الف عین
لائبریرین
ولیم ٹیلرنے فورٹ ولیم کالج کو نسل کو ۱۸۱۲ء میں ہندستانی کی تعلیم سے متعلق پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں لفظِ ہندی کا استعمال جدید مفہوم میں کیا تھا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’میں .... صرف ہندستانی یا ریختہ کا ذکر کررہا ہوں، جو فارسی رسمِ خط میں لکھی جاتی ہے اور جسے پڑھانے کی ذمے داری میری ہے۔ میں ہندی کا ذکر نہیں کررہا جس کا اپنا رسمِ خط ہے یا میں اُس زبان کا ذکر نہیں کررہا جس میں عربی فارسی الفاظ کا استعمال نہیں ہوتا۔‘‘ (لکشمی ساگر وارشنے، ’فورٹ ولیم کالج‘ بحوالہ شِتی کنٹھ مشر، ’کھڑی بولی کا آندولن‘ ، ص ۷۱)
للوجی لال نے ۱۸۰۳ء میں فورٹ ولیم کالج کے احاطے میں جو زبان گھڑی تھی اس کا اسی احاطے میں ۱۸۱۲ء میں باقاعدہ نام ’’ہندی جس کا اپنا رسمِ خط ہے‘‘ بھی پڑگیا۔
ولیم ٹیلر کے مستعفی ہوجانے کے بعد ۱۸۲۳ء میں ولیم پرائس ہندستانی شعبے کے پروفیسر اور صدر مقرر کیے گئے۔ وہ ہندی کے زبردست حمایتی تھے اور ہندی کو اُردو پر ترجیح دیتے تھے۔ ہندی سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ پروفیسر توتھے ہندستانی کے لیکن خود کو ہندی پروفیسر کہتے تھے اور لکھتے بھی ہندی پروفیسر تھے۔ اسی زمانے میں لفٹننٹ ڈی ۔رڈیل کو فورٹ ولیم کالج کونسل کا سکریٹری مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے رڈیل کالج کے ممتحن کے عہدے پر فائز تھے۔ رڈیل نے بھی اُردو کے خلاف معاندانہ روش اختیار کررکھی تھی۔ اُردو کے بارے میں ان کی نیت صاف نہیں تھی۔ وہ اسے مغلوں کی رائج کی ہوئی ایک غیر ملکی زبان کہتے تھے اور اُردو کے بجائے دیسی زبان کی تعلیم کو زیادہ مفید تصور کرتے تھے۔ رڈیل نے ۲۴/ستمبر ۱۸۲۴ء کو کالج کونسل کی جانب سے گورنمنٹ سکریٹری قانون کو جو خط لکھا تھا اس سے ان کی اُردو دشمنی کا صاف پتا چلتا ہے۔ اس خط کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’ہندوستانی جسے اُردو بھی کہاجاتا ہے اسے ہندوستان کے سربر آوردہ لوگ اور بالخصوص مسلمان بولتے ہیں۔ چوں کہ اسے مغلوں نے رائج کیا تھا اس لیے آج بھی یہ ایک غیر ملکی زبان سمجھی جاتی ہے۔ اُردو کی ضروری تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ہندوستان کی تین چوتھائی آبادی اس کے عربی فارسی الفاظ کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ اس کے بجائے سنسکرت سے نکلی ہوئی کسی بھی دیسی زبان کو پڑھانا زیادہ مفید رہے گا۔ ‘‘ (بحوالہ گیان چند جین، ’ایک بھاشا.... ‘، ص۱۶۵)
اس اقتباس سے نہ صرف یہ پتا چلتا ہے کہ رڈیل کی اُردو زبان کے بارے میں معلومات کتنی غلط، ناقص اور نا مکمل ہیں بلکہ اُردو سے ان کی عصبیت اور عناد کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
آئندہ کے حالات بتاتے ہیں کہ فورٹ ولیم کالج کو نسل نے اُردو کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا تھا۔ چنانچہ کالج کونسل کی ہی سفارش پر گورنر جنرل نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں بھرتی ہونے والے نئے ملازمین کو’’ ہندوستانی کے بجائے برج بھاشا ‘‘کی تعلیم دیے جانے کی منظوری دے دی تھی۔ بقول گیان چند جین ’’گورنر جنرل نے اس تجویز پر صاد کر دیا ۔‘‘ (ایضاً )
انھیں سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے راقم الحروف نے اپنی کتاب ’لسانی تناظر ‘ (۱۹۹۷ء) میں اس خیال کا اظہار کیا تھا:
’’حقیقت تو یہ ہے کہ نہ صرف فورٹ ولیم کالج بلکہ انگریزی حکومت نے بھی اُردو کے خلاف معاندانہ روش اختیار کر رکھی تھی۔‘‘ (ص ۲۵۴)
اس عبارت کو پڑھ کر جین صاحب نہایت جزبز ہوئے اور انھوں نے اپنی متذکرہ کتاب میں صفحہ ۱۶۳ پر اس عبارت کو نقل کرتے ہوئے راقم الحروف کو ہدفِ ملامت بنایا۔
کیاگیان چند جین نے حکم چند نیر کا وہ بیان نہیں دیکھا (یا اگر دیکھا تو نظرانداز کر دیا!) جس میں انھوں نے فورٹ ولیم کالج کے ارباب کو صاف طور پر کھڑی بولی ہندی کی پیدایش کا ذمے دار ٹھہرایا ہے، نیز برطانوی سامراجی حکام کی اس لگن اور دُھن کاذکر کیا ہے جسے انھوں نے ’’ہندی کو ہندوؤں کی قومی ، تہذیبی اور عوامی زبان بنانے کے لیے ‘‘ اپنا شعاربنالیا تھا؟ حکم چند نیر اپنی کتاب ’اُردو کے مسائل‘ (۱۹۷۷ء) میں لکھتے ہیں:
’’اگر چہ انیسویں صدی کے آغاز ہی میں فورٹ ولیم کالج کے سربراہوں نے متعدد اُردو کتابوں کو دیوناگری میں شائع کرکے اور للولال جی سے ’پریم ساگر‘ لکھواکر کھڑی بولی پر مبنی ، شدھ ہندی کی بنیاد ڈال دی تھی، لیکن اس صدی کے وسط تک دیوناگری اور ہندی کا دائرۂ عمل فورٹ ولیم کالج کی چار دیواری، یا زیادہ سے زیادہ یورپی حکام کے ذہنوں تک محدود رہا تھا۔ اس زمانے میں ہندی کو ہندوؤں کی قومی، تہذیبی اور عوامی زبان بنانے کے لیے سامراجی حکام کس طرح سرگاڑی اور پاؤں پہیہ کیے ہوئے تھے، اس کا اندازہ بنارس کالج (سابق سنسکرت کالج و بعدہٗ کوئنسز کالج) کے پرنسپل اور شعبۂ انگریزی کے صدر ڈاکٹر جے. آر. بیلن ٹائن کی رپورٹ سے بخوبی ہوسکتا ہے۔‘‘ (ص ۸۵و ۸۶)۔
اس کے بعد حکم چند نیر نے بیلن ٹائن کی رپورٹ کا متن پیش کیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے کالج کے ہندو طلبہ کو ، جو ’’ہندی کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے‘‘ ، ہندی پڑھنے اور اسے ’’اپنی ماؤں اور بہنوں ‘‘ کی زبان سمجھنے کے لیے اکساتا تھا۔ اس نے ان طلبہ کو ایک مضمون لکھنے کے لیے کہا تھا جس کا عنوان تھا، ’’تم اپنی ماؤں اور بہنوں کی روز مرہ زندگی کی واحد زبان کو اور ان کی تہذیب کو حقارت کی نظر سے کیوں دیکھتے ہو۔‘‘ اس پر طلبہ کو سخت حیرت ہوئی اور انھوں نے بیلن ٹائن کو ایک عرضداشت دی جس میں یہ سوال اٹھایا کہ وہ ]بیلن ٹائن[ایسا کیوں کر سمجھتے ہیں؟ طلبہ نے یہ بھی کہا کہ ’’ہمیں یہ بخوبی معلوم نہیں کہ آپ یوروپی لوگ ہندی سے کیا مراد لیتے ہیں، کیوں کہ یہاں سینکڑوں بولیاں ہیں اور ہمارے خیال میں سبھی ہندی کہلانے کی یکساں مستحق ہیں۔‘‘ (رپورٹ تعلیماتِ عامہ شمال مغربی صوبہ جات، بابت ۴۷۔۱۸۴۶ء ، ص ۳۲۔ بحوالہ حکم چند نیر ، ’لسانی مسائل‘ ، ص ۸۷)۔
ان رپورٹوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انیسویں صدی کے نصفِ اول میں ہندی کی کیا اہمیت اور حیثیت تھی اور برطانوی سامراجی حکام کس طرح اُردو کے مقابلے میں ہندی کو آگے بڑھانے کے درپے تھے۔ صرف اس لیے کہ ہندوستان کی دو معزز قوموں کے درمیان جویگانگت اور لسانی و حدت قائم ہے وہ پارہ پار ہوجائے۔ اس سے ہندوستان میں برطانوی مفاد کو تقویت پہنچنے کے بیحد امکانات تھے۔ نہ صرف بیلن ٹائن بلکہ اس زمانے کے دوسرے انگریز بھی دل میں اُردو سے عناد رکھتے تھے اور ہندی کو Promoteکرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔ ایسے ہی ایک شخص کا نام سرجارج ابراہم گریرسن تھا۔ گرپرسن کا تعلق اگرچہ بنگال سول سروس سے تھا لیکن بعد میں وہ ہندوستانی لسانیات کے ماہر اور Linguistic Survey of India(=لسانی جائزۂ ہند) کے مصنف کی حیثیت سے مشہور ہوا۔ یہ ہندی زبان کا زبردست حمایتی تھا اور اس کی ترویج و ترقی کا دل سے خواہاں تھا۔ یہ ناگری پرچارنی سبھا کا، جو ہندی اور ناگری رسمِ خط کے ’پرچار‘ کے لیے ۱۸۹۳ء میں بنارس میں قائم کی گئی تھی، باقاعدہ رکن تھا۔ بقول حکم چند نیر ، ’’گریرسن نے شمال مغربی صوبجات کی عدالتوں اور دفتروں میں ہندی کو اُردو کے برابر درجہ دلانے کے لیے ۱۸/اپریل ۱۹۰۰ء کے میکڈانل کے فیصلے کے سلسلے میں نہایت اہم رول ادا کیا تھا‘‘ (ایضاً ، ص ۸۸)۔
شیام سندر داس جو ناگری پرچارنی سبھا کے بانیوں میں سے تھے اپنی خود نوشت ’میری آتم کہانی ‘میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے ’’گریرسن کو ہندی کی حمایت میں مضمون لکھ کر کسی اخبار میں چھپوانے کے لیے لکھا تھا۔ گریر سن نے کچھ جواب نہ دیا۔ شیام سندر داس نے شکایتی خط لکھا۔ اس دوران میں میکڈانل کا فیصلہ شائع ہوچکا تھا تو گریرسن نے شیام سندر داس کو لکھا کہ میں نے پسِ پردہ رہ کر ہندی کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ مضمون لکھ کر نہ کرسکتا تھا۔‘‘ (بحوالہ حکم چند نیر، متذکرہ کتاب ، ص ۸۸)
گیان چند جین نے اپنی کتاب ’ایک بھاشا ....‘ میں کرسٹوفر کنگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’کالج میں کبھی ہندی کاالگ شعبہ قائم نہیں ہوا جب کہ ہندوستانی، عربی اور فارسی کے تھے‘‘ (ص ۱۶۶) ۔ کنگ اور جین کو معلوم ہونا چاہیے کہ فورٹ ولیم کالج میں ہندی کا الگ شعبہ قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کیوں کہ ۱۸۰۰ء میں جب کلکتے میں یہ کالج قائم ہوا تو اس وقت ہندی (=کھڑی بولی ہندی) کا وجود نہ تھا۔ یہ زبان فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد معرضِ وجود میں آئی۔ اس عہد میں علاقائی بولیاں، مثلاً برج بھاشا، اودھی، راجستھانی وغیرہ ضروررائج تھیں لیکن کھڑی بولی ہندی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۸۲۴ء کے اواخر میں فور ٹ ولیم کالج کونسل نے گورنر جنرل سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں بھرتی ہونے والے نئے ملازمین کوہندستانی کے بجائے برج بھاشا کی تعلیم دیے جانے کی سفارش کی تھی۔ اگر اس وقت کھڑی بولی ہندی موجود ہوتی تو کالج کونسل کے ارباب برج بھاشا کو پڑھائے جانے کی سفارش کیوں کرتے اور گورنر جنرل اس تجویز پر ’’صاد‘‘ کیوں کرتے ؟
فورٹ ولیم کالج کے ابتدائی دور میں بھی گلکرسٹ نے ’’بھاکھامنشی‘‘ کی ہی تقرری کی سفارش کی تھی، نہ کہ ہندی منشی کی۔ کیوں کہ ہندی (=کھڑی بولی ہندی) نام کی زبان کا اس وقت کوئی وجود تھا ہی نہیں اور لفظِ ہندی بالتحضیص اُردو کے لیے ہی استعمال ہوتا تھا۔ فورٹ ولیم کالج کے مترجمین و مصنفین بھی ’ہندی‘ سے اُردو ہی مراد لیتے تھے۔ یہاں تک کہ قرآن کے اُردو ترجمے کو بھی ہندی ترجمہ کہا جاتا تھا۔ گیان چند جین کو بھی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہندی، اردو کا ہی ایک نام تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’انیسویں صدی کی ابتدا تک ’ہندی‘ نام اُردو کے لیے مستعمل تھا۔‘‘ (’ایک بھاشا ....‘ ص ۱۳۴)
لیکن اس بات کے وافر شواہد موجود ہیں کہ نہ صرف انیسویں صدی کی ابتدا تک بلکہ پوری انیسویں صدی کے دوران زبانِ اُردو کے لیے ’اُردو ‘ نام کے علاوہ ’ہندی‘ نام بھی مستعمل رہا ہے، بلکہ اقبالؔ نے تو بیسویں صدی کے اوائل میں بھی اپنی فارسی مثنوی ’اسرارِ خودی‘ میں اُردو کے لیے ہندی نام استعمال کیاہے:
گرچہ ہندی در عذوبت شکر است
طرزِ گفتارِ دری شیر یں تراست
(یہاں ’’ہندی ‘‘ سے مراد اُردو اور ’’دری ‘‘ سے فارسی مرادہے۔ )
اس امر کا ذکر کیا جاچکا ہے کہ انیسویں صدی کے دوران ’ہندستانی‘ سے بلاشرکتِ غیر ے (Exclusively) ’اُردو ‘ ہی مراد لی جاتی تھی کوئی اور زبان نہیں، نیز جس زبان کو انگریز ’’ہند ستانی ‘‘ (’’Hindoostanee‘‘) کہتے تھے وہ زبان ’اُردو ‘ ہی تھی جو فارسی (یا عربی فارسی) رسمِ خط میں لکھی جاتی تھی جیسا کہ آج بھی لکھی جاتی ہے، لیکن یہ اب اُردو کا اپنا رسمِ خط ہوگیا ہے اور اسے اُردو رسمِ خط کہنا ہی درست ہے۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند اپنے ایک مضمون ’’فورٹ ولیم کالج اور ابتدائی ڈکشنر یاں ‘‘ (مطبوعہ’اخبارِ اُردو‘ ]اسلام آباد[، جنوری ۲۰۰۷ء ) میں ’’ہندوستانی مساوی اُردو ‘‘ کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں:
’’اس زبان کا ، جسے ’’ہندوستانی‘‘ کہا گیا ہے (بلاشرکتِ غیرے) رسم الخط ناگری نہیں تھا بلکہ Parso-Arabicتھا۔‘‘
بعض اہلِ ہندی کو یہ غلط فہمی رہی ہے کہ انگریز ’ہندستانی ‘ سے ’اُردو ‘ کے علاوہ ’ہندی ‘ (ناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی کھڑی بولی ہندی ) بھی مراد لیتے تھے۔ انگریزوں نے ناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی کھڑی بولی ہندی کو کبھی ہندستانی نہیں کہا۔ وہ ایسی زبان کو ’’بھاکھا‘‘ کہتے تھے۔ لیکن بھا کھاسے شمالی ہندوستان کی دیگر علاقائی بولیاں بھی مراد لی جاتی تھیں۔
جہاں تک کہ ناگری لپی (رسمِ خط) کا تعلق ہے تو یہ بات غالباً کسی اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں کہ اس زمانے میں یہ ایک غیر مقبول رسمِ خط تھا اور اس کی افادیت بہت کم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گلکرسٹ کے عہد میں فورٹ ولیم کالج کے ہندستانی شعبے میں جن ۳۶ منشیوں / مترجموں/ مصنفوں کا تقرر ہوا تھااور جن کی فہرست کا نقشہ ، مع ان کی تقرری کی تاریخوں، عہدوں اور تنخواہوں کی تفصیلات کے، محمد عتیق صدیقی نے اپنی کتاب ’گل کرسٹ اور اس کا عہد‘ (ص ۱۷۵ تا ۱۷۷) میں پیش کیا ہے ان میں ’’بھاکھامنشی‘‘ (للوجی لال) کے علاوہ صرف ایک ’’ناگری نویس‘‘ (کاشی راج) اور ایک ’’ناگری خوش نویس ‘‘ (مہانند) تھا۔ باقی تمام ملازمین ، باستثنائے چند، صرف اُردو مساوی ہندستانی( اُردو =ہندستانی) کے کاموں پر مامور کیے گئے تھے۔
انیسویں صدی کے دوران ناگری رسمِ خط کو کتنا ’’غیر اہم‘‘ سمجھا جاتا تھا، اس کا اندازہ میجر جوزف ٹیلر کے اُردو ۔ انگریزی لغت A Dictionary, Hindoostanee and Englishکے تخفیف شدہ ایڈیشن (لندن :۱۸۲۰ء) کے دیباچے سے بخوبی ہوتا ہے جس میں ناگری رسمِ خط کی عدم مقبولیت کی وجہ سے اسے پورے طور پر ترک کر دیے جانے کی بات کہی گئی ہے:
"A knowledge of the Nagree character being comparatively of little use to the generality of Hindoostanee scholars, I have entirely discarded it...."
(بحوالہ ستیہ پال آنند، متذکرہ مضمون )
اس لغت میں تمام الفاظ اُردو (نسخ ٹائپ) میں دیے گئے ہیں اور ان کے تلفظات رومن (سیدھے Font) میں ۔ ہر لفظ کے آگے اس کے انگریزی معنی ترچھے حروف (Italic) میں دیے گئے ہیں۔ اس لغت میں کہیں بھی ناگری رسمِ خط کا استعمال نہیں ہوا ہے، مثلاً :
A ناقہ naqu, f. (from نوق) A she camel.
P ناگاہn agah, Suddenly, unexpectedly, all at
once, unawares.
H ہمینhumen, To us. Humeen, We, ourselves.
S ہنس huns, m. A duck.
’’میں .... صرف ہندستانی یا ریختہ کا ذکر کررہا ہوں، جو فارسی رسمِ خط میں لکھی جاتی ہے اور جسے پڑھانے کی ذمے داری میری ہے۔ میں ہندی کا ذکر نہیں کررہا جس کا اپنا رسمِ خط ہے یا میں اُس زبان کا ذکر نہیں کررہا جس میں عربی فارسی الفاظ کا استعمال نہیں ہوتا۔‘‘ (لکشمی ساگر وارشنے، ’فورٹ ولیم کالج‘ بحوالہ شِتی کنٹھ مشر، ’کھڑی بولی کا آندولن‘ ، ص ۷۱)
للوجی لال نے ۱۸۰۳ء میں فورٹ ولیم کالج کے احاطے میں جو زبان گھڑی تھی اس کا اسی احاطے میں ۱۸۱۲ء میں باقاعدہ نام ’’ہندی جس کا اپنا رسمِ خط ہے‘‘ بھی پڑگیا۔
ولیم ٹیلر کے مستعفی ہوجانے کے بعد ۱۸۲۳ء میں ولیم پرائس ہندستانی شعبے کے پروفیسر اور صدر مقرر کیے گئے۔ وہ ہندی کے زبردست حمایتی تھے اور ہندی کو اُردو پر ترجیح دیتے تھے۔ ہندی سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ پروفیسر توتھے ہندستانی کے لیکن خود کو ہندی پروفیسر کہتے تھے اور لکھتے بھی ہندی پروفیسر تھے۔ اسی زمانے میں لفٹننٹ ڈی ۔رڈیل کو فورٹ ولیم کالج کونسل کا سکریٹری مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے رڈیل کالج کے ممتحن کے عہدے پر فائز تھے۔ رڈیل نے بھی اُردو کے خلاف معاندانہ روش اختیار کررکھی تھی۔ اُردو کے بارے میں ان کی نیت صاف نہیں تھی۔ وہ اسے مغلوں کی رائج کی ہوئی ایک غیر ملکی زبان کہتے تھے اور اُردو کے بجائے دیسی زبان کی تعلیم کو زیادہ مفید تصور کرتے تھے۔ رڈیل نے ۲۴/ستمبر ۱۸۲۴ء کو کالج کونسل کی جانب سے گورنمنٹ سکریٹری قانون کو جو خط لکھا تھا اس سے ان کی اُردو دشمنی کا صاف پتا چلتا ہے۔ اس خط کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’ہندوستانی جسے اُردو بھی کہاجاتا ہے اسے ہندوستان کے سربر آوردہ لوگ اور بالخصوص مسلمان بولتے ہیں۔ چوں کہ اسے مغلوں نے رائج کیا تھا اس لیے آج بھی یہ ایک غیر ملکی زبان سمجھی جاتی ہے۔ اُردو کی ضروری تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ہندوستان کی تین چوتھائی آبادی اس کے عربی فارسی الفاظ کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ اس کے بجائے سنسکرت سے نکلی ہوئی کسی بھی دیسی زبان کو پڑھانا زیادہ مفید رہے گا۔ ‘‘ (بحوالہ گیان چند جین، ’ایک بھاشا.... ‘، ص۱۶۵)
اس اقتباس سے نہ صرف یہ پتا چلتا ہے کہ رڈیل کی اُردو زبان کے بارے میں معلومات کتنی غلط، ناقص اور نا مکمل ہیں بلکہ اُردو سے ان کی عصبیت اور عناد کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
آئندہ کے حالات بتاتے ہیں کہ فورٹ ولیم کالج کو نسل نے اُردو کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا تھا۔ چنانچہ کالج کونسل کی ہی سفارش پر گورنر جنرل نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں بھرتی ہونے والے نئے ملازمین کو’’ ہندوستانی کے بجائے برج بھاشا ‘‘کی تعلیم دیے جانے کی منظوری دے دی تھی۔ بقول گیان چند جین ’’گورنر جنرل نے اس تجویز پر صاد کر دیا ۔‘‘ (ایضاً )
انھیں سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے راقم الحروف نے اپنی کتاب ’لسانی تناظر ‘ (۱۹۹۷ء) میں اس خیال کا اظہار کیا تھا:
’’حقیقت تو یہ ہے کہ نہ صرف فورٹ ولیم کالج بلکہ انگریزی حکومت نے بھی اُردو کے خلاف معاندانہ روش اختیار کر رکھی تھی۔‘‘ (ص ۲۵۴)
اس عبارت کو پڑھ کر جین صاحب نہایت جزبز ہوئے اور انھوں نے اپنی متذکرہ کتاب میں صفحہ ۱۶۳ پر اس عبارت کو نقل کرتے ہوئے راقم الحروف کو ہدفِ ملامت بنایا۔
کیاگیان چند جین نے حکم چند نیر کا وہ بیان نہیں دیکھا (یا اگر دیکھا تو نظرانداز کر دیا!) جس میں انھوں نے فورٹ ولیم کالج کے ارباب کو صاف طور پر کھڑی بولی ہندی کی پیدایش کا ذمے دار ٹھہرایا ہے، نیز برطانوی سامراجی حکام کی اس لگن اور دُھن کاذکر کیا ہے جسے انھوں نے ’’ہندی کو ہندوؤں کی قومی ، تہذیبی اور عوامی زبان بنانے کے لیے ‘‘ اپنا شعاربنالیا تھا؟ حکم چند نیر اپنی کتاب ’اُردو کے مسائل‘ (۱۹۷۷ء) میں لکھتے ہیں:
’’اگر چہ انیسویں صدی کے آغاز ہی میں فورٹ ولیم کالج کے سربراہوں نے متعدد اُردو کتابوں کو دیوناگری میں شائع کرکے اور للولال جی سے ’پریم ساگر‘ لکھواکر کھڑی بولی پر مبنی ، شدھ ہندی کی بنیاد ڈال دی تھی، لیکن اس صدی کے وسط تک دیوناگری اور ہندی کا دائرۂ عمل فورٹ ولیم کالج کی چار دیواری، یا زیادہ سے زیادہ یورپی حکام کے ذہنوں تک محدود رہا تھا۔ اس زمانے میں ہندی کو ہندوؤں کی قومی، تہذیبی اور عوامی زبان بنانے کے لیے سامراجی حکام کس طرح سرگاڑی اور پاؤں پہیہ کیے ہوئے تھے، اس کا اندازہ بنارس کالج (سابق سنسکرت کالج و بعدہٗ کوئنسز کالج) کے پرنسپل اور شعبۂ انگریزی کے صدر ڈاکٹر جے. آر. بیلن ٹائن کی رپورٹ سے بخوبی ہوسکتا ہے۔‘‘ (ص ۸۵و ۸۶)۔
اس کے بعد حکم چند نیر نے بیلن ٹائن کی رپورٹ کا متن پیش کیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے کالج کے ہندو طلبہ کو ، جو ’’ہندی کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے‘‘ ، ہندی پڑھنے اور اسے ’’اپنی ماؤں اور بہنوں ‘‘ کی زبان سمجھنے کے لیے اکساتا تھا۔ اس نے ان طلبہ کو ایک مضمون لکھنے کے لیے کہا تھا جس کا عنوان تھا، ’’تم اپنی ماؤں اور بہنوں کی روز مرہ زندگی کی واحد زبان کو اور ان کی تہذیب کو حقارت کی نظر سے کیوں دیکھتے ہو۔‘‘ اس پر طلبہ کو سخت حیرت ہوئی اور انھوں نے بیلن ٹائن کو ایک عرضداشت دی جس میں یہ سوال اٹھایا کہ وہ ]بیلن ٹائن[ایسا کیوں کر سمجھتے ہیں؟ طلبہ نے یہ بھی کہا کہ ’’ہمیں یہ بخوبی معلوم نہیں کہ آپ یوروپی لوگ ہندی سے کیا مراد لیتے ہیں، کیوں کہ یہاں سینکڑوں بولیاں ہیں اور ہمارے خیال میں سبھی ہندی کہلانے کی یکساں مستحق ہیں۔‘‘ (رپورٹ تعلیماتِ عامہ شمال مغربی صوبہ جات، بابت ۴۷۔۱۸۴۶ء ، ص ۳۲۔ بحوالہ حکم چند نیر ، ’لسانی مسائل‘ ، ص ۸۷)۔
ان رپورٹوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انیسویں صدی کے نصفِ اول میں ہندی کی کیا اہمیت اور حیثیت تھی اور برطانوی سامراجی حکام کس طرح اُردو کے مقابلے میں ہندی کو آگے بڑھانے کے درپے تھے۔ صرف اس لیے کہ ہندوستان کی دو معزز قوموں کے درمیان جویگانگت اور لسانی و حدت قائم ہے وہ پارہ پار ہوجائے۔ اس سے ہندوستان میں برطانوی مفاد کو تقویت پہنچنے کے بیحد امکانات تھے۔ نہ صرف بیلن ٹائن بلکہ اس زمانے کے دوسرے انگریز بھی دل میں اُردو سے عناد رکھتے تھے اور ہندی کو Promoteکرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔ ایسے ہی ایک شخص کا نام سرجارج ابراہم گریرسن تھا۔ گرپرسن کا تعلق اگرچہ بنگال سول سروس سے تھا لیکن بعد میں وہ ہندوستانی لسانیات کے ماہر اور Linguistic Survey of India(=لسانی جائزۂ ہند) کے مصنف کی حیثیت سے مشہور ہوا۔ یہ ہندی زبان کا زبردست حمایتی تھا اور اس کی ترویج و ترقی کا دل سے خواہاں تھا۔ یہ ناگری پرچارنی سبھا کا، جو ہندی اور ناگری رسمِ خط کے ’پرچار‘ کے لیے ۱۸۹۳ء میں بنارس میں قائم کی گئی تھی، باقاعدہ رکن تھا۔ بقول حکم چند نیر ، ’’گریرسن نے شمال مغربی صوبجات کی عدالتوں اور دفتروں میں ہندی کو اُردو کے برابر درجہ دلانے کے لیے ۱۸/اپریل ۱۹۰۰ء کے میکڈانل کے فیصلے کے سلسلے میں نہایت اہم رول ادا کیا تھا‘‘ (ایضاً ، ص ۸۸)۔
شیام سندر داس جو ناگری پرچارنی سبھا کے بانیوں میں سے تھے اپنی خود نوشت ’میری آتم کہانی ‘میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے ’’گریرسن کو ہندی کی حمایت میں مضمون لکھ کر کسی اخبار میں چھپوانے کے لیے لکھا تھا۔ گریر سن نے کچھ جواب نہ دیا۔ شیام سندر داس نے شکایتی خط لکھا۔ اس دوران میں میکڈانل کا فیصلہ شائع ہوچکا تھا تو گریرسن نے شیام سندر داس کو لکھا کہ میں نے پسِ پردہ رہ کر ہندی کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ مضمون لکھ کر نہ کرسکتا تھا۔‘‘ (بحوالہ حکم چند نیر، متذکرہ کتاب ، ص ۸۸)
گیان چند جین نے اپنی کتاب ’ایک بھاشا ....‘ میں کرسٹوفر کنگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’کالج میں کبھی ہندی کاالگ شعبہ قائم نہیں ہوا جب کہ ہندوستانی، عربی اور فارسی کے تھے‘‘ (ص ۱۶۶) ۔ کنگ اور جین کو معلوم ہونا چاہیے کہ فورٹ ولیم کالج میں ہندی کا الگ شعبہ قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کیوں کہ ۱۸۰۰ء میں جب کلکتے میں یہ کالج قائم ہوا تو اس وقت ہندی (=کھڑی بولی ہندی) کا وجود نہ تھا۔ یہ زبان فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد معرضِ وجود میں آئی۔ اس عہد میں علاقائی بولیاں، مثلاً برج بھاشا، اودھی، راجستھانی وغیرہ ضروررائج تھیں لیکن کھڑی بولی ہندی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۸۲۴ء کے اواخر میں فور ٹ ولیم کالج کونسل نے گورنر جنرل سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں بھرتی ہونے والے نئے ملازمین کوہندستانی کے بجائے برج بھاشا کی تعلیم دیے جانے کی سفارش کی تھی۔ اگر اس وقت کھڑی بولی ہندی موجود ہوتی تو کالج کونسل کے ارباب برج بھاشا کو پڑھائے جانے کی سفارش کیوں کرتے اور گورنر جنرل اس تجویز پر ’’صاد‘‘ کیوں کرتے ؟
فورٹ ولیم کالج کے ابتدائی دور میں بھی گلکرسٹ نے ’’بھاکھامنشی‘‘ کی ہی تقرری کی سفارش کی تھی، نہ کہ ہندی منشی کی۔ کیوں کہ ہندی (=کھڑی بولی ہندی) نام کی زبان کا اس وقت کوئی وجود تھا ہی نہیں اور لفظِ ہندی بالتحضیص اُردو کے لیے ہی استعمال ہوتا تھا۔ فورٹ ولیم کالج کے مترجمین و مصنفین بھی ’ہندی‘ سے اُردو ہی مراد لیتے تھے۔ یہاں تک کہ قرآن کے اُردو ترجمے کو بھی ہندی ترجمہ کہا جاتا تھا۔ گیان چند جین کو بھی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہندی، اردو کا ہی ایک نام تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’انیسویں صدی کی ابتدا تک ’ہندی‘ نام اُردو کے لیے مستعمل تھا۔‘‘ (’ایک بھاشا ....‘ ص ۱۳۴)
لیکن اس بات کے وافر شواہد موجود ہیں کہ نہ صرف انیسویں صدی کی ابتدا تک بلکہ پوری انیسویں صدی کے دوران زبانِ اُردو کے لیے ’اُردو ‘ نام کے علاوہ ’ہندی‘ نام بھی مستعمل رہا ہے، بلکہ اقبالؔ نے تو بیسویں صدی کے اوائل میں بھی اپنی فارسی مثنوی ’اسرارِ خودی‘ میں اُردو کے لیے ہندی نام استعمال کیاہے:
گرچہ ہندی در عذوبت شکر است
طرزِ گفتارِ دری شیر یں تراست
(یہاں ’’ہندی ‘‘ سے مراد اُردو اور ’’دری ‘‘ سے فارسی مرادہے۔ )
اس امر کا ذکر کیا جاچکا ہے کہ انیسویں صدی کے دوران ’ہندستانی‘ سے بلاشرکتِ غیر ے (Exclusively) ’اُردو ‘ ہی مراد لی جاتی تھی کوئی اور زبان نہیں، نیز جس زبان کو انگریز ’’ہند ستانی ‘‘ (’’Hindoostanee‘‘) کہتے تھے وہ زبان ’اُردو ‘ ہی تھی جو فارسی (یا عربی فارسی) رسمِ خط میں لکھی جاتی تھی جیسا کہ آج بھی لکھی جاتی ہے، لیکن یہ اب اُردو کا اپنا رسمِ خط ہوگیا ہے اور اسے اُردو رسمِ خط کہنا ہی درست ہے۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند اپنے ایک مضمون ’’فورٹ ولیم کالج اور ابتدائی ڈکشنر یاں ‘‘ (مطبوعہ’اخبارِ اُردو‘ ]اسلام آباد[، جنوری ۲۰۰۷ء ) میں ’’ہندوستانی مساوی اُردو ‘‘ کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں:
’’اس زبان کا ، جسے ’’ہندوستانی‘‘ کہا گیا ہے (بلاشرکتِ غیرے) رسم الخط ناگری نہیں تھا بلکہ Parso-Arabicتھا۔‘‘
بعض اہلِ ہندی کو یہ غلط فہمی رہی ہے کہ انگریز ’ہندستانی ‘ سے ’اُردو ‘ کے علاوہ ’ہندی ‘ (ناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی کھڑی بولی ہندی ) بھی مراد لیتے تھے۔ انگریزوں نے ناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی کھڑی بولی ہندی کو کبھی ہندستانی نہیں کہا۔ وہ ایسی زبان کو ’’بھاکھا‘‘ کہتے تھے۔ لیکن بھا کھاسے شمالی ہندوستان کی دیگر علاقائی بولیاں بھی مراد لی جاتی تھیں۔
جہاں تک کہ ناگری لپی (رسمِ خط) کا تعلق ہے تو یہ بات غالباً کسی اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں کہ اس زمانے میں یہ ایک غیر مقبول رسمِ خط تھا اور اس کی افادیت بہت کم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گلکرسٹ کے عہد میں فورٹ ولیم کالج کے ہندستانی شعبے میں جن ۳۶ منشیوں / مترجموں/ مصنفوں کا تقرر ہوا تھااور جن کی فہرست کا نقشہ ، مع ان کی تقرری کی تاریخوں، عہدوں اور تنخواہوں کی تفصیلات کے، محمد عتیق صدیقی نے اپنی کتاب ’گل کرسٹ اور اس کا عہد‘ (ص ۱۷۵ تا ۱۷۷) میں پیش کیا ہے ان میں ’’بھاکھامنشی‘‘ (للوجی لال) کے علاوہ صرف ایک ’’ناگری نویس‘‘ (کاشی راج) اور ایک ’’ناگری خوش نویس ‘‘ (مہانند) تھا۔ باقی تمام ملازمین ، باستثنائے چند، صرف اُردو مساوی ہندستانی( اُردو =ہندستانی) کے کاموں پر مامور کیے گئے تھے۔
انیسویں صدی کے دوران ناگری رسمِ خط کو کتنا ’’غیر اہم‘‘ سمجھا جاتا تھا، اس کا اندازہ میجر جوزف ٹیلر کے اُردو ۔ انگریزی لغت A Dictionary, Hindoostanee and Englishکے تخفیف شدہ ایڈیشن (لندن :۱۸۲۰ء) کے دیباچے سے بخوبی ہوتا ہے جس میں ناگری رسمِ خط کی عدم مقبولیت کی وجہ سے اسے پورے طور پر ترک کر دیے جانے کی بات کہی گئی ہے:
"A knowledge of the Nagree character being comparatively of little use to the generality of Hindoostanee scholars, I have entirely discarded it...."
(بحوالہ ستیہ پال آنند، متذکرہ مضمون )
اس لغت میں تمام الفاظ اُردو (نسخ ٹائپ) میں دیے گئے ہیں اور ان کے تلفظات رومن (سیدھے Font) میں ۔ ہر لفظ کے آگے اس کے انگریزی معنی ترچھے حروف (Italic) میں دیے گئے ہیں۔ اس لغت میں کہیں بھی ناگری رسمِ خط کا استعمال نہیں ہوا ہے، مثلاً :
A ناقہ naqu, f. (from نوق) A she camel.
P ناگاہn agah, Suddenly, unexpectedly, all at
once, unawares.
H ہمینhumen, To us. Humeen, We, ourselves.
S ہنس huns, m. A duck.