توصیف یوسف مغل
محفلین
ﻏﺰﻝ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﺍﺻﻼﺡ ...........
(ماں )
اے ماں! تڑپ رہا ہوں
مجھے گود میں اٹھا لے
میرے پاس تو ہے سب کچھ
خود ہاتھوں سے کھلا دے
دنیا کی کشمکش میں
میں کب سے تشنہ لب ہوں
مجھے پھر سے زندہ کر دے
خود ہاتھوں سے پلا کے
گرتا، سنبھلتا، پھرتا
کھاتا ہوں ٹھوکریں میں
میرے سارے زخم بھر کے
اپنے ہاتھوں سے شفا دے
میں کھبی جو رویا کرتا
مجھے دیکھ کر خفا تھی
وہ جو قطرہ تھا سمندر
زرہ پھر سے اک بہا دے
تیرا چہرہ دیکھنے سے
ہوئی بندگی خدا کی
تو جو نظر بھر کے دیکھے
تو خدا سے بھی ملا دے
توصیف کیوں خفا ہو
جنت کی آرزو میں
ارے ماں کے قدم چومو
تجھے جنتی بنا دیں
(ماں )
اے ماں! تڑپ رہا ہوں
مجھے گود میں اٹھا لے
میرے پاس تو ہے سب کچھ
خود ہاتھوں سے کھلا دے
دنیا کی کشمکش میں
میں کب سے تشنہ لب ہوں
مجھے پھر سے زندہ کر دے
خود ہاتھوں سے پلا کے
گرتا، سنبھلتا، پھرتا
کھاتا ہوں ٹھوکریں میں
میرے سارے زخم بھر کے
اپنے ہاتھوں سے شفا دے
میں کھبی جو رویا کرتا
مجھے دیکھ کر خفا تھی
وہ جو قطرہ تھا سمندر
زرہ پھر سے اک بہا دے
تیرا چہرہ دیکھنے سے
ہوئی بندگی خدا کی
تو جو نظر بھر کے دیکھے
تو خدا سے بھی ملا دے
توصیف کیوں خفا ہو
جنت کی آرزو میں
ارے ماں کے قدم چومو
تجھے جنتی بنا دیں