یہ راوی کے پاؤچ چھِنے جانے سے پہلے کا واقعہ ہے۔دو دن کے وقفے سے اپنے بینک کی ہی ایک قریبی برانچ سے اے ٹی ایم کے ذریعے مبلغ دس ہزار اور پندرہ ہزار روپے نکلوائے۔ ایک مرتبہ سات ہزار روپے یک مشت خرچ ہوئے اور دوسری بار بجلی کا بل دینے گئے تو وصول کرنے والے نے ایک ایک ہزار کے سولہ نوٹ لے کے ہمارے سامنے چیک کئے اور ایک نوٹ کو جعلی قرار دے دیا۔ ہمیں بھی اُس کی نشانی بتائی۔ ( مجھے تو اب بھی سمجھ نہیں آئے گی
)اُسے ہم نے دوسرا نوٹ دیا اور اُسی برانچ میں واپس گئے اور بینک مینیجر سے ملے۔ میں نے اُسے نوٹ دکھایا اور تفصیل بتائی۔ اُس کا کہنا تھا کہ آپ فوراََ بتاتیں۔ جواب دیا کہ ہمیں اب خواب آیا تھا کہ جعلی نوٹ بھی مشین سے نکل سکتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ مشینیں کئی بار نوٹ چیک کرتی ہیں اور ویسے بھی رقم مین برانچ سے آتی ہے۔ میں نے کہا کہ میری نیت کلیم کرنے کی نہیں ہے۔ میں تو صرف آپ کو رپورٹ کرنا چاہ رہی ہوں۔ اور یہ کہ مشینیں بھی کبھی دھوکا دے سکتی ہیں۔ اس بات پہ اُس نے ذرا سکون کا سانس لیا اور میری ہاں میں ہاں ملائی کہ واقعی مشینیں بھی دھوکا دے سکتی ہیں۔ بقول اُس کے نوٹ گننے والی مشین نے کئی بار غلطی کی ہے اس لئے وہ لوگ اب مشین سے نوٹ نہیں گنوا رہے۔ اس نے اپنے رجسٹر پہ نوٹ کر لیا اور ہم آگئے۔
پھر مجھے خیال آیا کہ مین برانچ جہاں میرا اکاؤنٹ بھی ہے وہاں بھی رپورٹ کروں۔ کچھ دن بعد میں نے وہاں کے مینیجر کو بھی اِس واقعہ کی رپورٹ کی اور اس نے کہا کہ وہ لوگ متعلقہ برانچ میں کئی بار اچانک جا کر اے ٹی ایم سے سب رقم نکلوا کر چیک کریں گے۔
نوٹ میں نے پھاڑ کے اپنے بچوں کو دکھانے کے لئے رکھا ہؤا تھا۔ بعد ازاں ردی کی ٹوکری کی نظر ہؤا۔