بہت آداب جناب
رانا ہمایوں رشید صاحب۔
ایک زبان سے دوسری زبان میں آنے پر لفظ میں اور اس کے معانی میں ہونے والی تبدیلیوں کا مختصر ذکر ہو چکا۔ ایک بہت عام مثال دیکھئے۔
ر س ل ۔۔۔
رسالۃ گول ۃ کے ساتھ۔ اس کے دو مشہور معانی ہیں: (1) لکھا ہوا پیغام خط، حکم نامہ وغیرہ ۔۔ اور (2) وہ پیغام پہنچانے کا منصب (دونوں مؤنث)۔ جمع: رسالات (بڑی ت کے ساتھ) رسول: وہ شخص جسے وہ منصب دیا گیا ہو۔ اس میں اللہ کے رسول آ گئے۔ جمع: رُسُل
اردو میں لفظ ’’رسالت‘‘ مؤنث بن گیا اور اللہ کے رسول سے خاص ہو گیا، اور رسالہ مذکر ٹھہرا اور اس کا معنی پہلے تو خط اور مکتوب ہوا پھر ہوتے ہوتے یہ بجائے انفرادی یا شخصی پیام یا مکتوب کے ایسی تحریروں کے لئے خاص ہو گیا جس کے مخاطب عامۃ الناس ہوں یا کم از کم ایک وسیع حلقہ ہو۔(عرفِ عام میں : پرچہ، میگزین، مجلہ وغیرہ)۔ مراسلۃ یا مراسلت اصلاً ایک ہیں اور مؤنث ہیں۔ ہم نے مراسلہ مذکر بنا کر اس کو خط یا مکتوب کے معانی دیے۔ اور مراسلت کو مؤنث بنا کر اسے ’’خط و کتابت کا ایک سلسلہ‘‘ کا مفہوم دیا۔
یہاں لفظ ’’سلسلہ‘‘ آ گیا۔
سلسلہ، قبیلہ، لطیفہ، سانحہ، واقعہ، حادثہ، مشغلہ، معاملہ، وسیلہ، حملہ، فرقہ، جملہ، شمہ ۔۔۔ اصلاً یہ سب مؤنث ہیں اور اردو میں یہ سب مذکر ہیں۔
محمد اسامہ سَرسَری ،
محمد وارث ،
الف عین ،
محب علوی ،
التباس