شروع اللہ کے نام سے جو خالق رازق اور مالک ہے۔۔۔۔
واصف علی واصف
ایک صوفی یا فلاسفر؟
درویش یا دانشور؟
معلّم یا لکھاری؟
شاعر یا نثر نگار؟
خطیب یا ادیب؟
ایک عام انسان یا عام انسان کے روپ میں بہت خاص؟
ایک انسان کی ذات میں اتنی جہتیں۔۔ایک دنیا میں اتنے جہاں آباد۔۔۔۔۔ایک کتاب کے سرورق کے پیچھے اتنے موضوع ۔۔۔بیک وقت اتنے کردار اور ان میں اتنی تکمیل کہ ایک روپ، ایک مضمون ، ایک زندگی دوسری پر اثر انداز ہوتی نظر نہیں آتی
واصف علی واصف۔۔۔لفظوں کا ایک بحر بیکراں۔۔جس سے سیراب ہونے والے ہمیشہ مسرور رہے۔۔لفظوں کا ایسا استعمال کہ خود لفظ اپنے معنی کی وسعت پر نازاں رہے۔ شیکسپئر سے وارث شاہ تک ہر ایک کا حاصل چن چن کر لکھ ڈالا۔۔۔۔ پوچھنے والے جواب سنتے سنتے زندگی کی کئی گتھیاں سلجھا لیتے۔ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ نوازنے والے نے بے انتہا نوازا ہے۔۔۔ جو لفظ کہے انکی بازگشت آج تک سنائی دیتی ہے۔۔۔اور نا جانے کب تک سنائی دے۔۔۔کب تک لوگ اپنے اپنے مسائل کی پوٹلی باندھے ان الفاظ میں پناہ تلاش کریں گے ۔۔ نا جانے کتنی صدیوں تک؟
یہ وہ لوگ ہیں جو زمین پر بہت مضبوط قدم جما کر چلتے ہیں۔ ایسی زندگی کے مالک کہ خود زندگی ان پر فخر کرتی ہے۔۔اور موت انہیں ایک ابدی زندگی دے کر امر ہو جاتی ہے۔۔۔۔
“انعمت علیھم“ اور پھر یہ نعمت محدود نہ رکھی بلکہ اس میں سے خلق خدا کا بھی حصہ رکھا۔۔۔ جتنا کسی نے پوچھا۔۔۔۔
واصف علی واصف۔۔
سرخ رومی ٹوپیوں کے ساتھ رقص کرنے والی ایک روح۔۔۔ اور ذہن ایک فلسفی کا، ایک لکھاری کا ۔۔۔اور دل نور کا۔۔۔۔
ایک ایسی شخصیت کہ جس کے بارے میں اگر بہت زیادہ الفاظ بھی استعمال کروں تو بھی میرے احاطہ تحریر میں نہیں آ سکتی۔۔اور الفاظ پھر بھی کم لگتے ہیں۔۔۔۔
المختصر۔۔یہ کہ ۔۔۔
کرن کرن سورج میں واصف علی واصف خود لکھتے ہیں
“کسی کتاب کے تعارف میں کیا کہا جا سکتا ہے کہ کتاب خود لکھنے والے کا تعارف ہوتی ہے“
اور مجھے امید ہے کہ بات سے بات آپ کو واصف علی واصف کا تھوڑا بہت تعارف ضرور دے گی۔۔۔۔
واصف علی واصف
ایک صوفی یا فلاسفر؟
درویش یا دانشور؟
معلّم یا لکھاری؟
شاعر یا نثر نگار؟
خطیب یا ادیب؟
ایک عام انسان یا عام انسان کے روپ میں بہت خاص؟
ایک انسان کی ذات میں اتنی جہتیں۔۔ایک دنیا میں اتنے جہاں آباد۔۔۔۔۔ایک کتاب کے سرورق کے پیچھے اتنے موضوع ۔۔۔بیک وقت اتنے کردار اور ان میں اتنی تکمیل کہ ایک روپ، ایک مضمون ، ایک زندگی دوسری پر اثر انداز ہوتی نظر نہیں آتی
واصف علی واصف۔۔۔لفظوں کا ایک بحر بیکراں۔۔جس سے سیراب ہونے والے ہمیشہ مسرور رہے۔۔لفظوں کا ایسا استعمال کہ خود لفظ اپنے معنی کی وسعت پر نازاں رہے۔ شیکسپئر سے وارث شاہ تک ہر ایک کا حاصل چن چن کر لکھ ڈالا۔۔۔۔ پوچھنے والے جواب سنتے سنتے زندگی کی کئی گتھیاں سلجھا لیتے۔ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ نوازنے والے نے بے انتہا نوازا ہے۔۔۔ جو لفظ کہے انکی بازگشت آج تک سنائی دیتی ہے۔۔۔اور نا جانے کب تک سنائی دے۔۔۔کب تک لوگ اپنے اپنے مسائل کی پوٹلی باندھے ان الفاظ میں پناہ تلاش کریں گے ۔۔ نا جانے کتنی صدیوں تک؟
یہ وہ لوگ ہیں جو زمین پر بہت مضبوط قدم جما کر چلتے ہیں۔ ایسی زندگی کے مالک کہ خود زندگی ان پر فخر کرتی ہے۔۔اور موت انہیں ایک ابدی زندگی دے کر امر ہو جاتی ہے۔۔۔۔
“انعمت علیھم“ اور پھر یہ نعمت محدود نہ رکھی بلکہ اس میں سے خلق خدا کا بھی حصہ رکھا۔۔۔ جتنا کسی نے پوچھا۔۔۔۔
واصف علی واصف۔۔
سرخ رومی ٹوپیوں کے ساتھ رقص کرنے والی ایک روح۔۔۔ اور ذہن ایک فلسفی کا، ایک لکھاری کا ۔۔۔اور دل نور کا۔۔۔۔
ایک ایسی شخصیت کہ جس کے بارے میں اگر بہت زیادہ الفاظ بھی استعمال کروں تو بھی میرے احاطہ تحریر میں نہیں آ سکتی۔۔اور الفاظ پھر بھی کم لگتے ہیں۔۔۔۔
المختصر۔۔یہ کہ ۔۔۔
کرن کرن سورج میں واصف علی واصف خود لکھتے ہیں
“کسی کتاب کے تعارف میں کیا کہا جا سکتا ہے کہ کتاب خود لکھنے والے کا تعارف ہوتی ہے“
اور مجھے امید ہے کہ بات سے بات آپ کو واصف علی واصف کا تھوڑا بہت تعارف ضرور دے گی۔۔۔۔