سے درستگی کی التجا ہے۔ اللہ آپ سب کو خوشیا ں عطا فرماتا رہے۔ آمین وسلام۔ محمد زاہد رضا عباسی۔
 

شمشاد

لائبریرین
السلام علیکم۔ آپ جیسے عظیم شخصیتوں سے پہلی مرتبہ مخاطب ہونے کی جسارت کی ہے۔ کچھ شبہات ہیں جنکے لئے آپ کو زحمت دے رہاہوں۔ ایک مصرہ (آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال) جب گانے میں سنا تو ایسا تھا(آہ لیکن کون سمجھے کون جانے جی کا حال) اور ایک اور جگہ (راستے میں رُک کے دَم لے لوں میری عادت نہیں) پر ایسا لکھا ہے جبکہ گانے میں ہے۔۔۔یہ میری عادت نہیں۔ آپ سے درستگی کی التجا ہے۔ اللہ آپ سب کو خوشیا ں عطا فرماتا رہے۔ آمین وسلام۔ محمد زاہد رضا عباسی۔
محمد زاہد رضا عباسی صاحب اردو محفل میں خوش آمدید۔

پہلی بات تو یہ کہ مصرہ نہیں ہوتا، مصرعہ ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ فلمی دنیا کےلوگ اصلی شاعری میں اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے اس کو اتنا سنجیدگی سے نہ لیں۔

اصل یہی ہے :

یہ روپہلی چھاؤں یہ آکاش پر تاروں کا جال
جیسے صوفی کا تصور جیسے عاشق کا خیال
آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

راستے میں رک کے دم لے لوں مری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں مری فطرت نہیں
اور کوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
 
Top