عبدالباسط احسان
محفلین
(نوٹ :یہ کافی سال پہلے کی تحریر ہے، اس لیے اس میں لڑکپن کے اثرات ہیں)
بابا جی! میں بہت پریشان ہوں، مجھے ایک لڑکی سے محبت ، بلکہ عشق ہے،جبکہ وہ میری طرف نظر بھی نہیں کرتی، جیسے میری شکل نہ ہو، سورج گرہن ہو۔ باباجی کچھ کریں میں اس کے بغیر مرجاءوں گا، اس نے بابا جی کے پاءوں پکڑ لیے۔۔
بچہ! میں تیرے من کے اندر جھانک کر دیکھ سکتا ہوں، اصل میں محبوب بے وفاء ہے۔۔
اس نے حیرت سے بابا جی کی طرف دیکھا، واقعی بابا جی پہنچے ہوئے تھے، جو اتنی جلدی بغیر بتائے اصل مسئلہ سمجھ گئے۔۔۔
بچہ! چلہ کاٹنا پڑے گا، کچھ چیزیں درکار ہیں! الو، دیسی مرغا، قبر کی مٹی اور ایک عدد محبوبہ کی تازہ تصویر۔۔۔۔۔
وہ یہ سن کر پریشان ہوگیا،کیونکہ دیسی مرغے کے علاوہ باقی سب چیزوں کا حصول نہایت مشکل تھا۔۔
بابا جی نے خود ہی یہ کہہ کر پریشانی دور کردی کہ بس پندرہ ہزار روپے لگیں گے، اگر تم کو ان چیزوں کا حصول مشکل لگتا ہے،تو ہمیں رقم دو،ہمارے رابطے ہیں،فون پر ہی آرڈر کردیں گے۔۔۔۔۔
وہ یہ بات سن کر بہت خوش ھوا جیسے سر سے بوجھ اتر گیا ہو، گویا، پیزا سروس کی طرح ان اشیاء کی بھی سہولت کے ساتھ ڈیلیوری ہوجائے گی۔
اس نے اے ٹی ایم کارڈ بٹوے سے نکالا اور اپنی جمع پونچی کا بہت بڑا حصہ بابا جی کے قدموں میں لا کر رکھ دیا،اسے بس محبوبہ کی چاہ تھی، بابا جی اگر حکم کرتے تو اے ٹی ایم مشین بھی اکھیٹر لاتا۔۔۔
اگلے دن بابا جی نے سب اشیاء کا انتظام کررکھا تھا،مگر بابا جی کے چہرے پر پریشانی نمایاں تھی۔۔۔
بابا جی پریشان لہجے میں مخاطب ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بغیر تصویر کے محبوبہ کو عشق میں گرفتار کروانا مشکل ہے۔"۔
وہ ، بابا جی کی یہ بات سن کے، سر پکڑ کر بیٹھ گیا،ابھی بھی محبوبہ کے حصول کی منزل ایک تصویر کے فاصلے پر تھی۔۔
بابا جی مخاطب ہوئے بچہ اس کا ایک حل ہے، مگر میری جان کو خطرہ ہوسکتا ہے، مجھے روحانی طریقے سے تمھاری محبوبہ کے گھر جاکر اسے ایک بار دیکھنا ہوگا۔ اس کے لیے چمگادڑ کے پر چاہئیے اور ذعفران چاہئیے۔ جس کا خرچہ دس ہزار ہے۔۔۔۔۔۔
اس نے اے ٹی ایم کارڈ دوبارہ بٹوے سے نکالا، اور کچھ دیر بعد اپنا باقی کھاتہ بھی اے ٹی ایم مشین سے صاف کرکے،بابا جی کے قدموں میں رکھ دیا۔۔۔
بابا جی نے کہا بچہ تمھارا کام اب صد فیصد ہوجائے گا، میں چلہ شروع کرنے لگا ہوں، مگر اس دوران ادھر مجھ سے ملنے نہ آنا کیونکہ چلہ متاثر ہوسکتا ہے۔
چالیس دن بعد وہ بابا جی کے آستانے پر پہنچا، تو وہاں آم کے رس کی دکان تھی، اس نے آم کا جوس پی کر آہ بھری اور خود سے مخاطب ہوا
میری قسمت بھی آم جیسی ہے۔
۔
عبدالباسط
بابا جی! میں بہت پریشان ہوں، مجھے ایک لڑکی سے محبت ، بلکہ عشق ہے،جبکہ وہ میری طرف نظر بھی نہیں کرتی، جیسے میری شکل نہ ہو، سورج گرہن ہو۔ باباجی کچھ کریں میں اس کے بغیر مرجاءوں گا، اس نے بابا جی کے پاءوں پکڑ لیے۔۔
بچہ! میں تیرے من کے اندر جھانک کر دیکھ سکتا ہوں، اصل میں محبوب بے وفاء ہے۔۔
اس نے حیرت سے بابا جی کی طرف دیکھا، واقعی بابا جی پہنچے ہوئے تھے، جو اتنی جلدی بغیر بتائے اصل مسئلہ سمجھ گئے۔۔۔
بچہ! چلہ کاٹنا پڑے گا، کچھ چیزیں درکار ہیں! الو، دیسی مرغا، قبر کی مٹی اور ایک عدد محبوبہ کی تازہ تصویر۔۔۔۔۔
وہ یہ سن کر پریشان ہوگیا،کیونکہ دیسی مرغے کے علاوہ باقی سب چیزوں کا حصول نہایت مشکل تھا۔۔
بابا جی نے خود ہی یہ کہہ کر پریشانی دور کردی کہ بس پندرہ ہزار روپے لگیں گے، اگر تم کو ان چیزوں کا حصول مشکل لگتا ہے،تو ہمیں رقم دو،ہمارے رابطے ہیں،فون پر ہی آرڈر کردیں گے۔۔۔۔۔
وہ یہ بات سن کر بہت خوش ھوا جیسے سر سے بوجھ اتر گیا ہو، گویا، پیزا سروس کی طرح ان اشیاء کی بھی سہولت کے ساتھ ڈیلیوری ہوجائے گی۔
اس نے اے ٹی ایم کارڈ بٹوے سے نکالا اور اپنی جمع پونچی کا بہت بڑا حصہ بابا جی کے قدموں میں لا کر رکھ دیا،اسے بس محبوبہ کی چاہ تھی، بابا جی اگر حکم کرتے تو اے ٹی ایم مشین بھی اکھیٹر لاتا۔۔۔
اگلے دن بابا جی نے سب اشیاء کا انتظام کررکھا تھا،مگر بابا جی کے چہرے پر پریشانی نمایاں تھی۔۔۔
بابا جی پریشان لہجے میں مخاطب ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بغیر تصویر کے محبوبہ کو عشق میں گرفتار کروانا مشکل ہے۔"۔
وہ ، بابا جی کی یہ بات سن کے، سر پکڑ کر بیٹھ گیا،ابھی بھی محبوبہ کے حصول کی منزل ایک تصویر کے فاصلے پر تھی۔۔
بابا جی مخاطب ہوئے بچہ اس کا ایک حل ہے، مگر میری جان کو خطرہ ہوسکتا ہے، مجھے روحانی طریقے سے تمھاری محبوبہ کے گھر جاکر اسے ایک بار دیکھنا ہوگا۔ اس کے لیے چمگادڑ کے پر چاہئیے اور ذعفران چاہئیے۔ جس کا خرچہ دس ہزار ہے۔۔۔۔۔۔
اس نے اے ٹی ایم کارڈ دوبارہ بٹوے سے نکالا، اور کچھ دیر بعد اپنا باقی کھاتہ بھی اے ٹی ایم مشین سے صاف کرکے،بابا جی کے قدموں میں رکھ دیا۔۔۔
بابا جی نے کہا بچہ تمھارا کام اب صد فیصد ہوجائے گا، میں چلہ شروع کرنے لگا ہوں، مگر اس دوران ادھر مجھ سے ملنے نہ آنا کیونکہ چلہ متاثر ہوسکتا ہے۔
چالیس دن بعد وہ بابا جی کے آستانے پر پہنچا، تو وہاں آم کے رس کی دکان تھی، اس نے آم کا جوس پی کر آہ بھری اور خود سے مخاطب ہوا
میری قسمت بھی آم جیسی ہے۔
۔
عبدالباسط