بات

عمر سیف

محفلین
بات پھولوں کی سنا کرتے تھے
ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے
آج گلشن میں شکوفے ساغر
شکوہِ بادِ صبا کرتے تھے۔
 

عمر سیف

محفلین
کبھی خود پہ، کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں اُنکو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا۔
 

پاکستانی

محفلین
ذرا سی بات

زندگی کے میلے میں، خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں
اس قدر جھمیلے میں
وقت کی روانی ہے، بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے، سخت لامکانی ہے
ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے
تم کو جو سنانی ہے
بات گو ذرا سی ہے
بات عمر بھر کی ہے
عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں
درد کے سمندر میں
اَن گِنت جزیرے ہیں، بے شمار موتی ہیں!
آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا
بات اس دیئے کی ہے
بات اس گلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میں چور بن کے آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
زندگی سے لمبی ہے، بات رَت جگے کی ہے
راستے میں کیسے ہو ۔۔۔
بات تخلیئے کی ہے
تخلیئے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے
پیار کرنے والوں کو اِک نگاہ کافی ہے
ہو سکے تو سن جاؤ ایک دن اکیلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں، اس قدر جھمیلے میں​

امجد اسلام امجد
 

پاکستانی

محفلین
کوئی بات کرو



کوئی بات کرو
کوئی خوشبو جیسی بات کرو

بارش نے دریچے پہ آکےدستک دی ہے
ہر سُو بھیگے پیڑوں کی خوشبو پھیلی ہے

ہے سونا بن کے پھیلی دھوپ نظاروں پر
وہ چاندی جیسی برف جمی کوہساروں پر

ساحل پہ کہیں جب لہریں جھاگ اڑاتی ہوں
جب رنگیں بہاریں پھولوں کو لہراتی ہوں

تم کوئی سُہانی بات کرو
کوئی بات کرو​
 

شمشاد

لائبریرین
بات چلی تیری آنکھوں سے جا پہنچی پیمانے تک
کھینچ رہی ہے تیری الفت آج مجھے میخانے تک

عشق کی باتیں غم کی باتیں دنیا والے کرتے ہیں
کس نے شمع کا دکھ دیکھا کون گیا پروانے تک

عشق نہیں ہے تم کو مجھ سے صرف بہانے کرتی ہو
یوں ہی بہانے قائم رکھنا تم میرے مر جانے تک

اتنا ہی کہنا ہے تم سے ممکن ہو تو آ جانا
آ ہی گئے تو رکنا ہو گا آنکھوں کے پتھرانے تک
 

شمشاد

لائبریرین
بات کیا آدمی کی بن آئی
آسماں سے زمیں نپوائی

حیرت آتی ہے اس کی باتیں دیکھ
خود سرائی خود ستائی خود آرائی
(میر تقی میر)
 

شمشاد

لائبریرین
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی

لوگ بےوجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے
یہ بھی پوچھیں گے کہ تم اتنی پریشاں کیوں ہو

انگلیاں اٹھیں گی سوکھے ہوئے بالوں کی طرف
اک نظر دیکھیں گے گزرے ہوئے سالوں کی طرف

چوڑیوں پر بھی کئی طنز کیے جائیں گے
کانپتے ہاتھوں پہ بھی فقرے کسے جائیں گے

لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے
باتوں باتوں میں میرا ذکر بھی لے آئیں گے

ان کی باتوں کا ذرا سا بھی اثر مت لینا
ورنہ چہرے کے تاثر سے سمجھ جائیں گے

چاہے کچھ بھی ہو سوالات نہ کرنا ان سے
میرے بارے میں کوئی بات نہ کرنا ان سے

بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
(کفیل آزر)
 

شمشاد

لائبریرین
بات پھولوں کی سنا کرتے تھے
ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے

مشعلیں لے کے تمہارے غم کی
ہم اندھیروں میں چلا کرتے تھے
(ساغر صدیقی)
 

عمر سیف

محفلین
شمشاد نے کہا:
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی

لوگ بےوجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے
یہ بھی پوچھیں گے کہ تم اتنی پریشاں کیوں ہو

انگلیاں اٹھیں گی سوکھے ہوئے بالوں کی طرف
اک نظر دیکھیں گے گزرے ہوئے سالوں کی طرف

چوڑیوں پر بھی کئی طنز کیے جائیں گے
کانپتے ہاتھوں پہ بھی فقرے کسے جائیں گے

لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے
باتوں باتوں میں میرا ذکر بھی لے آئیں گے

ان کی باتوں کا ذرا سا بھی اثر مت لینا
ورنہ چہرے کے تاثر سے سمجھ جائیں گے

چاہے کچھ بھی ہو سوالات نہ کرنا ان سے
میرے بارے میں کوئی بات نہ کرنا ان سے

بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
(کفیل آزر)

بہت اچھے۔ ویسے یہ میں نے کل کے لیے سوچ رکھی تھی کہ کل پوسٹ کروں گا۔ خیر آپ نے کر دی۔ کوئی بات نہیں۔ :?
 

شمشاد

لائبریرین
بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
کر کے توبہ توڑ ڈالی جائے گی

دیکھ لینا وہ نہ خالی جائے گی
آج جو دل سے نکالی جائے گی
(حبیب جلیل)
 
Top