بالکل سوال اٹھانا ہر بندے کا بنیادی حق ہے تاکہ اس سے تحریر کی صحت واضح ہو لیکن سوال اٹھانے کی آڑ میں تضحیک کرنا ہمارا خود ساختہ حق ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ کچھ تبصرے بھی غصے میں لکھے گئے ہیں۔
جاوید چوہدری کی تحریر میں اگر نماز کے فضائل پر گفتگو کی گئی ہوتی تو اس پر کوئی بحث ہی نہیں تھی کہ نماز سے دل اور روح کا سکون ایمانیات کا حصہ ہے۔
تاہم جاوید چوہدری کے کالم کا بیشتر حصہ کسی سائنسی تفصیل کے بیان پر صرف ہوا ہے جس کی جزئیات پر قارئین کی طرف سے سوال اٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
کوئی بھی مصنف اور خاص طور پر ایک پیشہ ور مصنف یا صحافی اپنی تحریر اور پیش کردہ حقائق کا پوری طرح ذمہ دار ہے۔ بصورت دیگر دو مصنفین کے معیار میں فرق کرنے کا آپ کے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہے۔
ہو سکتا ہے جاوید چوہدری کے ساتھ یہ واقعہ ایسے ہی پیش آیا ہو نیز تحریر کے کردار بھی حقیقی اور سچے ہوں لیکن یہ ذمہ داری کالم نگار کی ہے کہ وہ اپنی بات اور پیش کردہ دعوی کے حق میں دیے گئے ثبوت کی تصدیق کرے اور ان کے ربط لگائے۔ آپ دنیا کے معیاری انگریزی اخبارات کی رپورٹس اور کالم پڑھ لیں جہاں تحریر کے سپورٹنگ ایوڈینس مقالات اور تحقیقاتی رپورٹس کے حوالاجات کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں۔ اردو دنیا غالبا ابھی اس کی عادی نہیں ہے۔
ورنہ اگر پیشہ ور صحافی اپنی ذمہ داری سے ماورا ہے تو آپ فیس بک پر بیٹھے ان لوگوں پر بھی تنقید نہ کر پائیں جو باتیں بلا تصدیق پیش کرتے ہیں اور آپ سے آگے شریک کرنے کو اصرار کرتے ہیں۔
معذرت کیساتھ مگر حقائق اگر زیب داستان ہوں تو کیا برا ہے ؟؟ قاری کو عزت دیجیے رعونت نہیں کہ جو اچھا ہے وہ چُن لو جو برا ہے اسے چیلنج نہ کرو ۔کالم نگار نے ایک منفی رویے کو قابو کرنے کے کچھ گُر بتائے ہیں۔ اور باقی وہی زیبِ داستاں جو کہ ان صاحب کا انداز ہے۔ تاہم اس میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ کالم میں مذکورہ شخص نے سائنسدان ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا اُس نے اپنی بارہ منٹ کی تھیوری کو پیٹینٹ کروایا ہو۔ مثبت اندازِ فکر والے لوگوں کا کام تو یہ ہے کہ تحریر میں سے کام کی بات کو گرہ سے باندھ لیا جائے اور باقی اگر آپ کو اپیل نہیں کرتا تو اُسے نظر انداز کر دیا جائے۔
غصہ پر قابو پانے کے لئے جہاں اور بہت سی ٹپس ملا کرتی ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے۔ فرض کیجے کہ اگر کوئی شخص جاوید چوہدری کی اس تحریر کو پڑھ کر اور اُس سے سیکھ کر کسی معاملے میں اپنے غصے کو قابو کر سکے اور کسی مالی یا جذباتی نقصان سے بچ سکے تو یہ ایک اچھی بات ہو گی ۔ اور بالفرض بارہ منٹ کی تھیوری غیر سائنسی بھی ہو تب بھی نتائج کے اعتبار سے وہ شخص فائدے میں ہی رہے گا۔
کاش یہ کمنٹ لکھنے سے پہلے آپ جاوید چوھدری صاحب کے دئیے گئے بارہ منٹ کے سائنسی مشورے پر عمل کر لیتے تو آپ رمضان میں اللہ کا کام ( دوسروں کو جج کرنا )اپنے ہاتھ نہ لینا پڑتا خیر خدا آپ کو معاف کرے مگر دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت بھی برا عمل ہے ۔ کوئی داڑھی یا نماز کے بارے میں کیا سوچتا ہے اس کا فیصلہ کرنا آپ کا کام نہیں کیونکہ آپ اس سے افضل نہیں آپ بھی اسی کی طرح کے ایک عام آدمی ہیں جو خود اپنے غصے پر رمضان میں روزے کی حالت میں بھی قابو نہیں رکھ سکتے اور اللہ کا کام اللہ پر چھوڑ دیجیے تیس روزے اور پانچ وقت نماز آپ کی اپنی آخرت سنوارنے کے لئے ہے آپ کو دوسروں کے ایمان کا فیصلہ کرنے کے لئے نہیں ۔ہم نے نوٹ کیا ہے کہ کچھ لوگوں کو داڑھی اور نماز کے ذکر سے اختلاجِ قلب ہونے لگتا ہے۔ خیر یہ اُن کا اپنا معاملہ ہے ۔ لیکن ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اگر اُن کو غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے بارہ منٹ ناکافی رہتے ہیں تو وہ 120 منٹ لے لیا کریں۔
معذرت کیساتھ مگر حقائق اگر زیب داستان کے ساتھ ہوں تو کیا برا ہے ؟؟
اگر آپ نے پہلے ہی یہ بات اس انداز میں کہی ہوتی تو بات اتنی بڑھتی ہی نہیں!
لیکن مسئلہ وہی مائنڈ سیٹ کا ہے کہ جہاں مُلا اور نماز روزے کا ذکر آ گیا تو لب و لہجہ ہی بدل گیا۔ ہم نے اپنے جواب میں اسی بات کا احساس دلایا ہے اور بلا اشتعال دلایا ہے۔
ہم اس بات سے متفق ہیں کہ اچھی تحریر تمام تر ممکنہ حوالہ جات کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہے لیکن عمومی اخلاقی و تربیتی تحریروں میں ہمارے ہاں بہت زیادہ عرق ریزی سے کام نہیں لیا جاتا۔ سو آپ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اتنا عرض ہے کہ اگر آپ کی نشاندہی صرف نشاندہی ہوتی تو ہمیں ہرگز اعتراض نہیں ہوتا۔
انداز بدلنے سے بات بدل جاتی ہے یہ بات معصوم بچے بھی سمجھتے ہیں۔انداز بدلنے سے بات بدل جاتی ہے ؟؟؟ آپ کے انداز بدلنے کے باوجود بھی آپ کا نماز روزے کے بارے فتویٰ غلط ہی رہا ، آپ رمضان میں رواداری اور نرمی کی بجائے جارحانہ انداز میں دوسروں کے ایمان کا فیصلہ کر رہے ہیں ۔
دلوں کے حال تو اللہ جانتا ہے آپ کب سے کسی کے دل میں اتر کر نماز روزے اور مائینڈ سیٹ کے بھید جاننے لگے ؟؟ یہ دلوں کے بھید جاننا بھی تو اسی کی خوبی ہے نا ؟
اس معاملے میں ہماری عبادت کا تو کوئی دخل ہے ہی نہیں ۔ یہ سب آپ کی اپنی سوچ کی اختراع ہے کہ ہم اپنی عبادت کے زعم میں یہ سب باتیں کہہ گئے ہیں۔ ججمینٹل رائے تو یہ بھی ہے کہ داڑھی اور جائے نماز کو تحریر میں ڈال دو تو مسلمان سب کچھ ماننے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے بارے میں تو بہت حساس ہوتے ہیں اور دوسروں کے جذبات کا خیال تک نہیں رہتا۔محترم آپ کی عبادت آپ کو ہرگز یہ حق نہیں دیتی کہ آپ دوسروں کے بارے میں غلط رائے قائم کریں اور پھر اس غلط رائے کو پبلکلی استعمال بھی کریں آپ کی ججمینٹل رائے دوسروں کو کیا تکلیف دے سکتی ہے اس کا احساس تک نہیں آپ کو ۔