کاشفی

محفلین
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی سودا)
باتیں کِدھر گئیں وہ تِری بھولی بھالِیاں؟
دِل لے کے بولتا ہَے، جو اَب تو، یہ بولِیاں

ہر بات ہَے لطیفہ و ہر یک سُخن ہَے رمز
ہر آن ہَے کِنایہ و ہر دم ٹھٹھولِیاں

حَیرت نے، اُس کو بند نہ کرنے دیں پِھر کبھو
آنکھیں، جب آرسی نے، تِرے مُنہ پہ کھولِیاں

کِس نے کیا خِرام چمن میں؟ کہ اے صبا!
لاتے ہَیں بوے ناز سے بھر بھر کے جھولِیاں

سودا کے دِل سے صاف نہ رہتی تھی زُلفِ یار
شانے نے بیچ پڑ کے گِرہ اُس کی کھولِیاں
 

طارق شاہ

محفلین

غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی سودا)

باتیں کِدھر گئیں وہ تِری بھولی بھالِیاں؟
دِل لے کے بولتا ہَے، جو اَب تُویہ بولِیاں

ہر بات ہَے لطیفہ و ہر یک سُخن ہَے رمز
ہر آن ہَے کِنایہ و ہر دَم ٹھٹھولِیاں

حَیرت نے، اُس کو بند نہ کرنے دیں پِھر کبھو
آنکھیں، جب آرسی نے تِرے مُنہ پہ کھولِیاں

اندامِ گُل پہ ہو نہ قبا اِس مزہ سے چاک
جُوں خوش جنہوں کے تن پہ مسکتی ہیں چولِیاں

کِن نے کیا خِرام چمن میں ، کہ اے صبا!
لاتے ہیں بُوئے ناز سے بھر بھر کے جھولیاں

ساقی پہنچ کے تجھ بن اِس ابرِ بہار سے
پڑتے نہیں تگرگ، برستی ہیں گولیاں

کِس طرح ہووے آنکھوں کی کاوِش سے دِل کو چَین
مژگاں نہ کرسکیں تو ، نگاہیں چبھولیاں

کیا چاہیے تجھے سرِ انگشت یہ حِنا
جس بے گُنہ کے خُون میں چاہے ڈبولیاں

سودؔا کے دِل سے صاف نہ رہتی تھی زُلفِ یار
شانے نے بیچ پڑ کے گِرہ اُس کی کھولِیاں
بہت خوب انتخاب :)
شکریہ شیئر کرنے پر
:) :)
 
Top