بارہ مرچوں کا کچھ بیاں ہوجائے!
ہندوستانی پکوان عالمی دسترخوان پر اپنے مرچ مصالحوں کے باعث اپنی خاص پہچان رکھتا ہے۔ بریانی ، قورمہ ، کوفتے ، کباب ، تکے ، نہاری ، حلیم اور انواع و اقسام کی اچار چٹنیاں کسی بھی سیاسی کارکن کی بھوک ہڑتال کے لیے ایک چیلنج اور کسی بھی خاتونِ خانہ کی ڈائیٹنگ کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان تمام رنگ برنگ کھانوں میں ایک بات جو مشترک ہے وہ ہے مرچوں کی تیزی اور مصالحوں کی شدت! لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہندوستانی کھانے ہزاروں سال سے ذائقے میں یونہی تیز اور مرچیلے چلے آتے ہیں تو آپ کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ آسمانِ مطبخ کے یہ کواکب چند صدیوں پہلے ایسے نہیں تھے کہ جیسے اب نظر آتے ہیں۔ یوں تو ہندوستان ہمیشہ ہی سے مصالحوں کی سرزمین رہا ہے۔ زیرہ ، لونگ ، الائچی ، سونف ، دارچینی، دھنیا ، ہلدی وغیرہ پر مشتمل بارہ مصالحے ہزاروں سال سے کھانوں اور دواؤں میں استعمال ہوتے آرہے ہیں لیکن سرخ اور سبز مرچ ہندوستان میں پہلی بار سولہویں صدی کے آخر میں پرتگالیوں کے توسط سے آئی۔ اس سے پہلے ہندوستانی کھانوں میں کالی مرچ (جسے انگریزی میں
pepper اور فارسی میں فلفل کہا جاتا ہے) استعمال ہوتی تھی۔ کالی مرچ اپنی اصل میں ہندوستانی ہے اور اس کی کئی اقسام مالابار کے ساحلی علاقوں میں قرنوں سے کاشت ہوتی آرہی ہیں۔
سرخ اور سبز مرچ دراصل کیپسی کم
(capsicum) نامی پودے کا پھل ہیں اور اپنی اصل میں امریکی ہیں۔ وسطی اور جنوبی امریکا کی سرزمین میں کیپسی کم کی مختلف اقسام ہزاروں سال سے اُگائی جاتی رہی ہیں۔ مرچ کو جنوبی امریکا کی قدیم زبان میں چلی (
chili) کہا جاتا تھا۔ کولمبس کی امریکا دریافت کے بعد مرچ یورپ میں پہنچی اور پھر اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔ پرتگالی جب اسے ہندوستان لائے تو یہاں اسے پیپر یعنی کالی مرچ سے ملتے جلتے ذائقے کی بنا پر گرین پیپر اور ریڈ پیپر کا نام دے دیا گیا۔ لیکن علمِ نباتات کی رو سے کالی مرچ اور سبز/سرخ مرچ کے پودوں کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ دونوں کام و دہن کے لیے ایک ہی کام کرتے ہیں۔
مرچ کی متعدد اقسام میں سے کئی اقسام ایسی ہیں جو امریکی کھانوں کا حصہ بن چکی ہیں اور اکثر سبزی کی دکانوں میں عام طور پر دستیاب ہوتی ہیں۔ ان میں سے کئی مرچوں کی رسائی ہماری رسوئی تک بھی ہے۔ (رسوئی ہندی میں باورچی خانے کو کہتے ہیں۔ باورچی خانے کو فصیح اردو میں اب کچن کہا جاتا ہے)۔ ان مرچوں کے بارے میں ایک چٹپٹی بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی تیزی یعنی مرچیں لگانے کی صلاحیت بالکل الگ الگ درجے کی ہے۔ اسے انگریزی میں ہیٹ (
heat)کہتے ہیں۔ مرچوں کی اس "مرچائیت" کو ناپنے کا ایک طریقہ وِلبر اسکووِل نامی ایک امریکی کیمیا دان نے 1912 میں ایجاد کیا تھا اور اسے اسکووِل اسکیل (
Scoville-Scale) کہا جاتا ہے۔اس پیمانے کے تحت مرچوں کی تیزی کو اسکووِل ہیٹ یونٹ (
SHU) میں رقم کیا جاتا ہے۔ زیادہ یونٹ زیادہ تیزی اور کم یونٹ کم تیزی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اول اول تو اس تیزی کا تعین مختلف رضاکاروں کو مرچوں سے کشید کیا ہوا عرق پلا کر کیا جاتا تھا لیکن آج کل جدید سائنسی طریقہ استعمال کرتے ہوئے مرچ کے اندر موجود کیپسے سینوائڈ (
capsaicinoid) کیمیکل کی مقدار دریافت کرلی جاتی ہے ۔ یہی کیمیکل مرچ کی حدت یا تیزی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ذیل میں ان بارہ مرچوں کے نام اور ان کا اسکووِل اسکیل دیا جارہا ہے۔ ( آخر میں آپ کی ضیافتِ بصارت کے لیے ان مرچوں کی رنگارنگ بے پردہ تصاویر بھی پوسٹ کی گئی ہیں) ۔ یوں تو ان بارہ مرچوں کے بارے میں درجن بھر گرما گرم مسالے دار پیراگراف لکھے جاسکتے ہیں لیکن اختصار کی خاطر ہم محض دو چار کا ہی تذکرہ کرتے ہیں۔
ہابنیرو (
Habanero): اس مرچ کا نام کیوبا کے دارلحکومت ہوانا (
Havana) کی نسبت سے رکھا گیا جسے ہسپانوی زبان میں
La-Habanaکہتے ہیں۔ اسے کھانے کے لیے پتھر کا جگر اور اسٹیل کا معدہ چاہیے۔ اس مرچ کی رسائی ہماری رسوئی تک ابھی نہیں ہوئی ہے اور میرے جیتے جی ہو بھی نہیں سکتی۔ البتہ کبھی کبھی یہ خیال ذہن میں ضرور آتا ہے کہ جن کرم فرما دوستوں کے کچھ قرض اس جانِ ناتواں پر باقی ہیں انہیں دعوت پر بلا کر اس مرچ سے بنےگرما گرم کھانوں سے تواضع کی جائے تو شاید دل کو کچھ ٹھنڈک پہنچے۔
گھوسٹ پیپر (
Ghost -pepper) یا بھوت جھلوکیا: مرچ کی یہ قسم شمال مشرقی ہندوستان میں آسام اور ناگالینڈ کے علاقوں سے شروع ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان علاقوں کے علاوہ اگر کہیں اور کاشت کی جائے تو اس مرچ کی حدت ذرا کم ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ ہمارےدوست حاجی مقصود الہٰی کے بقول ہندوستانی مزاج کی تیزی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ایک دوست کے ہاں ضیافت میں اس کی ذرہ برابر چٹنی چکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس انگلی سے چکھی تھی اس پر دو دن تک برف لگانا پڑی۔ یہ شر انگیز شے بطنِ عزیز میں بغاوت کا کام کرتی ہے۔ محض آدھی مرچ ہی داخلی معاملات اور امورِ خارجہ کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔ میری ناقص رائے میں اس شے کو اشیائے خوردنی کے بجائے بائیلوجیکل ویپن کی فہرست میں رکھا جائے تو بہتر ہوگا۔
کیرولائنا رِیپر (
Carolina- Reaper): دنیا کی سب سے تند و تیز مرچ ہے۔ اسے ملکۂ مرچ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ یہ حرارت بھری شرارت قدرت کا تحفہ نہیں بلکہ انسانی فطانت کا فتنہ ہے۔ جنوبی کیرولائنا کے ایک کاشتکار ایڈ کری (
Ed -Currie) نے گھوسٹ پیپر اور ہابنیرو مرچ کے پودوں کی باہم پیوندکاری کے ذریعے اس مرچ کو وجود بخشا۔ (یہ صاحب مرچوں کی ایک بہت بڑی کمپنی کے مالک ہیں۔ ان کی کمپنی کے نام میں مرچوں کی خاصیت کا ایک خاص حوالہ شامل ہے جسے سن کر اہلِ ذوق کا منہ سکیڑنا لازم آتا ہے۔ مختصراً یوں سمجھ لیجیے کہ اردو محفل کی طہارت اس نام کے ترجمے اور تذکرے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔متجسس خواتین و حضرات چچا گوگل سے رجوع فرمائیں۔) یہ مرچ اسمِ با مسمیٰ ہے ۔ انگریزی میں ریپر (
reaper) محاورتاً مجسم موت کو کہتے ہیں ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس مرچ کو خود کشی کے لیے استعمال کیاجاسکتا ہے۔ اسے کاشت کرنے والی کمپنی کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ مرچ ٹرائی کرنے سے پہلے ایمبولینس بلوالی جائے تو بہتر ہے کیونکہ چند مرچیں کھانے کے بعد چند روز تک ہسپتال میں داخلہ تقریباً یقینی ہوجاتا ہے۔
جاتے جاتے اگر
تتیّا مرچ کا ذکر بھی ہوجائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ پاک و ہند میں بکثرت پائی جانے والی یہ چھوٹی سی زردی مائل مرچ تعارف کی محتاج نہیں۔ اس کی ڈنک مار مرچائیت نام ہی سے ظاہر ہے۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ اس کی تیزی اور کاٹ بیوی کے طنز سےبس ذرا ہی کم ہوتی ہے۔ چونکہ ہر شخص موصوفہ (یہاں مرچ کی طرف اشارہ ہے) کی خصوصیات سے بخوبی واقف ہے اس لیےاندیشۂ نقصِ امن کے تحت غیر ضروری تفصیلات سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ امید ہے کہ عقلمند قارئین تھوڑے لکھے کو بہت جانیں گے اور اپنے اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں خالی جگہیں پُر کر لیں گے۔ دیگر قارئین مزید معلومات کے لیے محفل پر موجود خواتین سے رابطہ فرمائیں کہ باورچی خانے کے معاملات اُن سے بہتر کون جان سکتا ہے۔