بات

شمشاد

لائبریرین
اب کیا ہو سکتا ہے، آپ کو تھوڑی دیر ہو گئی۔
چلیں آپ کوئی اور اچھی سی نظم یا غزل پوسٹ کر دیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت دنوں کی بات ہے
فضا کو یاد بھی نہیں
یہ بات آج کی نہیں
بہت دنوں کی بات ہے
شباب پر بہار تھی
فضا بھی خوشگوار تھی
نجانے کیوں مچل پڑا
میں اپنے گھر سے چل پڑا
کسی نے مجھ کو روک کر
بڑی ادا سے ٹوک کر
کہہ تھا لوٹ آئیے
میری قسم نہ جائیے
(سلام مچھلی شہری)
 

شمشاد

لائبریرین
بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے
ہم خفا کب تھے منانے کی ضرورت کیا ہے

آپ کے دم سے تو دنیا کا بھرم ہے قائم
آپ جب ہیں تو ٹھکانے کی ضرورت کیا ہے
(شاہد کبیر)
 

شمشاد

لائبریرین
بھلا دو رنج کی باتوں میں کیا ہے
ادھر دیکھو میری آنکھوں میں کیا ہے

بہت تاریک دن ہے پھر بھی دیکھو
اجالا چاندنی راتوں میں کیا ہے
(شان الحق حقی)
 

شمشاد

لائبریرین
راز کی باتیں لکھیں اور خط کھلا رہنے دیا
جانے کیوں رسوائیوں کا سلسلہ رہنے دیا
(صابر جلال آبادی)
 

شمشاد

لائبریرین
رحم اے غمِ جاناں بات آ گئی یہاں تک
دشتِ گردشِ دوراں اور میرے گریباں تک
(شمیم جے پوری)
 

شمشاد

لائبریرین
وہ باتیں تیری وہ فسانے تیرے
شگفتہ شگفتہ بہانے تیرے

بس اک زخم نظارہ حصہ میرا
بہاریں تیری آشیانے تیرے

بس اک داغِ سجدہ میری کائنات
جبیں تیری آستانے تیرے
(عبد الحمید عدم)
 

شمشاد

لائبریرین
وہ کہتے ہیں رنجش کی باتیں بھلا دیں
محبت کریں خوش رہیں مسکرا دیں

شبِ وصل کی بیخودی چھا رہی ہے
کہو تو ستاروں کی شمع بجھا دیں

تم افسانہِ قیس کیا پوچھتے ہو
اِدھر آؤ ہم تم کو لیلٰی بنا دیں

بہاریں سمٹ آئیں، کھل جائیں کلیاں
جو ہم تم چمن میں کبھی مسکرا دیں

وہ آئیں گے آج اے بہارِ محبت
ستاروں کے بستر میں کلیاں بچھا دیں
(اختر شیرانی)
 

شمشاد

لائبریرین
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
(خاطر غزنوی)
 

شمشاد

لائبریرین
تیری باتیں ہی سنانے آئے
دوست بھی دل ہی دُکھانے آئے

پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تیرے آنے کے زمانے آئے

ایسی کچھ چُپ سے لگی ہے جیسے
ہم تجھے حال سنانے آئے

عشق تنہا ہے سرِ منزلِ غم
کون یہ بوجھ اٹھانے ائے

اجنبی دوست ہمیں دیکھ کہ ہم
کچھ تجھے یاد دلانے آئے

دل دھڑکتا ہے سفر کے ہنگام
کاش پھر کوئی بلانے آئے

اب تو رونے سے بھی دل دکھتا ہے
شاید اب ہوش ٹھکانے آئے

کیا کہیں پھر کوئی بستی اُجڑی
لوگ کیوں جشن منانے آئے

سو رہو موت کے پہلو میں ‘ فراز ‘
نیند کس وقت نجانے آئے
 

شمشاد

لائبریرین
تاثیرِ چشمِ تر نہ دیکھا دوں تو بات کیا
ان کو بھی اک دن نہ رلا دوں تو بات کیا

راہِ جنوںِ شوق میں بڑھنے کی دیر ہے
منزل جگہ جگہ نہ بنا دوں تو بات کیا

ساقی سے بس نگاہ ملانے کی دیر تھی
عالم کو میکدہ نہ بنا دوں تو بات کیا

میرے نیازِ عشق کی کیا بات ہے ‘ شمیم ‘
قدموں میں حسن کو نہ جھکا دوں تو بات کیا
 

شمشاد

لائبریرین
تجھ سے مل کے دل میں رہ جاتی ہے ارمانوں کی بات
یاد رہتی ہے کسے ساحل پہ طوفانوں کی بات

وہ تو کہیے آج بھی زنجیر میں جھنکار ہے
ورنہ کس کو یاد رہ جاتی ہے دیوانوں کی بات
(وامق جانوپوری)
 

تیشہ

محفلین
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے، اب آن ملو تو بہتر ہے
اسِِ ِبات سے ہم کو کیا مطلب،یہ کیسے ہو، یہ کیونکر ہو ، :(
 
Top