بات کرتے ہی یہ کہہ اٹھتے ہو منشا کیا ہے - اختر بریلوی

کاشفی

محفلین
نہیں معلوم کہ اس عشق میں‌ ہونا کیا ہے

بات کرتے ہی یہ کہہ اُٹھتے ہو منشا کیا ہے؟
بات کرنے کا تمہارے یہ طریقہ کیا ہے؟

ضد پر آجاؤں تو جی بھر کے ستا کر چھوڑوں
تو نے اے چھیڑنے والے مجھے سمجھا کیا ہے؟

اس نے عرضِ تمنا کی اجازت دے دی
میں ہوں اس سوچ میں‌ یارب کہ تمنا کیا ہے؟

درد تو بخش دیا خیر کوئی بات نہیں
اب ذرا یہ تو کہو اس کا مداوا کیا ہے؟

تم سے کرتا ہے شکایت جو کوئی کرنے دو
اس میں سچ پوچھو تو نقصان تمہارا کیا ہے؟

ایک اظہارِ محبت پہ یہ غصہ؟ توبہ!
جانے بھی دیجئے ان باتوں میں‌ رکھا کیا ہے

میں‌ کبھی یہ نہ کہونگا کہ کرم کیجئے آپ
آپ خود سوچئے الفت کا تقاضہ کیا ہے

رنج اٹھاتے ہیں ستم سہتے ہیں‌ چُپ رہتے ہیں
جانتے ہیں کہ شکایات سے ہوتا کیا ہے

رنج دن رات کا دیکھا نہیں‌ جاتا اختر
نہیں معلوم کہ اس عشق میں‌ ہونا کیا ہے
(اختر بریلوی - 1921)
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ کاشفی صاحب پوسٹ کرنے کیلیے۔

آپ سے ایک استدعا ہے کہ پسندیدہ کلام میں پوسٹ کرنے سے پہلے ایک نظر اس تھریڈ کو بھی دیکھ لیں، نوازش (اور یہ بھی کہ اسی وجہ سے میں نے عنوان مدون کیا ہے اور ٹیگز بھی لگائے ہیں)۔
 

کاشفی

محفلین
بہت شکریہ کاشفی صاحب پوسٹ کرنے کیلیے۔

آپ سے ایک استدعا ہے کہ پسندیدہ کلام میں پوسٹ کرنے سے پہلے ایک نظر اس تھریڈ کو بھی دیکھ لیں، نوازش (اور یہ بھی کہ اسی وجہ سے میں نے عنوان مدون کیا ہے اور ٹیگز بھی لگائے ہیں)۔

شکریہ بہت بہت۔۔۔

جی بہتر۔۔۔
 
Top