محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
اے پیاری ماں!
(جَزَاکِ اﷲُ خَیْرًا)
”والدہ ، اُم ، امی ، مادر ، ماں“ ترے ہی نام ہیں
تجھ پہ سب قربان ، روح و جاں ترے ہی نام ہیں
نو مہینے تک اٹھا کر مجھ کو تو چلتی رہی
میری ننھی جان تیرے پیٹ میں پلتی رہی
تو ہی سب کچھ ہے مری جاں کے لیے اے پیاری ماں!
جانِ جاں، جانِ جہاں ،جانِ جہانانِ جہاں
دل میں ہے تیری محبت کا سمندر موج زن
میری جاں ، میرا جگر ، میری تمنا ، میرا تن
ہو فدا تجھ پر ، تری قربانیوں پر میری جاں
میری ننھی جاں پہ تو نے دیں کئی قربانیاں
خادموں سے بڑھ کے تو رکھتی رہی میرا خیال
آگے پیچھے گھومتی کہتے ہوئے ’’اے میرے لال!‘‘
رونا آتا ، جب کوئی بھی شے نہ بھاتی تھی مجھے
کام سارے چھوڑ کر تو چپ کراتی تھی مجھے
تیرا دامن میرا بستر ، تیری گودی میرا گھر
تو تھی میرا کل جہاں اور میں تری جانِ جگر
مجھ کو جب سردی لگی تو ہی بنی میرا لحاف
میرے ننھے کپڑے کرتی تھی ’’لگن‘‘ سے پاک صاف
دیکھ کر ناپاک مجھ کو تو دُھلاتی تھی مجھے
جاگ کر خود لوریاں دے کر سلاتی تھی مجھے
میں نے لذت پیار کی پائی ہے تیرے دودھ میں
چاشنی اخلاص کی چھائی ہے تیرے دودھ میں
میری ’’اُوں آں‘‘ سنتے ہی بے چین ہوجاتی تھی تو
میرا رونا دیکھ کر یک دم ہی روجاتی تھی تو
تھی تری گودی ہی میری سب سے پہلی درس گہ
’’اللہ اللہ‘‘ ، ’’امی امی‘‘ میں نے سیکھا جس جگہ
کچھ نہ آتا تھا ، فقط آتا تھا اک رونا مجھے
بیٹھنا مجھ کو سکھایا ، پھر کھڑا ہونا مجھے
پھر سہارا دے کے تو مجھ کو چلانے لگ گئی
اے مری امی! تو میری تربیت میں تھک گئی
چلتے چلتے لڑکھڑاہت آگئی مجھ میں کبھی
تو لپک کر ہاتھ پھیلائے مِری جانب بڑھی
میری سیدھی سادی باتوں پر بھی ہنس جاتی تھی تو
میرے شور و غل کو سن کر بھی خوشی پاتی تھی تو
تیرے سر میں درد ہوتا یا تجھے ہوتا بخار
میری خاموشی تجھے کردیتی پھر بھی بے قرار
آہ! وہ تیرا سویرے ہی سویرے جاگنا
میرا سوتے رہنا ، تیرا منہ اندھیرے جاگنا
وہ محبت سے ترا مجھ کو کرانا ناشتہ
وہ لگاوٹ سے بتانا مجھ کو میرا راستہ
شام دروازے پہ تکتے رہنا میرا راستہ
کچھ نہ ہوجائے کہیں مجھ کو خدا نا خواستہ
آہ!! اے امی مری! اے میری جانِ دلربا!
گلشنِ طفلی تو بن کر پھری بادِ صبا
میں نے جو خواہش بھی کی تو نے وہ پوری کرہی دی
کوئی مجبوری ہو ، ورنہ تو نے فوری کرہی دی
زندگی کی راہ میں یہ ننھی جاں چلتی رہی
تیری ممتا کے شجر کے سائے میں پلتی رہی
آندھی ہو ، طوفان ہو ، کوئی مصیبت آئی ہو
کونسی ہے وہ جگہ جو تجھ سے بہتر پائی ہو
کیسے بھولوں آج تیرے دل کے سب گوشوں کو میں
تیری ان نازک ، مگر مضبوط آغوشوں کو میں
وقت نے پھر بدلی کروٹ ، دورِ ثانی آگیا
مجھ میں طاقت آگئی ، تجھ پر بڑھاپا چھاگیا
پہلے تیری گود تھی ، اب میرے بازو آگئے
نیکیوں کا بدلہ دینے کے ترازو آگئے
یاد مجھ کو آگئی پھر اک حدیثِ پاک بھی
’’ماں کے قدموں کے تلے جنت ہے‘‘ تو بھی پاکبھی
حج کرایا ماں کو کندھے پر بٹھا کر ایک نے
ماں کے احسانوں کا بدلہ دینا چاہا نیک نے
اپنا قصہ حضرتِ ابنِ عمر سے جب کہا
سن کے بولے ’’ایک بھی شب کا نہ یہ بدلہ ہوا‘‘
کیوں حلیمہ کا ادب کرتے رہے تھے مصطفیٰ
سہ گنہ حق تیرا والد سے زیادہ رکھ دیا
اے دل و جاں سے بھی بڑھ کر میری پیاری پیاری ماں!
ہے دعا تیرے لیے قرآں میں ’’رَبِّ ارْحَمْھُمَا‘‘
’’اُعْبُدُوا اﷲ‘‘ حکم ہے واضح ہمیں قرآن کا
اور حکمِ رب ہے پھر ماں باپ کے احسان کا
میری خاطر تو نے کیا کیا سہہ لیا اے میری ماں!
حمل، وضع حمل، ارضاعِ لبن، تہذیبِ جاں
رات دن میرے لیے رب سے دعا کرتی رہی
ہر گھڑی میری محبت ہی کا دم بھرتی رہی
میری بیماری میں تیری نیند اڑجاتی تھی کیوں؟
’’ہائے‘‘ میری سن کے چلتے چلتے مڑجاتی تھی کیوں؟
صبح دم منزل بتا پڑھ پڑھ کے دم کرتی تھی کیوں؟
رات دن مجھ پر بتا اتنے کرم کرتی تھی کیوں؟
مجھ کو آنے میں اگر تاخیر ہوجاتی کبھی
بدحواسی وہ تری ہے یاد مجھ کو آج بھی
مجھ کو کھانا دے کے اپنے کام کرسکتی تھی تو
پاس میرے بیٹھ کر یک ٹک مجھے تکتی تھی تو
کون سا جذبہ ہے تجھ میں، کیسا آخر جوش ہے؟
دیکھ کر تیرا جنوں عقلِ جہاں مدہوش ہے
کوئی قربت بھی غَرَض سے اس جگہ خالی نہیں
ایک تیری ہی ہے الفت جو غرَض والی نہیں
گرمیوں میں فجر کا تو من کو بھاتا روپ ہے
سردیوں میں ظہر کی تو تن کو بھاتی دھوپ ہے
دل کی ہلچل تیری گویا عصر اور مغرب کا بین
ہے تری خاموشی میں رازِ سکوتِ مغربین
کام میرے کرنا تیرا سب سے پہلا کام ہے
’’مان‘‘ لیتی ہے ، جبھی تو ’’ماں‘‘ ہی تیرا نام ہے
میرے یہ الفاظ تیرے سامنے سب تنگ ہیں
تیری عظمت کو بتانے کے لیے بے ڈھنگ ہیں
تیری الفت ، تیری عظمت جانتا ہے بس خدا
میں تو اتنا جانتا ہوں ، میرا سب تجھ پر فدا
مجھ سے تیرے حق میں کوئی سی بھی گستاخی ہوئی
کوئی چھوٹی سی بھی غلطی ، کوئی کوتاہی ہوئی
آہ بس اپنا سمجھ کر مجھ کو کردے تو معاف
اپنا رِستا خوں سمجھ کر کردے بس آنچل سے صاف
جس قدر رب نے رکھی ہیں تجھ میں میری الفتیں
تیری خدمت میں رکھیں میرے لیے ہیں برکتیں
حق بھی تیرا میرے ذمے اس قدر رکھا بڑا
حق ہو تیرا ہر ادا ، یہ امتحاں ہے اک کڑا
اے خدا! مجھ کو تو اپنے فضل سے توفیق دے
حق جو مجھ پر ماں کا ہے، اس کی دلی تصدیق دے
ماں کے قدموں کو بنادے بس تو میری سرزمیں
زندگی گزرے یہیں ، پھر روح بھی نکلے یہیں
ہر گھڑی ماں ہی کی خدمت اب رہے پیشِ نظر
ماں کے قدموں ہی میں اب مولیٰ! رہوں میں عمْربھر
دل کی گہرائی سے کرتا ہے اساؔمہ یہ دعا
ماں کی خدمت کی خدا توفیق کردے بس عطا
(جَزَاکِ اﷲُ خَیْرًا)
”والدہ ، اُم ، امی ، مادر ، ماں“ ترے ہی نام ہیں
تجھ پہ سب قربان ، روح و جاں ترے ہی نام ہیں
نو مہینے تک اٹھا کر مجھ کو تو چلتی رہی
میری ننھی جان تیرے پیٹ میں پلتی رہی
تو ہی سب کچھ ہے مری جاں کے لیے اے پیاری ماں!
جانِ جاں، جانِ جہاں ،جانِ جہانانِ جہاں
دل میں ہے تیری محبت کا سمندر موج زن
میری جاں ، میرا جگر ، میری تمنا ، میرا تن
ہو فدا تجھ پر ، تری قربانیوں پر میری جاں
میری ننھی جاں پہ تو نے دیں کئی قربانیاں
خادموں سے بڑھ کے تو رکھتی رہی میرا خیال
آگے پیچھے گھومتی کہتے ہوئے ’’اے میرے لال!‘‘
رونا آتا ، جب کوئی بھی شے نہ بھاتی تھی مجھے
کام سارے چھوڑ کر تو چپ کراتی تھی مجھے
تیرا دامن میرا بستر ، تیری گودی میرا گھر
تو تھی میرا کل جہاں اور میں تری جانِ جگر
مجھ کو جب سردی لگی تو ہی بنی میرا لحاف
میرے ننھے کپڑے کرتی تھی ’’لگن‘‘ سے پاک صاف
دیکھ کر ناپاک مجھ کو تو دُھلاتی تھی مجھے
جاگ کر خود لوریاں دے کر سلاتی تھی مجھے
میں نے لذت پیار کی پائی ہے تیرے دودھ میں
چاشنی اخلاص کی چھائی ہے تیرے دودھ میں
میری ’’اُوں آں‘‘ سنتے ہی بے چین ہوجاتی تھی تو
میرا رونا دیکھ کر یک دم ہی روجاتی تھی تو
تھی تری گودی ہی میری سب سے پہلی درس گہ
’’اللہ اللہ‘‘ ، ’’امی امی‘‘ میں نے سیکھا جس جگہ
کچھ نہ آتا تھا ، فقط آتا تھا اک رونا مجھے
بیٹھنا مجھ کو سکھایا ، پھر کھڑا ہونا مجھے
پھر سہارا دے کے تو مجھ کو چلانے لگ گئی
اے مری امی! تو میری تربیت میں تھک گئی
چلتے چلتے لڑکھڑاہت آگئی مجھ میں کبھی
تو لپک کر ہاتھ پھیلائے مِری جانب بڑھی
میری سیدھی سادی باتوں پر بھی ہنس جاتی تھی تو
میرے شور و غل کو سن کر بھی خوشی پاتی تھی تو
تیرے سر میں درد ہوتا یا تجھے ہوتا بخار
میری خاموشی تجھے کردیتی پھر بھی بے قرار
آہ! وہ تیرا سویرے ہی سویرے جاگنا
میرا سوتے رہنا ، تیرا منہ اندھیرے جاگنا
وہ محبت سے ترا مجھ کو کرانا ناشتہ
وہ لگاوٹ سے بتانا مجھ کو میرا راستہ
شام دروازے پہ تکتے رہنا میرا راستہ
کچھ نہ ہوجائے کہیں مجھ کو خدا نا خواستہ
آہ!! اے امی مری! اے میری جانِ دلربا!
گلشنِ طفلی تو بن کر پھری بادِ صبا
میں نے جو خواہش بھی کی تو نے وہ پوری کرہی دی
کوئی مجبوری ہو ، ورنہ تو نے فوری کرہی دی
زندگی کی راہ میں یہ ننھی جاں چلتی رہی
تیری ممتا کے شجر کے سائے میں پلتی رہی
آندھی ہو ، طوفان ہو ، کوئی مصیبت آئی ہو
کونسی ہے وہ جگہ جو تجھ سے بہتر پائی ہو
کیسے بھولوں آج تیرے دل کے سب گوشوں کو میں
تیری ان نازک ، مگر مضبوط آغوشوں کو میں
وقت نے پھر بدلی کروٹ ، دورِ ثانی آگیا
مجھ میں طاقت آگئی ، تجھ پر بڑھاپا چھاگیا
پہلے تیری گود تھی ، اب میرے بازو آگئے
نیکیوں کا بدلہ دینے کے ترازو آگئے
یاد مجھ کو آگئی پھر اک حدیثِ پاک بھی
’’ماں کے قدموں کے تلے جنت ہے‘‘ تو بھی پاکبھی
حج کرایا ماں کو کندھے پر بٹھا کر ایک نے
ماں کے احسانوں کا بدلہ دینا چاہا نیک نے
اپنا قصہ حضرتِ ابنِ عمر سے جب کہا
سن کے بولے ’’ایک بھی شب کا نہ یہ بدلہ ہوا‘‘
کیوں حلیمہ کا ادب کرتے رہے تھے مصطفیٰ
سہ گنہ حق تیرا والد سے زیادہ رکھ دیا
اے دل و جاں سے بھی بڑھ کر میری پیاری پیاری ماں!
ہے دعا تیرے لیے قرآں میں ’’رَبِّ ارْحَمْھُمَا‘‘
’’اُعْبُدُوا اﷲ‘‘ حکم ہے واضح ہمیں قرآن کا
اور حکمِ رب ہے پھر ماں باپ کے احسان کا
میری خاطر تو نے کیا کیا سہہ لیا اے میری ماں!
حمل، وضع حمل، ارضاعِ لبن، تہذیبِ جاں
رات دن میرے لیے رب سے دعا کرتی رہی
ہر گھڑی میری محبت ہی کا دم بھرتی رہی
میری بیماری میں تیری نیند اڑجاتی تھی کیوں؟
’’ہائے‘‘ میری سن کے چلتے چلتے مڑجاتی تھی کیوں؟
صبح دم منزل بتا پڑھ پڑھ کے دم کرتی تھی کیوں؟
رات دن مجھ پر بتا اتنے کرم کرتی تھی کیوں؟
مجھ کو آنے میں اگر تاخیر ہوجاتی کبھی
بدحواسی وہ تری ہے یاد مجھ کو آج بھی
مجھ کو کھانا دے کے اپنے کام کرسکتی تھی تو
پاس میرے بیٹھ کر یک ٹک مجھے تکتی تھی تو
کون سا جذبہ ہے تجھ میں، کیسا آخر جوش ہے؟
دیکھ کر تیرا جنوں عقلِ جہاں مدہوش ہے
کوئی قربت بھی غَرَض سے اس جگہ خالی نہیں
ایک تیری ہی ہے الفت جو غرَض والی نہیں
گرمیوں میں فجر کا تو من کو بھاتا روپ ہے
سردیوں میں ظہر کی تو تن کو بھاتی دھوپ ہے
دل کی ہلچل تیری گویا عصر اور مغرب کا بین
ہے تری خاموشی میں رازِ سکوتِ مغربین
کام میرے کرنا تیرا سب سے پہلا کام ہے
’’مان‘‘ لیتی ہے ، جبھی تو ’’ماں‘‘ ہی تیرا نام ہے
میرے یہ الفاظ تیرے سامنے سب تنگ ہیں
تیری عظمت کو بتانے کے لیے بے ڈھنگ ہیں
تیری الفت ، تیری عظمت جانتا ہے بس خدا
میں تو اتنا جانتا ہوں ، میرا سب تجھ پر فدا
مجھ سے تیرے حق میں کوئی سی بھی گستاخی ہوئی
کوئی چھوٹی سی بھی غلطی ، کوئی کوتاہی ہوئی
آہ بس اپنا سمجھ کر مجھ کو کردے تو معاف
اپنا رِستا خوں سمجھ کر کردے بس آنچل سے صاف
جس قدر رب نے رکھی ہیں تجھ میں میری الفتیں
تیری خدمت میں رکھیں میرے لیے ہیں برکتیں
حق بھی تیرا میرے ذمے اس قدر رکھا بڑا
حق ہو تیرا ہر ادا ، یہ امتحاں ہے اک کڑا
اے خدا! مجھ کو تو اپنے فضل سے توفیق دے
حق جو مجھ پر ماں کا ہے، اس کی دلی تصدیق دے
ماں کے قدموں کو بنادے بس تو میری سرزمیں
زندگی گزرے یہیں ، پھر روح بھی نکلے یہیں
ہر گھڑی ماں ہی کی خدمت اب رہے پیشِ نظر
ماں کے قدموں ہی میں اب مولیٰ! رہوں میں عمْربھر
دل کی گہرائی سے کرتا ہے اساؔمہ یہ دعا
ماں کی خدمت کی خدا توفیق کردے بس عطا
آخری تدوین: