السلام علیکم۔ آپ جیسے عظیم شخصیتوں سے پہلی مرتبہ مخاطب ہونے کی جسارت کی ہے۔ کچھ شبہات ہیں جنکے لئے آپ کو زحمت دے رہاہوں۔ ایک مصرہ (آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال) جب گانے میں سنا تو ایسا تھا(آہ لیکن کون سمجھے کون جانے جی کا حال) اور ایک اور جگہ (راستے میں رُک کے دَم لے لوں میری عادت نہیں) پر ایسا لکھا ہے جبکہ گانے میں ہے۔۔۔یہ میری عادت نہیں۔ آپ سے درستگی کی التجا ہے۔ اللہ آپ سب کو خوشیا ں عطا فرماتا رہے۔ آمین وسلام۔ محمد زاہد رضا عباسی۔
محمد زاہد رضا عباسی صاحب اردو محفل میں خوش آمدید۔
پہلی بات تو یہ کہ مصرہ نہیں ہوتا، مصرعہ ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ فلمی دنیا کےلوگ اصلی شاعری میں اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے اس کو اتنا سنجیدگی سے نہ لیں۔
اصل یہی ہے :
یہ روپہلی چھاؤں یہ آکاش پر تاروں کا جال
جیسے صوفی کا تصور جیسے عاشق کا خیال
آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
راستے میں رک کے دم لے لوں مری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں مری فطرت نہیں
اور کوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں