باباجانی

بستر پہ بیمار پڑے تھے
بابا جانی کروٹ لے کر
ہلکی سی آواز میں بولے
بیٹا کل کیا منگل ہو گا
گردن موڑے بِن میں بولا
بابا کل تو بدھ ہے
بابا جانی سن نہ پائے
پھر سے پوچھا کل کیا دن ہے
تھوڑی گردن موڑ کے میں نے
لہجے میں کچھ زہر ملا کے
منہ کو کان کی سیدھ میں لاکے
دھاڑ کے بولا بدھ ہے بابا
آنکھوں میں دو موتی چمکے
سوکھے سے دو ہونٹ بھی لرزے
لہجے میں کچھ شہد ملا کے
بابا بولے بیٹھو بیٹا
چھوڑ دو دن کو دن ہیں پورے
تم میں میرا حصہ سن لو
بچپن کا ایک قصہ سن لو
یہی جگہ تھی میں تھا تم تھے
تم نے پوچھا، رنگ برنگی
پھولوں پر یہ اڑنے والی
اسکا نام بتائیں بابا
گال پر بوسہ دے کر میں نے
پیار سے بولا تتلی بیٹا
تم نے پوچھا کیا ہے بابا؟؟
پھر میں بولا تتلی بیٹا
تتلی تتلی کہتے سنتے
ایک مہینہ پورا گزرا
ایک مہینہ پوچھ کے بیٹا
تتلی کہنا سیکھا تم نے
ہر اک نام جو سکھا تم نے
کتنی بار وہ پوچھا تم نے
تیرے بھی تو دانت نہیں تھے
میرے بھی اب دانت نہیں ہیں
تیرے پاس تو بابا تھے نا
میرے پاس تو بیٹا ہے نا
بوڑھے سے اس بچے کی بھی
بابا ہوتے سن بھی لیتے
تیرے پاس تو بابا تھے نا
میرے پاس تو بٹیا ہے نا
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
اکثر بات ہوتی ہے کہ ایک ماں باپ کئی بچوں کو پال لیتے ہیں مگر وقت آنے پر کئی بچے اپنے ایک ماں باپ کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وجوہات میں سے کُچھ تو اِس دلیل کی حامل ہیں کہ بچّے گھر کی تربیت سے بہت اثر لیتے ہیں سو اگر ہم اپنے بچوں پر جان چھڑکتے رہیں اور اپنے والدین سے غافل رہیں تو ہمارے بچوں کا مشاہدہ ہمارے وقتِ پیری اِسی تاریخ کو دہرا دے گا۔ ایک رائے یہ ہے کہ فطرت کے سینے میں دِل کی جگہ قوتِ نمو کا ایک بیج ہے لِہٰذا اُسے صرف افزائش اور بڑھوتری سے کام ہےاور جو نفس بھی اِس میں معاون و مددگار نہیں ہے فطرت پورے وجود سے اُس کو مسل دینا چاہتی ہےاور وہ نئے اور زرخیز اجسام کے لیے شکستہ اور کُہنہ اجسام کو ماحول سے جلد از جلد ہٹانے کے درپے رہتی ہےاِس کے لیے وہ تکلیف دہ معاشرتی رویّے اور احساسات مربوط کرتی ہے۔ ترجیحات میں تبدیلیاں لاتی ہےاور حقائق کے آئینے کو ایک عجیب ہی رُخ پر موڑ دیتی ہے۔ کہنے والوں نے اِس معاملے پر خیال آرائی میں اِس نکتے کو بھی ایک منطقی جواز بنانے کی کوشش کی کہ چونکہ آدم کے والدین نہیں تھے اِس لیے والدین کی خدمت اور دیکھ بھال سے بتدریج لا پرواہی کا عنصر کسی حد تک حضرتِ انسان کے خمیر میں شامل ہے۔ وجہ جو بھی ہو یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنے بچوں کی فضول فرمائیشیں بھی اُن کی آخری خواہش سمجھ کر پورا کرنے والے اکثر لوگ اپنے بوڑھے والدین کی اہم ضروریات سُپردِ خُدا کرکے اُنہیں جیتے جی مار دیتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top