فرحت کیانی
لائبریرین
اے موت! تمہیں بلائے زمانے گزر گئے
آ جا کہ زہر کھائے زمانے گزر گئے
او جانے والے آ کہ ترے انتظار میں
رستے کو گھر بنائے زمانے گزر گئے
غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس
سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے
کیا لائقِ ستم بھی نہیں اب میں دوستو!
پتھر بھی گھر میں آئے زمانے گزر گئے
جانِ بہار! پھول نہیں آدمی ہوں میں
آ جا کہ مسکرائے زمانے گزر گئے
کیا کیا توقعات تھیں آہوں سے اے خمار!
یہ تیر بھی چلائے زمانے گزر گئے
خمار بارہ بنکوی
آ جا کہ زہر کھائے زمانے گزر گئے
او جانے والے آ کہ ترے انتظار میں
رستے کو گھر بنائے زمانے گزر گئے
غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس
سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے
کیا لائقِ ستم بھی نہیں اب میں دوستو!
پتھر بھی گھر میں آئے زمانے گزر گئے
جانِ بہار! پھول نہیں آدمی ہوں میں
آ جا کہ مسکرائے زمانے گزر گئے
کیا کیا توقعات تھیں آہوں سے اے خمار!
یہ تیر بھی چلائے زمانے گزر گئے
خمار بارہ بنکوی