نوید ناظم
محفلین
بات تشنہ لبی کی تو ہے ہی نہیں
ساقیا! جام خالی تو ہے ہی نہیں
جس کو جب بھی ہُوا ہے مکمل ہُوا
عشق کا کام جُزوی تو ہے ہی نہیں
لوگ کہتے ہیں تجھ میں نہیں ہے وفا
دیکھ یہ بات میری تو ہے ہی نہیں
یہ محبت سلگتی ہوئی آگ ہے
اس کے عنصر میں مٹی تو ہے نہیں
رنگ کو چھوڑ بس آنسوؤں کو سمجھ
خون ہے خون، پانی تو ہے ہی نہیں
رکھ دیا کس بلا کو مِرے سینے میں
مجھ سے اس دل کی بنتی تو ہے ہی نہیں
جس کو لکھنے میں جاں گھُل گئی تھی مِری
کہہ رہے ہیں کہانی تو ہے ہی نہیں
ساقیا! جام خالی تو ہے ہی نہیں
جس کو جب بھی ہُوا ہے مکمل ہُوا
عشق کا کام جُزوی تو ہے ہی نہیں
لوگ کہتے ہیں تجھ میں نہیں ہے وفا
دیکھ یہ بات میری تو ہے ہی نہیں
یہ محبت سلگتی ہوئی آگ ہے
اس کے عنصر میں مٹی تو ہے نہیں
رنگ کو چھوڑ بس آنسوؤں کو سمجھ
خون ہے خون، پانی تو ہے ہی نہیں
رکھ دیا کس بلا کو مِرے سینے میں
مجھ سے اس دل کی بنتی تو ہے ہی نہیں
جس کو لکھنے میں جاں گھُل گئی تھی مِری
کہہ رہے ہیں کہانی تو ہے ہی نہیں