بادِ نسیم ہیں وہ سبک رو ہوا نہیں

جیا راؤ

محفلین
السلام علیکم

ہم ایک بار پھر تازہ ترین غزل کے ساتھ حاضر ہیں، کوئی تین ماہ بعد کچھ لکھا گیا ہے سو اساتذہ کی رائے درکار ہے۔:)


بادِ نسیم ہیں وہ سبک رو ہوا نہیں
ہم ان کو وفا کہتے ہیں، جانِ وفا نہیں

اک حبس کا عالم ہے دل و جاں پہ، ذہن پہ
ہوتی ہے جس میں شاعری یہ وہ فضا نہیں

جو گھاؤ دل پہ ڈال دے وہ چارہ گر نظر
اس زخمِ دلنشیں کو تو ملتی شفا نہیں

قاصد بتا رہا تھا 'پلٹنے کو ہیں حضور'
شاید سمجھ رہے ہیں کہ مجھ میں انا نہیں

روٹھے ہو تم تو اپنی نگاہوں سے پوچھنا
کیوں مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ مجھ سے خفا نہیں !

لاحق کبھی کبھار ہی ہوتا ہے مرضِ عشق
اکثر جو پھوٹ پڑتی ہے یہ وہ وبا نہیں

جو سنتا ہے مجھ کو وہی ہو جاتا ہے میرا
اک تم بھی ہو گئے تو تمہاری خطا نہیں
 

محسن حجازی

محفلین
لاحق کبھی کبھار ہی ہوتا ہے مرضِ عشق
اکثر جو پھوٹ پڑتی ہے یہ وہ وبا نہیں

بہت خوب! اردو ادب میں آج آپ نے خسرہ چیچک و ہیضہ اور عشق کے مابین خوب حد فاصل کھینچ دی! :grin:


اک حبس کا عالم ہے دل و جاں پہ، ذہن پہ
ہوتی ہے جس میں شاعری یہ وہ فضا نہیں

واہ۔۔۔ بہت خوب! حبس میں بھی شعر کہا جا رہا ہے یہ تو شکر کہ باد سخن ابھی چل نہیں رہی! :grin:

جو سنتا ہے مجھ کو وہی ہو جاتا ہے میرا
اک تم بھی ہو گئے تو تمہاری خطا نہیں

واقعی! ہماری تو کوئی خطا نہیں ہم بالکل معصوم ہیں! :grin:

گو ہم استاد تو نہیں تاہم استادی دکھا رہے ہیں امید ہے کہ مشکور ہوں گی۔ :grin:
 

الف عین

لائبریرین
جیا، کچھ اشعار حسبِ معمول (تمہارے معمول( بحر کا مسئلہ ہے۔ بعد میں دیکھتا ہوں۔
یہ شعر واقعی مزے کا ہے۔۔
لاحق کبھی کبھار ہی ہوتا ہے مرضِ عشق
اکثر جو پھوٹ پڑتی ہے یہ وہ وبا نہیں
اگرچہ مرض کا تلفظ غلط بندھا ہے۔ درست مَرَض ہے
 

نوید صادق

محفلین
جیا!
آپ کی غزل کی بحر یہ بنتی ہے۔

مفعول-فاعلات-مفاعیل-فاعلن

اب ہم ایک ایک شعر کی تقطیع کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ سرخ ارکان وزن سے خارج ہیں


مفعول- فاعلات- مفاعیل- فاعلن
بادِ ن - سیم ہے و- سبک رو ہ - وا نہیں
ہم ان ک- وفا کہت- ہ جانے و- فا نہیں

اک حبس- ک عالم ہ- دل و جا پہ- ذہن پہ

ہوتی ہ - جس م شاع - ر یہ وہ ف - ضا نہیں

جو گاؤ - دل پ ڈال - د وہ چار - گر نظر
اس زخمِ - دلنشیں ک - ت ملتی ش - فا نہیں

قاصد ب - تا رہا ت - پلٹنے ک - ہیں حضور (فاعلان)
شایدس - مج رہے ہ - ک مج مے ا - نا نہیں

روٹے ہ - تم تو اپن - نگاہو س - پوچنا
کومج س - کہہ رہی ہ - ک مج سے خ- فا نہیں !

لاحق ک- بی کبار - ہ ہوتا ہ - مرضِ عشق
اکثر ج - پوٹ پڑت - ہ یہ وہ و - با نہیں

جو سنت- ہ مج کو و- ہ ہو جات- ہے میرا (میرا کی جگہ مرا کر دیں)
اک تم ب - ہو گئے ت - تماری خ - طا نہیں

ذرا آپ ان مصرعوں کو درست کر لیں تو پھر مفہوم پر بات کرنے میں یقینا" لطف آئے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم، اچھی غزل ہے اور بعضے اشعار تو بہت دلچسپ ہیں، لا جواب۔ باقی اعجاز صاحب اور نوید صاحب نشاندہی کر ہی چکے۔
 

محسن حجازی

محفلین
نوید صاحب نے کیا روئی کے گالوں کی طرح غزل دھن کے رکھ دی بھئی بہت خوب نوید صاحب! ہم بھی عروض اور بقول وارث بھائی علم عروس سے بدست و گریباں ہیں۔
ماشا اللہ خاتون نے بھی بہت کم عروضی غلطیاں کی ہیں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!
تمام غزل میں کوئی پانچ اغلاط ہیں جو قابل قبول و قابل اصلاح ہیں۔
 

جیا راؤ

محفلین
لاحق کبھی کبھار ہی ہوتا ہے مرضِ عشق
اکثر جو پھوٹ پڑتی ہے یہ وہ وبا نہیں

بہت خوب! اردو ادب میں آج آپ نے خسرہ چیچک و ہیضہ اور عشق کے مابین خوب حد فاصل کھینچ دی! :grin:


اک حبس کا عالم ہے دل و جاں پہ، ذہن پہ
ہوتی ہے جس میں شاعری یہ وہ فضا نہیں

واہ۔۔۔ بہت خوب! حبس میں بھی شعر کہا جا رہا ہے یہ تو شکر کہ باد سخن ابھی چل نہیں رہی! :grin:

جو سنتا ہے مجھ کو وہی ہو جاتا ہے میرا
اک تم بھی ہو گئے تو تمہاری خطا نہیں

واقعی! ہماری تو کوئی خطا نہیں ہم بالکل معصوم ہیں! :grin:

گو ہم استاد تو نہیں تاہم استادی دکھا رہے ہیں امید ہے کہ "مشکور" ہوں گی۔ :grin:

جی نہیں میں جویریہ ہوں:):):)
 

جیا راؤ

محفلین
جیا، کچھ اشعار حسبِ معمول (تمہارے معمول( بحر کا مسئلہ ہے۔ بعد میں دیکھتا ہوں۔
یہ شعر واقعی مزے کا ہے۔۔
لاحق کبھی کبھار ہی ہوتا ہے مرضِ عشق
اکثر جو پھوٹ پڑتی ہے یہ وہ وبا نہیں
اگرچہ مرض کا تلفظ غلط بندھا ہے۔ درست مَرَض ہے


جی انکل میں انتظار کرتی ہوں:)

اوہ۔۔۔ مرض کا صحیح تلفظ ہی نہیں پتہ تھا مجھے :eek:
اب کیسے ٹھیک ہوگا یہ:(
 

جیا راؤ

محفلین
جیا!
آپ کی غزل کی بحر یہ بنتی ہے۔

مفعول-فاعلات-مفاعیل-فاعلن

اب ہم ایک ایک شعر کی تقطیع کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ سرخ ارکان وزن سے خارج ہیں


مفعول- فاعلات- مفاعیل- فاعلن
بادِ ن - سیم ہے و- سبک رو ہ - وا نہیں
ہم ان ک- وفا کہت- ہ جانے و- فا نہیں

اک حبس- ک عالم ہ- دل و جا پہ- ذہن پہ

ہوتی ہ - جس م شاع - ر یہ وہ ف - ضا نہیں

جو گاؤ - دل پ ڈال - د وہ چار - گر نظر
اس زخمِ - دلنشیں ک - ت ملتی ش - فا نہیں

قاصد ب - تا رہا ت - پلٹنے ک - ہیں حضور (فاعلان)
شایدس - مج رہے ہ - ک مج مے ا - نا نہیں

روٹے ہ - تم تو اپن - نگاہو س - پوچنا
کومج س - کہہ رہی ہ - ک مج سے خ- فا نہیں !

لاحق ک- بی کبار - ہ ہوتا ہ - مرضِ عشق
اکثر ج - پوٹ پڑت - ہ یہ وہ و - با نہیں

جو سنت- ہ مج کو و- ہ ہو جات- ہے میرا (میرا کی جگہ مرا کر دیں)
اک تم ب - ہو گئے ت - تماری خ - طا نہیں

ذرا آپ ان مصرعوں کو درست کر لیں تو پھر مفہوم پر بات کرنے میں یقینا" لطف آئے گا۔


اب اس کو ٹھیک کرنا بھی تو بتائیں۔ مجھے تو سمجھ ہی نہیں آ رہا۔:(:(:(
 

جیا راؤ

محفلین
السلام علیکم، اچھی غزل ہے اور بعضے اشعار تو بہت دلچسپ ہیں، لا جواب۔ باقی اعجاز صاحب اور نوید صاحب نشاندہی کر ہی چکے۔

شکریہ وارث جی:)
نشاندہی تو ہو گئی مگر اسے ٹھیک کیسے کیا جائے گا کہ ہم تو عروض قطعی نا بلد ہیں۔:(
 

الف عین

لائبریرین
لو ہوم ورک کر کے یہاں آیا تو یہاں ماشاء اللہ نوید نے ساری باتیں پہلے ہی کہہ دی ہیں۔ بہر حال پھر بھی میں وہی فائل کاپی پیسٹ کر رہا ہوں۔ اصلاح تو شامل ہے ہی:


بادِ نسیم ہیں وہ سبک رو ہوا نہیں
ہم ان کو وفا کہتے ہیں، جانِ وفا نہیں
///
دوسرا مصرع دوسری بحر میں ہو گیا ہے۔ عمومی بحر اس غزل کی ہے:
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن/ فاعلات
لیکن یہاں دوسرا مصرع شروع ہوتا ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن کے نصف اول سے، اور ختم ہوتا ہے فاعلات پر، یعنی دو بحروں کے مرکب پر ایک مصرع ہو گیا ہے۔
اس کو یوں کر دو:
کہتے ہیں ہم وفا انہیں، جانِ وفا نہیں
لیکن دوسری بات۔۔۔۔
پہلے مصرعے میں سبک رو ہوا یا تند و تیز ہوا جو سبک رو کا مخالف لفظ ہو؟؟
اک حبس کا عالم ہے دل و جاں پہ، ذہن پہ
ہوتی ہے جس میں شاعری یہ وہ فضا نہیں
///
پہلا مصرع دوسری بحر میں ہو گیا ہے، وہی مفعول مفاعیل۔۔ یعنی ہے بس کہ ہر اک ان کے ۔۔ غالب والی۔ اس کو یوں کر دو
اک حبس کا سماں ہے دل و جاں پہ، ذہن پر
اس سے وہ سقم بھی دور ہو جاتا ہے جو مفعول مفاعیل سے تقطیع کرنے پر پیدا ہوا تھا ، یعنی ذہَن۔ ہ متحرک (بلکہ فتح یا کسر، جو سمجھو۔ دوسرا مصرع درست ہے

جو گھاؤ دل پہ ڈال دے وہ چارہ گر نظر
اس زخمِ دلنشیں کو تو ملتی شفا نہیں
//
اس شعر کی تفہیم درست نہیں ہوئی۔ دونوں مصرعوں میں ربط نظر نہیں آیا۔ یوں دونوں مصرعے مکمل بحر میں ہیں۔

قاصد بتا رہا تھا 'پلٹنے کو ہیں حضور'
شاید سمجھ رہے ہیں کہ مجھ میں انا نہیں
////
عروض کے اعتبار سے درست ہے، لیکن وہی بات، میری کم عقلی کہ اوپر سے گزر گیا۔
روٹھے ہو تم تو اپنی نگاہوں سے پوچھنا
کیوں مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ مجھ سے خفا نہیں !
////
شعر درست ہے، لیکن اگر پہلا ،صرع یوں ہو تو بات زیادہ واضح ہو جائے:
روٹھے ہو تم؟، خود اپنی نگاہوں سے پوچھ لو
کیوں مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ مجھ سے خفا نہیں !
یا
جو مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ مجھ سے خفا نہیں !

لاحق کبھی کبھار ہی ہوتا ہے مرضِ عشق
اکثر جو پھوٹ پڑتی ہے یہ وہ وبا نہیں
///
یہں مرض میں ر پر سکون نظم ہوا ہے، جیسا کہ لکھا تھا، یوں کیساہے؟
ہوتا کبھی کبھار ہے یہ عشق کا مرض

جو سنتا ہے مجھ کو وہی ہو جاتا ہے میرا
اک تم بھی ہو گئے تو تمہاری خطا نہیں
///
یہاں بھی پہلا ،مصرع اسی بحر میں ہو گیا ہے، اسے مفعول فاعلات میں ڈھالو تو یوں کہہ سکتی ہو:
سنتا ہے جو مجھے، وہی ہو جاتا ہے مرا
(گر چہ یہاں مجھے ہو جاتا کا آخری الف گرنا اچھا نہیں لگ رہا کہ تقطیع میں آتا ہے ’وہی ہو جات ہے مرا‘۔ پھر بھی جائز تو ہے۔
 

نوید صادق

محفلین
محترمہ،

اب اعجاز صاحب نے سب کر ڈالا ہے تو کیا کہیں۔
اب یوں کریں کہ اصلاح شدہ غزل دوبارہ یہاں ٹائپ کریں۔ اور ہاں ایک درخواست اور بھی کروں گا کہ اصل غزل کو اس دھاگہ میں تبدیل مت کیجے گا۔ موازنہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ تو ہو جائے پھر اصلاح شدہ غزل۔
 

مغزل

محفلین
جیا رفیق راؤ ۔۔
آداب ۔۔ پہلے تو مبارکباد کہ ’’ اس حبس کی فضا میں‘‘ شعر کہہ لیتی ہیں۔دوم یہ کہ ۔۔ خوب کہتی ہیں، نوید صادق صاحب نے چھریاں تیز کیں تو میں نے رسید دے دی اور پھر بابا جانی نے پوری غزل کو روئی کی طرح دھن کے رکھ دیا سوم یہ کہ ۔۔ آپ روایتی اسکول کے بچوں کی طرح مان بھی لیتی ہیں۔ غزل دوبارہ صاف صاف لکھیئے ۔۔ تانکہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جائیں۔ ویسے موضوعات خوب ، رعایتِ لفظی خوب۔۔ اور مصرعوں کی دلکشی خوب ہے ۔۔

ایک مشورہ ہے : (حالانکہ میں اہل نہیں ہوں اور آپ بھی جانے کیا خیال کریں ) کہ غزل یا کلام کو آپ پہلے ’’ اصلاحِ سخن ‘‘ میں پیش کیا کریں۔ اور اصلاح / تنقید کے بعد یہاں اس طرح معاملہ بھی جاری رہے گا اور تھریڈ کا حسن بھی خراب نہیں ہوگا۔کیوں کہ ہم اگر کلام پر رائے دیں اور بعد میں اصلاح ہو تو یہ کم از کم مجھ ایسے جاہل کیلئے سبکی ہے۔۔۔امید ہے آپ برا نہ منائیں گی۔۔ اور اسی طرح مسکراتی رہیں گی۔
والسلام
ایک دوست
 

جیا راؤ

محفلین
لو ہوم ورک کر کے یہاں آیا تو یہاں ماشاء اللہ نوید نے ساری باتیں پہلے ہی کہہ دی ہیں۔ بہر حال پھر بھی میں وہی فائل کاپی پیسٹ کر رہا ہوں۔ اصلاح تو شامل ہے ہی:


بادِ نسیم ہیں وہ سبک رو ہوا نہیں
ہم ان کو وفا کہتے ہیں، جانِ وفا نہیں
///
دوسرا مصرع دوسری بحر میں ہو گیا ہے۔ عمومی بحر اس غزل کی ہے:
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن/ فاعلات
لیکن یہاں دوسرا مصرع شروع ہوتا ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن کے نصف اول سے، اور ختم ہوتا ہے فاعلات پر، یعنی دو بحروں کے مرکب پر ایک مصرع ہو گیا ہے۔
اس کو یوں کر دو:
کہتے ہیں ہم وفا انہیں، جانِ وفا نہیں
لیکن دوسری بات۔۔۔۔
پہلے مصرعے میں سبک رو ہوا یا تند و تیز ہوا جو سبک رو کا مخالف لفظ ہو؟؟
اک حبس کا عالم ہے دل و جاں پہ، ذہن پہ
ہوتی ہے جس میں شاعری یہ وہ فضا نہیں
///
پہلا مصرع دوسری بحر میں ہو گیا ہے، وہی مفعول مفاعیل۔۔ یعنی ہے بس کہ ہر اک ان کے ۔۔ غالب والی۔ اس کو یوں کر دو
اک حبس کا سماں ہے دل و جاں پہ، ذہن پر
اس سے وہ سقم بھی دور ہو جاتا ہے جو مفعول مفاعیل سے تقطیع کرنے پر پیدا ہوا تھا ، یعنی ذہَن۔ ہ متحرک (بلکہ فتح یا کسر، جو سمجھو۔ دوسرا مصرع درست ہے

جو گھاؤ دل پہ ڈال دے وہ چارہ گر نظر
اس زخمِ دلنشیں کو تو ملتی شفا نہیں
//
اس شعر کی تفہیم درست نہیں ہوئی۔ دونوں مصرعوں میں ربط نظر نہیں آیا۔ یوں دونوں مصرعے مکمل بحر میں ہیں۔

قاصد بتا رہا تھا 'پلٹنے کو ہیں حضور'
شاید سمجھ رہے ہیں کہ مجھ میں انا نہیں
////
عروض کے اعتبار سے درست ہے، لیکن وہی بات، میری کم عقلی کہ اوپر سے گزر گیا۔
روٹھے ہو تم تو اپنی نگاہوں سے پوچھنا
کیوں مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ مجھ سے خفا نہیں !
////
شعر درست ہے، لیکن اگر پہلا ،صرع یوں ہو تو بات زیادہ واضح ہو جائے:
روٹھے ہو تم؟، خود اپنی نگاہوں سے پوچھ لو
کیوں مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ مجھ سے خفا نہیں !
یا
جو مجھ سے کہہ رہی ہیں کہ مجھ سے خفا نہیں !

لاحق کبھی کبھار ہی ہوتا ہے مرضِ عشق
اکثر جو پھوٹ پڑتی ہے یہ وہ وبا نہیں
///
یہں مرض میں ر پر سکون نظم ہوا ہے، جیسا کہ لکھا تھا، یوں کیساہے؟
ہوتا کبھی کبھار ہے یہ عشق کا مرض

جو سنتا ہے مجھ کو وہی ہو جاتا ہے میرا
اک تم بھی ہو گئے تو تمہاری خطا نہیں
///
یہاں بھی پہلا ،مصرع اسی بحر میں ہو گیا ہے، اسے مفعول فاعلات میں ڈھالو تو یوں کہہ سکتی ہو:
سنتا ہے جو مجھے، وہی ہو جاتا ہے مرا
(گر چہ یہاں مجھے ہو جاتا کا آخری الف گرنا اچھا نہیں لگ رہا کہ تقطیع میں آتا ہے ’وہی ہو جات ہے مرا‘۔ پھر بھی جائز تو ہے۔


شکریہ انکل آپ نے اتنا وقت دیا۔:)

ہمیں مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن/ فاعلات سمجھ میں آئیں گے تو پتہ چلے گا ناں کہ کونسا مصرعہ کس "بحر" میں داخل ہو گیا۔:(:(:(
(ابھی اصلاحِ سخن میں تفسیر صاحب کی پوسٹس دیکھ کر تسلی ہوئی کہ وہاں سے کچھ نہ کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔:) )

اصلاح شدہ غزل پوسٹ کرتی ہوں ابھی:):)
 

جیا راؤ

محفلین
محترمہ،

اب اعجاز صاحب نے سب کر ڈالا ہے تو کیا کہیں۔
اب یوں کریں کہ اصلاح شدہ غزل دوبارہ یہاں ٹائپ کریں۔ اور ہاں ایک درخواست اور بھی کروں گا کہ اصل غزل کو اس دھاگہ میں تبدیل مت کیجے گا۔ موازنہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ تو ہو جائے پھر اصلاح شدہ غزل۔

ابھی کرتے ہیں جناب۔:)
 
Top