ا صلاح سخن: ’اے ہلالِ شبِ گریۂ نیم جاں‘

الف عین

لائبریرین
اب کچھ بہتر ہوئی ہے غزل
ہفت عالم کے ماہِ مبیں، آبھی جا
تو مرا ہے سکوں ،بالیقیں، آبھی جا
.... ٹھیک اگرچہ رواں شکل یوں ہو گی
تو ہے میرا سکوں.....

اے ہلالِ شبِ تیرۂ و غمزدہ
چھٹ گیا ابر اب، دلنشیں! آبھی
.... ریحان کہہ چکے ہیں کہ شعر بے معنی لگتا ہے۔ غم زدہ شاعر خود ہو گا کہ چاند؟ شبِ تیرہ میں چاند ہوتا ہی نہیں اگر اس سے مراد اماوس کی رات ہے۔ اگر نہیں ہے تو ابر چھٹ جانے سے چاند خود ہی نظر آ جائے گا، بلانے کی کیا ضرورت؟

رویت ِ شاہد ِ دلربا کے بغیر
سانس رک سی گئی مہ جبیں آبھی جا
.... شاہد لفظ کے استعمال کا قرینہ اب بھی سمجھ میں نہیں آیا

لذت نیم شب، اب میسر نہیں
حاصل کیف کو نازنیں! آبھی جا
.... کیا حادثہ ہو گیا؟ جو پہلے والی لذت اب نہیں مل رہی؟ اس کا کوئی تذکرہ نہیں

خانۂ دل میں ہے تیری صورت نہاں
مرحبا میرے دل کے مکیں! آبھی جا
... ٹھیک اگرچہ زبردستی کا شعر لگتا ہے

کلفتِ ہجرکا، اب مداوا لئے
ہاتھ میں ہو مئے آتشیں ، آبھی جا
... انتظار محبوب کا ہے یا اس کی لائی شراب کا؟

کشتۂ تیغ مژگاں پہ کیجو کرم
لب پہ ہے اب دمِ واپسیں آبھی جا
... ٹھیک
 
Top