بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی 134 ویں سالگرہ ۔ ۔
قائد اعظم محمد على جناح کی زندگی
قائد اعظم محمد على جناح (25 دسمبر 1876ء - 11 ستمبر 1948ء) آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈر تھے جن کی قیادت میں پاکستان نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے۔ آغاز میں آپ انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہوئے اور مسلم ہندو اتحاد کے ہامی تھے۔ آپ ہی کی کوششوں سے 1916 میں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگرس میں معاہدہ ہوا۔ کانگرس سے اختلافات کی وجہ سے آپ نے کانگرس پارٹی چھوڑ دی اور مسلم لیگ کی قیادت میں شامل ہو گئے اور مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کئے۔ مسلم لیڈروں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے آپ انڈیا چھوڑ کر برطانیہ چلے کئے۔ بہت سے مسلمان رہنماؤں خصوصا علامہ اقبال کی کوششوں کی وجہ سے آپ واپس آئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنمبھالی۔ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی بیشتر نشستوں میں کامیابی حاصل کی۔ آخر کار برطانیہ کو مسلم لیگ کے مطالبہ پر راضی ہونا پڑا اور ایک علیحدہ مملکت کا خواب قائد اعظم محمد على جناح کی قیادت میں شرمندہ تعبیر ہوا۔
ابتدائی زندگی
آپ کراچی، سندھ میں وزیر منشن میں 25 دسمبر 1876 کو پید اہوئے۔ آپ کا نام محمد علی جناح بھائی رکھا گیا۔ آپ اپنے والد پونجا جناح کے سات بچوں میں سے سب سے بڑے تھے۔ آپ کے والد گجرات کے ایک مالدار تاجر تھے جو کہ کاٹھیاوار سے کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ آپ نے باقاعدہ تعلیم کراچی مشن ہائی سکول سے حاصل کی۔
1887 کو آپ برطانیہ میں گراہم سپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں کام سیکھنے کے لئے گئے۔ برطانیہ جانے سے پہلے آپ کی شادی آپ کی ایک دور کی رشتہ دار ایمی بائی سے ہوئی جو کی آپ کے برطانیہ جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی وفات پا گئیں۔ لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ملازمت چھوڑ دی اور لنکن ان میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا اور 1896 میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت آپ نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔
انڈیا واپس آنے کے بعد آپ نے ممبئی میں وکالت شروع کی اور جلد ہی بہت نام کمایا۔
ابتدائی سیاسی زندگی
ہندوستان واپسی کے بعد جناح صاحب نے ممبئی میں قیام کیا۔ برطانیہ کی سیاسی زندگی سے متعثر ہو کر ان میں اپنے ملک کو بھی اس ہی روش پر بڑھتے ہوئے دیکھنے کی امنگ نمودار ہوئی۔ جناح صاحب ایک آزاد اور خود مختار ہندوستان چاہتے تھے۔ ان کی نظر میں آزادی کا صحیح راستہ قانونی اور آئینی ہتھیاروں کو استعمال کرنا تھا۔ اس لئے انہوں نے اس زمانے کی ان تحریکوں میں شمولیت اختیار کی جن کا فلسفہ ان کے خیالات کے متابق تھا۔ یعنی انڈین نیشنل کانگریس اور ہوم رول لیگ۔
اس ہی دوران میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک اہم جماعت بن کر سیاسی افق پر ابھرنے لگی۔ جناح صاحب نے مسلمانوں کی اس نمائندہ جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ جناح صاحب ہندوستان کی سیاسی اور سماجی اصلیتوں میں مذہب کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس بات کے قائل تھے کہ ملک کی ترقی کے لئے تمام تر لوگوں کو ملک مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس لئے انہوں نے ہندوستان کے دو بڑی اقوان یعبی ہندو اور مسلمان دونوں کو قریب لانے کی کوشش کی۔ جناح صاحب کی اس ہی کوشش کا نتیجہ 1916 کا معاہدہ لکھنؤ تھا۔
مسلم لیگ کے راہنما
تحریک پاکستان
گورنر جنرل
وفات
قائد اعظم محمد على جناح پاکستان کے بانی تھے-23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش ہوا جہاں سے پاکستان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔
قائدِ اعظم کے متعلق اہلِ نظر کی آراء
[ترمیم] علامہ شبیر احمد عثمانی
آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن اور ممتاز عالمِ دین جنہوں نے قائدِ اعظم کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ قائدِ اعظم کے متعلق فرماتے ہیں۔ "شہنشاہ اورنگزیب کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا جس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کو کامرانیوں میں بدل دیا ہو"۔
علامہ سید سلیمان ندوی
عظیم سیرت نگار، برِ صغیر پا ک و ہند کے معروف سیاستدان اور صحافی جناب سید سلیمان ندوی نے ١٩١٦ء میں مسلم لیگ کے لکھنئو اجلاس میں قائدِ اعظم کی شان میں یہ نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
اک زمانہ تھا کہ اسرار دروں مستور تھے
کوہ شملہ جن دنوں ہم پایہ سینا رہا
جبکہ داروئے وفا ہر دور کی درماں رہی
جبکہ ہر ناداں عطائی بو علی سینا رہا
جب ہمارے چارہ فرما زہر کہتے تھے اسے
جس پہ اب موقوف ساری قوم کا جینا رہا
بادہء حبِ وطن کچھ کیف پیدا کر سکے
دور میں یونہی اگر یہ ساغر و مینا رہا
ملتِ دل بریں کے گو اصلی قوا بیکار ہیں
گوش شنوا ہے نہ ہم میں دیدہء بینا رہا
ہر مریضِ قوم کے جینے کی ہے کچھ کچھ امید
ڈاکٹر اس کا اگر " مسٹر علی جینا" رہا
مولانا ظفر علی خان
"تاریخ ایسی مثالیں بہت کم پیش کر سکے گی کہ کسی لیڈر نے مجبور و محکوم ہوتے ہوئے انتہائی بے سرو سامانی اور مخالفت کی تندوتیز آندھیوں کے دوران دس برس کی قلیل مدت میں ایک مملکت بنا کر رکھ دی ہو" ۔
علامہ عنایت اللہ مشرقی
خا کسار تحریک کے بانی اور قائدِ اعظم کے انتہائی مخالف علامہ مشرقی نے قائد کی موت کا سن کر فرمایا - "اس کا عزم پایندہ و محکم تھا۔ وہ ایک جری اور بے باک سپاہی تھا، جو مخالفوں سے ٹکرانے میں کوئی باک محسوس نہ کرتا تھا"۔
لیاقت علی خان
پا کستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور قائد کے دیرینہ ساتھی نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا۔ "قا ئدِاعظم بر گزیدہ ترین ہستیوں میں سے تھے جو کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ تاریخ ان کا شمار عظیم ترین ہستیوں میں کرے گی"۔
قائد اعظم محمد على جناح کی زندگی
قائد اعظم محمد على جناح (25 دسمبر 1876ء - 11 ستمبر 1948ء) آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈر تھے جن کی قیادت میں پاکستان نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے۔ آغاز میں آپ انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہوئے اور مسلم ہندو اتحاد کے ہامی تھے۔ آپ ہی کی کوششوں سے 1916 میں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگرس میں معاہدہ ہوا۔ کانگرس سے اختلافات کی وجہ سے آپ نے کانگرس پارٹی چھوڑ دی اور مسلم لیگ کی قیادت میں شامل ہو گئے اور مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کئے۔ مسلم لیڈروں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے آپ انڈیا چھوڑ کر برطانیہ چلے کئے۔ بہت سے مسلمان رہنماؤں خصوصا علامہ اقبال کی کوششوں کی وجہ سے آپ واپس آئے اور مسلم لیگ کی قیادت سنمبھالی۔ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کی بیشتر نشستوں میں کامیابی حاصل کی۔ آخر کار برطانیہ کو مسلم لیگ کے مطالبہ پر راضی ہونا پڑا اور ایک علیحدہ مملکت کا خواب قائد اعظم محمد على جناح کی قیادت میں شرمندہ تعبیر ہوا۔
ابتدائی زندگی
آپ کراچی، سندھ میں وزیر منشن میں 25 دسمبر 1876 کو پید اہوئے۔ آپ کا نام محمد علی جناح بھائی رکھا گیا۔ آپ اپنے والد پونجا جناح کے سات بچوں میں سے سب سے بڑے تھے۔ آپ کے والد گجرات کے ایک مالدار تاجر تھے جو کہ کاٹھیاوار سے کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ آپ نے باقاعدہ تعلیم کراچی مشن ہائی سکول سے حاصل کی۔
1887 کو آپ برطانیہ میں گراہم سپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں کام سیکھنے کے لئے گئے۔ برطانیہ جانے سے پہلے آپ کی شادی آپ کی ایک دور کی رشتہ دار ایمی بائی سے ہوئی جو کی آپ کے برطانیہ جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی وفات پا گئیں۔ لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ملازمت چھوڑ دی اور لنکن ان میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا اور 1896 میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت آپ نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔
انڈیا واپس آنے کے بعد آپ نے ممبئی میں وکالت شروع کی اور جلد ہی بہت نام کمایا۔
ابتدائی سیاسی زندگی
ہندوستان واپسی کے بعد جناح صاحب نے ممبئی میں قیام کیا۔ برطانیہ کی سیاسی زندگی سے متعثر ہو کر ان میں اپنے ملک کو بھی اس ہی روش پر بڑھتے ہوئے دیکھنے کی امنگ نمودار ہوئی۔ جناح صاحب ایک آزاد اور خود مختار ہندوستان چاہتے تھے۔ ان کی نظر میں آزادی کا صحیح راستہ قانونی اور آئینی ہتھیاروں کو استعمال کرنا تھا۔ اس لئے انہوں نے اس زمانے کی ان تحریکوں میں شمولیت اختیار کی جن کا فلسفہ ان کے خیالات کے متابق تھا۔ یعنی انڈین نیشنل کانگریس اور ہوم رول لیگ۔
اس ہی دوران میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک اہم جماعت بن کر سیاسی افق پر ابھرنے لگی۔ جناح صاحب نے مسلمانوں کی اس نمائندہ جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ جناح صاحب ہندوستان کی سیاسی اور سماجی اصلیتوں میں مذہب کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس بات کے قائل تھے کہ ملک کی ترقی کے لئے تمام تر لوگوں کو ملک مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس لئے انہوں نے ہندوستان کے دو بڑی اقوان یعبی ہندو اور مسلمان دونوں کو قریب لانے کی کوشش کی۔ جناح صاحب کی اس ہی کوشش کا نتیجہ 1916 کا معاہدہ لکھنؤ تھا۔
مسلم لیگ کے راہنما
تحریک پاکستان
گورنر جنرل
وفات
قائد اعظم محمد على جناح پاکستان کے بانی تھے-23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش ہوا جہاں سے پاکستان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔
قائدِ اعظم کے متعلق اہلِ نظر کی آراء
[ترمیم] علامہ شبیر احمد عثمانی
آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن اور ممتاز عالمِ دین جنہوں نے قائدِ اعظم کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ قائدِ اعظم کے متعلق فرماتے ہیں۔ "شہنشاہ اورنگزیب کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا جس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کو کامرانیوں میں بدل دیا ہو"۔
علامہ سید سلیمان ندوی
عظیم سیرت نگار، برِ صغیر پا ک و ہند کے معروف سیاستدان اور صحافی جناب سید سلیمان ندوی نے ١٩١٦ء میں مسلم لیگ کے لکھنئو اجلاس میں قائدِ اعظم کی شان میں یہ نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
اک زمانہ تھا کہ اسرار دروں مستور تھے
کوہ شملہ جن دنوں ہم پایہ سینا رہا
جبکہ داروئے وفا ہر دور کی درماں رہی
جبکہ ہر ناداں عطائی بو علی سینا رہا
جب ہمارے چارہ فرما زہر کہتے تھے اسے
جس پہ اب موقوف ساری قوم کا جینا رہا
بادہء حبِ وطن کچھ کیف پیدا کر سکے
دور میں یونہی اگر یہ ساغر و مینا رہا
ملتِ دل بریں کے گو اصلی قوا بیکار ہیں
گوش شنوا ہے نہ ہم میں دیدہء بینا رہا
ہر مریضِ قوم کے جینے کی ہے کچھ کچھ امید
ڈاکٹر اس کا اگر " مسٹر علی جینا" رہا
مولانا ظفر علی خان
"تاریخ ایسی مثالیں بہت کم پیش کر سکے گی کہ کسی لیڈر نے مجبور و محکوم ہوتے ہوئے انتہائی بے سرو سامانی اور مخالفت کی تندوتیز آندھیوں کے دوران دس برس کی قلیل مدت میں ایک مملکت بنا کر رکھ دی ہو" ۔
علامہ عنایت اللہ مشرقی
خا کسار تحریک کے بانی اور قائدِ اعظم کے انتہائی مخالف علامہ مشرقی نے قائد کی موت کا سن کر فرمایا - "اس کا عزم پایندہ و محکم تھا۔ وہ ایک جری اور بے باک سپاہی تھا، جو مخالفوں سے ٹکرانے میں کوئی باک محسوس نہ کرتا تھا"۔
لیاقت علی خان
پا کستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور قائد کے دیرینہ ساتھی نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا۔ "قا ئدِاعظم بر گزیدہ ترین ہستیوں میں سے تھے جو کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ تاریخ ان کا شمار عظیم ترین ہستیوں میں کرے گی"۔