امجد علی راجا
محفلین
بات جیسی بھی ہو بیگم کی اثر رکھتی ہے
کیونکہ منوانے کا وہ خوب ہنر رکھتی ہے
کس سے ملتا ہوں، کہاں آتا کہاں جاتا ہوں
صبح کی شام کی پل پل کی خبر رکھتی ہے
میرے کپڑوں سے بتاتی ہے کہ میں کس سے ملا
سونگھنے کا بھی وہ کچھ خاص ہنر رکھتی ہے
نوٹ کتنے ہیں مری جیب میں، سکے کتنے
ایکسرے جیسی وہ باریک نظر رکھتی ہے
میری کولیگ نے لنچ آج مرے ساتھ کیا
ایسی باتوں کی بھلا کیسے خبر رکھتی ہے
شک بھی ہوتا ہے کہ بیگم ہے کہ جاسوس ہے وہ
میری ہر بات پہ کچھ ایسے نظر رکھتی ہے
گھر سے وہ مجھ کو نکالے گی، فقط دھمکی نہیں
ہر گھڑی باندھ کے وہ رختِ سفر رکھتی ہے
وہ چلاتی ہے چھری روز کچن میں لیکن
پیٹ میں میرے گھسانے کا جگر رکھتی ہے