بارِ حروف - سید آلِ احمد

نوید صادق

محفلین
تعارف

سید آل ِ احمد

پیدائش: 1932ء (میرٹھ)
وفات: 20 اکتوبر 1999ء (بہاولپور)
قلمی نام: 1960ء تک بیدل میرٹھی
بعدازاں اصلی نام سید آل ِ احمد

پہلا شعر:
توقع تھی دعائے زود اثر سے
ادھر سے میں چلوں گا، وہ ادھر سے
(1946ء)
 

نوید صادق

محفلین
فلیپ- منیر نیازی

“سب سے ہٹ کر بات کرنے والا ایک علیحدہ لغت لئے اپنی علیحدہ زبان میں شاعری کرنے والا آل ِ احمد مجھے پہلی ہی ملاقات میں اچھا لگا کہ سچ بول رہا تھا۔وہ ادب کے روائتی وڈیروں کے خلاف تھا۔کبھی کسی کو چھپنے کے لئے کچھ نہیں بھیجا۔ چھوٹی جگہ پر بیٹھ کر اچھی شاعری کرنے والا آل ِ احمد صاف دل لئے چپ چاپ یہاں سے چلا گیا۔“
(منیر نیازی)
 

نوید صادق

محفلین
فلیپ - حمایت علی شاعر

“ آل ِ احمد وہ تار ہے جس پر جیسی ضرب لگے، ویسی صدا آتی ہے“

(حمایت علی شاعر)
 

نوید صادق

محفلین
سیّد آلِ احمد کا مخصوص طرزِ سخن

۱۹۸۰ء میں سترہ برس کے بعد بہاول پور جانا ہوا تو یہ محسوس کرکے خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ پُرسکون شہر اُس حد تک نہیں بدلا تھا کہ جس حد تک اتنے عرصے کے بعد آنے والوں کو اندیشہ ہو سکتا ہے۔ اس کے مانوس خد و خال مجھے جوں کے توں نظر آئے۔ سائیکل رکشا بھی اُس زمانے تک چل رہے تھے۔ بیکانیری گیٹ اب فرید گیٹ کہلانے لگا تھا مگر اُس کی شکل و شباہت بھی جوں کی توں تھی۔ اُس کے برابر میں پان والے کی دکان بھی موجود تھی۔ مجھے خیال آیا کہ یہاں سیّد آلِ احمد کھڑے رہا کرتے تھے۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ اُس وقت بھی کھڑے ہیں۔ ہاں یہ فرق ضرور آ گیا تھا کہ اب وہ سوٹ میں ملبوس تھے۔
پہلی بار جب ۱۹۶۲ء میں عربی کے لیکچرار کی حیثیت سے میں گورنمنٹ انٹر کالج بہاول پور آیا تو جن لوگوں سے بہت جلد مانوس ہو گیا اور جن کی صحبت میں لاہور سے دُور وہ اداس شام و سحر اچھے گزر جاتے تھے ان میں سید آلِ احمد کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ اُس زمانے میں وہ مستقلاً گیروا کرتا اور چھوٹے پائنچوں کا سفید پاجامہ پہنا کرتے تھے۔ بیکانیری گیٹ کے برابر میں حبیب ہوٹل تھا اور اس سے ذرا آگے ایک سادہ سا نیا ہوٹل ہمارے سامنے ہی شروع ہوا تھا ’’باغ و بہار ہوٹل‘‘۔ کالج سے واپسی پر اور پھر شام کو ہم چند لیکچرار کھانا یہیں کھاتے تھے۔ شہر کے جو ادیب و شاعر حضرات یہاں مستقلاً چائے پینے آتے تھے ان میں سید آلِ احمد سب سے زیادہ باقاعدہ تھے۔ چنانچہ اُن سے ملاقات روزانہ کا معمول تھا۔ ’’باغ و بہار ہوٹل‘‘ میں شعر و سخن کی محفل بھی خوب جمتی۔ ہوٹل کے مالک ایک معمر بزرگ تھے۔ نام یاد نہیں۔ بڑے خلیق آدمی تھے۔ ہمیں دور سے آتا دیکھتے تو گرم روٹیاں لگوانا شروع کر دیتے‘ اور ہماری طویل ادبی نشستوں سے الجھن محسوس کرنے کے بجائے بہت خوش ہوتے۔ سید آلِ احمد کے اُس زمانے کے کچھ شعرلوحِ دل پر‘ اُن کی آواز میں‘ اب تک نقش ہیں:

ہنگامہ سرا مصر کا بازار نہیں اب
یوسف سا کوئی حُسن طرح دار نہیں اب

ہو بھی تو کوئی اُس کا خریدار نہیں اب
دامانِ زلیخا میں کوئی تار نہیں اب

ہم تو ہیں ہمیں سنگ و گل و خشت سے مارو
منصور اگر کوئی سرِ دار نہیں اب

یہ اشعار سید صاحب اکثر مشاعروں اور شعری نشستوں میں تواتر کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔ ایک اور غزل تھی:

پر شکستہ کسی سہمے ہوئے طائر کی طرح
وقت کے کانپتے ہاتھوںمیں نہ مرنا اب کے

سید آل احمدنے ایک اچھے شاعر اور محبت کرنے والے انسان کی حیثیت سے بہت جلد ہمارے دلوں میں گھر کر لیا۔ اُن کے کلام میں روایت سے پیوستگی کے ساتھ ایک تخلیقی لپک تھی جو اُن کے کلام کو محض ’’روایتی‘‘ بن جانے سے بچاتی تھی اور فنی خد و خال میں ان کی انفرادیت کو اُبھار کر سامنے لاتی تھی۔
سید صاحب چونکہ خود مست شاعر تھے اور اُس زمانے میں دُور دُور تک تعارف رکھنے کے باوجود پی آر کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرنے کا فن نہیں جانتے تھے اس لیے آگے چل کر کہنی مار دوڑ میں شمولیت نہ کر سکے اور ہر چند کہ خواص ان کے فنی مرتبے سے ناواقف نہ تھے‘ وہ ’’لائم لائٹ‘‘ سے دور ہوتے چلے گئے۔ ان کا بس ایک مختصر سا مجموعہ ’’صریرِ خامہ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۶۴ء میں بہاول پور ہی سے شائع ہوا جس کی پذیرائی کرنے والوں میں ماہرالقادری‘ حمایت علی شاعر‘ اختر انصاری اکبر آبادی‘ محمد احسن فاروقی‘ منظور حسین شور اور دیگر کئی ممتاز سخن شناس شامل تھے۔
ایک طویل عرصے کے بعد جب نوید صادق نے اطلاع دی کہ سید صاحب بسترِ علالت پر ہیں اور ان کا ایک اور مجموعہ اشاعت کے لیے تیار ہے ‘ جس پر مجھے بھی کچھ اظہارِ خیال کرنا ہے تو مجھے بڑی مسرت ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ یہ اظہارِ خیال تو میرے لیے خود اپنی عمرِ رفتہ کو آواز دینے کے مترادف ہوگا لیکن عجیب تلخ اتفاق یہ ہوا کہ اگلے روز جب نوید صادق مسودّہ میرے حوالے کرنے آئے تو میں اخبار میں سیّد صاحب کی رحلت کی خبر پڑھ چکا تھا‘ جس کا خود نوید صادق کو علم نہ تھا۔
سید آلِ احمد کا یہ تازہ مجموعہ ان کے مخصوص رنگِ سخن کا آئینہ دار ہے‘ جو شدتِ احساس‘ رومانیت‘ روایت اور جدت کے ایک دلکش امتزاج سے عبار ت ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں

میری خاطر نہ تکلف کیجئے
میں تو کا نٹوں پہ بھی سو جاتا ہوں

پتھر کہیں گے لوگ‘ سرِ رہ گزر نہ بیٹھ
چہروں کی دھوپ چھاؤں میں یوں بے خبر نہ بیٹھ

احمد ہوائے شہر مخالف بھی ہے اگر
خائف نہ ہو‘ نظر نہ چرا‘ چھپ کے گھر نہ بیٹھ

کیسے ٹھہرے ہو سوچ میں احمد
اتنی سردی میں رات کو تنہا

کس مسافت کے بعد پہنچا ہے
تیرے رُخسار پر مرا آنسو

افسوس کہ ہم اس مجموعے کا استقبال بہت دیر سے کر رہے ہیں۔ تاہم دُنیائے فن میں حیاتِ ظاہری کی اہمیت کچھ زیادہ نہیں۔ امید ہے کہ یہ مجموعہ سیّد صاحب کے لیے بقائے دوام کا ضامن ہوگا۔

(ڈاکٹرخورشید رضوی)
 

نوید صادق

محفلین
صلی اللہ علیہ و سلم

لب پر ہے جو نام محمد صلی اللہ علیہ و سلم
یہ بھی ہے انعام محمد صلی اللہ علیہ و سلم

ایک اک نکتہ اسم مجسم، طاسِ خرد پر ،طاسِ جنوں پر
خلق سراپا نام محمد صلی اللہ علیہ و سلم

گرم سفر ہوں صحرا صحرا، دل مشعل ہے، آنکھ منور
یہ بھی ہے اکرام محمد صلی اللہ علیہ و سلم

میرے لب پر ان کی ثنا ہے، عاصی پر کیا لطفِ عطا ہے
دیکھو یہ انعام محمد صلی اللہ علیہ و سلم

نغمۂ جاں ہے، روحِ رواں ہے، وجہہِ سکونِ قلبِ تپاں ہے
ایسا ہے پیغام محمد صلی اللہ علیہ و سلم

شہرِ علم کا دروازہ ہے، گمراہوں کو خضر کی صورت
تشنہ لبوں کو جام محمد صلی اللہ علیہ و سلم

اُن کے کرم کی کوئی حد ہے، صبحِ ازل ہے، شامِ ابد ہے
آئینۂ ایام محمد صلی اللہ علیہ و سلم

سر تا پا اخلاق و محبت، پیکرِ حلم و فہم و طہارت
قامت و قدِ نام محمد صلی اللہ علیہ و سلم

ہر لحظہ ، ہر آن ہے احمد اُن کا کرم اور اُن کی عنایت
ہم پر فیضِ عام محمد صلی اللہ علیہ و سلم
 

نوید صادق

محفلین
میں تری ذات کے صدقے، ترے قرباں مولا
میرا ہر سانس ہے، ہر پل ترا احساں مولا

عمر تکتے درِ امیدِ سکوں بیت گئی
اور کب تک مجھے رکھے گا پریشاں، مولا

آج تک حیرتِ نظارہ کا آئینہ ہوں
ایک لمحہ کو ہوا تھا کوئی مہماں، مولا

اب تو چہروں کی طرح روپ بدلتی ہے ہوا
اب تو ہوتا نہیں موسم کا بھی عرفاں، مولا

کون سے خوف نے گُل کر دیے جذبوں کے چراغ
مطمئن ایک بھی ملتا نہیں انساں، مولا

میرا گھر کیسے بچے گا کوئی تدبیر سجھا
دستکیں دینے لگی گردشِ دوراں، مولا

کیسے سرسبز و ثمربار ہو چاہت کا شجر
ہو گیا خواب وہ خوش قامتِ جاناں مولا

اب سکت ہی نہیں سوچوں کو کھنڈر کرنے کی
اب نہ کیجے کوئی تقسیمِ گلستاں، مولا

اس مسافت کا تقاضہ تو یہی ہے احمد
صبح، تعبیر کرے، شام، زرافشاں مولا
 

نوید صادق

محفلین
بدن کو غسلِ گدازِ حیات دے دے گا
ترا خلوص مجھے اب کے مات دے دے گا

یہ جڑتے ٹوٹتے کاذب مراسموں کا دیار
مرے یقیں کی صداقت کا سات دے دے گا

میں تھک گیا ہوں کڑی دھوپ کی مسافت سے
کوئی سراب، تبسم کی رات دے دے گا؟

دعا کو ہاتھ اٹھاؤں تو کس طرح معبود
جو میں کہوں تو مجھے کائنات دے دے گا

یقین جان کہ ہر دکھ کو بھول جاؤں گا
تو میرے ہاتھ میں جب اپنا ہات دے دے گا

یہ مفلسی کا تسلسل، ضرورتوں کا محیط
مجھے سلیقۂ تزئینِ ذات دے دے گا

وہ ایک لفظ مرے دل پہ ثبت ہے احمد
مری غزل کو جو روحِ ثبات دے دے گا
 

نوید صادق

محفلین
وقت کے طشت میں رکھا ہوا پتھر ہوں میں
حرف کا دشت ہوں، معنی کا سمندر ہوں میں

کون جانے کہ یہ خوشبو ہے عبارت مجھ سے
کیسے سمجھاؤں کہ پھولوں کا مقدر ہوں میں

مجھ کو آتا نہیں کاندھے پہ جنازہ رکھنا
منجمد شہر! حرارت کا پیمبر ہوں میں

اب بھی آتی ہے ترے قرب کے ایام کی آنچ
اب بھی احساس کا ذخار سمندر ہوں میں

آخرِ شب ہے، مری ذات سے نظریں نہ چُرا
اے غمِ ہجر! ترے قد کے برابر ہوں میں

شہر میں حفظِ مراتب کا بہت قحط ہے اب
آپ چاہیں تو چلے آئیں کہ گھر پر ہوں میں
 

نوید صادق

محفلین
زرد جذبے ہوں تو کب نشوونما ملتی ہے
فن کو تہذیب کی بارش سے جلا ملتی ہے

سر میں سودا ہے تو چاہت کے سفرپر نکلیں
کرب کی دھوپ طلب سے بھی سوا ملتی ہے

کون سی سمت میں ہجرت کا ارادہ باندھیں
کوئی بتلائے کہاں تازہ ہوا ملتی ہے

چاند چہرے پہ جواں قوسِ قزح کی صورت
تیری زُلفوں سے گھٹاؤں کی ادا ملتی ہے

ہم تو پیدا ہی اذیت کے لیے ہوتے ہیں
ہم فقیروں سے تو دُکھ میں بھی دُعا ملتی ہے

کتنا دُشوار ہے اب منزلِ جاناں کا سفر
خواہش قربِ بدن آبلہ پا ملتی ہے

بے نمو شاخوں سے پتوں کو شکایت کیا ہو
اب تو پیڑوں کو بھی مشکل سے غذا ملتی ہے

اور بڑھنے دو گھٹن خوف نہ کھاؤ اس سے
شدتِ حبس سے تحریکِ بقا ملتی ہے

کبھی فرصت کی کوئی شام سحر تک دے دے
یوں جو ملتی ہے سرِ راہے تو کیا ملتی ہے

سر سے چادر نہ اُتارو مرے اچھے فنکار!
برہنہ حرف کو معنی کی ردا ملتی ہے

تیرا انصاف عجب ہے مرے جبار و غنی!
جرم ہم کرتے ہیں بچوں کو سزا ملتی ہے

جب سے تنہائی کو اوڑھا ہے بدن پر احمد
تمکنت لہجے میں پہلے سے سوا ملتی ہے
 

نوید صادق

محفلین
شہر کے محتاط موسم سے خبر آئی تو ہے
رقص میں ضد پر نشاطِ معتبر آئی تو ہے

شکر ہے توڑا تو قفلِ خامشی اک مرد نے
مدتوں میں جرأتِ عرضِ ہنر آئی تو ہے

گھپ اندھیرے میں تبسم کا دیا روشن کریں
زندہ رہنے کی یہ اک صورت نظر آئی تو ہے

قربتوں کے سرد ہاتھوں میں لیے خفگی کے پھول
دوستی نظارگی کے بام پر آئی تو ہے

ہم یہ سمجھے تھے کہ آنکھیں زرد ہو جائیں گی اب
فصلِ گل صحن چمن میں لوٹ کر آئی تو ہے

دُکھ تو ہم نے سہہ لیے اب دیکھئے آگے ہو کیا
انقلاب صبحِ نو کی رہگذر آئی تو ہے

ہے خجل قد سہی اخلاص کی تضحیک پر
آبرومندی کی اب اُمید بر آئی تو ہے

بے سبب جس نے قبیلے میں کیا رُسوا مجھے
اُس کے چہرے پر تھکن کی دوپہر آئی تو ہے

آؤ احمد بڑھ کے لیں تکریم سے اُس کے قدم
تم سے ملنے اِک غزالِ وقت گھر آئی تو ہے
 

نوید صادق

محفلین
ترے لہو میں ہے شامل مرے خلوص کی بو
مجھے اُجاڑنے والے! مرا شعور ہے تو

میں تیرے شہر میں یوں صبح و شام کاٹتا ہوں
نڈھال زخموں سے ہو جیسے دشت میں آہو

خدا کے واسطے یہ کھیت مت اُجاڑنے دو
زمیں کی کھاد بنا دو بدن کا گرم لہو

میں تیرے نام کا کتبہ اُٹھائے پھرتا ہوں
جبین دہر کی تابندگی! کہاں ہے تو

فقیہِ شہر بتا اتنی قحط سالی کیوں
ہے اختیار تو کر ان کی بھوک کا دارو

زبان و حرف قفس ہوں‘ خیال و فکر صلیب
تم ان خطوط پہ دو گے دماغ و دل کو نمو

نکھر رہے ہیں نئی رُت میں خار و خس احمد
بکھر رہی ہے چمن میں گلاب کی خوشبو
 

نوید صادق

محفلین
اب حل مسائل کوئی سوچا نہیں جاتا
حالات کے گرداب سے نکلا نہیں جاتا

اب گھر میں سکوں کی کوئی تصویر نہیں ہے
اب شہر کی سڑکوں پہ بھی گھوما نہیں جاتا

ہر آنکھ جہاں سنگ ملامت لیے اُٹھے
آئینۂ احساس بچایا نہیں جاتا

دل پاؤں پکڑتا ہے مگر لب نہیں ہلتے
اب جاتے ہوئے شخص کو پکڑا نہیں جاتا

سوچوں تو اُبھرتے نہیں خال و خد الفاظ
چاہوں بھی تو اب خط اُسے لکھا نہیں جاتا

ہر لمحہ نیا دُکھ مجھے زنجیر کیے ہے
باہر قفسِ فکر سے آیا نہیں جاتا

کس شخص کا دل جیتو گے اس شہر میں احمد
اُس آنکھ کا کاجل تو چرایا نہیں جاتا
 

نوید صادق

محفلین
یاد آؤں گا اُسے‘ آ کے منائے گا مجھے
اور پھر ترکِ تعلق سے ڈرائے گا مجھے

آپ مسمار کرے گا وہ گھروندے اپنے
اور پھر خواب سہانے بھی دکھائے گا مجھے

مجھ کو سورج کی تمازت میں کرے گا تحلیل
اور مٹی سے کئی بار اُگائے گا مجھے

اپنی خوشبو سے وہ مانگے گا حیا کی چادر
زیب قرطاسِ بدن جب بھی بنائے گا مجھے

ربِ ایقان و عطا! عمر کے اس موڑ پہ کیا
راستے کرب کے ہموار دکھائے گا مجھے

میں کڑی دھوپ کا سایہ ہوں کڑے کوس کا ساتھ
بھولنا چاہے گا وہ‘ بھول نہ پائے گا مجھے

میری شہہ رگ پہ تمسخر کی چھری رکھے گا
گاہے پلکوں پہ تقدس سے سجائے گا مجھے

آنکھ لگ جائے گی جب ہجر کے انگاروں پر
نیند میں آ کے دبے پاؤں جگائے گا مجھے

تو بھی زنجیر پہن لے گا انا کی اک دن
میری غزلیں مرے لہجے میں سنائے گا مجھے

میں تو ہر بار مراسم کی بنا رکھتا ہوں
سوچتا ہوں کہ کبھی تو بھی منائے گا مجھے

جن سے ملتا ہو سراغِ رہِ منزل احمد
وہ لکیریں مرے ہاتھوں پہ دکھائے گا مجھے
 

نوید صادق

محفلین
وہ حبسِ لب بڑھا کہ بدن ڈولنے لگا
میں جب سکوتِ شہر کا در کھولنے لگا

اک خوف سا لگا مجھے خالی مکان سے
کل رات اپنے سائے سے دل ہولنے لگا

انگڑائی لے رہا ہو کوئی جیسے بام پر
خورشید روئے شرق پہ پر تولنے لگا

دوں گا کسے صدا کہ سماعت کوآ سکے
اے یادِ یار! زخم اگر بولنے لگا

ہم اہلِ اعتماد کنارے پہ آ گئے
گرداب میں سفینہ اگر ڈولنے لگا

روشن ہوئے نہ تھے ابھی آثار صبح کے
دل بانجھ جرأتوں کی گرہ کھولنے لگا

احمد میں اپنے صدق پہ ثابت ثمر رہا
نفرت کا زہر قرب اگر گھولنے لگا
 

نوید صادق

محفلین
جب سے پیدا ہوا ہوں تنہا ہوں
خواب میں تتلیاں پکڑتا ہوں

قامت و قد میں ہوں پہاڑ مگر
اپنے اندر میں ریزہ ریزہ ہوں

چھاؤں کرتا ہوں شہر میں تقسیم
اپنے چہرے پہ دھوپ ملتا ہوں

بجھ گیا ہے الاؤ جذبوں کا
سوچ کی رہگذر پہ تنہا ہوں

مرثیہ ہوں جو مصلحت برتو
دل سے چاہو تو ایک نغمہ ہوں

بیعتِ حاکم غلط کرنا
لعنتِ زندگی سمجھتا ہوں

جو شبِ تیرہ میں چمکتا ہے
میں وہ کردار کا ستارہ ہوں

مہرباں سائے یاد آتے ہیں
ہاڑ کی دوپہر میں جلتا ہوں

جانے والوں کے لکھ رہا ہوں کرم
آنے والوں کی سوچ پڑھتا ہوں

شمعِ دل تو جلا کے دیکھ مجھے
تیری منزل کا سیدھا رستہ ہوں

ہر تہی خُلق عہد میں احمد
غم زدوں کے لیے مسیحا ہوں
 

نوید صادق

محفلین
بے سبب کون سا سینہ ہے جو شق ہوتا ہے
بعض ایثار کا اک عمر قلق ہوتا ہے

لفظ اخلاص کا دھڑکن میں چھپا رہتا ہے
لبِ اظہار تو اک سادہ ورق ہوتا ہے

آئنہ صاف خدوخال دکھا دیتا ہے
چہرہ غیروں کا نہیں اپنوں کا فق ہوتا ہے

میں تجھے کون سے لہجے میں ملامت بھیجوں
اچھے گھوڑے کو تو چابک بھی سبق ہوتا ہے

میرے ہر جرمِ وفا سے ہے شناسا عالم
تیرے اخلاص کا احساس ادق ہوتا ہے

جب بھی ماتھے پہ چمکتا ہے عرق بن کے لہو
مطلعِ دل پہ عجب رنگِ شفق ہوتا ہے

کون محروم رہا خُلقِ وفا سے احمد
تیرا چہرہ تو مسرت کی رمق ہوتا ہے
 

نوید صادق

محفلین
ہمارے گھر کے آنگن میں گھٹا کس روز آئے گی
سکوتِ شامِ ویرانی بتا‘ کس روز آئے گی

بہت دن ہو گئے ہم پر کوئی پتھر نہیں آیا
شکستِ شیشۂ دل کی صدا کس روز آئے گی

دُکھوں کے جلتے سورج کی تمازت جان لیوا ہے
مرے حصے میں خوشیوں کی ردا کس روز آئے گی

مسلسل حبسِ قیدِ لب سے دم گھٹنے لگا اب تو
اسیرانِ قفس! تازہ ہوا کس روز آئے گی

مری پلکوں پہ ظرفِ ربِ مفلس جھلملاتا ہے
مری ماں جب یہ کہتی ہے‘ دوا کس روز آئے گی

کہاں تک شانۂ ہستی یہ بارِ غم اُٹھائے گا
تری دنیا میں جینے کی ادا کس روز آئے گی

بدل دیتی ہے جو احمد مقدر کی لکیریں تک
مرے ہونٹوں پہ دل سے وہ دُعا کس روز آئے گی
 

نوید صادق

محفلین
سامنے والے گھر میں بجلی رات گئے تک جلتی ہے
شاید مجھ سے اب تک پگلی آس لگائے بیٹھی ہے

میری کسک‘ یہ میری ٹیسیں‘ آپ کو کیوں محسوس ہوئیں؟
آپ کی آنکھوں میں یہ آنسو! دل تو میرا زخمی ہے

نفس نفس اک تازہ سرابِ منزل خواب ہے یہ دُنیا
نظر نظر قدموں سے خواہش سایہ بن کر لپٹی ہے

چپ مت سادھو‘ جھوٹ نہ بولو‘ اب تو اطمینان سے ہو
اب تو ہر دن سو جاتا ہے‘ اب تو ہر شب جاگتی ہے

دل ایسا معصوم پرندہ‘ اپنے پر پھیلائے کیا؟
اندیشوں کی کالی بلی‘ گھات لگائے بیٹھی ہے

آپ تو بس اک خاص ادا سے ’’اپنا‘‘ کہہ کر بچھڑ گئے
اب تک اُس اک بات کی خوشبو دوشِ ہوا پر پھیلی ہے

کیسے اپنا دن گزرا‘ شب کیسے کٹی‘ کیا پوچھتے ہو
دن بھر شہر کی خاک اُڑائی‘ رات آنکھوں میں کاٹی ہے

آپ کو دیکھا‘ دل نہ مانا‘ ٹھہر گیا‘ ناراض نہ ہوں
اتنی اچھی صورت اکثر‘ ہوش اُڑا ہی دیتی ہے

میرے دیس کا چڑھتا سورج کیسے گرہن میں آیا ہے
اے فرزانو! کچھ تو بتاؤ‘ دُنیا تماشہ دیکھتی ہے

آپ کی تخلیقات پڑھے اب ایک زمانہ بیت گیا
احمد صاحب! تازہ غزل کس الماری میں رکھی ہے
 

نوید صادق

محفلین
قصرِِ سحر میں ہوں کہ کسی شب کدے میں ہوں
آشوبِ زندگی! میں عجب مخمصے میں ہوں

کیوں جرمِ بے گناہی پہ دیتا ہے قید سخت
فردِ عمل تو دیکھ‘ میں کس قاعدے میں ہوں

تو میرے خال و خد کبھی پہچان کے تو دیکھ
آئینہ ساز! میں بھی ترے آئینے میں ہوں

اتنا نہ حد سے بڑھ کے تجھے دُکھ ہو بعد میں
میں عاقبت شناس ہوں اور حوصلے میں ہوں

کچھ تو بتا اے ذہنِ حقیقت شناسِ دہر
حلقہ بگوش وہم میں کس سلسلے میں ہوں

وہ شورشیں تو دکھ کی لحد میں اُتر گئیں
زندہ اگرچہ چشم یقیں دیکھنے میں ہوں

چاہے میں تیرے دکھ کی تلافی نہ کر سکوں
لیکن شریکِ غم تو ترے سانحے میں ہوں

آنکھوں میں رَت جگوں کی تھکن ہی انڈیل دے
تشنہ خلش نہ رکھ کہ ترے میکدے میں ہوں

کن لغزشوں پہ منظرِ عبرت نظر ہوا
سنگِ رہ تماشہ‘ یہ کس سلسلے میں ہوں

احمد یہ اور بات تھکن سے ہے چور جسم
مصروف خاکِ خوابِ سکوں چھاننے میں ہوں
 
Top