ا ی۔ک ب۔ھ۔اش۔ا.... جو مسترد کر دی گئی از مرزا خلیل احمد بیگ

الف عین

لائبریرین
ولیم ٹیلرنے فورٹ ولیم کالج کو نسل کو ۱۸۱۲ء میں ہندستانی کی تعلیم سے متعلق پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں لفظِ ہندی کا استعمال جدید مفہوم میں کیا تھا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:

’’میں .... صرف ہندستانی یا ریختہ کا ذکر کررہا ہوں، جو فارسی رسمِ خط میں لکھی جاتی ہے اور جسے پڑھانے کی ذمے داری میری ہے۔ میں ہندی کا ذکر نہیں کررہا جس کا اپنا رسمِ خط ہے یا میں اُس زبان کا ذکر نہیں کررہا جس میں عربی فارسی الفاظ کا استعمال نہیں ہوتا۔‘‘ (لکشمی ساگر وارشنے، ’فورٹ ولیم کالج‘ بحوالہ شِتی کنٹھ مشر، ’کھڑی بولی کا آندولن‘ ، ص ۷۱)

للوجی لال نے ۱۸۰۳ء میں فورٹ ولیم کالج کے احاطے میں جو زبان گھڑی تھی اس کا اسی احاطے میں ۱۸۱۲ء میں باقاعدہ نام ’’ہندی جس کا اپنا رسمِ خط ہے‘‘ بھی پڑگیا۔

ولیم ٹیلر کے مستعفی ہوجانے کے بعد ۱۸۲۳ء میں ولیم پرائس ہندستانی شعبے کے پروفیسر اور صدر مقرر کیے گئے۔ وہ ہندی کے زبردست حمایتی تھے اور ہندی کو اُردو پر ترجیح دیتے تھے۔ ہندی سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ پروفیسر توتھے ہندستانی کے لیکن خود کو ہندی پروفیسر کہتے تھے اور لکھتے بھی ہندی پروفیسر تھے۔ اسی زمانے میں لفٹننٹ ڈی ۔رڈیل کو فورٹ ولیم کالج کونسل کا سکریٹری مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے رڈیل کالج کے ممتحن کے عہدے پر فائز تھے۔ رڈیل نے بھی اُردو کے خلاف معاندانہ روش اختیار کررکھی تھی۔ اُردو کے بارے میں ان کی نیت صاف نہیں تھی۔ وہ اسے مغلوں کی رائج کی ہوئی ایک غیر ملکی زبان کہتے تھے اور اُردو کے بجائے دیسی زبان کی تعلیم کو زیادہ مفید تصور کرتے تھے۔ رڈیل نے ۲۴/ستمبر ۱۸۲۴ء کو کالج کونسل کی جانب سے گورنمنٹ سکریٹری قانون کو جو خط لکھا تھا اس سے ان کی اُردو دشمنی کا صاف پتا چلتا ہے۔ اس خط کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:

’’ہندوستانی جسے اُردو بھی کہاجاتا ہے اسے ہندوستان کے سربر آوردہ لوگ اور بالخصوص مسلمان بولتے ہیں۔ چوں کہ اسے مغلوں نے رائج کیا تھا اس لیے آج بھی یہ ایک غیر ملکی زبان سمجھی جاتی ہے۔ اُردو کی ضروری تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ہندوستان کی تین چوتھائی آبادی اس کے عربی فارسی الفاظ کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ اس کے بجائے سنسکرت سے نکلی ہوئی کسی بھی دیسی زبان کو پڑھانا زیادہ مفید رہے گا۔ ‘‘ (بحوالہ گیان چند جین، ’ایک بھاشا.... ‘، ص۱۶۵)

اس اقتباس سے نہ صرف یہ پتا چلتا ہے کہ رڈیل کی اُردو زبان کے بارے میں معلومات کتنی غلط، ناقص اور نا مکمل ہیں بلکہ اُردو سے ان کی عصبیت اور عناد کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

آئندہ کے حالات بتاتے ہیں کہ فورٹ ولیم کالج کو نسل نے اُردو کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا تھا۔ چنانچہ کالج کونسل کی ہی سفارش پر گورنر جنرل نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں بھرتی ہونے والے نئے ملازمین کو’’ ہندوستانی کے بجائے برج بھاشا ‘‘کی تعلیم دیے جانے کی منظوری دے دی تھی۔ بقول گیان چند جین ’’گورنر جنرل نے اس تجویز پر صاد کر دیا ۔‘‘ (ایضاً )

انھیں سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے راقم الحروف نے اپنی کتاب ’لسانی تناظر ‘ (۱۹۹۷ء) میں اس خیال کا اظہار کیا تھا:

’’حقیقت تو یہ ہے کہ نہ صرف فورٹ ولیم کالج بلکہ انگریزی حکومت نے بھی اُردو کے خلاف معاندانہ روش اختیار کر رکھی تھی۔‘‘ (ص ۲۵۴)

اس عبارت کو پڑھ کر جین صاحب نہایت جزبز ہوئے اور انھوں نے اپنی متذکرہ کتاب میں صفحہ ۱۶۳ پر اس عبارت کو نقل کرتے ہوئے راقم الحروف کو ہدفِ ملامت بنایا۔

کیاگیان چند جین نے حکم چند نیر کا وہ بیان نہیں دیکھا (یا اگر دیکھا تو نظرانداز کر دیا!) جس میں انھوں نے فورٹ ولیم کالج کے ارباب کو صاف طور پر کھڑی بولی ہندی کی پیدایش کا ذمے دار ٹھہرایا ہے، نیز برطانوی سامراجی حکام کی اس لگن اور دُھن کاذکر کیا ہے جسے انھوں نے ’’ہندی کو ہندوؤں کی قومی ، تہذیبی اور عوامی زبان بنانے کے لیے ‘‘ اپنا شعاربنالیا تھا؟ حکم چند نیر اپنی کتاب ’اُردو کے مسائل‘ (۱۹۷۷ء) میں لکھتے ہیں:

’’اگر چہ انیسویں صدی کے آغاز ہی میں فورٹ ولیم کالج کے سربراہوں نے متعدد اُردو کتابوں کو دیوناگری میں شائع کرکے اور للولال جی سے ’پریم ساگر‘ لکھواکر کھڑی بولی پر مبنی ، شدھ ہندی کی بنیاد ڈال دی تھی، لیکن اس صدی کے وسط تک دیوناگری اور ہندی کا دائرۂ عمل فورٹ ولیم کالج کی چار دیواری، یا زیادہ سے زیادہ یورپی حکام کے ذہنوں تک محدود رہا تھا۔ اس زمانے میں ہندی کو ہندوؤں کی قومی، تہذیبی اور عوامی زبان بنانے کے لیے سامراجی حکام کس طرح سرگاڑی اور پاؤں پہیہ کیے ہوئے تھے، اس کا اندازہ بنارس کالج (سابق سنسکرت کالج و بعدہٗ کوئنسز کالج) کے پرنسپل اور شعبۂ انگریزی کے صدر ڈاکٹر جے. آر. بیلن ٹائن کی رپورٹ سے بخوبی ہوسکتا ہے۔‘‘ (ص ۸۵و ۸۶)۔

اس کے بعد حکم چند نیر نے بیلن ٹائن کی رپورٹ کا متن پیش کیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے کالج کے ہندو طلبہ کو ، جو ’’ہندی کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے‘‘ ، ہندی پڑھنے اور اسے ’’اپنی ماؤں اور بہنوں ‘‘ کی زبان سمجھنے کے لیے اکساتا تھا۔ اس نے ان طلبہ کو ایک مضمون لکھنے کے لیے کہا تھا جس کا عنوان تھا، ’’تم اپنی ماؤں اور بہنوں کی روز مرہ زندگی کی واحد زبان کو اور ان کی تہذیب کو حقارت کی نظر سے کیوں دیکھتے ہو۔‘‘ اس پر طلبہ کو سخت حیرت ہوئی اور انھوں نے بیلن ٹائن کو ایک عرضداشت دی جس میں یہ سوال اٹھایا کہ وہ ]بیلن ٹائن[ایسا کیوں کر سمجھتے ہیں؟ طلبہ نے یہ بھی کہا کہ ’’ہمیں یہ بخوبی معلوم نہیں کہ آپ یوروپی لوگ ہندی سے کیا مراد لیتے ہیں، کیوں کہ یہاں سینکڑوں بولیاں ہیں اور ہمارے خیال میں سبھی ہندی کہلانے کی یکساں مستحق ہیں۔‘‘ (رپورٹ تعلیماتِ عامہ شمال مغربی صوبہ جات، بابت ۴۷۔۱۸۴۶ء ، ص ۳۲۔ بحوالہ حکم چند نیر ، ’لسانی مسائل‘ ، ص ۸۷)۔

ان رپورٹوں سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انیسویں صدی کے نصفِ اول میں ہندی کی کیا اہمیت اور حیثیت تھی اور برطانوی سامراجی حکام کس طرح اُردو کے مقابلے میں ہندی کو آگے بڑھانے کے درپے تھے۔ صرف اس لیے کہ ہندوستان کی دو معزز قوموں کے درمیان جویگانگت اور لسانی و حدت قائم ہے وہ پارہ پار ہوجائے۔ اس سے ہندوستان میں برطانوی مفاد کو تقویت پہنچنے کے بیحد امکانات تھے۔ نہ صرف بیلن ٹائن بلکہ اس زمانے کے دوسرے انگریز بھی دل میں اُردو سے عناد رکھتے تھے اور ہندی کو Promoteکرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔ ایسے ہی ایک شخص کا نام سرجارج ابراہم گریرسن تھا۔ گرپرسن کا تعلق اگرچہ بنگال سول سروس سے تھا لیکن بعد میں وہ ہندوستانی لسانیات کے ماہر اور Linguistic Survey of India(=لسانی جائزۂ ہند) کے مصنف کی حیثیت سے مشہور ہوا۔ یہ ہندی زبان کا زبردست حمایتی تھا اور اس کی ترویج و ترقی کا دل سے خواہاں تھا۔ یہ ناگری پرچارنی سبھا کا، جو ہندی اور ناگری رسمِ خط کے ’پرچار‘ کے لیے ۱۸۹۳ء میں بنارس میں قائم کی گئی تھی، باقاعدہ رکن تھا۔ بقول حکم چند نیر ، ’’گریرسن نے شمال مغربی صوبجات کی عدالتوں اور دفتروں میں ہندی کو اُردو کے برابر درجہ دلانے کے لیے ۱۸/اپریل ۱۹۰۰ء کے میکڈانل کے فیصلے کے سلسلے میں نہایت اہم رول ادا کیا تھا‘‘ (ایضاً ، ص ۸۸)۔

شیام سندر داس جو ناگری پرچارنی سبھا کے بانیوں میں سے تھے اپنی خود نوشت ’میری آتم کہانی ‘میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے ’’گریرسن کو ہندی کی حمایت میں مضمون لکھ کر کسی اخبار میں چھپوانے کے لیے لکھا تھا۔ گریر سن نے کچھ جواب نہ دیا۔ شیام سندر داس نے شکایتی خط لکھا۔ اس دوران میں میکڈانل کا فیصلہ شائع ہوچکا تھا تو گریرسن نے شیام سندر داس کو لکھا کہ میں نے پسِ پردہ رہ کر ہندی کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ مضمون لکھ کر نہ کرسکتا تھا۔‘‘ (بحوالہ حکم چند نیر، متذکرہ کتاب ، ص ۸۸)

گیان چند جین نے اپنی کتاب ’ایک بھاشا ....‘ میں کرسٹوفر کنگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’کالج میں کبھی ہندی کاالگ شعبہ قائم نہیں ہوا جب کہ ہندوستانی، عربی اور فارسی کے تھے‘‘ (ص ۱۶۶) ۔ کنگ اور جین کو معلوم ہونا چاہیے کہ فورٹ ولیم کالج میں ہندی کا الگ شعبہ قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کیوں کہ ۱۸۰۰ء میں جب کلکتے میں یہ کالج قائم ہوا تو اس وقت ہندی (=کھڑی بولی ہندی) کا وجود نہ تھا۔ یہ زبان فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد معرضِ وجود میں آئی۔ اس عہد میں علاقائی بولیاں، مثلاً برج بھاشا، اودھی، راجستھانی وغیرہ ضروررائج تھیں لیکن کھڑی بولی ہندی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۸۲۴ء کے اواخر میں فور ٹ ولیم کالج کونسل نے گورنر جنرل سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں بھرتی ہونے والے نئے ملازمین کوہندستانی کے بجائے برج بھاشا کی تعلیم دیے جانے کی سفارش کی تھی۔ اگر اس وقت کھڑی بولی ہندی موجود ہوتی تو کالج کونسل کے ارباب برج بھاشا کو پڑھائے جانے کی سفارش کیوں کرتے اور گورنر جنرل اس تجویز پر ’’صاد‘‘ کیوں کرتے ؟

فورٹ ولیم کالج کے ابتدائی دور میں بھی گلکرسٹ نے ’’بھاکھامنشی‘‘ کی ہی تقرری کی سفارش کی تھی، نہ کہ ہندی منشی کی۔ کیوں کہ ہندی (=کھڑی بولی ہندی) نام کی زبان کا اس وقت کوئی وجود تھا ہی نہیں اور لفظِ ہندی بالتحضیص اُردو کے لیے ہی استعمال ہوتا تھا۔ فورٹ ولیم کالج کے مترجمین و مصنفین بھی ’ہندی‘ سے اُردو ہی مراد لیتے تھے۔ یہاں تک کہ قرآن کے اُردو ترجمے کو بھی ہندی ترجمہ کہا جاتا تھا۔ گیان چند جین کو بھی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہندی، اردو کا ہی ایک نام تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

’’انیسویں صدی کی ابتدا تک ’ہندی‘ نام اُردو کے لیے مستعمل تھا۔‘‘ (’ایک بھاشا ....‘ ص ۱۳۴)

لیکن اس بات کے وافر شواہد موجود ہیں کہ نہ صرف انیسویں صدی کی ابتدا تک بلکہ پوری انیسویں صدی کے دوران زبانِ اُردو کے لیے ’اُردو ‘ نام کے علاوہ ’ہندی‘ نام بھی مستعمل رہا ہے، بلکہ اقبالؔ نے تو بیسویں صدی کے اوائل میں بھی اپنی فارسی مثنوی ’اسرارِ خودی‘ میں اُردو کے لیے ہندی نام استعمال کیاہے:

گرچہ ہندی در عذوبت شکر است

طرزِ گفتارِ دری شیر یں تراست

(یہاں ’’ہندی ‘‘ سے مراد اُردو اور ’’دری ‘‘ سے فارسی مرادہے۔ )

اس امر کا ذکر کیا جاچکا ہے کہ انیسویں صدی کے دوران ’ہندستانی‘ سے بلاشرکتِ غیر ے (Exclusively) ’اُردو ‘ ہی مراد لی جاتی تھی کوئی اور زبان نہیں، نیز جس زبان کو انگریز ’’ہند ستانی ‘‘ (’’Hindoostanee‘‘) کہتے تھے وہ زبان ’اُردو ‘ ہی تھی جو فارسی (یا عربی فارسی) رسمِ خط میں لکھی جاتی تھی جیسا کہ آج بھی لکھی جاتی ہے، لیکن یہ اب اُردو کا اپنا رسمِ خط ہوگیا ہے اور اسے اُردو رسمِ خط کہنا ہی درست ہے۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند اپنے ایک مضمون ’’فورٹ ولیم کالج اور ابتدائی ڈکشنر یاں ‘‘ (مطبوعہ’اخبارِ اُردو‘ ]اسلام آباد[، جنوری ۲۰۰۷ء ) میں ’’ہندوستانی مساوی اُردو ‘‘ کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں:

’’اس زبان کا ، جسے ’’ہندوستانی‘‘ کہا گیا ہے (بلاشرکتِ غیرے) رسم الخط ناگری نہیں تھا بلکہ Parso-Arabicتھا۔‘‘

بعض اہلِ ہندی کو یہ غلط فہمی رہی ہے کہ انگریز ’ہندستانی ‘ سے ’اُردو ‘ کے علاوہ ’ہندی ‘ (ناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی کھڑی بولی ہندی ) بھی مراد لیتے تھے۔ انگریزوں نے ناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی کھڑی بولی ہندی کو کبھی ہندستانی نہیں کہا۔ وہ ایسی زبان کو ’’بھاکھا‘‘ کہتے تھے۔ لیکن بھا کھاسے شمالی ہندوستان کی دیگر علاقائی بولیاں بھی مراد لی جاتی تھیں۔

جہاں تک کہ ناگری لپی (رسمِ خط) کا تعلق ہے تو یہ بات غالباً کسی اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں کہ اس زمانے میں یہ ایک غیر مقبول رسمِ خط تھا اور اس کی افادیت بہت کم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گلکرسٹ کے عہد میں فورٹ ولیم کالج کے ہندستانی شعبے میں جن ۳۶ منشیوں / مترجموں/ مصنفوں کا تقرر ہوا تھااور جن کی فہرست کا نقشہ ، مع ان کی تقرری کی تاریخوں، عہدوں اور تنخواہوں کی تفصیلات کے، محمد عتیق صدیقی نے اپنی کتاب ’گل کرسٹ اور اس کا عہد‘ (ص ۱۷۵ تا ۱۷۷) میں پیش کیا ہے ان میں ’’بھاکھامنشی‘‘ (للوجی لال) کے علاوہ صرف ایک ’’ناگری نویس‘‘ (کاشی راج) اور ایک ’’ناگری خوش نویس ‘‘ (مہانند) تھا۔ باقی تمام ملازمین ، باستثنائے چند، صرف اُردو مساوی ہندستانی( اُردو =ہندستانی) کے کاموں پر مامور کیے گئے تھے۔

انیسویں صدی کے دوران ناگری رسمِ خط کو کتنا ’’غیر اہم‘‘ سمجھا جاتا تھا، اس کا اندازہ میجر جوزف ٹیلر کے اُردو ۔ انگریزی لغت A Dictionary, Hindoostanee and Englishکے تخفیف شدہ ایڈیشن (لندن :۱۸۲۰ء) کے دیباچے سے بخوبی ہوتا ہے جس میں ناگری رسمِ خط کی عدم مقبولیت کی وجہ سے اسے پورے طور پر ترک کر دیے جانے کی بات کہی گئی ہے:

"A knowledge of the Nagree character being comparatively of little use to the generality of Hindoostanee scholars, I have entirely discarded it...."

(بحوالہ ستیہ پال آنند، متذکرہ مضمون )

اس لغت میں تمام الفاظ اُردو (نسخ ٹائپ) میں دیے گئے ہیں اور ان کے تلفظات رومن (سیدھے Font) میں ۔ ہر لفظ کے آگے اس کے انگریزی معنی ترچھے حروف (Italic) میں دیے گئے ہیں۔ اس لغت میں کہیں بھی ناگری رسمِ خط کا استعمال نہیں ہوا ہے، مثلاً :

A ناقہ naqu, f. (from نوق) A she camel.

P ناگاہn agah, Suddenly, unexpectedly, all at

once, unawares.

H ہمینhumen, To us. Humeen, We, ourselves.

S ہنس huns, m. A duck.
 

الف عین

لائبریرین
نوٹ: Aسے عربی، Pسے پرشین (فارسی)، Hسے ہندستانی اور Sسے سنسکرت مراد ہے)۔

اس سے پہلے گلکرسٹ نے جو انگریزی ۔اُردو لغت A Dictionary, English and Hindoostaneeکے نام سے دو جلدوں میں (علی الترتیب ۱۷۸۶ء اور ۱۷۹۰ء میں) شائع کیا تھا اس میں انگریزی الفاظ کے معنی پہلے رومن اور بعد میں اُردو رسمِ خط (نستعلیق) میں دیے گئے ہیں اور کہیں بھی ناگری رسمِ خط کا استعمال نہیں کیا گیا ہے، مثلاً : (۶)

TO ABANDON, h. chhorna چہورًنا teagna تیاگنا tujna تجنا a. turk kurna ۔ترک کرنا

ABANDONED, a. khalee خالي h. soona سوناoojar اوجارً p. weeran ۔ویران

(نوٹ: hسے ہندستانی ، a.سے عربی اور p.سے پرشین (فارسی) مراد ہے)۔

اس دور میں ناگری رسمِ خط کے غیراہم ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عدالتوں اور دفتروں میں ناگری میں درخواستیں دینے والے عنقاتھے اور درخواستیں لکھنے والے محرر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے تھے کیونکہ گیان چند جین کے بقول ’’یوپی کے علاقے میں پوری انیسویں صدی میں دفتروں اور عدالتوں میں اُردو کا غلبہ رہا ‘‘ (متذکرہ کتاب ، ص ۱۸۶) ۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ۱۸۹۳ء میں بنارس میں ناگری پر چارنی سبھا کا قیام عمل میں آیا۔ حکم چند نیر اس جہت میں سبھا کی سرگرمیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’عدالتوں میں ہندی اور ناگری کو رائج کرنے کے لیے اس نے ]سبھانے[ مختلف شہروں کے وکیلوں اور محرروں سے رابطہ قائم کیا۔ ناگری میں بلا معاوضہ درخواستیں لکھنے کے لیے ہر ضلع کی عدالت میں ایک تنخواہ دار ناگری نویس محرر مقرر کرنے کی کوشش کی۔ ۱۹۰۳ء میں پہلا تنخواہ دار ناگری نویس محرر بنارس کی عدالت میں مقرر کیا۔‘‘ (’اُردو کے مسائل ‘ ، ص ۱۲۹)

ان مثالوں اور دلیلوں سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں اور پوری انیسویں صدی کے دوران ہندستانی مساوی اُردو (ہندستانی = اُردو) تھی نہ کہ ہندستان مساوی ہندی (ہندستانی =ہندی) ، نیز ہندستانی کہی جانے والی زبان اُردو رسمِ خط میں لکھی جاتی تھی نہ کہ ناگری رسمِ خط میں۔

اس سماجی اور تہذیبی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کھڑی بولی کو، جس سے بعد میں ہندی تشکیل پذیر ہوئی، ہندوؤں نے مسلمانی بولی / زبان سمجھ کر بُری طرح نظر انداز کررکھا تھا۔ اسے وہ بہ نظرِ حقارت دیکھتے تھے اور اس کے لیے ’’ملیچھ بھاشا‘‘ جیسا تحقیری کلمہ استعمال کرتے تھے۔ لہٰذا اس میں ہندوؤں نے انیسویں صدی کے آغاز تک نہ تو باقاعدہ نثر لکھی تھی اور نہ ہی شاعری کی تھی۔ شاعری تو اس سے کوسوں دور تھی۔ نومولود کھڑی بولی ہندی میں سلسلہ وار نثری نمونے انیسویں صدی کے اوائل سے ملنا شروع ہوتے ہیں اور شعری نمونے بیسویں صدی سے۔ انیسویں صدی سے پہلے اس کا نام بھی ہندی نہ تھا۔ کیوں کہ یہ نام بلاشرکتِ غیر ے اُردو کے لیے مستعمل تھا۔ لہٰذا کس بنیاد پر فورٹ ولیم کالج کے اربابِ حل وعقد ہندی کا الگ شعبہ قائم کرتے؟ اور اگر ایسا شعبہ قائم بھی کر دیا جاتا تو وہاں ہندی کے نام پر کیا پڑھایا جاتا ؟ کیوں کہ ہندی (=کھڑی بولی ہندی) میں نہ تو نثر تھی اور نہ نظم، اور نہ ہی اس زبان کا چلن تھا۔ہندی کی کم مایگی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ گلکرسٹ نے ۱۸۰۱ء میں فورٹ ولیم کالج کے ہندی کے طالب علموں کے لیے اُردو شاعر عبداللہ مسکینؔ کا ایک مرثیہ دیوناگری رسمِ خط میں چھاپاتھا۔ اس کے علاوہ مرزا کاظم علی جوان نے ’سنگھا سن بتیسی‘ اور ’سکنتلاناٹک‘ اور مظہر علی خاں ولا نے ’بیتال پچیسی‘ اور ]قصہ[’مادھونل‘ جیسی کتابیں پہلے اُردو ہی میں لکھی تھیں جن کے لیے انھیں انعامات ملے تھے۔ گلکرسٹ کی ایماپر بعد میں یہ کتابیں دیوناگری رسمِ خط میں منتقل کی گئیں۔

اس کے علی الرغم اُردو پورے شمالی ہندوستان میں جاری وساری تھی۔ اُردو کی ادبی روایاتِ نثر و نظم بھی نہایت قدیم و تواناتھیں اوراُردو کو ہندی پرہر لحاظ سے فوقیت حاصل تھی۔ شمالی ہندوستان کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ گلکرسٹ نے ۱۷۹۸ء میں جب اپنی چوتھی کتاب The Oriental Linguist (=مشرقی زبان داں)شائع کی تو اُردو کو ’’ہندوستان کی مقبولِ عام زبان )’’The Popular Language of Hindoostan‘‘) کے نام سے موسوم کیا۔ لہٰذا ایسٹ انڈیا کمپنی کے نووارد سول ملازمین کو اُردو زبان ، جسے انگریز ’’ہندستانی ‘‘ (’’Hindoostanee‘‘)کہتے تھے، کی تعلیم دینا نہایت ضروری ہوگیا تھا۔ اسی مقصد کے تحت گلکرسٹ نے جو ہندستانی زبان (=اُردو زبان ) کا ماہر تھا، سب سے پہلے کلکتے میں جنوری ۱۷۹۹ء میں ایک مدرسہ قائم کیا جس کا نام اس نے اور ینٹل سیمی نری (Oriental Seminary) رکھا۔ یہ مدرسہ گورنر جنرل ویلزلی کی ایماپر قائم کیا گیا تھا اور اسے سرکاری ادارے کی حیثیت حاصل تھی۔ گلکرسٹ کا یہ مدرسہ ڈیڑھ سال تک قائم رہا۔ اسی کی بنیادوں پر کلکتے ہی میں ۱۰/جولائی ۱۸۰۰ء کو بڑے پیمانے پر فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں آیا، کیوں کہ ویلزلی کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ کمپنی کے نو وارد سول ملازمین کو سرکاری زبان فارسی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی زبان ’اُردو ‘ کی بھی تعلیم دی جانی چاہیے۔ اورینٹل سیمی نری کے قیام تک گلکرسٹ اُردو زبان سے بہت اچھی طرح واقف ہوچکا تھا اور اس نے انگریزی ۔اُردو دو لسانی لغت دو جلدوں میں A Dictionary, English and Hindoostanee کے نام سے شائع کی تھی۔ علاوہ ازیں اس نے ۱۷۹۶ء میں اُردو زبان کی قواعد بھی A Grammar of the Hindoostanee Language کے نام سے شائع کی تھی۔ ان کتابوں کی اشاعت سے گلکرسٹ اُردو اسکالر اور مشرقی زبان داں کی حیثیت سے مشہور ہوچکا تھا اور اس کی شہرت انگلستان تک پہنچ چکی تھی، چنانچہ ۱۸۰۰ء میں جب فورٹ ولیم کالج قائم ہوا تو اسی سال اس کا تقرر ہندستانی زبان کے شعبے میں پروفیسر اور صدر کی حیثیت سے کر دیا گیا۔

جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور فورٹ ولیم کالج کے اربابِ حل و عقد اردو کو ’’ہندستانی زبان ‘‘ یا صرف ’’ہندستانی ‘‘ کہتے تھے کیوں کہ ان کے نزدیک اُردو ہی ’’ہندوستان کی مقبولِ عام زبان‘‘ تھی۔ اسی لیے فورٹ ولیم کالج کے اُردو زبان کی تعلیم و تدریس سے متعلق شعبے کا نام ہندستانی شعبہ رکھا گیا۔ اس عہد میں اُردو بمقابلہ ہندی (=زمانۂ حال کی ہندی) یا ہندستانی بمقابلہ ہندی (=زمانۂ حال کی ہندی) نام کی کوئی چیز نہ تھی ، کیوں کہ ہندی (=دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی زمانۂ حال کی کھڑی بولی ہندی) ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی تھی اور لفظِ ہندی، جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے، بلاشرکتِ غیرے صرف اُردو زبان کے لیے مستعمل تھا۔ علاقائی بولیاں اپنے اپنے ناموں سے جانی جاتی تھیں، یا انھیں محض بھاکھا/ بھاشا کہہ دیا جاتا تھا۔ فورٹ ولیم کالج کے ہندستانی شعبے کے منشی جو سب کے سب اُردو داں تھے فورٹ ولیم کالج کو ’’مدرسۂ ہندی‘‘ کہتے تھے اور ہندستانی شعبے کو (جس کے گلکرسٹ پروفیسر اور صدر تھے) ’’تفریقِ ہندی ‘‘ یا ’’تفریقِ ہندوی‘‘ کہتے تھے اور گلکرسٹ کو ’’مدرسِ ہندی‘‘ کے نام سے یادکرتے تھے۔

ان منشیوں نے اپنے تراجم و تالیفات کے دیباچوں میں جہاں اپنے حالاتِ زندگی اور دیگر کوائف بیان کیے ہیں وہیں انھوں نے اُردو کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ لکھاہے۔ اُردو کے لیے لفظِ ’’اُردو‘‘ کے علاوہ ’’زبانِ اُردو ‘‘ ، ’’اُردوے معلی ‘‘، ’’ہندی ‘‘،’’ہندوی‘‘، ’’زبانِ ہندی‘‘ ، ’’زبانِ ریختہ‘‘ جیسے نام بھی استعمال کیے ہیں، مثلاً میر امّن نے ’باغ و بہار‘ میں ’’حقیقت اُردو زبان کی ‘‘، ’’اُردو کے لوگ‘‘ ، ’’ایک زبان اُردو کی مقرر ہوئی‘‘ جیسے فقرے استعمال کیے ہیں۔ میر امّن نے اپنی ایک دوسری کتاب ’گنجِ خوبی‘ میں ’’اُردوے معلی کی زبان ‘‘ کا فقرہ بھی استعمال کیا ہے اور اس کتاب کی ابیات کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ان کو بھی اپنی سمجھ کے موافق جوں کا توں ہندی میں نظم کیا‘‘۔ میر بہادر علی حسینی ’اخلاقِ ہندی‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے ’’زبانِ فارسی سے ترجمہ سلیس رواجی ریختے میں ، جسے خاص و عام بولتے ہیں کیا، اور نام اس کا ’اخلاقِ ہندی‘ رکھا۔‘‘ اسی طرح حیدر بخش حیدری نے جب فارسی تصنیف ’طوطی نامہ‘ کا اُردو میں ترجمہ کیا تو دیباچے میں لکھا کہ ’’زبانِ ہندی میں موافق محاورۂ اُردوے معلی کے .... ترجمہ کیا اور نام اس کا ’توتاکہانی‘ رکھا۔‘‘ حیدری نے خاتمۂ کتاب میں مزید لکھا کہ ’’ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ ہندی میں حرف طوے نہیں اور اس حقیر نے طوطی نامۂ فارسی کو زبانِ ریختہ میں لکھا، اس واسطے اس طوطی کی طوئے کوتے سے بدل دیا۔‘‘ حیدر بخش حیدری کی دوسری مشہور کتاب ’آرایشِمحفل‘ ہے جو ایک فارسی کتاب کا ترجمہ ہے۔ اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’جان گلکرسٹ صاحب دام اقبالہٗ کے حکم سے .... زبانِ ریختہ میں اپنی طبع کے موافق ترجمہ نثر میں کیا اور اس کا نام ’آرایشِمحفل‘ رکھا۔‘‘ فورٹ ولیم کالج کے مصنفین میں شیر علی افسوسؔ بھی تھے جنھوں نے ’باغِ اُردو‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ وہ اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’بارے فضلِ ایزدی اور لطفِ سرمدی سے تمام کتاب زبانِ اُردو میں لکھی اور مقبول خاص و عام کی ہوئی۔ نام اس کا ’باغِ اُردو‘ رکھا۔‘‘ فورٹ ولیم کالج میں گلکرسٹ کی ایما پر قرآن شریف کے اُردو ترجمے کا کام بھی پایۂ تکمیل کو پہنچا تھا اور اس کے ۵۶ صفحات چھپ بھی گئے تھے لیکن گلکرسٹ کے جانے کے بعد اربابِ کالج نے اس کی طباعت رکوادی تھی۔ اس ترجمے کا کام کئی لوگوں نے انجام دیا تھا جن میں مرزاکاظم علی جوانؔ بھی تھے۔ وہ اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں، ’’قرآن شریف کا ترجمہ زبانِ ریختہ میں تمام ہوا۔‘‘ اسی دیباچے میں کئی جگہ ’’ہندی‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے، مثلاً ’’اگر فارسی ترجمہ ہوا ہے تو ہندی میں کیا کفر ہے‘‘ ، یا ’’ترجمہ کلام اللہ کا اگر چہ ہندی زبان میں ہے، ہند کے لوگ بخوبی سمجھیں گے‘‘، یا ’’یقین ہے کہ سہج سہج کتابیں اس عصر میں عربی و فارسی سے ہندی میں ہوئی ہیں‘‘، وغیرہ۔ کاظم علی جوانؔ نے ’سکنتلا ناٹک‘ بھی اُردو میں لکھا۔ وہ اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’گلکرسٹ صاحب بہادر دام ظلہٗ کے حسب الحکم کاظم علی جوان نے اسے زبانِ ریختہ میں بیان کیا۔‘‘ اسی دیباچے میں جوانؔ نے گلکرسٹ کو ’’مدرسِ ہندی‘‘ لکھا ہے:

’’کرنل اسکاٹ صاحب جو لکھنؤ کے بڑے صاحب ]رزیڈنٹ[ہیں، انھوں نے حسب الطلب گورنر جنرل بہادر دام ملکہ کے ۱۸۰۰ عیسوی میں کتنے شاعروں کو سرکارِ عالی ]کمپنی[کے ملازموں میں سرفراز فرماکر اشرف البلاد کلکتے کو روانہ کیا۔ انہوں میں احقر بھی یہاں وار دہوا، اور موافق حکمِ حضور خدمت میں مدرسِ ہندی کے ، جو صاحب والا مناقب جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام ظلہٗ ہیں، شرف اندوز ہوا۔ دوسرے ہی دن انہوں نے نہایت مہربانی و الطاف سے ارشاد فرمایا کہ سکونتلا ]سکنتلا[ناٹک کا ترجمہ اپنی زبان کے موافق کر۔‘‘ (بحوالہ محمد عتیق صدیقی، ’گلِ کرسٹ اور اس کا عہد‘ ، ص ۲۰۴)۔

مرزا علی لطف ، نہال چند لاہوری اور باسط خاں اگرچہ فورٹ ولیم کالج کے ملازم نہ تھے لیکن گلکرسٹ نے ان سے کالج کے ہندستانی زبان کے شعبے کے لیے کتابیں لکھوائیں۔ لطف نے فارسی تذکرے ’گلزارِ ابراہیم‘ (از علی ابراہیم خاں) کی بنیاد پر اُردو میں تذکرۂ ’گلشنِ ہند‘ لکھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ان فارسی کتابوں کے ہندی نثر کرنے سے مراد ہمیں یہ ہے کہ صاحبانِ انگریز تازہ ولایت سے جو آتے ہیں ہم ان کی تربیت کے لیے سارا یہ خونِ جگر کھاتے ہیں۔‘‘ نہال چند لاہوری نے تاج الملوک اور گل بگاؤ لی کے قصے کو فارسی سے اُردو میں منتقل کیا اور اس کا نام ’مذہبِ عشق ‘ رکھا۔ چنانچہ وہ اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’اس نحیف نے مارکوئس ولزلی، نواب گورنر جنرل بہادر دام اقبالہٗ کے عہد میں، ہندی میں تالیف کیا اور نام اس کا ’مذہبِ عشق‘ رکھا۔‘‘ اسی طرح باسط خاں ’گلشنِ ہند کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ’’ بہ طریق بسم اللہ کے اگر اتنی عبارت ہندی تحریر میں یا تقریر میں آئی تو کچھ کلمۂ کفر نہیں۔‘‘

ان دلائل و شواہد اور معروضی حقائق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انیسویں صدی کے اوائل میں جو زبان ’’ہندی‘‘ کے نام سے موسوم تھی وہ ہماری آج کی اُردو تھی، نہ کہ زمانۂ حال کی ناگری ہندی کیوں کہ اِس ہندی کا تو اس وقت کوئی وجود ہی نہ تھا۔ چنانچہ آج سے دو سو سال پہلے ’ہندی‘ سے صرف ایک ہی زبان مراد لی جاتی تھی اور وہ تھی ’اُردو ‘ ۔ یہی زبان ’ریختہ‘ کہلاتی تھی اور اسی کا دوسرا نام ’ہندستانی ‘ تھا۔ لہٰذا ارباب فورٹ ولیم کالج ایک ہندی یعنی اُردو کی موجودگی میں کسی دوسری ہندی (جس کا وجود ہی نہ ہو) کا شعبہ کیسے قائم کرسکتے تھے۔ گیان چند جین نے یہ بات کہ، فورٹ ولیم کالج میں ہندی کا شعبہ نہ تھا، آج کے لسانی تناظر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہی ہے۔ اگر ان کی نظر آج سے دوسوسال پہلے کے شمالی ہندوسان کے لسانی وتہذیبی منظر نامے پر مرکوز ہوتی تو وہ ہر گزیہ بات نہ کہتے ۔کسی عہد کے لسانی مسائل پر لکھتے وقت اس عہد کے تہذیبی و عمرانی پہلوؤں پر بھی غور کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ گیان چند جین صرف فورٹ ولیم کالج کے ریکارڈ زکو ٹٹولتے ہیں، ان کی نظر یں اس عہد کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی منظر نامے پر نہیں جاتیں کہ صحیح نتائج اخذ کرسکیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اربابِ حل و عقدنے اُردو کی تہذیبی اہمیت اور سماجی قدر و قیمت نیز ضرورت کو سمجھا اور اس کے افادی پہلوؤں پر نظر رکھتے ہوئے عصری تقاضوں کو اس کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ یہ رتبہ شمالی ہندوستان کی کسی اور زبان کو حاصل نہ تھا۔ اسی لیے فورٹ ولیم کالج میں اُردو کی تعلیم و تدریس کے لیے ایک علیٰحد ہ شعبہ قائم کیا گیا جسے ہندستانی شعبہ کہا گیا۔ ہندی (کھڑی بولی ہندی) کی اس وقت نہ تو کوئی لسانی اہمیت تھی اور نہ سماجی قدروقیمت اور افادیت ۔ یہی وجہ ہے کہ انیسویں صدی کے پانچویں دہے میں بھی بنارس سنسکرت کالج (بعدہٗ کوئنز کالج) کے ہندو طلبہ تک ہندی پڑھنے سے گھبراتے تھے بلکہ گریزکرتے تھے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت متذکرہ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر بیلن ٹائن، جو ہندی کا زبردست حمایتی تھا، کی وہ کوششیں ہیں جو اس نے اپنے کالج کے طلبہ میں ہندی سے رغبت پیدا کرنے اور انھیں اس زبان کی تحصیل کی جانب مائل کرنے کے لیے کی تھیں، لیکن اس میں وہ ناکام رہا تھا۔ یہ ذکر فورٹ ولیم کالج کے قیام کے ۴۵ سال بعد کا ہے۔ اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے قیام کے وقت ہندی اور ہندی تعلیم کی کیا کیفیت رہی ہوگئی۔

سنہ ۱۸۰۰ ء کے آس پاس شمالی ہندوستان میں جہاں مختلف بولیوں کے مختلف نام رائج تھے وہیں ایک نام ’بھاکھا‘ بھی مستعمل تھا جس کا ماخذ سنسکرت لفظ ’بھاشا‘ (= زبان) ہے۔ یہ نہ صرف برج بھاشا (جو دہلی کے جنوب مشرقی علاقے کی بولی ہے اور جس کا مرکز متھرا ہے) کے لیے مستعمل تھا بلکہ کسی بھی علاقائی یا مقامی بولی کو ’بھاکھا‘ کہہ دیا جاتا تھا۔ کچھ اہلِ علم اسے زمانۂ حال کی ناگری ہندی کی ابتدائی شکل مانتے ہیں۔ اسی لیے اس زمانے (انیسویں صدی کی ابتدا) میں ناگری ہندی کو بھی اکثر بھا کھا کہہ دیا جاتا تھا۔یہ کوئی مستقل اور مخصوص بولی یا زبان نہ تھی اور نہ ہی اس زمانے میں اس کی کوئی اہمیت تھی۔ منشی سدا سکھ لال جوکھڑی بولی ہندی کی کتاب ’سکھ ساگر‘ کے مصنف بتائے جاتے ہیں، بنیادی طور پر اُردو کے شاعر تھے اور نیازؔ تخلص کرتے تھے۔ انھوں نے ’بھاکھا‘ کی حقیقت صرف ایک مصرع میں بیان کر دی ہے، ع

رسم ورواج بھاکھا کا دنیا سے اٹھ گیا

’بھاکھا‘ ایک عام لسانی اصطلاح تھی جس کا اطلاق کسی بھی علاقائی بولی کے لیے، جو اُردو /ہندی/ ہندوی /ریختہ/ ہندستانی نہ ہو، ہوسکتا تھا۔ لیکن چوں کہ اس کی کوئی اہمیت نہ تھی اس لیے اس کا چلن روز بروز کم ہوتا جاتا تھااور لوگ شائستہ اور ترقی یافتہ زبان اردو کی جانب مائل ہوتے جاتے تھے، جیسا کہ منشی سدا سکھ لال نیازؔ کے متذکرۂ بالا مصرع سے بھی ظاہر ہے۔ تاہم گلکرسٹ نے فورٹ ولیم کالج کے ہندستانی زبان کے شعبے میں جو بنیادی طور پر اُردو زبان کا شعبہ تھا ۷/جون ۱۸۰۲ء کو پچاس روپے ماہانہ مشاہرے پر ایک ’’بھاکھا منشی‘‘ (للوجی لال) کا تقرر کروایا۔ لیکن گلکرسٹ جب فروری ۱۸۰۴ء میں مستعفی ہوکر کالج سے الگ ہوگئے تو ان کے جانشین کی تجویز پر ۱۱/جون ۱۸۰۴ء کو للوجی لال کو ’’غیر ضروری‘‘ قرار دے کر بر طرف کر دیا گیا۔ اس عہد میں ہندی(=کھڑی بولی ہندی) کی کیا اہمیت وافادیت تھی ، اس امر کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج میں ایک بھاکھا منشی تک کی کھپت نہ ہوسکی، ہندی کا الگ شعبہ قائم کرنا تو دور کی بات تھی۔ جین صاحب کو یہ بات سوچنی چاہیے تھی کہ فورٹ ولیم کالج کے ارباب نے للوجی لال کو جو بھاکھا منشی کے عہدے پر فائزتھے، بالآخر محض دو سال کے قلیل عرصے میں ’’غیر ضروری ‘‘ قرار دے کر کیوں برطرف کر دیا تھا؟ جب کہ اُردو کے درجنوں منشی اور مصنفین ومترجمین، مثلاً شیر علی افسوس ،مرزا کاظم علی جوان، مظہر علی خاں ولا، میربہادر علی حسینی، میر امن، حیدر بخش حیدری، خلیل علی خاں اشک، مرزا محمد فطرت لکھنوی، مولوی حفیظ الدین، مرتضیٰ خاں، تصدق حسین، واجد علی وغیرہ اسی طرح اپنے اپنے عہدوں پر بحال اور اُردو کے تصنیفی و تالیفی کاموں میں منہمک رہے۔ گیان چند جین نے للوجی لال کی فورٹ ولیم کالج میں تقرری کا ذکر تو کیا ہے لیکن ان کی برطرفی کی بات کو وہ دباگئے ہیں۔ کیونکہ کہ اگر وہ للوجی لال کی برطرفی کا ذکر کرتے تو انھیں یہ بھی بتانا پڑتا کہ انھیں کیوں برطرف کر دیا گیا تھا۔ اس طرح اُس عہد میں ہندی کی عدم مقبولیت اور غیر افادیت کا راز فاش ہوجاتا ۔ گیان چند جین کو فورٹ ولیم کالج پر یہ الزام عائد کرنے سے پہلے کہ ’’فورٹ ولیم کالج میں اُردو، عربی، فارسی وغیرہ کے شعبے تھے، نہ تھا تو ہندی کا ‘‘ (دیکھیے متذکرہ کتاب، ص ۱۷)، یہ سوچنا چاہیے تھا کہ جب ایک بھاکھا منشی ہی کالج کے لیے ’’غیر ضروری ‘‘ ہوگیا تھا تو ہندی کا ایک پورا شعبہ اربابِ کالج کس بنیاد پر قائم کرتے اور ایک غیر مقبول اور غیر منفعت بخش زبان (جو نومولود بھی تھی )کے لیے زرِ کثر کیوں خرچ کرتے ؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ گلکرسٹ کھڑی بولی ہندی کے اسلوب کو ’’گنوارو‘‘ (Vulgar) تصور کرتا تھا۔ اس کے باوصف اس نے کئی کتابیں بخطِ دیوناگری کھڑی بولی میں لکھوائیں اور کئی کتابیں ہندستانی یعنی اُردو سے دیوناگری رسمِ خط میں منتقل کروائیں۔ اس امر سے کسی اہلِ علم کو انکار نہ ہوگا کہ گلکرسٹ ’ہندستانی‘ سے صرف اُردو مراد لیتا تھا اور اسی کو وہ ’’اصل ہندستانی اسلوب ‘‘ ("The genuine Hindoostanee style")کہتا تھا۔ اس کے علی الرغم کھڑی بولی بخطِ دیوناگری کو وہ ’’ہندوی ‘‘ کہتا تھا جو اس کے نزدیک ’’گنوارو‘‘ ("The vulgar or Hindavi") اسلوب تھا۔ (۷)

فورٹ ولیم کالج میں گلکرسٹ کے جانشینوں نے اُسی ’’ہندوی ‘‘ کو ’’ہندی‘‘ کہنا شروع کر دیا اور اس کے بہی خواہ بن بیٹھے۔ لیکن کالج کے احاطے سے باہر اس طرح کی ہندی کا کوئی چرچایا زور نہ تھااور کافی عرصے تک اس کی طرف کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی تھی، لیکن انیسویں صدی کے وسط سے ہندوؤں کی توجہ رفتہ رفتہ اس زبان کی جانب مبذول ہوتی گئی۔ گیان چند جین کے بقول ’’زبان کا مسئلہ غدر کے بعد اُبھر کر سامنے آیا .... ہندو اور ہندی آہستہ آہستہ بڑھتے جارہے تھے‘‘ (’ایک بھاشا....‘، ص ۱۸۶)۔ ہندی کو ’بڑھانے‘ اور اسے ہندوؤں کی قومی اور تہذیبی علامت بنانے میں برطانوی حکام کی سازش اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمتِ عملی کو کتنا دخل تھا، جین صاحب کی کتاب میں اس کاکوئی ذکر نہیں ملتا ۔ البتہ ۱۰/جولائی ۱۸۰۰ء (فورٹ ولیم کالج کے قیام) سے لے کر ۱۸/اپریل ۱۹۰۰ء (میکڈانل کے ناگری کے نفاذ سے متعلق فیصلے) تک اُردو کے خلاف جو کچھ بھی ہوتا رہا اسے حق بجانب قرار دیتے ہوئے گیان چند جین نے الٹا مسلمانوں کوہی ہدفِ ملامت بنایا ہے۔

...
 

الف عین

لائبریرین
یہ بات اظہر من الشَمس ہے کہ ۱۸۰۴ء میں گلکرسٹ کے فورٹ ولیم کالج سے مستعفی ہوجانے کے بعد اس کے جانشینوں نے اُردو کے ساتھ بہتر سلوک نہیں کیا۔ ادھر کالج کے باہر برطانوی حکام اُردو کے ساتھ روز بروز سخت رویہ اختیار کرتے گئے ۔ اُردو اور اس کے رسمِ خط کے خلاف ہندوؤں کی بھی جارحانہ سرگرمیاں اور تحریکیں زور پکڑتی گئیں۔ ہندوؤں کی سماجی و اصلاحی تحریکیں نیز احیاء پرست تنظیمیں اُردو کی مخالفت اور سنسکرت آمیزہندی اور ناگری رسمِ خط کے ’پرچار‘ میں کھل کر سامنے آگئیں۔ ایک طرح سے فرقہ وارانہ جذبات ور جحانات کو ہوا دے کر ہندی اُردو کشمکش پیدا کی گئی جس کی زد میں پورا شمالی ہندوستان آگیا۔

برہموسماج اگرچہ بنگال کی ایک سماجی تحریک تھی لیکن اس نے ہندی کے ’پرچار‘ کا کام نہایت تن دہی سے انجام دیا۔ دوسری جانب پنجاب میں ۱۸۷۵ء میں آریہ سماج کے نام سے ایک اصلاحی تحریک نے جنم لیا جو درحقیقت ہندوؤں کی ایک احیاء پرست تنظیم تھی، جس کا مقصد ہندوؤں کی اصلاح کے علاوہ ہندی زبان کا ’پرچار‘ بھی تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے قیام کے بعد سے ہی جار حانہ طور پر ہندی کی تبلیغ و اشاعت کا کام شروع کر دیاتھا۔ اس کے روحِ رواں سوامی دیانند سرسوتی تھے جنھوں نے آریہ سماجیوں کے لیے ہندی کا جاننا لازمی قرار دے دیا تھا۔ پنجاب کے ہی ایک اور سماجی کارکن شردھا رام پھلّوری اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے اُردو کے خلاف خوب زہر اگلتے تھے چنانچہ پنجاب میں ہندوؤں کی ایک کثیر تعداد اُردو سے برگشتہ ہوگئی۔ شتی کنٹھ مشرپھلّوری کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’ان کے بھاشنوں کے پربھاو سے پنجاب کی ہندو جنتا نے مسلمانی پربھاو اور بھاشا (اُردو) کو چھوڑ کر ہندی بھاشا اور ہندو دھرم کے پرتی شردھا کرنا سیکھا‘‘۔ (’کھڑی بولی کا آندولن‘ ، ص ۹۴)

(=ان کی تقریروں کے اثر سے پنجاب کی ہندو آبادی نے مسلم اثرات اور زبان (اُردو) کو ترک کرکے ہندی زبان اور ہندو مذہب کے تئیں ایقان و عقیدت پیدا کرنا سیکھا‘‘۔ )

آریہ سماجی رہنماؤں میں لالا لا جپت رائے بھی تھے۔ جنھوں نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ آریہ سماج سے وابستگی سے قبل وہ ہندی سے نابلد تھے، لیکن اس تنظیم سے منسلک ہونے کے بعد انھوں نے پنجاب میں ہندی زبان کے فروغ میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا۔ آریہ سماجیوں نے پنجاب میں ایک ایسی فرقہ وارانہ فضا پیدا کر دی تھی اور اُردو کے خلاف اس سرزمینِ ملک میں تعصب کا ایک ایسا بیج بو دیا تھا جو تنا ور درخت بنتا گیا جس کے نتیجے میں پنجابی ہندوؤں کی ایک کثیر تعداد جو اُردو لکھتی پڑھتی تھی ہندی کی جانب مائل ہوگئی۔

گیان چند جین نے ’ایک بھاشا....‘ (ص ۲۰۰) میں اُردو کے عظیم شاعر اور ماہرِ اقبالیات جگن ناتھ آزاد پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ آریہ سماجی تھے۔ یہ الزام سراسر غلط اور جھوٹا ہے، کیوں کہ آزادؔ آریہ سماجیوں کی طرح متعصب ذہنیت نہ رکھتے تھے بلکہ وہ ایک مثالی سیکولر انسان تھے۔ روشن خیالی ، مذہبی رواداری اور سیکولر اقدار کی پاسداری ہمیشہ ان کا شیوہ رہا۔ وہ اُردو کے ایک سچے عاشق اور شیدائی تھے۔ اس زبان سے ان کا والہانہ لگاؤاور اس کے ادب سے ان کی شدید دل بستگی تادمِ آخر قائم رہی۔ ایسے شخص کو آریہ سماجی کہنا روا نہیں۔ افسوس کہ وہ آج ہمارے درمیان نہیں، ورنہ جین صاحب کی یہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ انھیں آریہ سماجی کہتے!

جگن ناتھ آزاد اپنے بعض ہم مذہبوں کی فرقہ پرستی اور ان کی فرقہ وارانہ حرکتوں اور سرگرمیوں پر ہمیشہ شرمسار رہا کرتے تھے جس کی عمدہ مثال بابری مسجد کے سانحۂ انہدام (۶/دسمبر ۱۹۹۲ء) پر ان کی وہ دل دوز نظم ہے جس نے ہر متمدن انسان کو، جس کے دل میں ذرا بھی غیرت و حمیت ہے، جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔(۱) کیا ایسا شخص آریہ سماجی ہوسکتا ہے؟

ہندوؤں کی ایک اورتنظیم ہندوسماج کا پنڈت مدن موہن مالویہ (جو بعد میں انڈین نیشنل کانگریس کے ممتاز رہنما ہوئے) کی قیادت میں ۱۸۸۰ء میں الٰہ آباد میں قیام عمل میں آیا۔ اس نے جلد ہی ہندی اور ناگری رسمِ خط کے پرچار کی ذمے داری سنبھال لی۔ اس کے کارکنوں نے شمال مغربی صوبہ جات و اودھ کی حکومت نیز حکومتِ ہند دونوں کو ہندی کے حق میں عرضد اشتیں بھیجنے کی ۱۸۸۴ء میں زبردست مہم چھیڑی۔ اسی سال الٰہ آباد میں ہندو سماج کے زیرِ اہتمام ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دیگر امور پر تبادلۂ خیال کے علاوہ، ہندی کو سرکاری طور پر عدا لتوں میں رائج کیے جانے کی تدابیر پر بھی غور کیا گیا۔ اس کانفرنس میں پورے شمالی ہندوستان کے مندوبین نے حصہ لیا۔ اس کے بعد بھی اس تنظیم کے زیرِ اہتمام اُردو کی مخالفت اور ہندی کی موافقت میں جلسے، مذاکرات اور احتجاجی پروگرام منعقد ہوتے رہے۔ لیکن جب ہندوسماج کمزور ہونے لگی تو ۱۸۹۴ء میں پنڈت مدن موہن مالویہ بنارس کی ناگری پرچارنی سبھا سے وابستہ ہوگئے۔

انفرادی سطح پر بھی متعصبانہ رجحانات ونظریات کی تبلیغ اور اُردو مخالف سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ہندی کو ایک طرف نیشنلزم اور دوسری طرف ہندوازم (دوسرے لفظوں میں ہندتو) سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ انیسویں صدی کے ربعِ آخر میں پرتاپ نارائن مشر کا دیا ہوا نعرہ ’’ہندی ، ہندو، ہندستان ‘‘ اسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ پرتاپ نارائن مشر کے علاوہ اس عہد میں متعدد ہندو اُردو کے بارے میں اسی قسم کے متعصبانہ نظریات رکھتے تھے اور ہندی کے پرچار میں وہ کسی بھی حد تک جاسکتے تھے۔ سوامی دیانند سرسوتی، شروھارام پھلوری، لالالا جپت رائے اور پنڈت مدن موہن مالویہ کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ ان کے علاوہ انیسویں صدی میں ایودھیاپرساد کھتری ،بابو( راجا )شیو پرساد اور بھار تیند و ہریش چندر جیسے کتنے ہی ہندو ایسے تھے جو دل سے یہ چاہتے تھے کہ عدالتوں دفتروں اور تعلیم گاہوں سے اُردو کو ہٹاکر ہندی کو نافذ کر دیا جائے۔ اس کے لیے باقاعدہ مہم چھیڑی گئی اور منظم طور پر ’ہندی آندولن‘ (=ہندی تحریک) کا آغاز ہوا جسے ’کھڑی بولی کا آندولن‘ بھی کہا گیا۔ شتی کنٹھ مشر نے، جو بنارس ہندو یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں، اپنی ایک کتاب کا نام ہی ’کھڑی بولی کا آندولن‘ رکھ دیا جو ناگری پرچارنی سبھا ،بنارس سے ۱۹۵۶ء میں شائع ہوئی۔

ایودھیا پر ساد کھتری جن کا تعلق مظفر پور (بہار) سے تھا، کھڑی بولی ہندی میں شاعری کے زبردست حمایتی تھے۔ انھوں نے ’کھڑی بولی کا پدیہ‘ (=کھڑی بولی کی شاعری) کے نام سے ۱۸۸۷ء میں ایک کتاب شائع کی تھی جس میں اُردو کے بارے میں بعض ایسی متعصبانہ باتیں کہی گئی تھیں جنھیں اہلِ ہندی آج تک دہراتے ہیں۔ کھتری برج بھاشا اور کھڑی بولی ہندی کو دو علاحدہ زبانیں مانتے تھے۔ لیکن کھڑی بولی اور اُردو کو ایک ہی زبان تسلیم کرتے تھے۔ وہ ہندی (کھڑی بولی ہندی) اور اُردو میں صرف ’’لپی ‘‘ (=رسمِ خط) کا فرق سمجھتے تھے اور اُردو کو ہندی کی ’’شیلی‘‘ (=اسلوب) قرار دیتے تھے۔ کھتری اہلِ اُردو کو یہ مشورہ بھی دیتے تھے کہ وہ فارسی رسمِ خط کو چھوڑ کر ناگری رسمِ خط اختیار کرلیں۔ عہدِ حاضر، نیز ماضیِ قریب کے اہلِ ہندی کے تین اُردو مخالف نظریوں یعنی اُردو کو ہندی کی شیلی قرار دینے، اس کے رسمِ خط کو بدلنے کی تجویز پیش کرنے، نیز اُردو اور ہندی کو ایک زبانیں قرار دینے کی ابتدا ایودھیاپرساد کھتری سے ہی ہوتی ہے۔

یوں تو کھڑی بولی ہندی کاآغاز ہی اُردو میں سے عربی فارسی الفاظ کو خارج کرکے ان کی جگہ پر سنسکرت کے الفاظ رکھنے سے ہوا۔ لیکن ہندی کو حددرجہ سنسکرت آمیز بنانے کا رجحان بھی انیسویں صدی میں ہی پروان چڑھا۔ اس رجحان کو تقویت دینے والوں میں آگرے کے راجا لکشمن سنگھ پیش پیش تھے۔ انھوں نے سنسکرت کی کئی کتابوں کے ہندی میں ترجمے کیے اور اس زبان کو سنسکرت لفظیات سے انتہائی بوجھل بنادیا ۔ کرسٹوفر کنگ کا کہنا ہے کہ وہ جان بوجھ کر عربی فارسی الفاظ کے استعمال سے گریز کرتے تھے۔ راجا لکشمن سنگھ نے کالید اس کی سنسکرت تصنیف ’رگھوواش‘ کا اپنا ہندی ترجمہ ۱۸۷۸ء میں شائع کیا جس کے دیباچے میں ہندی اور اُردو سے متعلق علاحد گی پسندی پر مبنی اپنے ان خیالات کا اظہار کیا:
’’میری رائے میں ہندی اور اُردو دو بہت مختلف زبانیں ہیں۔ اس ملک کے ہندو ہندی بولتے ہیں، جب کہ مسلمان اور وہ ہندو جنھوں نے فارسی پڑھی ہے اُردو بولتے ہیں۔ ہندی میں سنسکرت الفاظ بکثرت پائے جاتے ہیں جس طرح سے کہ اُردو میں عربی اور فارسی کے الفاظ کثرت سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہندی بولتے وقت عربی اور فارسی الفاظ استعمال کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، اور نہ ہی مَیں ایسی زبان کو ہندی کہتا ہوں جس میں فارسی اور عربی الفاظ کی بھرمار ہو۔‘‘ (بحوالہ کرسٹوفر آر۔کنگ، ’ون لینگویج، ٹو اسکرپٹس‘ ، ص ۳۱)
 

الف عین

لائبریرین
کرسٹوفر کنگ کہتے ہیں کہ راجا لکشمن سنگھ کے اس بیان سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس وقت تک بلکہ اس سے قبل سے ہی ہندی کی شناخت ہندوؤں کی زبان کے طور پر کی جانے لگی تھی اور اُردو کو مسلمانوں کے ساتھ Identifyکیا جانے لگا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس کھڑی بولی ہندی کی داغ بیل للوجی لال نے فورٹ ولیم کالج کے احاطے میں مذہبی بنیاد وں پر ڈالی تھی اسے ہندوآہستہ آہستہ اپنی زبان کے طور پر اپنا تے گئے اور اُردو سے کنارہ کشی اختیار کرتے گئے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے سرکاری دفتروں اور عدالتوں سے اُردو کے اخراج کی مہم بھی چھیڑی نیز سرکاری اور تعلیمی سطح پر ہندی کے نفاذ کی تحریک کا آغازبھی کیا۔

انیسویں صدی کے نصفِ دوم میں ہندی تحریک کو جِلا بخشنے والوں میں بنارس کے راجا/بابوشیو پرساد بھی تھے جو صوبائی محکمۂ تعلیم میں انسپکٹر آف اسکولز تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات اگر چہ بدلتے رہتے تھے لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ تمام عمر ہندی اور ناگری رسمِ خط کے زبردست حمایتی رہے۔ وہ سرکاری دفترں اور عدالتوں سے اُردو کا اخراج اور اس کی جگہ پر ہندی کا نفاذ چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے ۱۸۶۸ء میں انگریزی حکومت کو جو میمورنڈم بعنوان Court Characters, in the Upper Provinces of Indiaپیش کیا تھا اس سے اُردو کے خلاف ان کے انتہائی متعصبانہ اور جارحانہ رویے کا پتا چلتا ہے۔ اس میمورنڈم میں اُردو کو مسلمانوں سے منسوب کرکے اُردو اور مسلمانوں دونوں کو ہدفِ ملامت بنایا گیا ہے۔ اسی لیے اس میمورنڈم کو صیغۂ راز میں رکھنے کے لیے اس پر 'For Private Circulation'لکھا گیا تھا۔ لیکن اب زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ گیان چند جین نے ۲۰۰۵ء میں جو کتاب لکھی اس میں انھوں نے بابو (راجا)شیوپرسادکی طرح اُردو اور مسلمانوں دونوں کو ہدفِ ملامت بنایا اور لکھا کہ ’’اُردو کے تمام یا بیشتر ہندو ادیب اپنے سینے میں ایک راجا شیو پرساد لیے ہوئے ہیں‘‘ (’ایک بھاشا....‘ ، ص ۲۷۸)۔ راجا شیوپرساد کا موازنہ اگر گیان چند جین سے کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۱۳۷ سال بعد بھی کچھ نہیں بدلا ہے۔

بابو شیوپرساد نے اپنے میمورنڈم میں لکھا ہے کہ ’’نووارد مسلم حکمرانوں نے اس بات کی قطعی زحمت گوارانہ کی کہ وہ ہندوستانی زبانیں سیکھتے، بلکہ انھوں نے ہندوؤں کو فارسی سیکھنے پر مجبور کیا، نیز ہندی کہی جانے والی بولیوں میں فارسی کے الفاظ داخل کرکے زبانوں کی ایک نئی مخلوط شکل قائم کی جو اُردو یا ’نیم فارسی‘ کہلائی۔‘‘ بابو شیوپرساد نے حکومت پر سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ ’’اس نے ایسی لسانی پالیسی وضع کی ہے کہ ایک غیر ملکی زبان ، اُردو کو فارسی رسمِ خط میں عوام الناس پر جبراً تھوپ دیا گیا ہے‘‘ ۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’’میں پھرکہتا ہوں کہ اس پالیسی میں مجھے کوئی دانش مندی نظر نہیں آتی جو تمام ہندوؤں کو نیم مسلمان بنانے اور ہماری ہندوقومیت کو نیست و نابود کرنے کے لیے کوشاں ہے۔‘‘ میمورنڈم کی یہ عبارت بھی قابلِ غور ہے کہ ’’ فارسی پڑھنے کا مطلب ہے مفرس بن جانا جس سے ہمارے تمام خیالات فاسد ہوجاتے ہیں اور ہماری قومیت رایگاں ہوجاتی ہے۔ برُا ہواُس دن کا جب مسلمانوں نے سندھ کو عبورکیاتھا۔ ہمارے اندر انھیں لوگوں کی وجہ سے برائیاں آئی ہیں.... ‘‘ (کرسٹوفر آر.کنگ ، متذکرہ کتاب ، ص ۳۱۔۱۳۰)

بابو شیوپرشاد نے اپنے میمورنڈم کو حکومت سے اس استدعا پر ختم کیا کہ ’’جس طرح اس نے ]حکومت نے[ پہلے فارسی زبان کو خارج کیا تھا اسی طرح وہ عدالتوں سے فارسی رسمِ خط کو ختم کرکے ہندی کو نافذ کرے۔ اس سے بہت سے فائدے ہوں گے.... اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ’ہندو قومیت‘ کی بازیابی ہوگی۔ ‘‘ (ایضاً ، ص ۱۳۱)۔

گیان چند جین نے اپنی کتاب ’ایک بھاشا.... ‘ میں بابو (راجا) شیوپرساد کے ۱۹۶۸ء کے میمورنڈم کا ذکر تو کیا ہے، لیکن اُن کے ان متعصبانہ نظریات و بیانات اور اُردو نیز مسلم دشمنی پر مبنی خیالات پر کوئی تنقیدیاتبصرہ نہیں کیابلکہ ان کے موقف کو صد فی صد درست قرار دیتے ہوئے یہ لکھا:

’’۷۰۰ سال کی مسلم حکومت نے جس طرح ہندو تہذیب کو دباکر تیسرے درجے کی چیز بنادیا تھا، ۱۸۵۷ء کی شورش کے بعد اس کے تدارک کے لیے ہندوؤں نے جو کوششیں کیں یعنی نئے حاکموں سے استغاثہ کیا تو اس میں کیا غلط کیا۔‘‘ (’ایک بھاشا...‘، ص ۱۷۶)

سرسید احمد خاں نے اس مذموم میمورنڈم کے بارے میں جب اپنا فطری ردِ عمل ظاہر کیا تو بابوشیو پرساد شاید اتنے خفا نہ ہوئے ہوں گے جتنے خفا کہ ہمارے جین صاحب ہوئے۔ انھوں نے لکھا :

’’ہندوؤں نے اُردو کے بجائے ہندی کو اختیار کرنا چاہا تو سید صاحب جامے سے باہر ہوگئے اور بقیہ عمر میں ہندوؤں کی بیخ کنی کو اپنی پالیسی بنالیا۔ سرسید کا ہندوؤں سے صرف یہ مطالبہ تھا کہ وہ یہ سمجھیں جیسے ہندوستان میں اسلامی حکومت موجود ہے۔‘‘ (ایضاً، ص۱۸)

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ عدالتوں ، دفتروں اور تعلیم گاہوں سے اُردو کے جبریہ اخراج پر اظہارِ افسوس کرنے ، اُردو دشمنی کے خلاف آواز بلند کرنے اور قوموں کے درمیان ہم آہنگی ، یگانگت اور بھائی چارہ قائم کرنے کی سرسید احمد خاں کی کوششوں کو گیان چند جین ’’ہندوؤں کی بیخ کنی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ منفی سوچ اسی کو کہتے ہیں !

راجا/ بابو شیو پرساد کے ہم عصروں میں بھار تیندو ہریش چندر خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق بھی بنارس سے تھا۔ انھوں نے اگر چہ بہت کم عمر پائی اور محض ۳۵ سال (۱۸۵۰ تا ۱۸۸۵ء) زندہ رہے ، لیکن جدید ہندی ادب کے ابتدائی عہد کے ایک بڑے ادیب کی حیثیت سے وہ اپنا نام پیدا کرگئے۔ وہ کھڑی بولی ہندی کے پہلے باقاعدہ مصنف مانے جاتے ہیں۔ گیان چند جین ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ یہ نہ بھولنا چاہیے کہ وہ اردو کے خلاف نہ تھے‘‘ (’ایک بھاشا ....، ص ۱۷۷)۔ لیکن کرسٹو فرکنگ کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہندی اور ناگری رسمِ خط دونوں کی حمایت و وکالت میں بابو شیو پرساد سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا:

"Bharatendu championed the cause of both Hindi and the Nagari script even more vigorously than Prasad." (King, One Language, Two Scripts, p. 32)

شتی کنٹھ مشر لکھتے ہیں:

’’بھارتیندو ہریش چندر نے ہندی چھیتر میں آتے ہی ہندی پرچار کو ایک ساموہک کرانتی کے روپ میں بڑے اُتساہ کے ساتھ سمپورن ہندی پردیش میں چلایا‘‘۔ (’کھڑی بولی کا آندولن‘، ص۹۶)

(=بھارتیندو ہریش چندر نے ہندی کے میدان میں قدم رکھتے ہی ہندی کی ترویج و اشاعت کے کام کو ایک اجتماعی انقلاب کی شکل میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ پورے ہندی علاقے میں سرانجام دیا۔)

بھارتیندو کھڑی بولی ہندی نثر کے حمایتی تھے لیکن کھڑی بولی میں شاعری کے خلاف تھے۔ وہ شاعری کے لیے برج بھاشا کو ہی موزوں سمجھتے تھے۔ انھوں نے خود بھی برج بھاشا میں شاعری کی۔ وہ اگر چہ اُردو کے بھی شاعر تھے اور رساؔ تخلص کرتے تھے لیکن اُردو کے بارے میں ان کی نیت صاف نہیں تھی۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں اُردو کا اکثر مذاق اڑایا ہے اور اسے تضحیک و تمسخر کا نشانہ بنایا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اُردو اور حامیانِ اُردوپر طنز کے وار بھی کیے ہیں اور انھیں مطعون و ملعون بھی کیا ہے۔ اس کی بہترین مثال ان کا ’سیاپا‘ ہے جو انھیں کے رسالے ’ہریش چندر چندر کا‘ میں ۱۸۷۴ء میں شائع ہوا۔ بھارتیندو کی اس قسم کی متعصبانہ اور دل آزارانہ باتوں کو گیان چند جین محض ان کا ’’فکاہیہ‘‘ کہہ کر ٹال جاتے ہیں۔ (دیکھئے ’ایک بھاشا....‘، ص ۱۷۷)

بھارتیندو ہر یش چند رنے مختلف موضوعات پر لکھا ہے۔ ان کی ایک کتاب کا نام ’اگر والوں کی اُتپتی‘ ہے ۔ اس کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں:

’’اِن کا (اگر والوں کا) مکھیہ دیش پشچموتر پرانت ہے اور اِن کی بولی، استری اور پرُش سب کی کھڑی بولی ارتھا ت اُردو ہے۔‘‘ (بحوالہ اومکار ’راہی‘ ’کھڑی بولی: سوَروپ اور ساہتیک پرمپرا‘، ص ۲۵)

(=اِن کا (اگروالوں کا) خاص وطن شمال مغربی علاقہ ہے اور اِن کی بولی، عورت اور مرد سب کی کھڑی بولی یعنی اُردو ہے۔)

گیان چند جین نے اپنی کتاب ’ایک بھاشا‘.... میں بھارتیند و کے حوالے سے اگر والوں کی زبان کے بارے میں کتنا بڑا جھوٹ بولا ہے کہ ’’بھارتیندو نے اگر وال بیوپاریوں کی زبان کو کھڑی بولی کہا ہے، ایک جگہ بھی اُردو نہیں کہا‘‘ ، نیز ’’جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے، ہندوؤں کی کسی ذات میں اُردو کارواج نہ تھا۔ ‘‘ اس ضمن میں جین صاحب کی کتاب کا مکمل متن یہ ہے:

’’یہ بات بھی صاف کر دوں کہ بھارتیندونے اگر وال بیوپاریوں کی زبان کو کھڑی بولی کہا ہے، ایک جگہ بھی اُردو نہیں کہا۔ ہندوؤں میں .... کشمیری پنڈت اور کایستھ اُردو پڑھتے تھے۔ کھتریوں میں صرف پنجابی کھتریوں میں رواج رہا ہوگا۔ اگروالوں میں اُردو کا غیر معمولی رواج ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ جہاں 9تک عورتوں کا تعلق ہے، ہندوؤں کی کسی ذات میں اُردو کا رواج نہ تھا۔‘‘ (ص ۱۷۹)

جین صاحب نے بھارتیند و کے حوالے سے اوپر جو بات کہی ہے اس کا انھوں نے کوئی حوالہ نہیں دیاہے۔ انھوں نے نہ تو بھارتیندو کی کتاب ’اگر والوں کی اُتپتی‘ دیکھی اور نہ ہی اومکار راہی کی کتاب ’کھڑی بولی : سوَروپ اور ساہتیک پرمپرا‘ (دِلّی : لپی پرکاشن ، ۱۹۷۵ء) کا مطالعہ کیا اورمحض قیاس سے یہ بات کہہ دی یا اگر ان مآخذ سے انھوں نے استفادہ کیا تو سچ بات کہنے سے مکر گئے۔ پھر وہ کیوں اس بات کا ڈھنڈوراپیٹتے ہیں کہ ’’اہلِ علم کی وفاداری صرف سچ سے ہوتی ہے۔‘‘ (دیکھیے ’ایک بھاشا ....‘، ص ۱۳)

بھارتیند و ہر یش چندر نے اپنی کتاب ’اگروالوں کی اُتپتی‘ میں ، جس کا اقتباس اومکار راہی نے اپنی متذکرہ کتاب کے صفحہ ۲۵ پر نقل کیا ہے، واضح طور پر یہ بات لکھی ہے کہ ’’ان کا( اگروالوں کا) مکھیہ دیش پشچموتر پرانت ہے اور ان کی بولی، استری اور پرش سب کی کھڑی بولی ارتھات اُردو ہے۔‘‘

گیان چند جین نے بھارتیند و کے اس قول کو توڑ مروڑ کر نیز اس میں حسبِ منشا تحریف کرکے بغیر کسی حوالے کے پیش کیا ہے اور خم ٹھونک کر ایک غلط بات کا پروپیگنڈا کیا ہے جس پر انھیں کچھ تو ندامت محسوس ہو نی چاہیے! بھارتیندو کی متذکرہ کتاب کے اس اقتباس سے تین باتوں کا پتا چلتا ہے:

(۱) اگر وال جو شمال مغربی علاقے کے باشندے تھے، اُردو گوتھے۔

(۲) اگروال خانوادے کے نہ صرف مردوں کی زبان اُردو تھی، بلکہ ان کی عورتیں بھی اُردو بولتی تھیں۔

(۳) اُس عہد میں کھڑی بولی سے اُردو مرادلی جاتی تھی، یعنی کھڑی بولی کا ہی دوسرا نام اُردو تھا۔

یہ بات تو گیان چند جین بھی جانتے ہوں گے کہ تحقیق کی اولین شرط یا بنیادی اصول یہ ہے کہ پہلے اصل مآخذ (Original Sources) تک رسائی حاصل کی جائے، اس کے بعد کوئی عمارت کھڑی کی جائے یا اپنی رائے قائم کی جائے۔ جین صاحب نے اس بات کی چھان بین کیے بغیر کہ بھارتیندو کی اصل عبارت کیا ہے، اپنے مطلب اور منشا کی بات کہہ ڈالی ۔ اس طرح کا استنباطِ مطلب تحقیق کے نام پرایک بدنما داغ تو ہے ہی، آنکھوں میں دھول جھونکنا بھی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
جیسا کہ ابھی کہا گیا ہے، بھارتیندو ہریش چند رکے متذکرۂ بالا قول کے مطابق ’اُردو‘ نہ صرف اگروالوں کی زبان تھی بلکہ ان کے گھر کی عورتوں کی زبان بھی اُردو ہی تھی۔ بھارتیندو کے اس قول سے یہ بات بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ اُردو کا ہی دوسرا نام ’ کھڑی بولی‘تھا۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ انیسویں صدی کے دوسرے ہندوؤں نے بھی اُردو کو کھڑی بولی کے نام سے یاد کیا ہے، مثلاً ایودھیا پرساد کھتری جو بلاتا مل کھڑی بولی کو اُردو کہتے تھے۔ بعض دوسرے ہندوبھی، جو برج بھاشا میں ہندی شاعری کے حمایتی تھے، کھڑی بولی کو اُردو سمجھتے اور کہتے تھے اور کھڑی بولی میں ہندی شاعری کے محض اس لیے مخالف تھے کہ اگر کھڑی بولی میں ہندی شاعری کی گئی تو ان کے خیال میں وہ اُردو ہی بن کر رہ جائے گی۔ خود بھارتیندد کا بھی یہی موقف تھا، اسی لیے وہ برج بھاشا کو ہی ہندی شاعری کے لیے موزوں تصور کرتے تھے۔ انھوں نے کبھی کھڑی بولی ہندی کو شاعری کے لیے موزوں نہیں سمجھا۔ ہاں اُردو میں وہ شعر ضرور کہتے تھے اور رساؔ تخلص کرتے تھے۔ (۲)

انیسویں صدی کے اواخر میں جب ہندی تحریک میں خاصی شدت پیدا ہوگئی تھی اور اس نے جارحانہ وفرقہ وارانہ رخ اختیار کرلیا تھا، ایسے میں ہندی اور ناگری رسمِ خط کا نہایت منظم اور منضبط طور پر ’پرچار‘ کرنے والی ایک اور تنظیم ناگری پرچار نی سبھا کا ۱۸۹۳ء (=سمبت ۱۹۵۰) میں بنارس میں قیام عمل میں آیا۔اس نے ہندی زبان اور ناگری (دیوناگری) رسمِ خط کی ترویج و اشاعت اور توسیع و ترقی کا کام بڑے پیمانے پر اور مضبوط بنیادوں کے ساتھ شروع کیا۔ سبھا کو اس عہد کے بڑے بڑے ہندو راجاؤں اور متعدد رئیسوں کی ہمدردی اور سرپرستی حاصل تھی۔ علاوہ ازیں پنڈت مدن موہن مالویہ اور سرجارج اے۔ گریرسن جیسی مقتدر شخصیتیں بھی سبھا کے ساتھ مل کر کام کررہی تھیں۔

ناگری پرچار نی سبھا نے سب سے پہلے عدالتوں اور دفتروں میں ہندی اور ناگری رسمِ خط کے نفاذ کو اپنا بنیادی مقصد بنایا۔ چنانچہ نومبر ۱۸۹۵ء میں جب شمال مغربی صوبہ جات اور اودھ کے لفٹننٹ گورنر سراینٹونی میکڈانل بنارس آئے تو سبھا نے بہت بڑی تیاری کے ساتھ ایک با اثر وفد منظم کیا جس کے سربراہ اجودھیا کے مہاراجا پرتاپ نارائن سنگھ تھے اور اس کے اراکین میں پنڈت مدن موہن مالویہ، سرسندرلال، راجا ماڑا اور راجا آواگڑھ وغیرہ شامل تھے۔ وفدنے میکڈانل کی خدمت میں اپنا سپاس نامہ پیش کیا جس کے جواب میں انھوں نے کہا:

’’ہم نے آپ کے سپاس نامے کو دلچسپی سے پڑھا ہے۔ آپ کا سب سے اہم سوال عدالتوں اور دفتروں میں اُردو کی بجائے دیوناگری کو رائج کرنے سے متعلق ہے۔ ہم فی الوقت اس مسئلے پر کوئی رائے نہیں دے سکتے، لیکن یہ بہر حال تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کی رائے غورو خوض کی مستحق ہے اور ہم مستقبلِ قریب میں اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ (شیام سندر داس، ’میری آتم کہانی‘، ص ۳۰۔بحوالہ حکم چند نیر، ’اُردو کے مسائل‘،ص ۱۳۰)

اس کے بعد۲/مارچ ۱۸۹۸ء کو جب سر اینٹونی میکڈانل الٰہ آباد آئے تو وہاں بھی سبھا کا سترہ ارکان پر مشتمل ایک وفدان سے ملا۔ اس وفدنے ہندی زبان کو سرکاری اور تعلیمی سطح پر رائج کرنے کے لیے میکڈانل کی خدمت سے ساٹھ ہزار دستخطوں کے ساتھ ایک عرضداشت پیش کی۔ حکم چند نیر لکھتے ہیں کہ ’’یہ عرضداشت پنڈت مدن موہن مالویہ کی کتاب ]’شمال مغربی صوبہ جات و اودھ کا عدالتی رسم خط اور پرائمری تعلیم‘[کی تلخیص تھی۔ ‘‘ (’اُردو کے مسائل ‘، ص ۱۳۱)۔ پنڈت مالویہ نے ۱۸۹۷ء میں Court Character and Primary Education in the N.W.P. and Oudhکے نام سے ایک کتاب شائع کی تھی جس میں انھوں نے اُردو رسم خط کی خامیاں بیان کرتے ہوئے ہندی اور دیوناگری رسمِ خط کی پرزور وکالت کی تھی جس سے ناگری پرچارنی سبھا کے موقف کی بھرپور تائید ہوتی تھی۔ حکم چند نیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ یہ ]کتاب [ سراینٹونی میکڈانل کے ۱۸/ اپریل ۱۹۰۰ء کے فیصلے میں بہت معاون ثابت ہوئی۔ ‘‘ (ایضاً )

سراینٹونی میکڈانل کا اُردو کے بارے میں رویہ انتہائی مخالفانہ تھا۔ وہ صحیح معنی میں ہندی زبان اور ناگری رسمِ خط کے حمایتی تھے۔ شمال مغربی صوبہ جات اور اودھ کا لفٹننٹ گورنر مقرر ہونے سے قبل وہ بہار اور بنگال میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے تھے۔ انھوں نے بہار کے سرکاری دفتروں میں ہندی کو رائج کرانے میں اہم کردار ادا کیاتھا۔ ہندی کی تحریک چلانے والے ہندو میکڈانل کے گورنر بننے سے بہت خوش تھے، کیوں کہ ان سے ان لوگوں کی بیحد توقعات وابستہ تھیں۔ چنانچہ یہی ہوا۔ ۱۸/اپریل ۱۹۰۰ء کو بحیثیتِحاکمِ اعلیٰ (=لفٹننٹ گورنر شمال مغربی صوبہ جات و اودھ) میکڈانل نے ایک ایسا حکم نامہ جاری کیا جس کی رو سے عدالتوں اور سرکاری وفتروں میں ہندی اور دیوناگری رسمِ خط کو اُردو کے برابر درجہ حاصل ہوگیا۔ یہ ہندی تحریک کے علم برداروں بالخصوص ناگری پرچارنی سبھا کے کارکنوں کی بہت بڑی فتح تھی۔ میکڈانل کے اس فیصلے سے اُردو حلقوں بالخصوص مسلمانوں میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی۔ جگہ جگہ اس کے خلاف احتجاجی جلسے منعقد کیے جانے لگے۔ مسلمانوں کی مختلف تنظیموں اور سربرآوردہ شخصیتوں نے اس پر اپنا سخت ردِ عمل ظاہر کیا۔

نواب محسن الملک نے، جومحمڈن اینگلو اورینٹل( ایم اے او) کالج، علی گڑھ کے آنریری سکریٹری تھے، ۱۳/مئی ۱۹۰۰ء کو علی گڑھ میں نواب لطف علی خاں کی صدارت میں منعقدہ ایک عظیم الشان احتجاجی جلسے میں پرزور تقریر کی جس میں انھوں نے حکومت کے اس فیصلے پر مدلل انداز میں بحث کرتے ہوئے اس کے مضر اثرات اور نتائج وعواقب سے عوام کو آگاہ کیا۔ اس جلسے میں یہ تجویز بھی منظور کی گئی کہ ایک عرضداشت تیار کرکے حکومت کوپیش کی جائے۔ اس جلسے کی پوری کاروائی کی نقل حکومت کو بھیج دی گئی۔ میکڈانل علی گڑھ کے اس جلسے کی کاروائی کوسن کرسخت برہم ہوئے اور اس احتجاج کو انھوں نے ’’اپنی گورنمنٹ کی پالیسی پر ایک حملہ سمجھا‘‘۔ میکڈانل کی برہمیِ مزاج کا یہ عالم تھا کہ جب محسن الملک نے ان سے ملاقات کرنے اور بالمشافہ گفتگو کرکے غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے ملنے سے انکار کر دیا اور یہ جواب دیا :

’’جب کہ بذریعۂ تحریر اُردو ناگری کے مسئلے پر مراسلت ہوسکتی ہے تو آپ کے نینی تال تشریف لانے کی تکلیف گوارا کرنا بے ضرورت ہوگا۔ ‘‘ (بحوالہ محمد امین زبیری ، ’حیاتِ محسن ‘، ص ۸۸و ۸۹)۔

علی گڑھ کی طرح لکھنؤ میں بھی میکڈانل کے فیصلے کے خلاف ۱۸/اگست ۱۹۰۰ء کو ایک شاندار احتجاجی جلسہ نواب محسن الملک کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس جلسے کا اہتمام سنٹرل اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن نے کیا تھا جو اسی مقصد کے لیے قائم کی گئی تھی اور نواب محسن الملک جس کے’’ پریسیڈنٹ‘‘ (صدر ) تھے۔ اس کی بھی اطلاع میکڈانل کو مل گئی۔ چنانچہ کچھ عرصے کے بعد جب میکڈانل ، جو ایم اے او کالج کے ’’پیٹرن‘‘ (سرپرست) تھے، علی گڑھ آئے تو انھوں نے کالج کے ٹرسٹیوں (Trustees) کو جمع کرکے اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن کے جلسوں پر اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور یہ الزام لگایا کہ ’’کالج سے طلبہ ایجی ٹیشن کرنے کے لیے بھیجے گئے ‘‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’کالج کے اساتذہ اور بعض ٹرسٹیوں نے ، اور نواب محسن الملک، سکریٹری نے اس میں نمایاں حصہ لیا۔ ‘‘ میکڈانل نے یہ دھمکی بھی دی کہ ’’اگر یہ طریقہ جاری رہا تو گورنمنٹ سے جو امداد کالج کو ملتی ہے وہ بند کر دی جائے گی۔‘‘ (بحوالہ ایضاً، ص ۱۶۰) اس دھمکی کا یہ اثر ہوا کہ نواب محسن الملک نے سنٹرل اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن کی پریسیڈ نٹ شپ سے استعفیٰ دے دیا اور آئندہ بھی اس تحریک سے خود کو الگ کرلیا۔ اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن بھی کچھ عرصے کے بعد بند ہوگئی۔ اس کے بند کرانے میں بھی میکڈانل کا ہی ہاتھ تھا۔

جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ انیسویں صدی کے نصفِ دوم میں ہندی تحریک میں خاصی شدت پیدا ہوگئی تھی۔ اس صدی کے اواخر میں یہ تحریک اپنے عروج پر تھی۔ اس نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہندی کو ’’ہند تو ‘‘ اور ’’ہندوقومیت‘‘ سے جوڑدیا تھا۔ ہندی مساوی ہندو (ہندی =ہندو) کے تصور کو عام کیا جارہا تھا۔ ہندی کو ’’ہندوتہذیب‘‘ کی علامت اور اُردو کو ہندی کاحریف بناکر پیش کیا جارہا تھا، نیز اُردو اور مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے دلوں میں نفرت پیدا کی جارہی تھی۔ کرسٹوفر کنگ کے بقول یہ فرقہ واریت منتج ہوئی ۱۹۴۷ء میں ملک کی تقسیم پر۔ ہندی تحریک پر کنگ کا ذیل کا تبصرہ ان حقائق کو زیادہ واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے:

"The essence of the movement lay in efforts to differentiate Hindi from Urdu and to make Hindi a symbol of Hindu culture. Seen in this light, the Hindi movement formed part of a much broader process of the heightening of communal awareness in pre-independence India, a transformation of ethnic groups into communities and nationalities which culminated in the birth of Pakistan in 1947." (One Langauge, Two Scripts, pp. 10-11)

(تحریک کی اصل روح، ہندی کو اُردو سے ’الگ‘ کرنے، نیز ہندی کو ہندو تہذیب کی علامت قرار دینے کی کوششوں میں مضمر تھی۔ اس اعتبار سے ہندی تحریک، ہندوستان کی آزادی سے قبل، کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر فرقہ وارانہ بیداری کو بڑھاوا دینے کے عمل کا ایک حصہ بن چکی تھی۔ اس عمل کے نتیجے میں نسلی گروہ فرقوں اور قومیتوں میں بٹ گیا اور انجامِ کار ۱۹۴۷ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔)

ہندی تحریک کس حد تک تفریقی انداز میں کام کررہی تھی، اس کا اندازہ کنگ کی کتاب کے ذیل کے اقتباس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:

"We can look at the whole history of the Hindi movement as a deliberate attempt to increase differentiation (to make Hindi more and more different from Urdu and to reduce assimilation (to discourage Hindus from any attachment to Urdu), while the countervailing Urdu movement strove to accomplish the opposite". (One Language, Two Scripts, p. 176).

(ہندی تحریک کی پوری تاریخ کو ہم تفریق کو بڑھانے (ہندی کو اُردو سے زیادہ سے زیادہ مختلف بناکر پیش کرنے) اور جذب پذیری کے عمل کو کم کرنے (ہندوؤں کو ، اُردو کے ساتھ کسی بھی طرح کی وابستگی سے ، باز رکھنے) کی سوچی سمجھی کوشش کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جب کہ ہم پلہ اُردو تحریک اس کے بالکل برعکس کام کررہی تھی۔)

ہندی تحریک کا مقصد دراصل ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان لسانی اشتراک و اتحاد کو ، جو شمالی ہندو ستان میں صدیوں سے قائم تھا، ختم کرنا تھا۔ اس اتحاد کی مضبوط و مستحکم بنیاد اُردو زبان تھی۔ ہندی تحریک کے چلانے والوں کو یہ بات بخوبی معلوم تھی کہ جب تک ان دونوں قوموں کے درمیان یہ لسانی اتحاد قائم ہے، ہندی کی ترویج و توسیع نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے انھوں نے اس اتحاد یعنی اُردو مساوی مسلمان اور ہندو (اُردو = مسلمان +ہندو) یااُردو مساوی ہندو اور مسلمان (اُردو = ہندو + مسلمان) کو توڑنے اور ختم کرنے کی کوشش کی اور ہندی مساوی ہندو(ہندی =ہندو) اور اُردو مساوی مسلمان (اُردو =مسلمان) کے فرقہ وارانہ تصور کو عام کیا۔ بعض ہندوؤں کا یہ بھی خیال تھا کہ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص بیک وقت ایک ’’اچھا ہندو ‘‘ بھی ہو اور ’’اُردو کا وکیل‘‘ بھی۔ اس سلسلے میں کرسٹوفر کنگ کا یہ بیان بھی ملاحظہ ہو:

"The other side of the divide came with the beginning of the Hindi movement in the 1860s when some Hindus began to assert that one could no longer be a good Hindu and an advocate of Urdu at the same time. This movement made deliberate changes in Khari Boli which eventually resulted in a highly Sanskritized Hindi. The split in the common trunk of Hindi and Urdu, Khari Boli, which began with the growth of one major branch, Persianized Urdu, now continued with the growth of another major branch, Sanskritized Hindi. The process of multi-symbol congruence now commenced in earnest and culminated in slogans such as 'Hindi, Hindu, Hindustan' whose creators saw no room for non-Hindi speakers and non-Hindus in Hindustan. We might go so far as to call this process the 'Sanskritization of Urdu' or at least the 'Sanskritization of Khari Boli'. "(One Language, Two Scripts, p. 177).

(تقسیم کا دوسرا رُخ ۱۸۶۰ء کے دہے میں ہندی کی تحریک کے آغاز کے ساتھ سامنے آیا جب بعض ہندوؤں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص بیک وقت ایک اچھا ہندو بھی ہو اور اُردو کا وکیل بھی ۔ اس تحریک نے کھڑی بولی میں جان بوجھ کر تبدیلیاں کیں جن کا نتیجہ سنسکرت آمیز ہندی کی شکل میں ظاہر ہوا۔ ہندی اور اُردو کے مشترک تنے کھڑی بولی میں پھوٹ سے ایک بڑی شاخ فارسی آمیز اُردو کا ارتقا عمل میں آیا تھا۔ پھوٹ کے جاری رہنے سے اب ایک دوسری بڑی شاخ سنسکرت آمیز ہندی معرضِ وجود میں آئی۔ مختلف پہچانوں کو ملاکر ]سیاسی اشرافیے کا ایک پہچان کو لے کر[ایک ساتھ چلنے کا عمل مستعدی سے شروع ہوا اور ’ہندی، ہندو، ہندستان‘ جیسے نعروں کی شکل میں اپنی انتہا کو پہنچا۔ ایسے نعرے دینے والوں کے نزدیک ہندی نہ بولنے والوں اور غیر ہندوؤں کے لیے ہندوستان میں کوئی جگہ نہ تھی۔ ہم اس عمل کو ’اُردو کو سنسکرتیانے ‘ ]سنسکرت آمیز بنائے جانے [کا نام دے دیں گے یا کم از کم ’کھڑی بولی کا سنسکرتیانا‘ ]سنسکرت آمیز بنایا جانا[کہیں گے۔

انیسویں صدی کے دوران شمالی ہندوستان میں اُردو کے خلاف جو ہندو احیاء پرست تنظیمیں سرگرم تھیں اور اُردو کو عدالتوں، دفتروں اور تعلیم گاہوں سے بے دخل کرنے کے لیے جو ہندی تحریکیں اپنی پوری قوت اور توانائی کے ساتھ کام کررہی تھیں ان کے ذکر سے گیان چند جین کی یہ کتاب یکسر خالی ہے۔(۳) ان تنظیموں اور تحریکوں نے اپنا مقصد پانے کے لیے جو جارحانہ رُخ اختیار کر رکھا تھا اور اُردو کے خلاف ان کا جو متعصبانہ رویہ تھا، نیز ہندی اور ناگری کا پرچار کرنے والوں کی جو فرقہ وارانہ روش تھی، جین صاحب نے اسے اُجاگر کرنے کے بجائے اُلٹا اُردو اور مسلمانوں کوہی موردِ الزام ٹھہرایا ہے جیسے کہ سارا قصور انھیں کا تھا اور انھیں کی وجہ سے گویا ہندی پنپنے نہیں پارہی تھی۔

بابو شیوپرساد کے ۱۸۶۸ء کے انتہائی فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز میمورنڈم اور اس میمورنڈم میں اُردو کے خلاف دیے گئے زہر آلود بیانات پرسرسید احمد خاں نے جب اپنا فطری ردِ عمل ظاہر کیا تو جین صاحب نے بگڑ کرکہا کہ ’’ہندوؤں نے اُردو کے بجائے ہندی کو اختیار کرنا چاہا تو سید صاحب جامے سے باہر ہوگئے‘‘ (دیکھئے ’ایک بھاشا .....‘، ص ۱۸)۔ یہ ایک الگ موضوعِ بحث ہے کہ ہندوؤں نے کیوں اُردو کے بجائے ہندی کو اختیار کرنا چاہا؟ کیا اس وجہ سے کہ وہ ہندو تھے اور کیا تمام ہندوؤں نے اُردو کے بجائے ہندی کو اختیار کرنا چاہا؟ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ اُردو میں درک اور پیشہ ورانہ مہارت رکھتاتھا۔ عدالتوں اور دفتروں میں اُردو میں کام کرنے میں اسے کوئی دقت، د شواری یا قباحت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہندوؤں کے تین فرقوں کا یستھ ، کھتری اور کشمیری برہمنوں کے تو اُردو سے نہایت گہرے روابط تھے۔ وہ اسے اپنی زبان سمجھتے تھے۔ اُردو جاننے کی وجہ سے انھیں عدالتوں اور سرکاری دفتروں میں ملازمتیں حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی کیوں کہ سرکاری زبان اُردو تھی۔ یہ لوگ نہ صرف اُردو لکھتے پڑھتے تھے بلکہ فارسی کی تعلیم حاصل کرنے میں بھی انھیں کوئی عذرنہ تھا۔ اگر چہ ہندوؤں کے دوسرے فرقے بھی اُردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کرتے تھے، لیکن عوام میں اُردو جاننے والوں میں اِنھیں تینوں فرقوں کو نمائندگی حاصل تھی۔ سرکاری ملازمتوں میں بھی اِنھیں کا غلبہ تھا۔ اگرچہ ہندوؤں کے اِن تینوں فرقوں (کایستھ، کشمیری برہمن ، کھتری) اور مسلمانوں کے درمیان اُردو فارسی تہذیبی روایت قدرِ مشترک کا درجہ رکھتی تھی، لیکن اس لسانی و تہذیبی اشتراک سے ان فرقوں کے ہندو ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ سرسید احمد خاں نے بابو شیو پرساد کے متذکرہ میمورنڈم پر جب اپنا ردِ عمل ظاہر کیا تھا تو ان کے پیشِ نظر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان یہی لسانی اشتراک و اتحاد تھا جو صدیوں سے چلا آرہا تھا اور انھیں یہ ڈر تھا کہ کہیں یہ اشتراک و اتحاد پارہ پارہ نہ ہوجائے اور مباد ا زبان کے تنازع کی وجہ سے ان دونوں قوموں کے درمیان تفریق و نفاق نہ پیدا ہوجائے کیوں کہ آقایانِ مغرب کے سیاسی اغراض اوراہالیانِ وطن کی احیاء پرستانہ سرگرمیوں کی وجہ سے اس اشتراک و اتحاد پر کاری ضرب لگ رہی تھی۔ چنانچہ سرسید احمد خاں نے انتہائی احساسِ فکر مندی کے ساتھ لندن سے نواب محسن الملک کو ۲۹/اپریل ۱۸۷۰ء کے اپنے خط میں لکھا:

’’ایک اور خبر ملی ہے جس کا مجھ کو کمال رنج اور فکر ہے کہ بابو شو پرشاد کی تحریک سے عموماً ہندو لوگوں کے دل میں جوش آیا کہ زبانِ اُردو و خطِ فارسی کو جو مسلمانوں کی نشانی ہے مٹا دیا جائے .... یہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ ہندومسلمان میں کسی طرح اتفاق نہیں رہ سکتا۔‘‘ (سرراس مسعود (مرتب) ،’ خطوطِ سرسید احمد‘ ، ص ۸۸۔بحوالہ ثریا حسین،’ سرسید احمد خاں اور ان کا عہد ‘ ، ص ۲۵۵)۔

سرسید احمد خاں کا یہ ردِّ عمل کسی لسانی تعصب کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ نیک نیتی اور قومی مفاد پر مبنی تھا، لیکن گیان چند جین اس ردِ عمل سے خوش نہ ہوئے۔ آخر کیوں؟ کیا انھیں ہندوستان کی دو بڑی قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان لسانی اشتراک و اتحاد اور قومی یگانگت و یکجہتی کی بات اچھی نہیں لگی؟ سرسید نے اُردو کو ’’مسلمانوں کی نشانی‘‘ کہا۔ جین صاحب کو اس پر بھی اعتراض ہے۔ لیکن جین صاحب نے ان ہندوؤں پر کیوں نہ اعتراض کیا جو للوجی لال سے لے کر سنیتی کمار چٹر جی تک اُردو کو ’’یا منی بھاشا‘‘، ’’ملیچھ بھاشا‘‘، ’’مسلمانی بھاشا‘‘ اور ’’مسلمان ہندستھانی‘‘ کہتے رہے ہیں۔ اگر جین صاحب کو ہندی کی سماجی، سیاسی اور لسانی تاریخ کا ذرا بھی شعور ہوتا تو انھیں یہ بات بھی ضرور معلوم ہوتی کہ اُردو کو مسلمانی بھاشا یا مسلمانوں کی زبان سب سے پہلے ہندوؤں نے ہی کہا۔ پوری ہندی تحریک اسی ایک تصور پر مبنی تھی کہ اُردو مسلمانوں کی زبان (اُردومسلمان) اور ہندی ہندوؤں کی زبان(ہندی =ہندو) ہے۔ اس کے برخلاف اہلِ اُردو کا موقف یہ رہا ہے، بلکہ آج بھی ہے کہ اُردو مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کی زبان (اردو =مسلمان + ہندو یا اُردو = ہندو +مسلمان) ہے۔ جو بات ہندوؤں یا ہندی تحریک کے سالاروں نے بار بار دہرائی ہے وہی بات اگر سرسید احمد خاں نے کہہ دی تو گیان چند جین کیوں اس قدر برہم ہوئے؟ سرسید ہر گز اُردو کو مسلمانوں کی نشانی نہ کہتے اگر بابو شیو پرساد اتنا دل آزار اور اُردو دشمن میمورنڈم نہ پیش کرتے۔ قصور تو درحقیقت بابو شیو پرساد کا تھا نہ کہ سرسید احمد خاں کاکیوں کہ سرسید احمد خاں نے تویہ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ زبان کے معاملے میں ہندو اس طرح سے الگ ہوجائیں گے۔

ذکر ہورہا تھا ہندی اور ناگری کی تحریک کا اور اُردو مخالف سرگرمیوں کا، کیوں کہ اس دور میں اُردو پر برابر حملے کیے جارہے تھے۔ کبھی اسے ’غیر ملکی ‘اور کبھی ’مسلمانی بھاشا‘ کہہ کر اور اُردو = مسلمان کے تصور کو عام کر کے ہندوؤں کو اس سے الگ رکھنے کی مہم جاری تھی۔ تنگ نظر ہندو تو اسے ’ملیچھ بھاشا‘ کہتے ہی تھے، اسے ’طوائفوں کی زبان‘ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ ہندی کی ادبی تخلیقات میں بھی اُردو کی تضحیک و تمسخر اور کردار کشی کا سلسلہ برابر جاری تھا۔ ہندوؤں کی احیاء پرست تنظیمیں بھی، جو مذہبی اصلاح اور فلاحی کاموں کے لیے قائم کی گئی تھیں، ہندی اور ناگری پرچار کے کاموں میں دل و جان سے منہمک ہوگئی تھیں۔ درایں اثنا بنارس میں ناگری پرچارنی سبھا کے قیام (۱۸۹۳ء) سے اُردو مخالف سرگرمیوں میں اور اضافہ ہوگیا تھا اور ہندی تحریک اپنے عروج کو پہنچ گئی تھی جس کا لازمی نتیجہ سر اینٹونی میکڈانل (لفٹننٹ گورنر شمال مغربی صوبہ جات اور اودھ) کے ۱۸/اپریل ۱۹۰۰ء کے اس فیصلے کی شکل میں ظاہر ہوا جس کی وجہ سے شمالی ہندوسان میں ایک نئے لسانی تنازع نے سراٹھایا اور مسلمانوں میں اضطراب اورغم و غصے کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اسے ’’اُردو کا عظیم ترین المیہ‘‘ قرار دیا گیا، (۴) اور اس کے نہ صرف لسانی، بلکہ سماجی، سیاسی اور تہذیبی منظر نامے پر بھی دور رس نتائج مرتب ہوئے۔

...
 

الف عین

لائبریرین
حوا شی



پہلا ب۔اب : ’ایک بھاشا : دو لکھاوٹ ، دو ادب ‘

۱۔ اس ضمن میں شمس الرحمن فاروقی کا تبصراتی مضمون ’’ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب ‘‘ بیحد اہمیت رکھتا ہے جو ’کتاب نما‘ (نئی دہلی ) کے اپریل ۲۰۰۶ء کے شمارے میں شمائع ہوا۔ اس دوران میں گیان چند جین کی متنازع فیہ کتاب پر شمیم حنفی، مناظر عاشق ہر گانوی ، اطہر فاروقی اور محمد عارف اقبال کے فکر انگیز مضامین و تبصرے ، نیز نعیم کو ثر (’صدائے اُردو‘ ) اور اسد ثنائی (’الانصار‘) کے بے لاگ اداریے بھی شائع ہوئے۔ البتہ ساجد رشید (’نیاورق‘) اور کرشن کمار طورؔ (’سرسبز‘) کے اداریوں کا انداز ذرا مختلف تھا۔

۲۔ گیان چند جین اپنے ایک مضمون ’’اُردو ہندی یا ہندوستانی‘‘ (مشمولہ ’لسانی مطالعے‘ ]تیسرا ایڈیشن[،ترقیِ اُردو بیورو، نئی دہلی، ۱۹۹۲ء) میں لکھتے ہیں کہ ’’میں مردم شماری میں اپنی مادری زبان اُردو لکھواتا ہوں حالاں کہ میرے ماں باپ ، دادا دادی اُردو سے نابلد تھے۔ والدین تھوڑی سی ہندی پڑھے ہوئے تھے.... کوئی یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ میری زبان میرے والدین یا میری اہلیہ کی زبان سے مختلف ہے، لیکن مردم شماری میں میری زبان اُردو اور میری اہلیہ کی زبان ہندی لکھی جاتی ہے۔‘‘ (ص ۱۶۰)

۳۔ گیان چند جین نے دکن کالج، پونا میں قیام کرکے لسانیات کی باقاعدہ تربیت حاصل کی ہے اوراُردو میں لسانیاتی موضوعات پر بے شمار مضامین اور دو کتابیں : ’لسانی مطالعے ‘ (۱۹۷۳ء ) اور ’عام لسانیات‘ (۱۹۸۵ء) تصنیف کی ہیں۔



دوسرا باب : فرقہ وارانہ ذہنیت اور منفی طرزِ فکر

۱۔ امرت رائے کی ہندی اور اُردو سے متعلق کتاب A House Divided:The Origin and Development of Hindi / Hindavi آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، دہلی سے ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب پر اُردو میں سب سے پہلے راقم الحروف نے مضمون لکھا جو ’ہماری زبان‘ (نئی دہلی) کے شمارۂ یکم مئی ۱۹۸۷ء میں شائع ہوا۔ یہ مضمون بعنوان’’ امرت رائے اور ہندی اُردو کا مسئلہ‘‘ راقم الحروف کی کتاب ’لسانی تناظر‘ (نئی دہلی : باہری پبلی کیشنز ، ۱۹۹۷ء) میں شامل ہے۔

۲۔ گیان چند جین اپنے ایک مضمون ’’اُردو کا نام اور آغاز کے نظریے‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’میری رائے میں اُردو کا آغاز کھڑی بولی کے آغاز کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ اسی مضمون میں وہ آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’اُردو کا آغاز کھڑی بولی کا آغاز ہے۔ کھڑی بولی گیارہویں بارہویں صدی میں اُس اپ بھر نش سے اُبھری جو دلی ، میرٹھ اور مراد آباد وغیرہ کے علاقے میں بولی جاتی تھی۔‘‘ (دیکھیے ’لسانی مطالعے‘ ، تیسرا ایڈیشن، نئی دہلی: ترقیِ اُردو بیورو، ۱۹۹۲ء، ص ۸۲ اور ۹۵)۔



تیسرا باب : اُردو زبان، اُردو گومسلمان اور اُردو ادب

۱۔ جگن ناتھ آزادؔ کی اس نظم کا عنوان ’’بابری مسجد‘‘ ہے ۔ یہ اُسی روز لکھی گئی جس روز (۶/دسمبر ۱۹۹۲ء) بابری مسجد منہدم کی گئی۔آزاد نے جب یہ خبر سنی تو وہ لکھتے ہیں کہ ’’ میں درد و غم کے طوفان میں ڈوب گیا اور اسی وقت ایک نظم کی ابتدا ہوئی۔‘‘ یہ نظم آزاد کے شعری مجموعے ’نسیمِ حجاز‘ (نئی دہلی : محروم میموریل لٹریری سوسائٹی ، ۱۹۹۹ء) میں شامل ہے۔

۲۔ جہانگیر نے ایک راجپوت شہزادی مان متی (یا جگت گسائیں) سے شادی کی تھی۔ اسی کے بطن سے شہزادہ خرم (شاہجہاں) تولد ہوا تھا۔



چوتھا باب : کھڑی بولی ہندی

۱۔ گیان چند جین کو بھی پہلے اس حقیقت کا اعتراف تھا، لیکن ’ایک بھاشا‘ .... لکھتے وقت ان کے خیالات میں زبردست تبدیلی پیدا ہوگئی۔ جین صاحب آج سے تقریباً ۳۵ سال پہلے کے لکھے ہوئے اپنے ایک مضمون ’’اُردو اور ہندی کا لسانیاتی رشتہ ‘‘ (مشمولہ ’لسانی مطالعے ‘ ]پہلا ایڈیشن [، ۱۹۷۳ء) میں لکھتے ہیں: ’’فورٹ ولیم کالج میں ہندی نثر کی جو تشکیل ہوئی اس میں عربی فارسی الفاظ کو نکال کر سنسکرت کے تت سم الفاظ کو جگہ دی گئی۔‘‘ ( ص ۱۸۵)۔

۲۔ گیان چند جین نے اپنی کتاب ’ایک بھاشا‘.... میں ایودھیا پر ساد کھتری، چندر دھر شرما گلیری اور جگن ناتھ داس ’رتنا کر‘ کے ان بیانات سے مکملاً اغماض برتا ہے جن میں اُردو کو ہندی (کھڑی بولی ہندی) کی بنیاد بتایا گیا ہے۔

۳۔ گریرسن ، فریزر اور کی کے علاوہ عہدِ حاضر کے ایک معروف مغربی اسکالر کرسٹوفر آر. کنگ نے بھی جدید تحقیقات کی روشنی میں یہی بات کہی ہے۔ کنگ اپنی کتاب One Language, Two Scriptsکے صفحہ ۲۷ پر لکھتے ہیں: ’’للولال نے ]’پریم ساگر‘ لکھتے وقت [جان بوجھ کر مسلمانوں سے نسبت رکھنے والی زبانوں کے الفاظ خارج کر دیے۔‘‘



پانچواں باب : اُردو کا ہندی پر تقدمِ زمانی

۱۔ ۱۱۹۳ء مسلمانوں کے فتحِ دہلی کی تاریخ ہے۔ اسی دور سے دہلی اور نواحِ دہلی میں لسانی امتزاج کاباقاعدہ عمل شروع ہوتا ہے۔

۲۔ گیان چند جین نے ’ایک بھاشا .... ‘ میں ’’کھڑی بولی ہندی کی قدیمی کتابیں ۱۸۰۰ء تک ‘‘ کے تحت (ص ۳۰۰ تا ۳۰۲) بعض ایسی کتابیں بھی شامل کرلی ہیں جو برج بھاشا سے تعلق رکھتی ہیں اور بعض غیر مصدقہ ہیں، مثلاً گنگ کوی کا نثری رسالہ ’چند چھندبرنن کی مہما‘ جعلی ثابت ہوچکا ہے اور اہلِ ہندی نے ہی اسے جعلی ثابت کیا ہے، لیکن جین صاحب اسے ’’مستند‘‘ بتاتے ہیں۔

۳۔ ’قصۂ مہر افروز و دلبر ‘ عیسوی خاں بہادر کی لکھی ہوئی شمالی ہند کی اُردو کی پہلی طبع زاد نثری داستان ہے۔ اس کا سنہِ تصنیف ۵۹۔۱۷۳۲ء ہے۔ اس کا واحد نسخہ آغا حیدر حسن کی ملکیت تھا جسے مسعود حسین خاں نے مرتب کر کے پہلی بار ۱۹۶۶ء میں حیدر آباد سے شائع کیا۔

۴۔ مزید تفصیلات کے لیے ساتواں باب دیکھیے۔



چھٹا باب : ہندی امپیریلزم اور اُردو

۱۔ دیکھیے بال گووند مشر (B.G. Mishra) کا مضمون "Language Movements in the Hindi Region"مشمولہ ای . انا ملائی (مرتب) ، ۱۹۷۹ء (متذکرہ)۔

۲۔ ہندوستان کی ۱۹۹۱ء کی مردم شماری کی رپورٹ میں کل ۱۱۴ ’’زبانوں‘‘ ("Languages") کا اندراج ملتا ہے جن میں سے ۱۸ زبانیں (=۱۔ہندی، ۲۔بنگالی، ۳۔تلگو، ۴۔مراٹھی، ۵۔تامل، ۶۔اُردو، ۷۔گجراتی، ۸۔کنڑ، ۹۔ملیالم، ۱۰۔اڑیا، ۱۱۔پنجابی، ۱۲۔آسامی، ۱۳۔سندھی، ۱۴۔نیپالی، ۱۵۔کونکنی، ۱۶۔منی پوری، ۱۷۔کشمیری، ۱۸۔سنسکرت) ’’شیڈول زبانیں‘‘ کہلاتی ہیں (کیوں کہ ان کا ذکر دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول [Schedule VIII]میں کیا گیا ہے۔)، بقیہ ۹۶ زبانیں ’’غیر شیڈول زبانیں‘‘ ہیں۔ لیکن ہندوستان میں ’’مادری زبانوں‘‘ ("Mother Tongues")کی حیثیت سے بولی جانے والی زبانوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے۔ ۱۹۹۱ء کی مردم شماری میں مادری زبانوں کی حیثیت سے درج شدہ زبانوں کی کل تعداد ۲۱۶ ہے۔ ان میں سے ہر مادری زبان کے بولنے والے ۱۰۰۰۰ (دس ہزار ) اور اس سے زیادہ ہیں۔ مردم شماری کے عملے نے مردم شماری کی رپورٹ مرتب کرتے وقت ان ۲۱۶ مادری زبانوں کو، ان میں پائی جانی والی ہیئتی مماثلتوں کی بنیاد پر ۱۱۴ لسانی زمروں یا گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔ یہی ۱۱۴ لسانی زمرے ہندوستان کی ۱۱۴ شیڈول اور غیر شیڈول زبانیں ہیں۔ ان میں بہ لحاظِ تعداد سب سے بڑا لسانی گروہ یا زمرہ’’ ہندی‘‘ ہے جو ایک شیڈول زبان ہے اور اس کے تحت بشمولِ ہندی ۴۸ مادری زبانیں درج کی گئی ہیں۔ مادری زبان کی حیثیت سے ہندی بولنے والوں کی کل تعداد ۲۸۵، ۴۳۲، ۲۳۳ (تیئیس کروڑ چونتیس لاکھ بتیس ہزار دو سو پچاسی ) ہے، اور بقیہ ۴۷ مادری زبانوں اور بعض ’’دیگر ‘‘ ("Others") مادری زبانوں کے بولنے والوں کی کل تعداد ۸۲۹، ۸۳۹، ۱۰۳ (دس کروڑ اڑتیس لاکھ انتالیس ہزار آٹھ سو انتیس) ہے۔ ’’دیگر ‘‘مادری زبانوں کے نام درج نہیں کیے گئے ہیں کیوں کہ ان میں سے ہر مادری زبان کے بولنے والوں کی تعداد ۰۰۰،۱۰ (دس ہزار) سے کم ہے۔ مادری زبانوں کے زمرے کا نام اس مادری زبان کے نام پر رکھا گیا ہے جس کے بولنے والے بہ لحاظِ تعداد سب سے زیادہ ہیں، مثلاً شمالی اور وسطی ہندوستان میں بولی جانے والی ۴۸ مادری زبانوں کا جو لسانی زمرہ قائم کیا گیا ہے اس میں ہندی بولنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اسی لیے اس زمرے کا نام ’’ہندی‘‘ رکھ دیا گیا اور اس کے تحت ۴۸ مادری زبانیں شامل کی گئیں جن میں ہندی بھی ایک مادری زبان ہے۔ بہ استثنائے ہندی جو سب سے بڑی مادری زبان ہے اور Full-fledged زبان کا درجہ رکھتی ہے، بقیہ ۴۷ مادری زبانوں کو عام اصطلاح میں ’بولی‘ (Dialect) کہتے ہیں، لیکن یہ Census of Indiaکی اصطلاح نہیں ہے۔ (دیکھیے Census of India 1991, Series-1: Languages, India and States by M. Vijayanunni)

۳۔ دیکھیے کرسٹوفر آر. کنگ، One Language, Two Scripts (ص۱۷۷)۔

۴۔ دیکھیے سنیتی کمار چٹرجی، Indo-Aryan and Hindi(ص ۲۰۹)۔

۵۔ گیان چند جین اپنے ایک مضمون ’’اُردو اور ہندی کا لسانیاتی رشتہ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’صحیح صورتِ حال یہ ہے کہ اُردو اور ہندی کھڑی بولی کے دو روپ ہیں۔ کھڑی بولی کا جنم ہندی روایات اور ناگری رسمِ خط میں ہوا لیکن آج اس کا جو روپ ہے وہ اُردو کا سنوارا اور نکھارا ہوا ہے۔ کھڑی بولی کے ان دونوں روپوں کا ادب اور لسانی سرمایہ اتنا مختلف ہوگیا ہے کہ انھیں دوزبانیں نہ ماننا حقیقت کی جانب سے آنکھیں موند لینا ہے۔‘‘ (دیکھیے ’ لسانی مطالعے‘ ، ]پہلا ایڈیشن،ص ۲۰۴)

۶۔ بعض اہلِہندی کو تو اُردو کے وجود سے ہی انکار رہاہے، مثلاً ہندی کے ممتاز ادیب و دانشور اور معروف سیاست داں سمپورنا نند جی اُردو بولنے والوں کو لسانی اقلیت نہیں مانتے تھے، کیوں کہ اُردو بولنے والوں کو لسانی اقلیت ماننے کا مطلب تھا اُردو کو ایک علیٰحدہ اور آزادو مستقل زبان تسلیم کرنا۔ وہ اُردو کو ہندی کی محض ایک شیلی کا درجہ دیتے تھے۔انھوں نے ناگری پرچارنی سبھا (بنارس ) کی اڑسٹھویں سالگرہ] ۱۹۶۱ء[ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اُردو بولنے والوں کی آبادی لسانی اقلیت نہیں کہی جاسکتی۔‘‘ (بحوالہ آل احمد سرور، ’’سمپورنا نندجی اور اُردو ‘‘ ، مشمولہ ’اُردو تحریک ‘ ، ص ۲۱۸)



ساتواں باب : ’پریم ساگر‘ کی تخلیق کے دور رس نتائج

۱۔ سنہِ عیسوی ، سمبت سے ۵۷ سال پہلے چلتا ہے۔ اگر سمبت میں سے ۵۷ سال گھٹا دیے جائیں تو سنہِ عیسوی برآمد ہوجائے گا۔

۲۔ یہ کتابیں پہلے اُردو میں لکھی گئیں، بعدمیں انھیں ناگری رسمِ خط میں منتقل کیا گیا ۔

۳۔ ہندی کے ممتاز ادیب و دانشور رام چندر شکل لکھتے ہیں کہ ’’اگر للولال اُردو نہ جانتے ہوتے تو ’پریم ساگر‘ سے عربی فارسی الفاظ دور رکھنے میں اتنے کامیاب نہ ہوتے جتنے ہوئے ۔‘‘ (دیکھیے ’ہندی ساہتیہ کا اتہاس‘ ، ص ۳۶۵)

۴۔ گیان چند جین اپنی کتاب ’لسانی مطالعے‘ (۱۹۷۳ء) میں اس امرکا اعتراف کرچکے ہیں کہ ’’فورٹ ولیم کالج میں ہندی نثر کی جو تشکیل ہوئی اس میں عربی فارسی الفاظ کو نکال کر سنسکرت کے تت سم الفاظ کو جگہ دی گئی ۔‘‘ (ص ۱۸۵)



آٹھواں باب : فورٹ ولیم کالج اور اُردو ، ہندی ، ہندستانی

۱۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ ’گجری‘ کا گجرات سے کوئی تعلق نہیں، مثلاً سنیتی کمار چٹرجی کہتے ہیں کہ "This Gujri speech of Shah Burhan[uddin Janam] is not Gujarati at all". چٹر جی ’گجری‘ کا تعلق گجراں والا اور گجرات (پنجاب ) سے بتاتے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دکنی (بیجا پوری) شاعر برہان الدین جانم نے اپنی زبان کو ’’گجری‘‘ کہا ہے۔ (دیکھیے سنیتی کمار چٹرجی، Indo-Aryan and Hindi، ص ۲۰۶)

۲۔ ’’ملیچھ بھاشا‘‘ جو کلمۂ تحقیر ہے چندر دھرشرما گلیری کی ایجاد ہے۔ شتی کنٹھ مشر اپنی کتاب ’کھڑی بولی کا آندولن‘ میں لکھتے ہیں: ’’گلیری جی ’کھڑی بولی‘ کا مسلمانوں سے پورا پورا سمبندھ مانتے تھے اور اسے ملیچھ بھاشا کہتے تھے‘‘۔ ( ’کھڑی بولی کا آندولن ‘ ، ص ۹)۔

۳۔ گلکرسٹ نے ’ہندستانی‘ (ہندستانی =اُردو ) کو اپنی کتاب The Oriental Linguist میں ’’ہندوستان کی مقبولِ عام زبان ("The popular language of Hindoostan")کہا ہے۔

۴۔ للوجی لال کی ’پریم ساگر‘ (۱۸۰۳ء) اور سدل مشر کی ’ناسکیتو پاکھیان‘ (۱۸۰۳ء) کے بعد انیسویں صدی کے وسط کے بعد تک کھڑی بولی ہندی میں کوئی تصنیف دستیاب نہ ہوسکی۔ ہندی کے ممتاز عالم رام چند رشکل یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’۱۸۰۳ء اور ۱۸۵۸ء کے بیچ کا دور نثر نگاری کے اعتبار سے بالکل صفر ہی ہے۔‘‘ (رام چندر شکل، ’ہندی ساہتیہ کا اتہاس ‘ ، بحوالہ گیان چند جین، ’لسانی مطالعے‘ ، ص ۱۷۷)۔

۵۔ دیکھیے شتی کنٹھ مشر، ’کھڑی بولی کا آندولن ‘ ، ص ۶۲۔

۶۔ گلکرسٹ کے انگریزی ۔ اُردو لغت A Dictionary, English and Hindoostaneeکی یہ مثالیں محمد عتیق صدیقی کی کتاب ’گلکرسٹ اور اس کا عہد‘ کے صفحہ ۶۲ پر دیے ہوئے عکس سے لی گئی ہیں۔

۷۔ دیکھیے شِتی کنٹھ مشر، ’کھڑی بولی کا آندولن‘ ، ص ۶۹۔



نواں باب : اُردو مخالف رجحانات و تحریکات

۱۔ یہ نظم بعنوان ’’بابری مسجد‘‘ جگن ناتھ آزادؔ کے شعری مجموعے’ نسیمِ حجاز‘ (نئی دہلی : محروم میموریل لٹریری سوسائٹی، ۱۹۹۹ء) میں شامل ہے۔

۲۔ رام ولاس شرمانے اپنی کتاب ’بھارت کی بھاشا سمسیا‘ (ص ۳۱۱) میں بھارتیندو ہریش چندر کے دو شعر نقل کیے ہیں جو یہ ہیں:

دل مرا لے گیا دغا کرکے

بے وفا ہوگیا وفا کرکے



دوستو کون میری تربت پر

رورہا ہے رساؔ رساؔ کرکے

۳۔ اس کے علی الرغم کرسٹوفر آر. کنگ نے اپنی کتاب One Language, Two Scriptsمیں ہندی تحریک اور ناگری پرچارنی سبھا (بنارس ) کی سرگرمیوں کی تمام تفصیلات فراہم کر دی ہیں۔

۴۔ حکم چند نیرّ نے اپنے ایک مضمون ’’ اُردو کا عظیم ترین المیہ، ۱۸/اپریل ۱۹۰۰ء کا فیصلہ‘‘ میں اس واقعے کا نہایت تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ یہ مضمون ان کی کتاب ’ اُردو کے مسائل: ہندوستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ کی روشنی میں ‘ (۱۹۷۷ء) میں شامل ہے۔

...
 

الف عین

لائبریرین
ااہم تاریخیں



۱۳۲۵امیر خسرو کی وفات ۔

۲۶۔ ۱۶۲۵’بکٹ کہانی ‘ (بارہ ماسہ ) کے مصنف محمد افضل افضلؔ کی وفات۔

۱۷۹۲بنارس سنسکرت کالج (بعدہٗ کوئنس کالج ) کا قیام عمل میں آیا۔

۱۰/جولائی ۱۸۰۰کلکتے میں فورٹ ولیم کالج قائم ہوا۔

۱۸۰۲گلکرسٹ نے کلکتے میں ’ہندستانی پریس‘ کے نام سے اپنا چھاپا خانہ قائم کیا ۔

۱۸۰۳للوجی لال نے ’پریم ساگر ‘ لکھی۔

۲۴/فروری ۱۸۰۴گلکرسٹ نے فورٹ ولیم کالج سے استعفیٰ دیا۔

۱۸۳۲بمبئی اور مدراس کی پریزیڈنسیوں (Presidencies) میں فارسی کی جگہ انگریزی اور مقامی زبانیں رائج کی گئیں۔

۱۸۳۷بنگال پریزیڈنسی میں فارسی کی جگہ انگریزی اور مقامی زبانیں رائج کی گئیں۔

اگست ۱۸۶۸بابو شیو پرساد (راجا شیوپرساد) نے بنارس سے اُردو کے خلاف اپنا ’میمورنڈم‘ Court Characters, in the Upper Provinces of India شائع کیا۔

۲۴ /مئی ۱۸۷۵مدرستہ العلوم (محمڈن اینگلو اورینٹل کالج)،علی گڑھ کا افتتاح ہوا۔

۱۸۸۲ہندوستان کی تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کے لیے حکومتِ ہند نے سرولیم ہنٹر کی سربراہی میں ’ہنٹر کمیشن ‘ قائم کیا جو ’ایجوکیشن کمیشن‘ کے نام سے بھی جانا گیا۔

۸۳۔ ۱۸۸۲سرسید احمد خاں ، بابو شیوپرساد، بھارتیندوہریش چندر اور دیگر سرکردہ شخصیات نے ہنٹر (ایجوکیشن ) کمیشن کے سامنے اپنے بیانات ریکارڈ کرائے۔

۲۷/دسمبر ۱۸۸۶محمڈن ایجوکیشنل کانگریس (بعدہٗ آل انڈیا محمڈن اینگلو اورینٹل کانفرنس / آل انڈیامسلم ایجوکیشنل کانفرنس) کا علی گڑھ میں قیام عمل میں آیا۔

۱۸۸۷ایودھیا پرساد کھتری کی کتاب ’کھڑی بولی کا پدیہ‘ (=کھڑی بولی کی شاعری) شائع ہوئی۔

۱۸۸۷کھڑی بولی اور برج بھاشا کے حامیوں کے درمیان معرکہ آرائی شروع ہوئی۔

جولائی ۱۸۹۳بنارس میں ناگری پر چارنی سبھا قائم ہوئی۔

۱۸۹۷پنڈت مدن موہن مالویہ کی اُردو مخالف کتاب Court Character and Primary Education in N.W.P. and Oudh (=شمال مغربی صوبہ جات اور اودھ کا عدالتی رسمِ خط اور پرائمری تعلیم) الہٰ آباد سے شائع ہوئی۔

۲/مارچ ۱۸۹۸ہندوعمائدین کا ایک وفد شمال مغربی صوبہ جات اور اودھ کے لفٹننٹ گورنر سراینٹونی میکڈانل سے سرکاری سطح پر ہندی اور ناگری کے نفاذ کے لیے الہٰ آباد میں ملا اور ساٹھ ہزار دستخطوں کے ساتھ عرضداشت پیش کی۔

مارچ ۱۸۹۸الہٰ آباد میں اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم ہوئی۔

۱۹/مارچ ۱۸۹۸سرسید احمد خاں نے اپنے انتقال سے صرف آٹھ روز قبل (۱۹/مارچ کو) اُردو ہندی نزاع پر ایک مضمون کی شکل میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔

۲۷/مارچ ۱۸۹۸سرسید احمد خاں نے علی گڑھ میں وفات پائی۔

۱۸/اپریل ۱۹۰۰شمال مغربی صوبہ جات اور اودھ کے لفٹننٹ گورنرسراینٹونی میکڈانل نے حکم نامہ نمبری No.585/III-3430-68, Dated 18th April 1900 جاری کیا جس کی رو سے شمال مغربی صوبہ جات اور اودھ کی عدالتوں میں ناگری خط (=ہندی زبان) کو اُردو کے برابر درجہ حاصل ہوگیا۔

جولائی ۱۹۰۰اُردو ڈیفنس ایسوسی ایشن، الٰہ آباد کی جانب سے مدن موہن مالویہ کی اُردو مخالف کتاب ’شمال مغربی صوبہ جات اور اودھ کا عدالتی رسمِ خط اور پرائمری تعلیم‘(انگریزی) کا مدلل جواب A Defence of the Urdu Language and Character (=اُردو زبان اور رسمِ خط کا دفاع ) کے نام سے شائع ہوا۔

نومبر ۱۹۰۰سراینٹونی میکڈانل علی گڑھ آئے۔ انھوں نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے ٹرسٹیوں (Trustees) سے خطاب کیا اور ناگری کے مسئلے پر جاری احتجاج پر اپنی برہمی ظاہر کی۔

۱۹۰۳انجمن ترقیِ اُردو(ہند) کا علی گڑھ میں قیام عمل میں آیا۔

۱۹۱۰ناگری پرچارنی سبھا کی ذیلی تنظیم ’ہندی ساہتیہ سمیلن ‘ کا الہٰ آباد میں قیام عمل میں آیا۔

۱۹/ ستمبر ۱۹۲۳گیان چند جین (مصنف ’ایک بھاشا : دو لکھاوٹ ، دو ادب‘)نے ’’اس جہانِ گرداں میں آنکھیں کھولیں‘‘۔

۱۹۴۷اتر پردیش کی حکومت نے ہندی بحظِ دیوناگری کو صوبے کی سرکاری زبان کی حیثیت سے اختیار کیا۔

۲۰۰۵گیان چند جین کی متنازع فیہ کتاب ’ایک بھاشا: دو لکھاوٹ، دو ادب‘ دہلی سے شائع ہوئی۔

...
 

الف عین

لائبریرین
کتا بیات



آنند، ستیہ پال ۔ ’’فورٹ ولیم کالج اور ابتدائی ڈکشنریاں : کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ‘‘ ، مطبوعہ ’اخبارِ اُردو‘ (اسلام آباد) ، جلد ۲۳، شمارہ ۱/جنوری ۲۰۰۷ء۔

افضل ، محمد افضل ۔’بکٹ کہانی ‘ ، مرتبہ مسعود حسین خاں اور نور الحسن ہاشمی (علی گڑھ : شعبۂ لسانیات ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، ۲۰۰۲ء)۔

انّا ملائی، ای ۔ ّ Language Movements in India میسور: سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز، ۱۹۷۹ء)۔

انّا ملائی، ای۔ (مرتب)۔Language Planning: Proceedings of an Institute (میسور: سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز، ۱۹۸۶ء)۔

بخاری ، سہیل ۔ ’اُردو کی زبان ‘ (کراچی: فضلی سنز لمٹیڈ، ۱۹۹۷ء)۔

براس ، پال آر (Paul R. Brass) ۔ Language, Religion and Politics in North India لندن: کیمبرج یونیورسٹی پریس، ۱۹۷۴ء)۔

بہادر ، عیسوی خاں ۔ ’فصۂ مہر افروز و دلبر‘ ، مرتبہ مسعودحسین خاں (حیدر آباد : شعبۂ اُردو، عثمانیہ یونیورسٹی ، ۱۹۶۶ء)۔

بیگ، مرزا خلیل احمد ۔ ’اُردو کی لسانی تشکیل ‘ ، تیسرا ایڈیشن (علی گڑھ : ایجوکیشنل بک ہاؤس ، ۲۰۰۰ء)۔ ]پہلا ایڈیشن، ۱۹۸۵ء [

بیگ، مرزا خلیل احمد ۔Sociolinguistic Perspective of Hindi and Urdu in India(نئی دہلی: باہری پبلی کیشنز، ۱۹۹۶ء)

بیگ، مرزا خلیل احمد ۔ ’ لسانی تناظر ‘ (نئی دہلی: باہری پبلی کیشنز، ۱۹۹۷ء)۔

بیگ، مرزا خلیل احمد ۔ ’’اُردو زبان کا تاریخی تناظر: ہندی اُردو تنازع اور معروضی حقائق ‘‘ ، مطبوعہ’ اخبارِ اُردو ‘ (اسلام آباد)، جلد ۲۲، شمارہ ۷/ جولائی ۲۰۰۶ء۔
 

الف عین

لائبریرین
ضمیمہ
(پروفیسر گیان چند جین کے خطوط)



Dr. Gianchand Jain
Valley Care Center
661 W. Poplar Ave.
Porterville, CA 93257 USA

غالباً ۳۱جنوری ۲۰۰۷ء

مکرمی پروفیسر خلیل احمد بیگ صاحب تسلیم

آپ کا کرم نامہ کافی عرصہ پہلے ملا تھا۔ تہِ دل سے مشکور ہوں کہ آپ نے یاد کیا۔ اس کے چند روز بعد اس کا جواب لکھ دیا اور رکھ دیا کہ میری بیٹی اسے لے جائے اور لفافے پر پتا لکھے اور ٹکٹ لگاکر سپردِ ڈاک کر دے لیکن نہ معلوم لکھا ہوا خط کہاں رکھا گیا کہ نہ ملا۔ میں اور میری بیوی شفا خانے کے ایک کمرے میں رہتے ہیں جس میں ایک بڑا کمرہ اور پشت میں ایک چھوٹا کمرہ ہے۔ کاغذات کا ڈھیر ہے جس میں ضروری چیز نہیں ملتی۔ کچھ دنوں بعد میرا خط مل گیا لیکن آپ کا لکھا ہوا خط نہ مل سکا ع

گم ہو وہ نگیں جس پہ کُھدے نام ہمارا

آپ کے کرم نامے میں کیا لکھا تھا اس میں صرف اتنا یاد ہے کہ زبان سے متعلق کچھ باتیں تھیں۔ ان مسائل کے بارے میں خطوں میں نہیں لکھا جاسکتا ۔

خوش قسمتی سے آپ کا مضمون مجھے مل گیا ہے لیکن اس پر کچھ نہیں لکھ سکتا ۔ یہاں ایک چھوٹے سے ۴۱ ہزار کی آبادی والے قصبے میں رہتا ہوں۔ اب بقیہ زندگی اس اسپتال ہی میں گزارنی ہے۔ کہیں کا سفر بھی نہیں کرسکتا۔ بس یہ قصبہ ہی میری دنیا ہے۔

اُردو ہندی وغیرہ سب کو بھول گیا ہوں۔ ڈاکٹر مسعود حسین خاں اور دوسروں کو سلام پہنچائیے۔ مسعود حسین خاں کو کہیے کہ میں جلد ہی ان کو ایک مفصل خط لکھنے والا ہوں۔ اب میرا لکھا بآسانی پڑھا جاتا ہے۔ پہلے دو تین سال تک اس کا پڑھنا مشکل تھا۔

مخلص

گیا ن چند



۲۷ ستمبر ۲۰۰۴ء

عزیزی ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ صاحب تسلیم

آپ میرا خط پاکر حیران ہوں گے۔ کئی سال پہلے میں نے طے کیا کہ اگر ممکن ہو تو میں اپنے متفرق مضامین کو موضوعی ترتیب دوں اور انہیں کئی جلدوں میں پاکستان میں چھپوا دوں۔ مشفق خواجہ نے مدد دینے کا وعدہ کیا۔ اب تک اس سلسلے کی محض چند ہی کتابیں چھپ سکی ہیں۔ لسانیاتی مضامین کو دو جلدیں دی گئیں۔ ایک جلد کا نام ’لسانی رشتے‘ ہے رکھا .... اس کا انتساب یوں ہے:

ماہرِ علمِ زبان، شیریں کلام، کرم فرماڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ کے نام

اس میں محض ۱۱ مضامین ہیں۔ آپ لسانیات میں بہت بڑا مرتبہ رکھتے ہیں۔ میرے پھُسپھسے مضامین کے پیشِ نظر مجھ پر تو ہین کا مقدمہ نہ چلادیجئے....

کتنا جی چاہتا ہے آپ کی مزید صحبت کو لیکن وہ میرا مقسوم نہیں۔ میں اس بیماری کا مریض ہوں جس کا نام ہےMultiple System Atrophyاس بیماری کے بارے میں سائنس کچھ نہیں جانتی۔ اس کا علاج موت کے سوا کچھ نہیں۔ ڈاکٹر مسعود حسین خاں سے پوچھیے۔

میری ایک لسانی کتاب ’’ایک بھاشا ، دو لکھاوٹ ، دو ادب‘‘ .... شائع کررہی ہے۔ امید ہے ۱کتوبر میں آجائے .... سے پوچھیے۔

میں جس کا توازن کھوچکا ہوں۔ گھر میں واکر سے چلتا ہوں باہر Wheel Chairسے جسے کوئی اور دھکیلتا ہے۔ اس کے باوجود باربار گرتا ہوں۔ دماغ پر اندرونی چوٹیں لگتی رہتی ہیں۔ 50%مفلوج ہوں۔ سفر نہیں کرسکتا۔ اب ہندوستان آنے کا سوال ہی نہیں۔ میں اور اہلیہ امریکی شہریت لے چکے ہیں۔ میرے سب بچے اور متعدد عزیز امریکہ میں ہیں۔

مزید تفصیل پھر کہیں اور۔

مخلص

گیان چند


*******
 

الف عین

لائبریرین
مصنف کی اجازت سے:
ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئ فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ 250 فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش
 
Top