کاشفی
محفلین
نہیں معلوم کہ اس عشق میں ہونا کیا ہے
بات کرتے ہی یہ کہہ اُٹھتے ہو منشا کیا ہے؟
بات کرنے کا تمہارے یہ طریقہ کیا ہے؟
بات کرنے کا تمہارے یہ طریقہ کیا ہے؟
ضد پر آجاؤں تو جی بھر کے ستا کر چھوڑوں
تو نے اے چھیڑنے والے مجھے سمجھا کیا ہے؟
تو نے اے چھیڑنے والے مجھے سمجھا کیا ہے؟
اس نے عرضِ تمنا کی اجازت دے دی
میں ہوں اس سوچ میں یارب کہ تمنا کیا ہے؟
میں ہوں اس سوچ میں یارب کہ تمنا کیا ہے؟
درد تو بخش دیا خیر کوئی بات نہیں
اب ذرا یہ تو کہو اس کا مداوا کیا ہے؟
اب ذرا یہ تو کہو اس کا مداوا کیا ہے؟
تم سے کرتا ہے شکایت جو کوئی کرنے دو
اس میں سچ پوچھو تو نقصان تمہارا کیا ہے؟
اس میں سچ پوچھو تو نقصان تمہارا کیا ہے؟
ایک اظہارِ محبت پہ یہ غصہ؟ توبہ!
جانے بھی دیجئے ان باتوں میں رکھا کیا ہے
جانے بھی دیجئے ان باتوں میں رکھا کیا ہے
میں کبھی یہ نہ کہونگا کہ کرم کیجئے آپ
آپ خود سوچئے الفت کا تقاضہ کیا ہے
آپ خود سوچئے الفت کا تقاضہ کیا ہے
رنج اٹھاتے ہیں ستم سہتے ہیں چُپ رہتے ہیں
جانتے ہیں کہ شکایات سے ہوتا کیا ہے
جانتے ہیں کہ شکایات سے ہوتا کیا ہے
رنج دن رات کا دیکھا نہیں جاتا اختر
نہیں معلوم کہ اس عشق میں ہونا کیا ہے
(اختر بریلوی - 1921)
نہیں معلوم کہ اس عشق میں ہونا کیا ہے
(اختر بریلوی - 1921)