خمار بارہ بنکوی اے موت تمہیں بُلائے زمانے گزر گئے۔۔۔ خمار بارہ بنکوی

فرحت کیانی

لائبریرین
اے موت! تمہیں بلائے زمانے گزر گئے
آ جا کہ زہر کھائے زمانے گزر گئے

او جانے والے آ کہ ترے انتظار میں
رستے کو گھر بنائے زمانے گزر گئے

غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس
سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے

کیا لائقِ ستم بھی نہیں اب میں دوستو!
پتھر بھی گھر میں آئے زمانے گزر گئے

جانِ بہار! پھول نہیں آدمی ہوں میں
آ جا کہ مسکرائے زمانے گزر گئے

کیا کیا توقعات تھیں آہوں سے اے خمار!
یہ تیر بھی چلائے زمانے گزر گئے


خمار بارہ بنکوی
 

امر شہزاد

محفلین
کیا لائقِ ستم بھی نہیں اب میں دوستو!
پتھر بھی گھر میں آئے زمانے گزر گئے


بہت عمدہ شعر ہے

ایسی اچھی غزل شئیر کرنے کا شکریہ
 
جانِ بہار! پھول نہیں آدمی ہوں میں
آ جا کہ مسکرائے زمانے گزر گئے​
کیا بات ہے جی۔۔۔ بہت شکریہ فرحت یہ غزل شیئر کرنے کا۔
 

فاتح

لائبریرین
خمار بارہ بنکوی مشاعرے میں یہی غزل پڑھتے ہوئے:
خمار صاحب کی زبان سے مطلع کا مصرع اولیٰ یوں ادا ہوا ہے:
اے موت! "اُنہیں بھلائے" زمانے گزر گئے​
جب کہ ان کی کتاب "آہنگ خمار" میں یوں درج ہے:
اے موت! "تمہیں بھلائے" زمانے گزر گئے​
میری رائے میں "تمہیں بھلائے" کتابت کی غلطی کی وجہ سے ہے کیونکہ معنوی اور عروضی دونوں طرح ہی "تمہیں" کا محل نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بالکل بجا کہا ہے فاتح صاحب، پہلا مصرع بغیر الفِ وصل کو ساقط کیے وزن میں نہیں آتا، اور یہ صرف 'انہیں' سے ممکن ہے، تمھیں سے بے وزن ہو جائے گا۔

شاعر اس فرق کو جانتا تھا، افسوس کہ کاتب نہیں :)
 

فاتح

لائبریرین
جی وارث صاحب! بولعجبئ کاتبان پر ایک تفصیلی اور دلچسپ مضمون پڑھا تھا۔ اگر کہیں‌سے ملا تو اسے بھی شاملِ محفل کرتا ہوں۔
 
Top