اے ماں! تڑپ رہا ہوں

ﻏﺰﻝ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﺍﺻﻼﺡ ...........


(ماں )
اے ماں! تڑپ رہا ہوں
مجھے گود میں اٹھا لے
میرے پاس تو ہے سب کچھ
خود ہاتھوں سے کھلا دے

دنیا کی کشمکش میں
میں کب سے تشنہ لب ہوں
مجھے پھر سے زندہ کر دے
خود ہاتھوں سے پلا کے

گرتا، سنبھلتا، پھرتا
کھاتا ہوں ٹھوکریں میں
میرے سارے زخم بھر کے
اپنے ہاتھوں سے شفا دے

میں کھبی جو رویا کرتا
مجھے دیکھ کر خفا تھی
وہ جو قطرہ تھا سمندر
زرہ پھر سے اک بہا دے

تیرا چہرہ دیکھنے سے
ہوئی بندگی خدا کی
تو جو نظر بھر کے دیکھے
تو خدا سے بھی ملا دے

توصیف کیوں خفا ہو
جنت کی آرزو میں
ارے ماں کے قدم چومو
تجھے جنتی بنا دیں
 

الف عین

لائبریرین
یہ غزل تو نہیں!! اسے نظم کہا جا سکتا ہے جس میں قوافی اور ردیف کا التزام رکھا گیا ہے۔
بحر البتہ۔۔ کچھ مصرع مفعول فاعلاتن دو بار، ہیں تو کچھ متفاعلن فعولن، دو بار میں۔ مزمل شیخ بسمل
 

الف عین

لائبریرین
نثری نظم کے لئے نہیں، لیکن آزاد نظم کے لئے ہاں۔ اس کے افاعیل یا اردکان کی تعداد مقرر نہیں ہوتی۔
 
Top