عاطف بٹ
محفلین
آج یونیورسٹی سے واپسی پر چوبرجی کے قریب ایک رکشے پر نظر پڑی جس کے پیچھے ایک انتہائی فکر انگیز جملہ لکھا ہوا تھا۔ جملہ کچھ یوں تھا کہ "جس ملک میں واٹر کولر پر رکھے ہوئے گلاس کو زنجیر سے باندھنا پڑے اور مسجدوں میں لوگوں کو آخرت سے زیادہ اپنے جوتوں کی فکر ہو، وہاں صدر یا وزیراعظم کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔"
یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور ایسے کئی معاملات ہیں جن کی طرف ہمارا دھیان عام طور پر جاتا ہی نہیں اور اگر دھیان اس طرف چلا بھی جائے تو ہم یہ سوچ کر اس خیال کو باطل قرار دے دیتے ہیں کہ بھلا میرے سنورنے سے یہاں کون سی تبدیلی آجانی ہے۔ ذرا سوچئے کہ جس ملک میں لوگ ٹریفک کے اشارے پر محض کچھ سیکنڈز کے لئے دوسرے کے حقوق کا احترام نہیں کرتے، وہاں مستقل طور پر انسانی حقوق، حقوقِ نسواں اور اقلیتوں کے حقوق کا رونا چہ معنی دارد؟ جہاں دکان کے بورڈ پر جلی حروف میں "و من غش فلیس منی" کے الفاظ لکھے ہوں اور پھر عین اس کے نیچے کھڑے ہو کر دودھ میں پانی ملا کر بیچتے ہوئے توہینِ حکمِ رسول دھڑلے سے کی جائے وہاں عشقِ رسول کے کھوکھلے دعوے محض زبانی جمع خرچ نہیں تو اور کیا ہیں؟ جہاں ایک خوانچہ فروش چار آنے کا نفع حاصل کرنے کے لئے آٹھ جھوٹی قسمیں کھانے کو ناگوار کی بجائے ناگزیر خیال کرتا ہوں وہاں اقوال و اعمال میں کون سی ایسی مطابقت پائی جاتی ہوگی جس کے مطابق ہم خود کو دینِ مبین کے پیروانِ متین کہلانے کا مستحق سمجھتے ہوں؟
یہ تو قانون قدرت ہے کہ جیسے لوگ ہوتے ہیں ان پر ویسے ہی حکمران مسلط کردیئے جاتے ہیں۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا ہے کہ ہم سب خود تو ظاہر و باطن میں ہر طرح سے پورے اور پکے عزازیلِ لعین ہوں اور حکمران ہم پر جبریلِ امین کو مقرر کردیا جائے۔ آصف زرداری ہوں یا نواز شریف، فضل الرحمٰن ہوں یا عمران خان، منور حسن ہوں یا الطاف حسین، ان سب لوگوں میں کہیں نہ کہیں ہمارے اجتماعی وجود اور معاشرتی شعور کی جھلک ہی دکھائی دیتی ہے اور ہماری حقیقت پسندی کا یہ عالم ہے کہ چہرے کے داغ صاف کرنے کی بجائے آئینے کو برا بھلا کہتے ہوئے خود کو یہ تسلی دے لیتے ہیں کہ ہمارے چہرہء انور پر داغ ہائے بدنما کا ظہور مغرب سے طلوعِ آفتاب کے مصداق ہے، سو ایسا ہونا ممکن ہی نہیں!
پس نوشت: یہ تحریر میں نے رواں ماہ کی دو تاریخ کو اپنے بلاگ پر پوسٹ کی تھی۔ یہ میرا پانچ ہزارواں مراسلہ ہے، تو سوچا کہ اسے کچھ خاص ہونا چاہئے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور ایسے کئی معاملات ہیں جن کی طرف ہمارا دھیان عام طور پر جاتا ہی نہیں اور اگر دھیان اس طرف چلا بھی جائے تو ہم یہ سوچ کر اس خیال کو باطل قرار دے دیتے ہیں کہ بھلا میرے سنورنے سے یہاں کون سی تبدیلی آجانی ہے۔ ذرا سوچئے کہ جس ملک میں لوگ ٹریفک کے اشارے پر محض کچھ سیکنڈز کے لئے دوسرے کے حقوق کا احترام نہیں کرتے، وہاں مستقل طور پر انسانی حقوق، حقوقِ نسواں اور اقلیتوں کے حقوق کا رونا چہ معنی دارد؟ جہاں دکان کے بورڈ پر جلی حروف میں "و من غش فلیس منی" کے الفاظ لکھے ہوں اور پھر عین اس کے نیچے کھڑے ہو کر دودھ میں پانی ملا کر بیچتے ہوئے توہینِ حکمِ رسول دھڑلے سے کی جائے وہاں عشقِ رسول کے کھوکھلے دعوے محض زبانی جمع خرچ نہیں تو اور کیا ہیں؟ جہاں ایک خوانچہ فروش چار آنے کا نفع حاصل کرنے کے لئے آٹھ جھوٹی قسمیں کھانے کو ناگوار کی بجائے ناگزیر خیال کرتا ہوں وہاں اقوال و اعمال میں کون سی ایسی مطابقت پائی جاتی ہوگی جس کے مطابق ہم خود کو دینِ مبین کے پیروانِ متین کہلانے کا مستحق سمجھتے ہوں؟
یہ تو قانون قدرت ہے کہ جیسے لوگ ہوتے ہیں ان پر ویسے ہی حکمران مسلط کردیئے جاتے ہیں۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا ہے کہ ہم سب خود تو ظاہر و باطن میں ہر طرح سے پورے اور پکے عزازیلِ لعین ہوں اور حکمران ہم پر جبریلِ امین کو مقرر کردیا جائے۔ آصف زرداری ہوں یا نواز شریف، فضل الرحمٰن ہوں یا عمران خان، منور حسن ہوں یا الطاف حسین، ان سب لوگوں میں کہیں نہ کہیں ہمارے اجتماعی وجود اور معاشرتی شعور کی جھلک ہی دکھائی دیتی ہے اور ہماری حقیقت پسندی کا یہ عالم ہے کہ چہرے کے داغ صاف کرنے کی بجائے آئینے کو برا بھلا کہتے ہوئے خود کو یہ تسلی دے لیتے ہیں کہ ہمارے چہرہء انور پر داغ ہائے بدنما کا ظہور مغرب سے طلوعِ آفتاب کے مصداق ہے، سو ایسا ہونا ممکن ہی نہیں!
پس نوشت: یہ تحریر میں نے رواں ماہ کی دو تاریخ کو اپنے بلاگ پر پوسٹ کی تھی۔ یہ میرا پانچ ہزارواں مراسلہ ہے، تو سوچا کہ اسے کچھ خاص ہونا چاہئے۔