ھارون اعظم
محفلین
السلام علیکم ناظرین،
'باتونی کی باتیں' پروگرام میں آپ کا میزبان باتونی حاضر ہے۔ آج ہم پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری بدامنی اور فوجی آپریشن پر بات کریں گے۔ ہمارے ساتھ موجود ہیں اسلام آباد اسٹوڈیو میں جناب بے بس اور لاہور اسٹوڈیو میں جناب بقراط۔
تو گفتگو کا آغاز کرتے ہیں، بے بس صاحب یہ بتائیے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
' جی، قبائلی علاقوں کے لوگوں کے مسائل کو نظر انداز کیا جارہا ہے، ان کو ایف سی آر کے کالے قانون کے ذریعے باقی پاکستان سے الگ رکھا گیا ہے۔ ان کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'
'نہیں جناب یہ تو ہمیں معلوم ہے، میرا سوال یہ تھا کہ یہ جو دہشت گرد پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کے گلے کاٹتے ہیں، ان کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟'
'جی، قبائلی علاقوں میں مختلف ممالک کی ایجنسیاں سرگرمِ عمل ہیں، یہ بات سب کو معلوم ہے، کہ کس کس کا مفاد وہاں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔'
'اچھا تو آپ اس کو پاکستانی ایجنسیوں کی کارروائی کہتے ہیں، یعنی آپ پاکستانی ایجنسیوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں؟؟ اچھا یہ بتائیے آپ طالبان کی کارروائیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اور کیا آپ ان کے کسی رہنما کو ذاتی طور پر جانتے ہیں؟ کیونکہ آپ بھی قبائلی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔'
'میں ان میں سے کسی کو ذاتی طور پر نہیں جانتا، بس میڈیا کے ذریعے ان کے بارےمیں سنتا ہوں، البتہ ان میں سے کچھ لوگ میرے علاقے کے ہیں، اور میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔'
'آپ کہتے ہیں آپ نہیں جانتے، میرے پاس ایک تصویر ہےجس میں آپ ان دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔'
'جی، یہ تو ڈرون حملے میں معصوم شہداء کے جنازے کی تصویر ہے، میں نے امامت کی تھی، میرے پیچھے ہزاروں افراد کھڑے تھے، لیکن میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'
'اچھا، آپ کی بات ہوگئی، اب ہم جناب بقراط سے رائے لیتے ہیں، بقراط صاحب، آپ کیا کہتے ہیں، اس بارے میں؟'
'جناب میں تو اتنا کہوں گا، کہ ہمیں سچ بولنا چاہیئے، سچ بولنے کے بہت فائدے ہیں۔ اس سے انسان کے چہرے پر رونق آتی ہے، ہمارے مذہبی سیاستدانوں کو اب سوچنا چاہیئے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب وہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر استعمال کریں گے۔ اب عوام عقلمند ہوگئے ہیں، ان کے نرغے میں نہیں آئیں گے۔
قبائلی علاقوں میں انتہاپسندی کا اصل ذمہ دار ضیاء الحق ہے، ورنہ ایف سی آر تو ایک صدی سے نافذ ہے۔ یہ سب ضیاء اور اس کی باقیات کی کارستانیاں ہیں۔ ہم پاکستانی عوام کو مزید ان کے جبر اور خودکش حملوں کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔'
بے بس صاحب نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا کہ جناب باتونی نے ٹوکا، 'ناظرین یہاں پر ہم لیں گے ایک چھوٹا سا بریک، ملتے ہیں کمرشل بریک کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'
ویلکم بیک ناظرین! تو ہم بات کررہے تھے قبائلی علاقوں میں جاری بدامنی پر۔ بے بس صاحب، آپ کے خیال میں قبائلی علاقوں میں فوج کی موجودگی، حالات کو خراب کرنے کی ایک وجہ ہے۔ ذرا اس کی وضاحت کریں گے؟'
'جی، ہم سمجھتے ہیں کہ فوج کو اپنے لوگوں کے خلاف استعمال کرکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ '
'اچھا یہ بتائیے کیا پاکستانی فوج کے لوگ کسی کے بیٹے نہیں؟'
'جناب مجھے بات پوری تو کرنے دیں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ فوج کو اپنے لوگوں کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے لوگوں کو ساتھ ملا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'
بقراط صاحب نے گلا کھنکارا۔ 'ارے بھئی میں تو سمجھتا ہوں، یہ لوگ فوج کے خلاف ہیں، یہ لوگ پاکستانی فوج کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کررہے ہیں، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان پر انتہاپسندوں کا قبضہ ہو۔'
'نہیں جناب آپ نے میری پوری بات نہیں سنی، میرا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت قبائلی عوام میں ایک بداعتمادی پائی جاتی ہے اور یہ بات بہت ضروری ہے کہ ہم لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'
'بے بس صاحب آپ کا مطلب یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے لوگ پاکستانی فوج سے نفرت کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے آپ کی اس بات پر رائے لیتے ہیں، ہمارے ساتھ کراچی سے جناب باکمال صاحب۔ باکمال صاحب بھی کمال کے آدمی ہیں، کراچی کی سیاست میں فعال ہونے کے ساتھ ان کی کافی گہری نظر ہے پاکستان کی سیاست اور انتہا پسندی پر۔ تو باکمال صاحب، آپ اس پوری بحث کو شروع سے سن رہے تھے، آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں؟
'میرے بھائی ہم تو کب سے دہائیاں دے رہے ہیں کہ خدارا اس انتہاپسندی کا راستہ روکیں، کراچی میں ہر طرف ان لوگوں کا نیٹ ورک پھیل گیا ہے، جدھر دیکھو دہشت گرد نظر آرہے ہیں، کراچی پر طالبان کا قبضہ ہونے والا ہے، ہم لوگوں نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو بہت دیر ہوجائے گی۔ اب دیکھیں نا، بے تاب بھائی کب سے اس بات کی پیشنگوئی کررہے تھے کہ کراچی انتہاپسندوں کے قبضے میں جارہا ہے، لیکن کوئی نہیں مان رہا تھا، میں تو کہتا ہوں پاک فوج کو سلام کرنا چاہئے جس نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے فاٹا میں اور سوات میں۔ سلام ہے ان جوانوں کو۔۔۔۔۔۔۔'
'باکمال صاحب، کراچی کے آپریشن کے بارے میں بھی آپ کے یہی خیالات ہیں؟ جو کہ اب ہیں، یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ' بے بس صاحب نے سوال کرنے کی کوشش کی، لیکن باتونی صاحب اپنی عادت سے مجبور تھے۔
'بے بس صاحب، ان کو بات کرنے دیں، آپ اپنی بات کرچکے ہیں۔ ہاں تو باکمال صاحب، جاری رکھئے اپنی بات۔'
'میں تو کہتا ہوں یہ لوگ دہشت گردوں کے ساتھی ہیں، ان کے معاون ہیں، ہمیں ان کو سیاست سے بے دخل کرنا چاہیئے کیونکہ یہ لوگ پاکستان کے قیام کے بھی خلاف تھے، یہ لوگ ہمیں مزید دھوکے میں نہیں رکھ سکتے۔ یہ لوگ الیکشن میں سامنے آئیں پھر دیکھیں کس کے بیلٹ بکس جلدی بھریں گے۔' باکمال صاحب جذباتی ہوگئے۔
'میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اس کے جواب میں۔' بے بس صاحب نے درخواست کی۔
'میں معذرت خواہ ہوں، ہمارے پروگرام کا وقت ختم ہو رہا ہے۔ ناظرین، آپ نے ماہرین کی رائے سنی کہ کس طرح فاٹا میں دہشت گرد پاک فوج کے ساتھ لڑ رہے ہیں، اور کس طرح یہ لوگ پاکستان اور اس کی افواج کے خلاف پراپیگنڈا کررہے ہیں۔ ہم آج کے پروگرام کو اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن وقت کی اہم ضرورت ہے اور جو اس کے خلاف ہیں، ان کی دلیل کافی کمزور ہے۔
ہمارے پروگرام کا وقت ختم ہو رہا ہے۔ ملتے ہیں اگلے پروگرام میں، فی الحال باتونی کو نوٹنکی ٹی وی سے اجازت دیجئے۔ اللٰہ حافظ۔
'باتونی کی باتیں' پروگرام میں آپ کا میزبان باتونی حاضر ہے۔ آج ہم پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری بدامنی اور فوجی آپریشن پر بات کریں گے۔ ہمارے ساتھ موجود ہیں اسلام آباد اسٹوڈیو میں جناب بے بس اور لاہور اسٹوڈیو میں جناب بقراط۔
تو گفتگو کا آغاز کرتے ہیں، بے بس صاحب یہ بتائیے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
' جی، قبائلی علاقوں کے لوگوں کے مسائل کو نظر انداز کیا جارہا ہے، ان کو ایف سی آر کے کالے قانون کے ذریعے باقی پاکستان سے الگ رکھا گیا ہے۔ ان کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'
'نہیں جناب یہ تو ہمیں معلوم ہے، میرا سوال یہ تھا کہ یہ جو دہشت گرد پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کے گلے کاٹتے ہیں، ان کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟'
'جی، قبائلی علاقوں میں مختلف ممالک کی ایجنسیاں سرگرمِ عمل ہیں، یہ بات سب کو معلوم ہے، کہ کس کس کا مفاد وہاں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔'
'اچھا تو آپ اس کو پاکستانی ایجنسیوں کی کارروائی کہتے ہیں، یعنی آپ پاکستانی ایجنسیوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں؟؟ اچھا یہ بتائیے آپ طالبان کی کارروائیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اور کیا آپ ان کے کسی رہنما کو ذاتی طور پر جانتے ہیں؟ کیونکہ آپ بھی قبائلی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔'
'میں ان میں سے کسی کو ذاتی طور پر نہیں جانتا، بس میڈیا کے ذریعے ان کے بارےمیں سنتا ہوں، البتہ ان میں سے کچھ لوگ میرے علاقے کے ہیں، اور میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔'
'آپ کہتے ہیں آپ نہیں جانتے، میرے پاس ایک تصویر ہےجس میں آپ ان دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔'
'جی، یہ تو ڈرون حملے میں معصوم شہداء کے جنازے کی تصویر ہے، میں نے امامت کی تھی، میرے پیچھے ہزاروں افراد کھڑے تھے، لیکن میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'
'اچھا، آپ کی بات ہوگئی، اب ہم جناب بقراط سے رائے لیتے ہیں، بقراط صاحب، آپ کیا کہتے ہیں، اس بارے میں؟'
'جناب میں تو اتنا کہوں گا، کہ ہمیں سچ بولنا چاہیئے، سچ بولنے کے بہت فائدے ہیں۔ اس سے انسان کے چہرے پر رونق آتی ہے، ہمارے مذہبی سیاستدانوں کو اب سوچنا چاہیئے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب وہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر استعمال کریں گے۔ اب عوام عقلمند ہوگئے ہیں، ان کے نرغے میں نہیں آئیں گے۔
قبائلی علاقوں میں انتہاپسندی کا اصل ذمہ دار ضیاء الحق ہے، ورنہ ایف سی آر تو ایک صدی سے نافذ ہے۔ یہ سب ضیاء اور اس کی باقیات کی کارستانیاں ہیں۔ ہم پاکستانی عوام کو مزید ان کے جبر اور خودکش حملوں کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔'
بے بس صاحب نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا کہ جناب باتونی نے ٹوکا، 'ناظرین یہاں پر ہم لیں گے ایک چھوٹا سا بریک، ملتے ہیں کمرشل بریک کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'
ویلکم بیک ناظرین! تو ہم بات کررہے تھے قبائلی علاقوں میں جاری بدامنی پر۔ بے بس صاحب، آپ کے خیال میں قبائلی علاقوں میں فوج کی موجودگی، حالات کو خراب کرنے کی ایک وجہ ہے۔ ذرا اس کی وضاحت کریں گے؟'
'جی، ہم سمجھتے ہیں کہ فوج کو اپنے لوگوں کے خلاف استعمال کرکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ '
'اچھا یہ بتائیے کیا پاکستانی فوج کے لوگ کسی کے بیٹے نہیں؟'
'جناب مجھے بات پوری تو کرنے دیں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ فوج کو اپنے لوگوں کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے لوگوں کو ساتھ ملا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'
بقراط صاحب نے گلا کھنکارا۔ 'ارے بھئی میں تو سمجھتا ہوں، یہ لوگ فوج کے خلاف ہیں، یہ لوگ پاکستانی فوج کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کررہے ہیں، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان پر انتہاپسندوں کا قبضہ ہو۔'
'نہیں جناب آپ نے میری پوری بات نہیں سنی، میرا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت قبائلی عوام میں ایک بداعتمادی پائی جاتی ہے اور یہ بات بہت ضروری ہے کہ ہم لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'
'بے بس صاحب آپ کا مطلب یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے لوگ پاکستانی فوج سے نفرت کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے آپ کی اس بات پر رائے لیتے ہیں، ہمارے ساتھ کراچی سے جناب باکمال صاحب۔ باکمال صاحب بھی کمال کے آدمی ہیں، کراچی کی سیاست میں فعال ہونے کے ساتھ ان کی کافی گہری نظر ہے پاکستان کی سیاست اور انتہا پسندی پر۔ تو باکمال صاحب، آپ اس پوری بحث کو شروع سے سن رہے تھے، آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں؟
'میرے بھائی ہم تو کب سے دہائیاں دے رہے ہیں کہ خدارا اس انتہاپسندی کا راستہ روکیں، کراچی میں ہر طرف ان لوگوں کا نیٹ ورک پھیل گیا ہے، جدھر دیکھو دہشت گرد نظر آرہے ہیں، کراچی پر طالبان کا قبضہ ہونے والا ہے، ہم لوگوں نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو بہت دیر ہوجائے گی۔ اب دیکھیں نا، بے تاب بھائی کب سے اس بات کی پیشنگوئی کررہے تھے کہ کراچی انتہاپسندوں کے قبضے میں جارہا ہے، لیکن کوئی نہیں مان رہا تھا، میں تو کہتا ہوں پاک فوج کو سلام کرنا چاہئے جس نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے فاٹا میں اور سوات میں۔ سلام ہے ان جوانوں کو۔۔۔۔۔۔۔'
'باکمال صاحب، کراچی کے آپریشن کے بارے میں بھی آپ کے یہی خیالات ہیں؟ جو کہ اب ہیں، یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ' بے بس صاحب نے سوال کرنے کی کوشش کی، لیکن باتونی صاحب اپنی عادت سے مجبور تھے۔
'بے بس صاحب، ان کو بات کرنے دیں، آپ اپنی بات کرچکے ہیں۔ ہاں تو باکمال صاحب، جاری رکھئے اپنی بات۔'
'میں تو کہتا ہوں یہ لوگ دہشت گردوں کے ساتھی ہیں، ان کے معاون ہیں، ہمیں ان کو سیاست سے بے دخل کرنا چاہیئے کیونکہ یہ لوگ پاکستان کے قیام کے بھی خلاف تھے، یہ لوگ ہمیں مزید دھوکے میں نہیں رکھ سکتے۔ یہ لوگ الیکشن میں سامنے آئیں پھر دیکھیں کس کے بیلٹ بکس جلدی بھریں گے۔' باکمال صاحب جذباتی ہوگئے۔
'میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اس کے جواب میں۔' بے بس صاحب نے درخواست کی۔
'میں معذرت خواہ ہوں، ہمارے پروگرام کا وقت ختم ہو رہا ہے۔ ناظرین، آپ نے ماہرین کی رائے سنی کہ کس طرح فاٹا میں دہشت گرد پاک فوج کے ساتھ لڑ رہے ہیں، اور کس طرح یہ لوگ پاکستان اور اس کی افواج کے خلاف پراپیگنڈا کررہے ہیں۔ ہم آج کے پروگرام کو اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن وقت کی اہم ضرورت ہے اور جو اس کے خلاف ہیں، ان کی دلیل کافی کمزور ہے۔
ہمارے پروگرام کا وقت ختم ہو رہا ہے۔ ملتے ہیں اگلے پروگرام میں، فی الحال باتونی کو نوٹنکی ٹی وی سے اجازت دیجئے۔ اللٰہ حافظ۔