ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
پیارے قارئینِ! چونکہ آپ بہت عقلمند ہیں اور ہر مراسلے کو بغور دیکھ کر جانچتے پرکھتے ہیں تو یقیناً اس وقت آپ کے ذہنِ رسا میں یہ سوال چھلانگ مار کر باہر آنے بلکہ کیبورڈ پر کودنے کے لیے مچل رہا ہوگا کہ ایسی کیا آفت آپڑی جو قبلہ ظہیؔر احمد شاعری کے زمرے سے نکل کر یکایک باورچی خانے میں جھانکنے لگے۔ آپ کے اس فضول سے سوال کا مختصر جواب ویسے تو یوں بھی دیا جاسکتا ہے کہ یہ تحریر منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے لکھی ہے لیکن اس کا اصل جواب جو بہت پہلے اس خاکسار نے کسی کتاب میں پڑھا تھا وہ کچھ یوں ہے کہ کسی چیز کا خوف دور کرنے کے لیے اُس چیز کے بارے میں اکثر اور کھل کر بات کرنا چاہیے۔
اصولاً تو اس وضاحت کے بعد سوالات کے کارخانے میں کام بند ہوجانا چاہیے لیکن ہر معاملے کو کریدنا اور بال کی کھال نکالنا چونکہ ہمارا قومی مشغلہ ہے اس لیے تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ فدوی نے اکتیس بتیس برس پہلے پاکستان کے روایتی مصالحے دار کھانوں سے منہ موڑ کر جب بوجوہ "بلینڈ" امریکی کھانوں کو ہاتھ لگایا تو وہ سر چڑھ گئے۔ اس غیر ملکی دوستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دن بدن زبان اور مرچوں میں ایک گونہ مخاصمت سی پیدا ہوتی چلی گئی۔ رفتہ رفتہ نوبت با ایں جا رسید کہ جب کہیں کسی دیسی دعوت میں مرچ کی تیزی زبان پر آتی تو فوراً ماتھے پر پسینہ اور لبوں پر سی سی کا ورد جاری ہوجاتا۔ حلق سے معدے تک تیکھے پن کی ایک تیزابی لکیر سی کھنچ جاتی۔ مرچ اگر معمول سے تیز تر ہوتی تو چند لقموں کے بعد ہچکیاں بھی شروع ہوجاتیں۔ جس کی وجہ راقم کی ناقص سمجھ میں یہی آتی کہ ہو نہ ہو کوئی میٹھی چیز مجھے یاد کررہی ہے۔ چنانچہ مرچ آلود کھانا چھوڑ کر سیدھے سیدھے میٹھے کی میز کا رخ کرنا پڑتا۔ میرے اِس مرچ مخالف دسترخوانی رویے کی وجہ سے بعض میزبان خواتین کچھ ناراض سی ہونے لگیں۔ اُن کی ناراضگی تو خیر یہ کہہ کر دور کردی جاتی کہ قورمہ بریانی وغیرہ تو کھاتے ہی رہتے ہیں لیکن آپ کے ہاتھ کا حلوہ کہاں نصیب! حلوہ نہیں من و سلویٰ ہے! وغیرہ وغیرہ۔ کچھ عرصے تک تو ہماری یہ شیریں سخنی کام کرتی رہی لیکن جب یہی بات ہم نے کئی دعوتوں میں کھیر ، کسٹرڈ اور گلتّی کے بارے میں بھی دہرائی تو زنانہ میزبان حلقوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور کچھ شکوک و شبہات سر اٹھانے لگے۔ چٹپٹے کھانوں سے اس عدم رغبت کا احوال ہر میزبان خاتون نے حسبِ توفیق نمک مرچ لگا کر اگلی متوقع میزبان تک پہنچانا ضروری سمجھا۔ یہ شکایت نما خبریں جب ہوتے ہوتے فدوی کی ہوم گورنمنٹ تک پہنچیں تو معاملات نے کچھ پیچیدہ سی صورت اختیار کرنا شروع کردی۔ ان شکایاتِ غیرلذیذہ و ناپسندیدہ پر قابو پانے کے لیے ایک شام کچن کے پاس کھانے کی میز پر پکوان کونسل کا ہنگامی اجلاس خاتونِ خانہ کی زیرِ صدارت منعقد کیا گیا۔ یوں تو اس خاکسار کو مدتوں پہلے "آج کیا پکائیں" کے روزمرہ سوال کے جواب میں چکن کا بھرتہ اور آلو کی نہاری جیسی کئی شاندار تجاویز دینے اور اُن پر اصرار کرنے کی پاداش میں پکوان کونسل سے معطل کیا جاچکا تھا لیکن اس اہم اجلاس میں بطور سامع بطورِ خاص مدعو کیا گیا۔ ہمارے دونوں صاحبزادگان نے سیاسی وجوہات کی بنا پر اجلاس میں بطور رکن شرکت کرنے کے بجائے دور ہی دور سے مبصرین کا فریضہ انجام دینے اور تالیاں بجانے کو ترجیح دی۔ چنانچہ اس یک رکنی کونسل نے معاملے کی سرسری سماعت کے بعد چند قرادادیں متفقہ طور پر منظور کرلیں۔ قراردادوں کی بلامخالفت متفقہ منظوری کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ صدرِ کونسل کو اپنا ویٹو پاور استعمال نہیں کرنا پڑا۔ ویسے بھی کونسل کے فیصلوں سے اختلاف کی نہ کسی میں ہمت تھی اور نہ کسی کو اجازت۔
القصہ مختصر ، مذکورہ بالا جمہوری نظام کے تحت منظور کردہ قرارداد نمبر تین کی رو سے مجھے روزانہ زبردستی مرچیلے کھانے کھلانے کی ایک باقاعدہ مہم شروع کردی گئی تاکہ زبان اُس ذائقۂ رفتہ سے دوبارہ شناسائی اختیار کرلے کہ جس سے ترکِ تعلقات کو ایک زمانہ ہوگیا تھا۔ مرچ مصالحے اِس بارِ دگر شناسائی پر خوش ہوئے یا نہیں یہ تو نہیں معلوم لیکن اِن بھولے بسرے مراسم کے دوبارہ استوار ہونے پر یہ زبانِ عاجز دہان مرچ کی شان میں کچھ کہے بغیر نہ رہ سکی۔ لیکن نتیجہ اس ہجوِ ملیح کا ہر بار یہ نکلتا کہ اگلے روز کھانے میں مرچیں پہلے سے زیادہ تیزی اور جوش و خروش کے ساتھ کام و دہن سے معانقے کے لیے تیار نظر آتیں۔ اب دکھائی یہ دیتا ہے کہ خاکسار کے غدود ہائے ذائقہ ان تیکھے ترچھے غذائی حملوں کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکیں گے اور گھٹنے ٹیکتے ہی بنے گی۔ چنانچہ ہتھیار ڈالنے کی رسم کو باوقار و باعزت بنانے کے لیے عدو سے سمجھوتا کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ذیل کا مضمون اسی دشمنِ دہاں کو سمجھنے اور برداشت کرنے کی ایک کوشش ہے۔ آپ حضرات سے میٹھے میٹھے تبصروں کی درخواست ہے۔
اصولاً تو اس وضاحت کے بعد سوالات کے کارخانے میں کام بند ہوجانا چاہیے لیکن ہر معاملے کو کریدنا اور بال کی کھال نکالنا چونکہ ہمارا قومی مشغلہ ہے اس لیے تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ فدوی نے اکتیس بتیس برس پہلے پاکستان کے روایتی مصالحے دار کھانوں سے منہ موڑ کر جب بوجوہ "بلینڈ" امریکی کھانوں کو ہاتھ لگایا تو وہ سر چڑھ گئے۔ اس غیر ملکی دوستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دن بدن زبان اور مرچوں میں ایک گونہ مخاصمت سی پیدا ہوتی چلی گئی۔ رفتہ رفتہ نوبت با ایں جا رسید کہ جب کہیں کسی دیسی دعوت میں مرچ کی تیزی زبان پر آتی تو فوراً ماتھے پر پسینہ اور لبوں پر سی سی کا ورد جاری ہوجاتا۔ حلق سے معدے تک تیکھے پن کی ایک تیزابی لکیر سی کھنچ جاتی۔ مرچ اگر معمول سے تیز تر ہوتی تو چند لقموں کے بعد ہچکیاں بھی شروع ہوجاتیں۔ جس کی وجہ راقم کی ناقص سمجھ میں یہی آتی کہ ہو نہ ہو کوئی میٹھی چیز مجھے یاد کررہی ہے۔ چنانچہ مرچ آلود کھانا چھوڑ کر سیدھے سیدھے میٹھے کی میز کا رخ کرنا پڑتا۔ میرے اِس مرچ مخالف دسترخوانی رویے کی وجہ سے بعض میزبان خواتین کچھ ناراض سی ہونے لگیں۔ اُن کی ناراضگی تو خیر یہ کہہ کر دور کردی جاتی کہ قورمہ بریانی وغیرہ تو کھاتے ہی رہتے ہیں لیکن آپ کے ہاتھ کا حلوہ کہاں نصیب! حلوہ نہیں من و سلویٰ ہے! وغیرہ وغیرہ۔ کچھ عرصے تک تو ہماری یہ شیریں سخنی کام کرتی رہی لیکن جب یہی بات ہم نے کئی دعوتوں میں کھیر ، کسٹرڈ اور گلتّی کے بارے میں بھی دہرائی تو زنانہ میزبان حلقوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور کچھ شکوک و شبہات سر اٹھانے لگے۔ چٹپٹے کھانوں سے اس عدم رغبت کا احوال ہر میزبان خاتون نے حسبِ توفیق نمک مرچ لگا کر اگلی متوقع میزبان تک پہنچانا ضروری سمجھا۔ یہ شکایت نما خبریں جب ہوتے ہوتے فدوی کی ہوم گورنمنٹ تک پہنچیں تو معاملات نے کچھ پیچیدہ سی صورت اختیار کرنا شروع کردی۔ ان شکایاتِ غیرلذیذہ و ناپسندیدہ پر قابو پانے کے لیے ایک شام کچن کے پاس کھانے کی میز پر پکوان کونسل کا ہنگامی اجلاس خاتونِ خانہ کی زیرِ صدارت منعقد کیا گیا۔ یوں تو اس خاکسار کو مدتوں پہلے "آج کیا پکائیں" کے روزمرہ سوال کے جواب میں چکن کا بھرتہ اور آلو کی نہاری جیسی کئی شاندار تجاویز دینے اور اُن پر اصرار کرنے کی پاداش میں پکوان کونسل سے معطل کیا جاچکا تھا لیکن اس اہم اجلاس میں بطور سامع بطورِ خاص مدعو کیا گیا۔ ہمارے دونوں صاحبزادگان نے سیاسی وجوہات کی بنا پر اجلاس میں بطور رکن شرکت کرنے کے بجائے دور ہی دور سے مبصرین کا فریضہ انجام دینے اور تالیاں بجانے کو ترجیح دی۔ چنانچہ اس یک رکنی کونسل نے معاملے کی سرسری سماعت کے بعد چند قرادادیں متفقہ طور پر منظور کرلیں۔ قراردادوں کی بلامخالفت متفقہ منظوری کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ صدرِ کونسل کو اپنا ویٹو پاور استعمال نہیں کرنا پڑا۔ ویسے بھی کونسل کے فیصلوں سے اختلاف کی نہ کسی میں ہمت تھی اور نہ کسی کو اجازت۔
القصہ مختصر ، مذکورہ بالا جمہوری نظام کے تحت منظور کردہ قرارداد نمبر تین کی رو سے مجھے روزانہ زبردستی مرچیلے کھانے کھلانے کی ایک باقاعدہ مہم شروع کردی گئی تاکہ زبان اُس ذائقۂ رفتہ سے دوبارہ شناسائی اختیار کرلے کہ جس سے ترکِ تعلقات کو ایک زمانہ ہوگیا تھا۔ مرچ مصالحے اِس بارِ دگر شناسائی پر خوش ہوئے یا نہیں یہ تو نہیں معلوم لیکن اِن بھولے بسرے مراسم کے دوبارہ استوار ہونے پر یہ زبانِ عاجز دہان مرچ کی شان میں کچھ کہے بغیر نہ رہ سکی۔ لیکن نتیجہ اس ہجوِ ملیح کا ہر بار یہ نکلتا کہ اگلے روز کھانے میں مرچیں پہلے سے زیادہ تیزی اور جوش و خروش کے ساتھ کام و دہن سے معانقے کے لیے تیار نظر آتیں۔ اب دکھائی یہ دیتا ہے کہ خاکسار کے غدود ہائے ذائقہ ان تیکھے ترچھے غذائی حملوں کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکیں گے اور گھٹنے ٹیکتے ہی بنے گی۔ چنانچہ ہتھیار ڈالنے کی رسم کو باوقار و باعزت بنانے کے لیے عدو سے سمجھوتا کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ذیل کا مضمون اسی دشمنِ دہاں کو سمجھنے اور برداشت کرنے کی ایک کوشش ہے۔ آپ حضرات سے میٹھے میٹھے تبصروں کی درخواست ہے۔