نوید صادق
محفلین
مری نظر نے خلا میں دراڑ ڈالی ہے
سکوں کی گم شدہ تصویر پھر سے پا لی ہے
خود اپنی اَور بچھائے ہیں غم کے اَنگارے
سکوتِ رنج سے میں نے نجات پا لی ہے
کدھر کو جائیں‘ کہاں ہم کریں تلاش کہ اب
سکوں کی دُھن میں بہت خاک چھان ڈالی ہے
میں کس یقیں پہ تحمل کو پائیدار کروں
مرا مزاج ازل ہی سے لاابالی ہے
مجھے یقیں نہ دلاؤ‘ میں جانتا ہوں‘ مگر
وفا کا لفظ تو عہدِ رواں میں گالی ہے
مِلا نہ جب تری قربت کی روشنی کا سُراغ
غموں کی لُو سے شبِ آرزو اُجالی ہے
کسی کے لب پہ چراغِ دُعا نہیں جلتا
ہر ایک شخص کی جیسے زبان کالی ہے
تھا سخت ہم پہ بھی شب خوں پہ آبرو کی قسم
متاعِ شیشہ و نقدِہُنر بچا لی ہے
وفا تو پہلے ہی عنقا تھی شہر میں احمد
سُنا ہے اب تو دُکھوں کی بھی قحط سالی ہے
سکوں کی گم شدہ تصویر پھر سے پا لی ہے
خود اپنی اَور بچھائے ہیں غم کے اَنگارے
سکوتِ رنج سے میں نے نجات پا لی ہے
کدھر کو جائیں‘ کہاں ہم کریں تلاش کہ اب
سکوں کی دُھن میں بہت خاک چھان ڈالی ہے
میں کس یقیں پہ تحمل کو پائیدار کروں
مرا مزاج ازل ہی سے لاابالی ہے
مجھے یقیں نہ دلاؤ‘ میں جانتا ہوں‘ مگر
وفا کا لفظ تو عہدِ رواں میں گالی ہے
مِلا نہ جب تری قربت کی روشنی کا سُراغ
غموں کی لُو سے شبِ آرزو اُجالی ہے
کسی کے لب پہ چراغِ دُعا نہیں جلتا
ہر ایک شخص کی جیسے زبان کالی ہے
تھا سخت ہم پہ بھی شب خوں پہ آبرو کی قسم
متاعِ شیشہ و نقدِہُنر بچا لی ہے
وفا تو پہلے ہی عنقا تھی شہر میں احمد
سُنا ہے اب تو دُکھوں کی بھی قحط سالی ہے