یوسف سلطان
محفلین
"بابا...! مجهے جینے دیں"
تحریر: نیلم چوہدری
.
.
.
.
مَیں اسکول سے واپس آئی تو اپنی پڑوسن نجمہ باجی کے گھر کے باہر پولیس اور لوگوں کی بِھیڑ دیکھ کر دل ہی دل میں خیر کی دعائیں کرتی اپنے گھر میں داخل ہوئی- امّی جان بظاہر باورچی خانہ میں کھانا پکا رہی تھیں لیکن بہت اُداس نظر آ رہی تھیں-
.
امّی جان...! کیا ہوا...؟ آج آپ بہت اُداس دکھائی دے رہی ہیں اور یہ ساتھ والی نجمہ باجی کے گھر میں پولیس کیوں آئی ہے؟؟ خیریت تو ہے ناں...؟؟؟
مَیں نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے- جواب میں امّی جان نے جو واقعہ سنایا اُسے سن کر میری رُوح تک کانپ گئی-
.
بات دراصل یہ ہے کہ نجمہ باجی کے ہاں کل تیسری بیٹی پیدا ہوئی ہے، اُس کا شوہر اسے پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ اگر اِس دفعہ بھی بیٹی پیدا ہوئی تو تمہیں لازماً طلاق دے دوں گا یا بچی کو جان سے مار ڈالوں گا- کل رات وہ بدبخت انسان بچی کو ماں سے زبردستی چھین کر لے گیا اور اُس ننھی پری کو زندہ دفن کر دیا- خدا کی کرنی کہ کسی نے اُسے رات کے اندھیرے میں یہ گھناؤنا عمل کرتے ہوئے دیکھ لیا اور پولیس کو اِس واقعہ کی اطلاع دے دی- اب پولیس نجمہ کے شوہر کو ڈھونڈ رہی ہے اور وہ گرفتاری کے ڈر سے کہیں چُھپ گیا ہے-
.
امّی جان پوری بات بتا کر خاموش ہو گئیں مگر مَیں بےبسی کے عالم میں یہ سوچ رہی تھی کہ ایسے لوگ کتنے ظالم ہوتے ہیں جو بیٹی جیسی رحمت کی بھی قدر نہیں کرتے، دنیاوی قانون کے ڈر سے چھپ جاتے ہیں لیکن اُنہیں اللہ کا ذرا بھی خوف نہیں ہوتا-
.
کیا فرق ہے آجکل کے مسلمان اور زمانہ جاہلیت کے عربوں میں...؟ وہ لوگ اپنی بیٹیوں کو منحوس سمجھتے تھے اور ہمارے معاشرے میں بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، وہ لوگ بھی اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے اور ہمارے معاشرے کے بعض کم عقل لوگ بھی بیٹیوں کو سینے سے لگانے کے بجائے محض چھوٹی سی جاہلانہ سوچ کی وجہ سے اُنھیں جان سے ہی مار ڈالتے ہیں...
.
اِسی معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ویسے تو بیٹیوں کو زندہ دفن نہیں کرتے لیکن بیٹوں اور بیٹیوں کی تعلیم وتربیت میں فرق ضرور رکھتے ہیں، جس کے نتیجے میں بیٹیاں احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں اور آگے چل کر زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو خود اعتمادی سے حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں- بچوں کے درمیان اس فرق کی وجہ سے بہن بھائیوں کے مقدس اور پیارے رشتے میں بعض اوقات حسد پیدا ہو جاتا ہے-
.
دینِ اسلام میں عورت کو بلند مرتبہ عطا کیا گیا ہے- خود ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی بیٹیوں کے ساتھ بے انتہا شفقت سے پیش آتے تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا جب بھی آپ صلی اللهعلیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپصلی الله علیہ وسلم اُن کا ماتھا چوم لیتے اور اُن کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر مبارک بچھا دیتے تھے-
.
معاشرے کا یہ بگاڑ ہماری دین سے دُوری کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، اگر ہم اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاریں تو معاشرے میں ہر طرف امن ہو گا اور ہر شخص اپنی زندگی سے مطمئن بھی ہو گا- اللہ پاک ہم سب کو دینِ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین یا ربّ العالمین-
(فیس بک )
تحریر: نیلم چوہدری
.
.
.
.
مَیں اسکول سے واپس آئی تو اپنی پڑوسن نجمہ باجی کے گھر کے باہر پولیس اور لوگوں کی بِھیڑ دیکھ کر دل ہی دل میں خیر کی دعائیں کرتی اپنے گھر میں داخل ہوئی- امّی جان بظاہر باورچی خانہ میں کھانا پکا رہی تھیں لیکن بہت اُداس نظر آ رہی تھیں-
.
امّی جان...! کیا ہوا...؟ آج آپ بہت اُداس دکھائی دے رہی ہیں اور یہ ساتھ والی نجمہ باجی کے گھر میں پولیس کیوں آئی ہے؟؟ خیریت تو ہے ناں...؟؟؟
مَیں نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے- جواب میں امّی جان نے جو واقعہ سنایا اُسے سن کر میری رُوح تک کانپ گئی-
.
بات دراصل یہ ہے کہ نجمہ باجی کے ہاں کل تیسری بیٹی پیدا ہوئی ہے، اُس کا شوہر اسے پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ اگر اِس دفعہ بھی بیٹی پیدا ہوئی تو تمہیں لازماً طلاق دے دوں گا یا بچی کو جان سے مار ڈالوں گا- کل رات وہ بدبخت انسان بچی کو ماں سے زبردستی چھین کر لے گیا اور اُس ننھی پری کو زندہ دفن کر دیا- خدا کی کرنی کہ کسی نے اُسے رات کے اندھیرے میں یہ گھناؤنا عمل کرتے ہوئے دیکھ لیا اور پولیس کو اِس واقعہ کی اطلاع دے دی- اب پولیس نجمہ کے شوہر کو ڈھونڈ رہی ہے اور وہ گرفتاری کے ڈر سے کہیں چُھپ گیا ہے-
.
امّی جان پوری بات بتا کر خاموش ہو گئیں مگر مَیں بےبسی کے عالم میں یہ سوچ رہی تھی کہ ایسے لوگ کتنے ظالم ہوتے ہیں جو بیٹی جیسی رحمت کی بھی قدر نہیں کرتے، دنیاوی قانون کے ڈر سے چھپ جاتے ہیں لیکن اُنہیں اللہ کا ذرا بھی خوف نہیں ہوتا-
.
کیا فرق ہے آجکل کے مسلمان اور زمانہ جاہلیت کے عربوں میں...؟ وہ لوگ اپنی بیٹیوں کو منحوس سمجھتے تھے اور ہمارے معاشرے میں بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، وہ لوگ بھی اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے اور ہمارے معاشرے کے بعض کم عقل لوگ بھی بیٹیوں کو سینے سے لگانے کے بجائے محض چھوٹی سی جاہلانہ سوچ کی وجہ سے اُنھیں جان سے ہی مار ڈالتے ہیں...
.
اِسی معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ویسے تو بیٹیوں کو زندہ دفن نہیں کرتے لیکن بیٹوں اور بیٹیوں کی تعلیم وتربیت میں فرق ضرور رکھتے ہیں، جس کے نتیجے میں بیٹیاں احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں اور آگے چل کر زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو خود اعتمادی سے حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں- بچوں کے درمیان اس فرق کی وجہ سے بہن بھائیوں کے مقدس اور پیارے رشتے میں بعض اوقات حسد پیدا ہو جاتا ہے-
.
دینِ اسلام میں عورت کو بلند مرتبہ عطا کیا گیا ہے- خود ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی بیٹیوں کے ساتھ بے انتہا شفقت سے پیش آتے تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا جب بھی آپ صلی اللهعلیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپصلی الله علیہ وسلم اُن کا ماتھا چوم لیتے اور اُن کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر مبارک بچھا دیتے تھے-
.
معاشرے کا یہ بگاڑ ہماری دین سے دُوری کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، اگر ہم اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاریں تو معاشرے میں ہر طرف امن ہو گا اور ہر شخص اپنی زندگی سے مطمئن بھی ہو گا- اللہ پاک ہم سب کو دینِ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین یا ربّ العالمین-
(فیس بک )