کاشفی
محفلین
من كنت مولاه فهذا علي مولاه
اے مُرتضیٰ!
(جوش ملیح آبادی)
اے مُرتضیٰ! مدینہ ءعلم خدا کے باب،
اسرارِ حق ہیں، تیری نگاہوں پہ بے نقاب
اے تیری چشمِ فیض سے اسلام کامیاب
ہر سانس ہے مکارمِ اخلاق کا شباب
نقشِ سجود میں ، وہ تیرے سوز و ساز ہے
فرشِ حرم کو، جس کی تجلّی پہ ناز ہے
اے نورسرمدی سے ، درخشاں ترا چراغ
مہکے ہوئے ہیں، تیرے نفس سے دلوں کے باغ
حاصل ہے ماسویٰ سے تجھے کس قدر فراغ
تو معرفت کا دل ہے، تو حکمت کا ہے دماغ
تیرے حضور دفتر قدرت لیئے ہوئے
قدسی کھڑے ہیں، شمع امامت لیئے ہوئے
آئینِ رَزم و بزم کی ہے تجھ سے آبرو
ہر بات برمحل ہے، مناسب ہر ایک خو
سختی کہیں رَجز کی، کہیں نرم گفتگو
برسا رہا ہے پھول کہیں، اور کہیں لہو
لوحِ ادب پہ کلک، نسیم بہار ہے
میدان میں جھلکتی ہوئی ذوالفقار ہے
اے تیری شان، قلعہء خیبر سے آشکار
رحلت کی شب رسول کے بستر سے آشکار
خونِ گلوئے مرحب و عنتر سے آشکار
گردوں پہ، جبرئیل کے شہپر سے آشکار
چرچا یہاں بھی، تیغ کا تیری، وہاں بھی ہے
رطب اللسان زمیں ہی نہیں، آسماں بھی ہے
اے مرتضیٰ! امامِ زمان، شیر کردگار
عرفاں کی سلطنت میں نہیں تجھ سا تاجدار
تیری ادائے حرب کا اللہ رے وِقار
اک ضرب پر، عبادتِ ثقلین ہو نثار!
تو خندہ زَن ہے فتنہء بدرو حنین پر
پیغمبری کو ناز ہے تیرے حسین پر
اے تیری فکر، روح دوعالم سے ہمکلام
اے تیری ذات، قوت پیغمبرِ انام
اے فلسفی پاک دل، اے اولیں امام
تیرے قدم کا دوش نبوت پہ ہے مقام
اُڑتا ہے تجھ کو دیکھ کے رنگ آفتاب کا
روشن ہے تجھ سے طُور رسالت مآب کا
خطروں سے ہوسکا نہ کبھی دل میں تو ملول
کانٹوں کو تیرے عزم نے سمجھا ہمیشہ پھول
ہجرت کی شب ملا جو تجھے بستر رسول
کیا نفس مطمئن تھا کہ ہنس کر کیا قبول
ایمائے ایزدی کی ادا بھاگئی تجھے
پُر ہَول خواب گاہ میں نیند آگئی تجھے
اے جوش دیکھ سیرتِ مولائے شیخ وشاب
ہر فعل بے نظیر ہے، ہر قول لاجواب
یاں جُنبشِ نظر سے ہے گردش میں آفتاب
سُن گوشِ حق نیوش سے اک قول بوتراب
یہ قول ہے کلید درِ کائنات کی
یعنی اجل ہے خود ہی محافظ حیات کی
دنیا کنیز اُس کی ہے، سمجھایہ جس نے راز
کس نیند میں ہے اُمت شاہنشہہِ حجاز؟
ٹھنڈی پڑی ہے روح میں کیوں آتش ِ گداز؟
کیوں مضمحل ہے دل میں شجاعت کا سوزو ساز؟
جب مرگ، زندگی کی حفاظت کا نام ہے
اے اہلِ دہر! موت سے ڈرنا حرام ہے!