منصور احمد
محفلین
نیئر سرحدی ایک کمال کے لکھاری اور کالم نگار ہیں۔۔۔ اردو ادب میں ان کا نام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں
خوش قسمتی سے یہ میرے استاد اور میں ان ہی کی ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا ہوں۔۔۔۔۔
ان کا کالم اے ٹی ایم مشین حاضر خدمت ہے
خوش قسمتی سے یہ میرے استاد اور میں ان ہی کی ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا ہوں۔۔۔۔۔
ان کا کالم اے ٹی ایم مشین حاضر خدمت ہے
میں اے ٹی ایم مشین ہوں!
نیئر سرحدی
پورا سچ
اُس روز اپنے ایک دیرینہ دوست سے اچانک ملاقات ہو گئی، زلفیں پریشاں، چہرے پر اُداسی سانس پھولی ہوئی۔۔ موصوف گلی کے نُکڑ پر کھڑے ملے۔۔ ہم نے کہا۔۔۔ یار! کیا بات ہے، آپ تو ہمیشہ ہشاش بشاش نظر آیا کرتے تھے۔۔۔ یہ ہنستے مسکراتے چہرے کو آخر کس کی نظر بد لگی ہے۔۔ ہمارا یہ کہنا ہی تھا کہ موصوف آبدیدہ ہو گئے اور کہنے لگے میاں کیا پوچھتے ہو ’’ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ گھر کے چراغ ہی اگر انسان کو روشنی دینے کی بجائے جلانے لگیں تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے، دوست کی یہ بات سُن کر ہمیں ظہیر کاشمیری کی ایک مرُصع غزل کا شعر یاد آیا کہ
برق زمانہ دُور تھی لیکن مشعل خانہ دُور نہ تھی
ہم تو ظہیر اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے
ہم نے پھر سوال کیا۔۔ ارے صاحب! کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ ہمارا یار کن مسائل سے دوچار اور کس اضطراب میں مبتلا ہے۔۔ ہمارا دوست کہنے لگا۔۔ بھئی! یوں سمجھو۔۔ ہم اے ٹی ایم مشین بن کر رہ گئے ہیں، ہم نے کہا بھئی! ہم سمجھے نہیں۔۔ آپ اور اے ٹی ایم مشین۔۔ کہنے لگے ہاں! اے ٹی ایم مشین جو ہر بنک سے منسلک رہتی ہے، بنک سے باہر ہر وہ شخص اسے استعمال کرتا ہے جس کااُس بنک میں اکاؤنٹ ہوتا ہے اور جسکے پاس اے ٹی ایم کارڈ ہوتا ہے اور اگر خُدانخواستہ کسی دن اے ٹی ایم مشین خراب ہو جائے تو وہ صارفین جو اسے استعمال کرتے ہیں اسے بُرا بھلا اورگالم گلوچ دے کر واپس لوٹ جاتے ہیں،کبھی یہ نہیں سوچتے کہ یہ اے ٹی ایم مشین دن بھر نجانے کتنے لوگوں کے استعمال میں رہتی ہے۔۔ آخر مشین ہے۔۔ خراب بھی ہو سکتی ہے۔۔ لیکن کسی کو اس بے جان مشین سے کیا سروکار۔۔۔ سب کے سب محض اپنی غرض پوری کرکے اسے یونہی تنہا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔۔۔ بس نیئر صاحب! یوں سمجھ لیجئے کہ ہم بھی اے ٹی ایم مشین بن کر رہ گئے ہیں۔۔ ہماری قدروقیمت اُس اے ٹی میشن سے زیادہ نہیں رہی۔۔۔ اور ہم ایک ایسی اے ٹی ایم مشین ہیں جس کا کارڈ تو صرف اور صرف ہماری بیگم کے قبضہ میں رہتا ہے مگر اسکے کوڈ سے بیوی کے ساتھ ساتھ ہمارے تمام بچے بھی واقف ہیں بلکہ سب نے یہ کوڈ یاد کر رکھا ہے، بیوی کو میری ضروریات اور میری خیریت دریافت کرنا تو بھول سکتا ہے۔۔ اس اے ٹی ایم کارڈ کا کوڈ نہیں بھول سکتا، اسی طرح بچے اپنے نصابی اسباق تو بھول سکتے ہیں، اے ٹی ایم کا کوڈ نہیں بُھلا سکتے۔۔ بس ہر صبح کاآغاز میری بیگم میری جیب پر ہاتھ صاف کرنے سے ہی کرتی ہیں۔۔۔ اسی طرح دن بھر بیگم اور بچوں کی نت نئی فرمائشوں کیلئے مجھے ہی نچوڑا جاتا ہے۔۔۔ میں مروں یا جیؤں۔۔۔ میر ی صحت اچھی ہو یا خراب۔۔ مجھے کوئی ٹینشن ہو یا کوئی اور گھمبیر مسئلہ در پیش ہو۔۔۔ اس سے میری بیوی اور بچوں کو کیا سروکار۔۔۔ اُنہیں تو مجھ سے صرف اور صرف اتنی سی غرض ہے کہ وہ مجھ سے دھن دولت حاصل کر سکیں۔۔ نیئر صاحب! پچھلے کئی دنوں سے میں علیل ہوں، نجانے کس عارضہ میں مبتلا ہوں۔۔ نہ کام کاج کرنے کو جی کرتا ہے۔۔۔ نہ ہی کسی سے بات چیت کرنے کومن کرتا ہے۔۔ ۔نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس۔۔۔ بس دل چاہتا ہے ۔۔ کسی کونے کھدرے میں پڑارہوں۔۔۔ پیسوں کی بھی تنگی ہے۔۔۔ میری یہ حالت دیکھ کر بیوی بچوں نے بھی مجھ سے ناتہ توڑ دیا ہے۔۔ کوئی بھی قریب نہیں آتا۔۔۔ بلکہ دُور سے نفرت بھری نظروں کے ساتھ گُھور کر چلا جاتا ہے اور میں دل ہی دل میں محسوس کرتا ہوں کہ میری حالت اُس اے ٹی ایم مشین کی سی ہو گئی ہے جسے خراب حالت میں دیکھ کر اُسے استعمال کرنے والا ہر شخص بُری نظر سے دیکھتا ہے بلکہ دل ہی دل میں دو چار گالیاں بک کر رُخصت ہوتا ہے۔۔۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اسی خراب حالت میں دنیا سے رُخصت ہو جاؤں کیونکہ اب میرا کوئی مصرف باقی نہیں رہا اور کبھی کبھی غیرت جاگ اُٹھتی ہے کہ میاں۔۔۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ بندہ گمنامی میں اس جہان سے گذر جائے۔۔ ایک بار پھر اُٹھنے کو جی کرتا ہے مگردھن رہاہے نہ دولت۔۔ وہ سب تو بیوی بچے ڈکار گئے۔۔۔ تہی دامن اور تہی دست ہوں۔۔ کیا میری زندگی کا صرف یہی مقصد ہے کہ میں بیوی بچوں کیلئے دھن دولت کماتا رہوں، جائز و ناجائز ہر طریقہ سے رقم اکٹھی کروں اور پھر میرے بچے اور میری بیوی اُسے اپنی عیاشیوں اور اللوّں تللوّں میں اُڑا دیں۔۔۔ہم نے اپنے دوست کی بپتا سُن کر اُسے تسلی دی اور دلاسہ دینے کے بعد کہا کہ میاں! اب بھی کچھ نہیں بگڑا اب بھی تُم سنبھل سکتے ہو مگر اسکے لئے ایک شرط ہے کہ اب کی بار تُم اپنے آپ کو اے ٹی ایم مشین نہیں بننے دو گے۔۔ نہ ہی اپنی بیوی اور بچوں کو ایسا کارڈ دو گے جو صرف دھن دولت کے حصول کیلئے استعمال ہو سکے۔۔ اب تُم اپنے بچوں اور بیوی کو جو کارڈ دو گے۔۔ غور سے سُنو اُس کارڈ کا کوڈ’’ لا الہ الا ﷲ محمدؐ الرسول اﷲ‘‘ یعنی کلمہ طیبہ ہو۔۔ تاکہ اس کوڈ کے کُھلنے کے بعد تمہاری بیوی اور بچوں کے سامنے صراط مستقیم ہو۔۔۔نماز پنجگانہ کی ادائیگی ہو، قرآن مجید فرقان حمید کی بلاناغہ تلاوت ہو۔۔۔ خیرات وصدقات دینے کی تمنا ہو، اُن میں فریضہ حج اور زکوۃ کی ادائیگی کا عزم صمیم پیدا ہو۔۔۔ تمہاری بیوی اور بچوں کو قناعت کی دولت حاصل ہو، صبر و استقلال، ایثار و قربانی، امن واخوت اور پیار و اخلاص کے لازوال جذبوں سے سرشار ہوں۔۔ بس اُتنا ہی کماؤ جس سے تمہاری جائز ضرورتیں پوری ہو سکیں، رزق حلال کی جستجو کرو۔۔ حرام کے لُقمے سے خود کو اور اپنے کُنبہ کے ہر فرد کو دور رکھو۔۔ اپنے اہل خانہ کو ایک ایسا صاف ستھرا، پاکیزہ، اسلامی اور فلاحی ماحول مہیا کرو کہ وہ تمہاری شخصیت اور تمہاری روح سے پیار کریں نہ کہ اُن کی نظر تمہاری دولت اور جائیداد پر ہو۔۔ ہمارا بھاشن سُن کر ہمارا دوست کچھ مطمئن نظر آیا۔۔۔ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔ کہنے لگا۔۔ یار نیئر! آپ نے تو ہمارا مسئلہ ہی حل کر دیا۔۔۔ میں نے تو خود کو اے ٹی ایم بنا کر رکھ دیا تھا۔۔ اب میں ایک ایسی اے ٹی ایم مشین بنوں گا جسے اب بھی میری بیوی اور بچے ہی استعمال کریں گے، اے ٹی ایم کارڈ اب بھی میری بیوی کے ہی پاس رہے گا اور کوڈ اب بھی بیوی بچوں کو ازبر رہے گا، مگر اب کے کوڈ کھلتے ہی اس اے ٹی ایم مشین سے کرنسی نوٹ نہیں بلکہ ایسے نوٹ برآمد ہونگے جن پر قرآنی آیات کندہ ہونگی ایسے نوٹس ہونگے جو میری بیوی اور بچوں کا مقدر بدل دیں گے،اُن کی اصلاح کریں گے اور جو دین کے راستہ پر چلنے کا درس عظیم عطا کریں گے، جو پیار اور محبت، اخلاص اور ہمدردی امن اور اخوت اور ایثارو قربانی کے لازوال جذبوں سے اُنہیں سرشار کریں گے۔۔ اب کے میں ایک ایسی اے ٹی ایم مشین بنوں گا جو اگر کسی بھی وقت خراب ہو گی تو میری بیوی اور میرے بچے اُسے ٹھیک کرنے کی انتھک جدوجہد کریں گے، کیونکہ اب اُنہیں میری صحت، میری شفقت اور میری محبت کی ضرورت ہو گی نہ کہ دھن دولت کی، اب وہ روپے پیسے سے نہیں ۔۔ انسانیت اور آدمیت سے پیار کریں گے۔۔ کاش کہ لوگ خود کو ایسی اے ٹی ایم مشین بنانے سے گریزکریں جس میں وہ حرام کا کمایا ڈال تو دیتے ہیں لیکن وہ مال دوسرے اُڑاتے ہیں اور جب یہ مال ختم ہو جاتا ہے تو پھر بیوی بچوں کے لئے اُنکی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔۔۔ایک ناکارہ اور خراب اے ٹی ایم مشین کی طرح۔۔
نیئر سرحدی
پورا سچ
اُس روز اپنے ایک دیرینہ دوست سے اچانک ملاقات ہو گئی، زلفیں پریشاں، چہرے پر اُداسی سانس پھولی ہوئی۔۔ موصوف گلی کے نُکڑ پر کھڑے ملے۔۔ ہم نے کہا۔۔۔ یار! کیا بات ہے، آپ تو ہمیشہ ہشاش بشاش نظر آیا کرتے تھے۔۔۔ یہ ہنستے مسکراتے چہرے کو آخر کس کی نظر بد لگی ہے۔۔ ہمارا یہ کہنا ہی تھا کہ موصوف آبدیدہ ہو گئے اور کہنے لگے میاں کیا پوچھتے ہو ’’ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ گھر کے چراغ ہی اگر انسان کو روشنی دینے کی بجائے جلانے لگیں تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے، دوست کی یہ بات سُن کر ہمیں ظہیر کاشمیری کی ایک مرُصع غزل کا شعر یاد آیا کہ
برق زمانہ دُور تھی لیکن مشعل خانہ دُور نہ تھی
ہم تو ظہیر اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے
ہم نے پھر سوال کیا۔۔ ارے صاحب! کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ ہمارا یار کن مسائل سے دوچار اور کس اضطراب میں مبتلا ہے۔۔ ہمارا دوست کہنے لگا۔۔ بھئی! یوں سمجھو۔۔ ہم اے ٹی ایم مشین بن کر رہ گئے ہیں، ہم نے کہا بھئی! ہم سمجھے نہیں۔۔ آپ اور اے ٹی ایم مشین۔۔ کہنے لگے ہاں! اے ٹی ایم مشین جو ہر بنک سے منسلک رہتی ہے، بنک سے باہر ہر وہ شخص اسے استعمال کرتا ہے جس کااُس بنک میں اکاؤنٹ ہوتا ہے اور جسکے پاس اے ٹی ایم کارڈ ہوتا ہے اور اگر خُدانخواستہ کسی دن اے ٹی ایم مشین خراب ہو جائے تو وہ صارفین جو اسے استعمال کرتے ہیں اسے بُرا بھلا اورگالم گلوچ دے کر واپس لوٹ جاتے ہیں،کبھی یہ نہیں سوچتے کہ یہ اے ٹی ایم مشین دن بھر نجانے کتنے لوگوں کے استعمال میں رہتی ہے۔۔ آخر مشین ہے۔۔ خراب بھی ہو سکتی ہے۔۔ لیکن کسی کو اس بے جان مشین سے کیا سروکار۔۔۔ سب کے سب محض اپنی غرض پوری کرکے اسے یونہی تنہا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔۔۔ بس نیئر صاحب! یوں سمجھ لیجئے کہ ہم بھی اے ٹی ایم مشین بن کر رہ گئے ہیں۔۔ ہماری قدروقیمت اُس اے ٹی میشن سے زیادہ نہیں رہی۔۔۔ اور ہم ایک ایسی اے ٹی ایم مشین ہیں جس کا کارڈ تو صرف اور صرف ہماری بیگم کے قبضہ میں رہتا ہے مگر اسکے کوڈ سے بیوی کے ساتھ ساتھ ہمارے تمام بچے بھی واقف ہیں بلکہ سب نے یہ کوڈ یاد کر رکھا ہے، بیوی کو میری ضروریات اور میری خیریت دریافت کرنا تو بھول سکتا ہے۔۔ اس اے ٹی ایم کارڈ کا کوڈ نہیں بھول سکتا، اسی طرح بچے اپنے نصابی اسباق تو بھول سکتے ہیں، اے ٹی ایم کا کوڈ نہیں بُھلا سکتے۔۔ بس ہر صبح کاآغاز میری بیگم میری جیب پر ہاتھ صاف کرنے سے ہی کرتی ہیں۔۔۔ اسی طرح دن بھر بیگم اور بچوں کی نت نئی فرمائشوں کیلئے مجھے ہی نچوڑا جاتا ہے۔۔۔ میں مروں یا جیؤں۔۔۔ میر ی صحت اچھی ہو یا خراب۔۔ مجھے کوئی ٹینشن ہو یا کوئی اور گھمبیر مسئلہ در پیش ہو۔۔۔ اس سے میری بیوی اور بچوں کو کیا سروکار۔۔۔ اُنہیں تو مجھ سے صرف اور صرف اتنی سی غرض ہے کہ وہ مجھ سے دھن دولت حاصل کر سکیں۔۔ نیئر صاحب! پچھلے کئی دنوں سے میں علیل ہوں، نجانے کس عارضہ میں مبتلا ہوں۔۔ نہ کام کاج کرنے کو جی کرتا ہے۔۔۔ نہ ہی کسی سے بات چیت کرنے کومن کرتا ہے۔۔ ۔نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس۔۔۔ بس دل چاہتا ہے ۔۔ کسی کونے کھدرے میں پڑارہوں۔۔۔ پیسوں کی بھی تنگی ہے۔۔۔ میری یہ حالت دیکھ کر بیوی بچوں نے بھی مجھ سے ناتہ توڑ دیا ہے۔۔ کوئی بھی قریب نہیں آتا۔۔۔ بلکہ دُور سے نفرت بھری نظروں کے ساتھ گُھور کر چلا جاتا ہے اور میں دل ہی دل میں محسوس کرتا ہوں کہ میری حالت اُس اے ٹی ایم مشین کی سی ہو گئی ہے جسے خراب حالت میں دیکھ کر اُسے استعمال کرنے والا ہر شخص بُری نظر سے دیکھتا ہے بلکہ دل ہی دل میں دو چار گالیاں بک کر رُخصت ہوتا ہے۔۔۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اسی خراب حالت میں دنیا سے رُخصت ہو جاؤں کیونکہ اب میرا کوئی مصرف باقی نہیں رہا اور کبھی کبھی غیرت جاگ اُٹھتی ہے کہ میاں۔۔۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ بندہ گمنامی میں اس جہان سے گذر جائے۔۔ ایک بار پھر اُٹھنے کو جی کرتا ہے مگردھن رہاہے نہ دولت۔۔ وہ سب تو بیوی بچے ڈکار گئے۔۔۔ تہی دامن اور تہی دست ہوں۔۔ کیا میری زندگی کا صرف یہی مقصد ہے کہ میں بیوی بچوں کیلئے دھن دولت کماتا رہوں، جائز و ناجائز ہر طریقہ سے رقم اکٹھی کروں اور پھر میرے بچے اور میری بیوی اُسے اپنی عیاشیوں اور اللوّں تللوّں میں اُڑا دیں۔۔۔ہم نے اپنے دوست کی بپتا سُن کر اُسے تسلی دی اور دلاسہ دینے کے بعد کہا کہ میاں! اب بھی کچھ نہیں بگڑا اب بھی تُم سنبھل سکتے ہو مگر اسکے لئے ایک شرط ہے کہ اب کی بار تُم اپنے آپ کو اے ٹی ایم مشین نہیں بننے دو گے۔۔ نہ ہی اپنی بیوی اور بچوں کو ایسا کارڈ دو گے جو صرف دھن دولت کے حصول کیلئے استعمال ہو سکے۔۔ اب تُم اپنے بچوں اور بیوی کو جو کارڈ دو گے۔۔ غور سے سُنو اُس کارڈ کا کوڈ’’ لا الہ الا ﷲ محمدؐ الرسول اﷲ‘‘ یعنی کلمہ طیبہ ہو۔۔ تاکہ اس کوڈ کے کُھلنے کے بعد تمہاری بیوی اور بچوں کے سامنے صراط مستقیم ہو۔۔۔نماز پنجگانہ کی ادائیگی ہو، قرآن مجید فرقان حمید کی بلاناغہ تلاوت ہو۔۔۔ خیرات وصدقات دینے کی تمنا ہو، اُن میں فریضہ حج اور زکوۃ کی ادائیگی کا عزم صمیم پیدا ہو۔۔۔ تمہاری بیوی اور بچوں کو قناعت کی دولت حاصل ہو، صبر و استقلال، ایثار و قربانی، امن واخوت اور پیار و اخلاص کے لازوال جذبوں سے سرشار ہوں۔۔ بس اُتنا ہی کماؤ جس سے تمہاری جائز ضرورتیں پوری ہو سکیں، رزق حلال کی جستجو کرو۔۔ حرام کے لُقمے سے خود کو اور اپنے کُنبہ کے ہر فرد کو دور رکھو۔۔ اپنے اہل خانہ کو ایک ایسا صاف ستھرا، پاکیزہ، اسلامی اور فلاحی ماحول مہیا کرو کہ وہ تمہاری شخصیت اور تمہاری روح سے پیار کریں نہ کہ اُن کی نظر تمہاری دولت اور جائیداد پر ہو۔۔ ہمارا بھاشن سُن کر ہمارا دوست کچھ مطمئن نظر آیا۔۔۔ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔۔ کہنے لگا۔۔ یار نیئر! آپ نے تو ہمارا مسئلہ ہی حل کر دیا۔۔۔ میں نے تو خود کو اے ٹی ایم بنا کر رکھ دیا تھا۔۔ اب میں ایک ایسی اے ٹی ایم مشین بنوں گا جسے اب بھی میری بیوی اور بچے ہی استعمال کریں گے، اے ٹی ایم کارڈ اب بھی میری بیوی کے ہی پاس رہے گا اور کوڈ اب بھی بیوی بچوں کو ازبر رہے گا، مگر اب کے کوڈ کھلتے ہی اس اے ٹی ایم مشین سے کرنسی نوٹ نہیں بلکہ ایسے نوٹ برآمد ہونگے جن پر قرآنی آیات کندہ ہونگی ایسے نوٹس ہونگے جو میری بیوی اور بچوں کا مقدر بدل دیں گے،اُن کی اصلاح کریں گے اور جو دین کے راستہ پر چلنے کا درس عظیم عطا کریں گے، جو پیار اور محبت، اخلاص اور ہمدردی امن اور اخوت اور ایثارو قربانی کے لازوال جذبوں سے اُنہیں سرشار کریں گے۔۔ اب کے میں ایک ایسی اے ٹی ایم مشین بنوں گا جو اگر کسی بھی وقت خراب ہو گی تو میری بیوی اور میرے بچے اُسے ٹھیک کرنے کی انتھک جدوجہد کریں گے، کیونکہ اب اُنہیں میری صحت، میری شفقت اور میری محبت کی ضرورت ہو گی نہ کہ دھن دولت کی، اب وہ روپے پیسے سے نہیں ۔۔ انسانیت اور آدمیت سے پیار کریں گے۔۔ کاش کہ لوگ خود کو ایسی اے ٹی ایم مشین بنانے سے گریزکریں جس میں وہ حرام کا کمایا ڈال تو دیتے ہیں لیکن وہ مال دوسرے اُڑاتے ہیں اور جب یہ مال ختم ہو جاتا ہے تو پھر بیوی بچوں کے لئے اُنکی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔۔۔ایک ناکارہ اور خراب اے ٹی ایم مشین کی طرح۔۔