بلال
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شاکرالقادری صاحب کے اعزاز میں ہونے والی تقریب کی تصاویر دیکھتے اور محفلین کی بات چیت پڑھتے پڑھتے آج میں بہت دور نکل گیا۔ آج کا سارا دن محفل کے نام کر دیا۔ کافی پرانی یادیں تازہ کیں۔ بہت سے لوگ یاد آئے۔ کئی اب رابطہ میں نہیں تو کئی انٹرنیٹ کی دنیا کے کونے کھدروں میں بھی تلاش کے باوجود نہیں مل سکے۔ آج پرانی باتیں پڑھ کر کچھ جذباتی جذباتی سا ہو رہا ہوں۔ آج پورا دن محفل گردی کی تو بڑا کارنامہ لگ رہا ہے مگر وہ وقت یاد آ رہا ہے جب ہمارا اوڑھنا بچھونا ہی محفل ہوا کرتی تھی۔ کام کاج کے ساتھ ساتھ ہر دس منٹ بعد دیکھنا کہ کہیں محفل پر کوئی اپڈیٹ تو نہیں ہوئی۔
تب ایک حساب سے ہم بچے تھے۔ بڑوں نے انگلی پکڑ کر محفل میں داخل کر دیا۔ ہم بالکل بچوں کی طرح لڑتے جھگڑتے، ناراض ہوتے اور پھر راضی کے راضی۔ مجھے ماوراء کے خلاف لکھی وہ پوسٹ یاد آ رہی ہے جو حذف کر دی گئی۔ اس پوسٹ میں، میں نے خوب مخالفت کی۔ مگر دیکھو! وہی ماوراء کل کو ہماری استانی بنی اور بلاگنگ کی الف ب سمجھائی۔ وہ بھی کیا وقت تھا جب زیک، نبیل، جہانزیب، الف عین، دوست، محسن حجازی، شارق مستقیم، ابن سعید، عمار ابن ضیاء اور دیگر کئی احباب کا ہر سُر اردو کمپیوٹنگ و بلاگنگ سے شروع ہوتا اور ہر تان اسی پر ٹوٹتی۔ امجد علوی، شاکرالقادری اور عارف کریم وغیرہ زیادہ تر فانٹ سازی پر باتیں کرتے ہی پائے جاتے۔ فاتح، سخنور (فرخ منظور)، محمد وارث، م۔ م۔ مغل، ایم اے راجہ، خرم شہزاد خرم اور جیہ وغیرہ کی شاعری پر باتیں جو ہمیشہ میرے سر سے گزر جاتیں تھیں مگر پھر بھی پڑھتا۔ غالب کی بھتیجی جیہ تو غالب بابا کا دیوان سینے سے لگائے پوری محفل میں گھومتی۔ م م مغل کے اردو الفاظ اتنے مشکل ہوتے کہ خاص ان کے لئے اردو لغت خریدنی پڑی۔ باجو (تیشہ) سے ڈرنا کہ کہیں انہیں غصہ آ گیا تو پھر ہمیں چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی کیونکہ وہ محفل کی تھانیدارنی تھیں۔ ویسے ان کا پہلا آئی ڈی باجو ہی ہوا کرتا تھا۔ کچھ پرانی باتیں آپ اس ربط پر پڑھ سکتے ہیں۔
فاروق سرور خان پر منکر حدیث ہونے کے فتوے لگتے۔ اف خدایا، اتنی بحث کہ کچھ نہ پوچھیں۔ مہوش علی جب شروع ہوتیں تو کوئی انہیں نہیں روک سکتا تھا۔ موضوع چاہے سیاست ہوتا یا فانٹ سازی، محترمہ بس حوالے دیتے بولتی جاتیں بولتی جاتیں۔ اپنے وکیل بابو شعیب صفدر، سیدہ شگفتہ، سارہ خاں، حجاب، امن ایمان، زینب، تعبیر، پپو، ڈفر، چاند بابو، ابو شامل، تلمیذ، راسخ کشمیری، فیصل عظیم فیصل، الف نظامی، باذوق، محمد سعد اور ہر جگہ پائے جانے والے شمشاد بھائی کی تو کیا ہی باتیں تھیں بلکہ کئی ایک کی تو ابھی بھی ہیں۔ کئی اہم لوگوں کے نام یقیناً بھول رہا ہوں گا اور ان سے معذرت چاہتا ہوں۔ خیر تب گپ شپ کم اور ہر وقت کام کام اور کام ہوتا۔ زیادہ محفلین ”آل ان ون“ تھے۔ جیسے ایک طرف ادیبانہ گفتگو کرتے تو دوسری طرف کمپیوٹنگ کے مسائل پر بھی بات کر رہے ہوتے۔ بڑا زبردست وقت تھا۔ شیر شاہ سوری اور پرانے زمانے میں جیسے ڈاک کا نظام تھا کہ شاہسوار ڈاک لے کر جلدی جلدی ایک پوسٹ پر پہنچتا اور فوراً ڈاک دوسرے تیار شاہسوار کو پکڑاتا ۔ دوسرا اسے لے کر منزل کی جانب دوڑ پڑتا۔ اس طرح سلسلہ وار یہ کام دھراتے ہوئے بہت جلد ڈاک ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی۔ ہمارا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔ بس ادھر ہمیں کوئی نئی بات ملتی تو فوراً محفل پر لگا دیتے۔ سب کو معلومات بانٹنے کی دوڑ سی لگی تھی۔ جس طرح عام زندگی میں کوئی اپنا روٹھ کر جائے تو سب اسے منانے جاتے ہیں ہمارے ساتھ بھی بالکل ویسا تھا۔ اگر کوئی غصہ کر کے محفل چھوڑتا تو سب فوراً سے پہلے اسے منانے پہنچ جاتے اور وہ روٹھا ہوا بندہ مان جاتا۔ دوسروں کے مان دعوے کے آگے سر جھکا دیتا اور فوراً محفل پر حاضر ہو جاتا۔ اور مجھے بہت افسوس ہے کہ زیک کے جانے پر ایسا نہ ہو سکا۔
کوئی ڈاکیا ہوتا جو اردو کے خط لے کر فوراً بڑے اداروں تک پہنچا دیتا۔ ہم میں زیادہ تر لوگ کمانڈو اور جاسوس کی مانند تھے۔ جہاں اردو کے لئے ضرورت پڑتی وہیں ٹرانسفر کر دیئے جاتے۔ فیس بک پر ہمارے اکاؤنٹ تھے مگر تقریباً تمام لوگ ہی نہایت کم فیس بک استعمال کرتے۔ پھر ایک دن اوپر سے آڈر آئے کہ صرف محفل تک محدود نہ رہو بلکہ فیس بک پر اردو کا ”آپریشن“ شروع کرو۔ کمانڈو کے جتھے نے فیس بک پر اردو کا حملہ کر دیا۔ یوں فیس بک پر کئی لوگ اردو لکھنے لگے۔ کچھ کمانڈو ایک وقت میں محفل اور فیس بک دونوں جگہوں پر پائے جاتے مگر کئی جاسوسوں کو صرف فیس بک پر اردو لکھنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ وقت کی تیز دھار کی طرح فیس بک کئی محفلین کو کھا گئی مگر کئی جاسوس آج بھی فیس بک پر دھڑا دھڑ اردو لکھ رہے ہیں۔ میں اپنا بلاگ بنا چکا تھا مگر بلاگ پر بہت کم لکھتا جبکہ زیادہ تر محفل پر موجود ہوتا۔ پھر ایک دن اچانک آڈر آ گئے کہ تمہاری ڈیوٹی بلاگنگ کے میدان میں لگا دی گئی ہے۔ بس جی اپنا بوریا بستر سمیٹا اور بلاگنگ کے کنارے پہنچ گئے۔ آج تک ادھر ہی بسیرا ہے۔ کبھی کبھی ضرورت کے مطابق یا اطلاع دینے ہیڈکواٹر (اردو محفل) پہنچ جاتے ہیں۔
اردومحفل کے اردو کے لئے تیار کردہ کئی کمانڈو اور جاسوس اپنے اپنے مشن پر بہت دور تک نکل چکے ہیں۔کئی ایک کو حالات نے مار دیا اور کئی سالوں سے اپنے اپنے محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ حالات کی ناسازگاری اور وقت کی کمی کی وجہ سے بمشکل اپنے فریضے ادا کر رہے ہیں۔ اس لئے اکثر اوقات ہیڈکواٹر پہنچ نہیں پاتے مگر انہیں آج بھی اپنا گھر، اپنی اردو محفل یاد آتی ہے۔ وہ سب آج بھی محفلین ہیں اور میں آپ سب سے بس اتنی گذارش کرتا ہوں کہ اے محفلین! انہیں بھول نہ جانا، اگر کبھی وہ اردو کا مشن مکمل کر کے وطن لوٹے تو انہیں پہچان لینا اور جن کو حالات نے مار دیا ہے ان کے کام کو یاد رکھنا۔
آج محفل کی رونقیں دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ اردو محفل اس سے بھی زیادہ ترقی کرے۔۔۔آمین
شاکرالقادری صاحب کے اعزاز میں ہونے والی تقریب کی تصاویر دیکھتے اور محفلین کی بات چیت پڑھتے پڑھتے آج میں بہت دور نکل گیا۔ آج کا سارا دن محفل کے نام کر دیا۔ کافی پرانی یادیں تازہ کیں۔ بہت سے لوگ یاد آئے۔ کئی اب رابطہ میں نہیں تو کئی انٹرنیٹ کی دنیا کے کونے کھدروں میں بھی تلاش کے باوجود نہیں مل سکے۔ آج پرانی باتیں پڑھ کر کچھ جذباتی جذباتی سا ہو رہا ہوں۔ آج پورا دن محفل گردی کی تو بڑا کارنامہ لگ رہا ہے مگر وہ وقت یاد آ رہا ہے جب ہمارا اوڑھنا بچھونا ہی محفل ہوا کرتی تھی۔ کام کاج کے ساتھ ساتھ ہر دس منٹ بعد دیکھنا کہ کہیں محفل پر کوئی اپڈیٹ تو نہیں ہوئی۔
تب ایک حساب سے ہم بچے تھے۔ بڑوں نے انگلی پکڑ کر محفل میں داخل کر دیا۔ ہم بالکل بچوں کی طرح لڑتے جھگڑتے، ناراض ہوتے اور پھر راضی کے راضی۔ مجھے ماوراء کے خلاف لکھی وہ پوسٹ یاد آ رہی ہے جو حذف کر دی گئی۔ اس پوسٹ میں، میں نے خوب مخالفت کی۔ مگر دیکھو! وہی ماوراء کل کو ہماری استانی بنی اور بلاگنگ کی الف ب سمجھائی۔ وہ بھی کیا وقت تھا جب زیک، نبیل، جہانزیب، الف عین، دوست، محسن حجازی، شارق مستقیم، ابن سعید، عمار ابن ضیاء اور دیگر کئی احباب کا ہر سُر اردو کمپیوٹنگ و بلاگنگ سے شروع ہوتا اور ہر تان اسی پر ٹوٹتی۔ امجد علوی، شاکرالقادری اور عارف کریم وغیرہ زیادہ تر فانٹ سازی پر باتیں کرتے ہی پائے جاتے۔ فاتح، سخنور (فرخ منظور)، محمد وارث، م۔ م۔ مغل، ایم اے راجہ، خرم شہزاد خرم اور جیہ وغیرہ کی شاعری پر باتیں جو ہمیشہ میرے سر سے گزر جاتیں تھیں مگر پھر بھی پڑھتا۔ غالب کی بھتیجی جیہ تو غالب بابا کا دیوان سینے سے لگائے پوری محفل میں گھومتی۔ م م مغل کے اردو الفاظ اتنے مشکل ہوتے کہ خاص ان کے لئے اردو لغت خریدنی پڑی۔ باجو (تیشہ) سے ڈرنا کہ کہیں انہیں غصہ آ گیا تو پھر ہمیں چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی کیونکہ وہ محفل کی تھانیدارنی تھیں۔ ویسے ان کا پہلا آئی ڈی باجو ہی ہوا کرتا تھا۔ کچھ پرانی باتیں آپ اس ربط پر پڑھ سکتے ہیں۔
فاروق سرور خان پر منکر حدیث ہونے کے فتوے لگتے۔ اف خدایا، اتنی بحث کہ کچھ نہ پوچھیں۔ مہوش علی جب شروع ہوتیں تو کوئی انہیں نہیں روک سکتا تھا۔ موضوع چاہے سیاست ہوتا یا فانٹ سازی، محترمہ بس حوالے دیتے بولتی جاتیں بولتی جاتیں۔ اپنے وکیل بابو شعیب صفدر، سیدہ شگفتہ، سارہ خاں، حجاب، امن ایمان، زینب، تعبیر، پپو، ڈفر، چاند بابو، ابو شامل، تلمیذ، راسخ کشمیری، فیصل عظیم فیصل، الف نظامی، باذوق، محمد سعد اور ہر جگہ پائے جانے والے شمشاد بھائی کی تو کیا ہی باتیں تھیں بلکہ کئی ایک کی تو ابھی بھی ہیں۔ کئی اہم لوگوں کے نام یقیناً بھول رہا ہوں گا اور ان سے معذرت چاہتا ہوں۔ خیر تب گپ شپ کم اور ہر وقت کام کام اور کام ہوتا۔ زیادہ محفلین ”آل ان ون“ تھے۔ جیسے ایک طرف ادیبانہ گفتگو کرتے تو دوسری طرف کمپیوٹنگ کے مسائل پر بھی بات کر رہے ہوتے۔ بڑا زبردست وقت تھا۔ شیر شاہ سوری اور پرانے زمانے میں جیسے ڈاک کا نظام تھا کہ شاہسوار ڈاک لے کر جلدی جلدی ایک پوسٹ پر پہنچتا اور فوراً ڈاک دوسرے تیار شاہسوار کو پکڑاتا ۔ دوسرا اسے لے کر منزل کی جانب دوڑ پڑتا۔ اس طرح سلسلہ وار یہ کام دھراتے ہوئے بہت جلد ڈاک ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی۔ ہمارا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔ بس ادھر ہمیں کوئی نئی بات ملتی تو فوراً محفل پر لگا دیتے۔ سب کو معلومات بانٹنے کی دوڑ سی لگی تھی۔ جس طرح عام زندگی میں کوئی اپنا روٹھ کر جائے تو سب اسے منانے جاتے ہیں ہمارے ساتھ بھی بالکل ویسا تھا۔ اگر کوئی غصہ کر کے محفل چھوڑتا تو سب فوراً سے پہلے اسے منانے پہنچ جاتے اور وہ روٹھا ہوا بندہ مان جاتا۔ دوسروں کے مان دعوے کے آگے سر جھکا دیتا اور فوراً محفل پر حاضر ہو جاتا۔ اور مجھے بہت افسوس ہے کہ زیک کے جانے پر ایسا نہ ہو سکا۔
کوئی ڈاکیا ہوتا جو اردو کے خط لے کر فوراً بڑے اداروں تک پہنچا دیتا۔ ہم میں زیادہ تر لوگ کمانڈو اور جاسوس کی مانند تھے۔ جہاں اردو کے لئے ضرورت پڑتی وہیں ٹرانسفر کر دیئے جاتے۔ فیس بک پر ہمارے اکاؤنٹ تھے مگر تقریباً تمام لوگ ہی نہایت کم فیس بک استعمال کرتے۔ پھر ایک دن اوپر سے آڈر آئے کہ صرف محفل تک محدود نہ رہو بلکہ فیس بک پر اردو کا ”آپریشن“ شروع کرو۔ کمانڈو کے جتھے نے فیس بک پر اردو کا حملہ کر دیا۔ یوں فیس بک پر کئی لوگ اردو لکھنے لگے۔ کچھ کمانڈو ایک وقت میں محفل اور فیس بک دونوں جگہوں پر پائے جاتے مگر کئی جاسوسوں کو صرف فیس بک پر اردو لکھنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ وقت کی تیز دھار کی طرح فیس بک کئی محفلین کو کھا گئی مگر کئی جاسوس آج بھی فیس بک پر دھڑا دھڑ اردو لکھ رہے ہیں۔ میں اپنا بلاگ بنا چکا تھا مگر بلاگ پر بہت کم لکھتا جبکہ زیادہ تر محفل پر موجود ہوتا۔ پھر ایک دن اچانک آڈر آ گئے کہ تمہاری ڈیوٹی بلاگنگ کے میدان میں لگا دی گئی ہے۔ بس جی اپنا بوریا بستر سمیٹا اور بلاگنگ کے کنارے پہنچ گئے۔ آج تک ادھر ہی بسیرا ہے۔ کبھی کبھی ضرورت کے مطابق یا اطلاع دینے ہیڈکواٹر (اردو محفل) پہنچ جاتے ہیں۔
اردومحفل کے اردو کے لئے تیار کردہ کئی کمانڈو اور جاسوس اپنے اپنے مشن پر بہت دور تک نکل چکے ہیں۔کئی ایک کو حالات نے مار دیا اور کئی سالوں سے اپنے اپنے محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ حالات کی ناسازگاری اور وقت کی کمی کی وجہ سے بمشکل اپنے فریضے ادا کر رہے ہیں۔ اس لئے اکثر اوقات ہیڈکواٹر پہنچ نہیں پاتے مگر انہیں آج بھی اپنا گھر، اپنی اردو محفل یاد آتی ہے۔ وہ سب آج بھی محفلین ہیں اور میں آپ سب سے بس اتنی گذارش کرتا ہوں کہ اے محفلین! انہیں بھول نہ جانا، اگر کبھی وہ اردو کا مشن مکمل کر کے وطن لوٹے تو انہیں پہچان لینا اور جن کو حالات نے مار دیا ہے ان کے کام کو یاد رکھنا۔
آج محفل کی رونقیں دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ اردو محفل اس سے بھی زیادہ ترقی کرے۔۔۔آمین