ہمزہ
ہمزہ اردو میں مستقل حرف کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے یہ قاعدہ یاد رکھنا چاہیے اور اس بات کو نہ بھولنا چاہیے کہ ہمزہ الف کا قائم مقام ہے۔ جب دو حرفِ علت اپنی اپنی آواز الگ الگ دیں تو ان کے بیچ میں ہمزہ آسکتا ہے، نہیں، تو نہیں۔ اس لیے آؤ، جاؤ، وغیرہ میں ہمزہ لکھنا چاہیے مگر بناو سنگار، بھاو تاو، نبھاو، گھاو میں ہمزہ کی ضرورت نہیں۔ اس طرح چاے، گاے، ہاے، واے میں ہمزہ نہ چاہیے۔ یہی حال دیو، سیو کا ہے
اسی سلسلے میں اس قاعدے کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ:
"ہمزہ اسی وقت آئے گا حرفِ ماقبل پر زبر یا پیش ہو۔ اگر ما قبل مکسور ہے تو ہمزہ نہ آئے گا۔ "ي" آے گی؛ گئے، گئ مگر کیے، دیے، لیے"
ہمزہ کے لکھنے میں بہت زیادہ غلطیاں ہوتی ہیں۔ اکثر صورتوں میں اس کو غلط طور پر لفظوں میں داخل کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمزہ کے اس بیان کو غور سے پڑھنا چاہیے اور تحریر میں اس کا بہ طورِ خاص خیال رکھنا چاہیے۔
ہمزہ اور الف
(1)
عربی کے بہت سے مصدروں اور جمعوں کے آخر میں اصلاً ہمزہ ہے جیسے: ابتداء، انتہاء، علماء، شعراء وغیرہ۔ مگر اردو میں ایسے سب لفظوں میں ہمزہ تلفظ سے خارج ہو چکا ہے۔ اس لیے ایسے لفظوں کو ہمزہ کے بغیر لکھا جائے گا۔ جیسے ابتدا، انتہا، علما، شعرا، حکما، اولیا، فُضلا وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ایسے لفظ اضافت کے ساتھ آیئں گے تو ان کے آگے "ے" بڑھا دی جائے گی اور اس "ے " پر ہمزہ نہیں لکھا جائے گا جیسے: ابتداے عشق، انتہاے شوق، علماے کرام، شعراے اردو، حکماے حاذق، اولیاے ہند، املاے فارسی، انشاے اردو، اخفاے راز وغیرہ۔
اسی طرح عطف کی صورتوں میں صرف واو کا اضافہ ہوگا۔ ہمزہ یہاں بھی نہیں لکھا جائے گا۔ جیسے: ابتدا و انتہا، علما و فضلا، املا و انشا۔
(2)
لفظ کے درمیان میں جب الف مفتوح ہوگا تو اس پر صرف زبر آئے گا ہمزہ نہیں لکھا جائے گا جیسے تامّل، تاخّر، تاثّر، جرات، تاسّف، متاثّر، متاخّر، متاسّف، تاثّ۔رات۔ جتنے لفظ لکھے گئےہیں، عام طور ان کو اسی طرح لکھا جاتا ہے۔ مگر صرف ایک لفظ "جرات" کو کبھی "جرأت" بھی لکھا جاتا ہے۔ اس کو بھی " جرات" لکھنا چاہیے۔ اردو میں ہمزہ الف کا قائم مقام ہے، اس لیے دونوں ایک ساتھ نہیں آیئں گے ورنہ ایک حرف ( الف یا ہمزہ) فالتو ہوجائے گا۔
ہمزہ اور واو
(۱)
لفظ کے آخر میں اگر واو ساکن ہو تو اس پر ہمزہ کبھی نہیں آئے گا، جیسے:
پرتاو، باو (ہوا)، باو گولا، الاو، اود بلاو، بھاو، پاو (جیسے پاو سیر)، پلاو، تاو، چاو، راو (جیسے راو صاحب یا رگھونت راو)، ستھراو، ناو، کھڑاو، گاو (گائےگاے)، گھاو، واو، لمباو، چوڑاو، پچھیاو، ہواو، پتھراو، دریاو، سبھاو، تلاو۔
بعض مثالیہ جملے:
کل پچھیاو چلا تھا۔ ہم آج ناو پر بیٹھے تھے۔ ان کا گھاو بھر گیا۔ لڑکوں نے خوب پتھراو کیا۔ راو صاحب آئے تھے۔ یہ کھڑاو تو بہت بڑا ہے۔ زیادہ بھاو تاو نہ کیا کرو۔ واو پر ہمزہ نہیں لکھنا چاہیے۔
یہ خیال رہے کہ ایسے لفظوں میں "واو" تلفظ میں نصف سے بھی کم آتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ واو سے پہلے جو حرفِ علت ہوتا ہے آواز اس کے کھنچاو میں اس طرح ڈوب جاتی ہے کہ واو پر دباو بہت کم ہو جاتا ہے۔
(۲)
بہت سے حاصلِ مصدر بھی ایسے ہیں جن کے آخر میں واو آتا ہے جیسے:
دبانا سے دباو، اور چڑھانا سے چڑھاو، اور گھمانا سے گھماو۔ ان میں بھی واو ساکن ہے اور اس سے پہلے الف ہے اور یہاں بھی ہمزہ نہیں آئے گا۔ ہمزہ لکھنے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ الف اور واو کے بیچ میں ایک اور حرف (ہمزہ) بھی ہے اور حقیقت میں ایسا نہیں۔ ایسے کچھ حاصلِ مصدر یہ ہیں:
الجھاو، اٹکاو، بناو، بہاو، بچاو، بھراو، بہکاو، اتار چڑھاو، چواو، چھڑکاو، چناو، چلاو ( چل چلاو کا عالم ہے)، چھنٹاو، دباو، ڈلاو، ڈھلاو، رُکاو، کساو، کٹاو، گھٹاو، گھماو، گھماو پھراو، گھٹاو ( جوڑ گھٹاو)، گراو، گھراو، لگاو، لداو، نبھاو۔
جیسے :
یہ لداو کی چھت ہے۔ اتنا گھماو پھراو اچھا نہیں ہوتا۔ طوفان میں ٹھہراو آگیا ہے۔ ان کا جھکاو اس طرف ہے۔ کوٹ میں بھراو اچھا نہیں پڑا۔ سب نے بیچ بچاو کرادیا۔دریا چھڑاو پر ہے۔ سڑک پر خوب چھڑکاو ہوا۔ لاکھوں لگاو، ایک چرانا نگاہ کا۔ لکھوں بناو، ایک بگڑنا عتاب میں۔
آؤ، جاؤ، کھاؤ، پاؤ، لاؤ، اتراؤ، الجھاؤ، بچاؤ، چڑھاو، ٹھہراؤ، بناؤ، لگاؤ؛ یہ سب فعل ہیں۔ ان میں واو پر ہمزہ آئے گا۔ایسے افعال میں ہمزہ آئے گا مگر حاصلِ مصدر وں میں میں ہمزہ نہیں آئے گا۔ جیسے:
تم تو اپنا رنگ جماؤ؛ اس جملے میں " جماؤ" فعل ہے اور آج تو وہاں بڑا جماو ہے، اس میں "جماو" حاصل مصدر ہے ۔ اسی طرح مثلاً : مجھ کو میرے دوستو ں سے بچاؤ، اس جملے میں " بچاؤ" فعل ہے اور اپنا بچاو خود کرو۔ اس میں "بچاو" حاصل مصدر ہے۔ اس فرق پر نظر رہنا چاہیے۔
اسی طرح اس قسم کے جتنے اسمِ فاعل (اور کچھ اسمِ مفعول) ہیں ان میں بھی واو پر ہمزہ آتا ہے۔ حاصلِ مصدر اور اسم فاعل میں ایک فرق یہ بھی ہوتا ہے کہ حاصل مصدر میں واو کی آواز مجہول سی ہوتی ہے اور اسم فاعل میں واو معروف ہوتا ہے۔ جیسے:
"بناو" حاصل مصدر ہے اور اس جملے میں کہ " وہ بناؤ نہیں ، بگاڑو ہے" "بناؤ (اور بگاڑو بھی) اسم فاعل ہے۔ ایسے کچھ اسم فاعل اور اس مفعول یہ ہیں:
بناؤ، جتاؤ، کماؤ لٹاؤ، جڑاؤ، پیاؤ، ڈباؤ، ٹکاؤ، بکاؤ۔
وہ تو کماؤ پوت ہے، پانی ہاتھی ڈباؤ ہے۔ یہ بہت اچھا اور ٹکاؤ جوتا ہے۔ جڑاؤ زیور خوب صورت ہوتے ہیں۔ یہ مال بکاؤ نہیں۔ وہ تو اٹھاؤ جولھا ہیں۔ پیاؤ پر بھیڑ لگی ہوئ ہے۔ وہ تو بہت لٹاؤ ہیں، سب کچھ اڑا دیں گے۔
(۳)
کچھ اور الفاظ دیکھیے، ان میں واو سے پہلے ي ہے۔ ایسے سبھی لفظوں میں واو آخری حرف ہوتا ہے۔ اور اس سے پہلے ي ہوتی ہے۔ ہمزہ کہیں نہیں آئے گا۔ ایسے کچھ لفظ یہ ہیں:
خدیو، دیو، مہا دیو، بلدیو، جے دیو، دیوتا، دیوکی نندن، دیونی، سیو، گیو ( مشہور ایرانی پہلوان)، جنیو، نیو، میو۔
نے وہ تہمتنی تھی نہ وہ زور گیو کا منہ پھر گیا تمانچہ ضیغم سے دیو کا
ظالم شکار ہوگیا گیہاں خدیو کا کافر وہ تھا، تو ہاتھ بھی مارا جنیو کا
نکلی بغل سے تیغ عجب کرّوفر کے ساتھ اک ہاتھ تن کے ساتھ گرا، ایک سر کے ساتھ
(۴)
بوا، سوا، جوا، تھوا، پھوا، جوالا، سوارت، کواٹر، گوالا، جوار، دوار، کنوارا، پھوار، چھوارا، پوائنٹ، چوائس۔
اوپر جو لفظ لکھے ہوئے ہیں ان میں اور ان کے جیسے اور لفظوں میں بھی واو پر ہمزہ نہیں آئے گا۔
(۵)
ہوا، چھوا، موا، چوا؛ یہ چاروں فعل ہیں، ان میں واو پر ہمزہ نہیں آئے گا۔ مگر ان فعلوں کی دوسری صورتوں میں اور افعال کی طرح ہمز ہ آئے گا:
ہوا، ہوئ، ہوئے چھوا، چھوئ، چھوئے چوا، چوئ، چھوئے
موا، موئ، موئے۔
چھوانا، بوانا، چوانا؛ ان میں بھی واو پر ہمزہ نہیں آئے گا۔
سُور، کنور، پرمیشور، راجشور، کملیشور؛ کسی لفظ میں بھی واو پر ہمزہ نہیں آئے گا
(۶)
نیچے جو لفظ لکھے جارہے ہیں، ان پر بھی ہمزہ نہیں آئے گا :
باولا، باولی، باولے، بکاولی، باوٹا،
پھاوڑا، امراوتی، سناونی، گاودی، سانولا،
چھاونی، گھناونا، گھناونی، راوتی، اتاولی،
اتاولے، بچھوا، بسوا، بکھوا، ہتھوا (ہتھوے کا ساگ)
بھڑوا، بلوّا، بندھوا، بروا، بگھوا،
بچوا بٹوا، پُتوا، پَٹوا، پُروا،
پکھوا، پچھوا، پڑوا، تلُواں، تُھوا،
تُھوا، تمبکوا، ٹھلوا، ٹلوا، جُموا،
جُروا، جُوا، جڑواں، چھٹوا، چِروا،
چِکوا، چندوا، دوواننا، روانسا، ددوا،
ہوّا، کنکوّا، کوّا، سُتواں، سِروا،
کھڑوا، گھروا، گیہواں، للوا، ملوا،
مال پوا، مردوا، نکوا، نتھوا، مہوا،
کہروا، مُنوا، کھاروا، گڑوا۔
یہاں پر ایک اور قاعدے کو بھی سمجھ لیجیے؛ جن لفظوں کے آخر میں "وا" آتا ہے، جیسے:
بچھوا، کھڑوا؛ ان کی جمع اس طرح بنے گی کہ الف نکل جائے گا، اور " ووں " یا "ے" کا اضافہ کیا جائے گا. جیسے: بچھوا سے بچھووں اور بچھوے۔ محرّف صورت میں بھی "ے" کا اضافہ کیا جائے گا، جیسے:
کوّا، کوّے، کوّوں
مردوا، مردوے، مردووں
تمبکوا، تمبکوے، تمبکووں
بچھوا، بچھوے، بچھووں
بٹوا، بٹوے، بٹووں
کچھوا، کچھوے، کچھووں
چھٹوا، چھٹوے، چھٹووں
کنکوّا، کنکوّے، کنکوّوں
بھڑوا، بھڑوے، بھڑووں
کھڑو، کھڑوے، کھڑووں
"بھوں" جسے فارسی میں " ابرو" کہتے ہیں، اس کی صورت یہ ہوگی: بھوں، بھویں، بھووں جیسے: بھویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے، تن کے بھیٹے ہیں
(۷)
جن اسموں کے آخر میں واوِ معروف ہوتا ہے، جیسے: بچّھو؛ ان کی جمع اس طرح بنے گی کہ لفظ کے آگے "ؤں" (ء و ں) کا اضافہ کیا جائے گا. مثلاً:
آنسو، آنسوؤں ڈاکو، ڈاکوؤں بازو، بازوؤں
سادھو، سادھوؤں تمبو، تمبوؤں ہندو، ہندوؤں
بچھو، بچھوؤں خالو، خالوؤں، بھالو، بھالوؤں
پلّو، پلّوؤں پہلو، پہلوؤں، چاقو، چاقوؤں
کچھ اور لفظ:
جستجو، جستجوئیں، جستجوؤں آرزو، آرزوئیں، آرزوؤں
خوش بو، خوش بوئیں، خوش بوؤں گفتگو، گفتگوئیں، گفتگوؤں
بہو، بہوئیں، بہوؤں
یہ خیال رہے کہ ایسی جمعوں میں ( بازوؤں وغیرہ) پہلے واو کی آواز بہت دبی ہوئ نکلتی ہے۔
(۸)
عربی کے کچھ لفظ ایسے ہیں جن میں واو متحرک ہے (جیسے: مونّث) اور اس کی آواز اسی طرح دبی ہوئ نکلتی ہے جس طرح پٹوا، چھٹوا اور بوانا، چُوانا جیسے لفظوں میں وہ دب کر نکلتی ہے۔ ایسے لفظوں میں بھی واو پر ہمزہ نہیں لکھنا چاہیے۔ بعض لوگ عربی کی تقلید میں واو پر ہمزہ لکھا کرتے ہیں ( مؤنث) مگر اردو کے لحاظ سے یہ ٹھیک نہیں۔ اردو میں ایک آواز کے لیے دو حرفوں کو یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ ایک آواز کے لیے صرف ایئک حرف آئے گا۔ ایسے کچھ لفظ:
مورّخ، موّنث، موثّر، موافق، موافقت، مواصلت، مودّب، مواخذہ، موسّ۔۔۔س، موازنہ، موقّر، موکّد، موکّل، مولّف، مویذ، موذّن، مورّخہ۔
اسی طرح: مورّخوں، موذّٓنوں، موافقوں، موافقتوں، مواخذوں،
موازنوں، مونّثوں، موکّلوں، مولّفوں۔
(۹)
انگریزی وغیرہ کے ایسے لفظ جن میں الف اور واو یکجا ہیں، ان میں بھی واو پر ہمزہ نہیں لکھنا چاہیے، جیسے:
اناونسر، اکاونٹ، اکاونٹنٹ، پاونڈ، پاوڈر، ساوتھ، ماوزی تنگ،
چاو ان لائی، الاونس، گراونڈ، ساونڈ، کمپانڈ، ٹاون ہال، راونڈ۔
ایک بات ہمیشہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ ایک ہی آواز کے لے دو حرف علت نہیں آئیں آیئں گے۔ کوئ لفظ ہو اور کسی بھی زبان کا ہو۔ حروفِ علت کی آواز کبھی دب جاتی ہے اور کبھی کسی اور آواز میں آمیز ہو جاتی ہے؛ اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔
(۱۰)
کچھ ناموں کو کبھی صرف ہمزہ کے ساتھ لکھا جاتا ہے (عطاء اللہ) اور کبھی "ؤ" کے ساتھ جیسے؛ ذکاؤ اللہ۔ یہ عربی کی لکھاوٹ ہے کہ ہمزہ اور واو کو جمع کیا جائے ایک ہی آواز کے لیے۔ اردو میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے اردو میں ایسے سب ناموں کو صرف ہمزہ کے ساتھ لکھنا چاہیے، جیسے:
ذکاءاللہ، ثناءاللہ، علاءالدین، بہاءالدین، ثناء الحق، ضیاء اللہ، ضیاء الدین، عطاء الرحمان، بقاء اللہ۔
(۱۱)
مرکّبِ عطفی میں واو پر ہمزہ کسی بھی صورت میں نہیں آئے گا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جب پہلے لفظ کے آخر میں الف یا واو یا ي یا ہاے مختفی ہو. تو عطف کے واو پر ہمزہ لگا دیا جاتا ہے، یہ غلط ہے۔ جس طرح "دل و جان" میں واو پر ہمزہ نہیں آئے گا، اسی طرح "زندگی و موت" میں بھی واو پر ہمزہ نہیں آسکتا۔ یہ مانا ہوا قاعدہ ہے اور اس کے خلاف کبھی نہیں ہوگا۔ کچھ مثالیں:
(الف) دنیا و دیں، ابتدا و انتہا، املا و انشا، اخفا و اظہار، خدا و رسول، تمنا و حسرت، آبا و اجداد، ہوا و ہوس، شعرا و حکما، علما و فضلا، وفا و جفا، خطا و سزا، جفا و جور، آقا و غلام، ادا و ناز، فنا و بقا۔
(ب) عاشقی و خود داری، نکی و بدی، سادگی و پرکاری، بے ہنری و ہنر مندی، بندگی و خواجگی، مولوی و ملا، بے چارگی و ذلت، ترقی و تنزّل، جوانی و پیری۔
(ج) مے و نغمہ، مے و جام، نے و سرود، مے و مینا، ناے و نوش۔
(د) گفتگو و جستجو، آرزو و تمنا، خوشبو و بدبو، بازو و بغل، نشو و نما، گیسو و رخ، ہندو و مسلمان، سبو و جام، اردو و فارسی، ہلاکو و چنگیز، آپرو آبرو و منصب، جادو اعجاز، ابرو و مژگان۔
(ہ) مرثیہ و غزل، پیمانہ و صراحی، گزشتہ و آیندہ، مدرسہ و خانقاہ، پروانہ شمع، نامہ و پیام، آشیانہ و قفس، خواجہ و بندہ، جادہ و منزل، فسانہ حقیقت، نالہ و فریاد، کرشمہ و ناز، جلوہ و پردہ، نالہ زاری۔
بعض مثالیہ مصرعے:
لطفِ خرام ساقی و ذوقِ صداے چنگ
زنہار اگر تمہیں ہوسِ ناے و نوش ہے
آوازِ نے و بین و دف و چنگِ خرابات
جامِ سرشارِ مے و غنچۂ لب ریزِ بہار
ہیں ترے ابرو و مژگان و نگاہ و چشم آہ
لیا چھین ابرو و مژگان نے خاص و عام کا جوڑا
ہیں نہال آج آشنا و غیر
سادہ و پرکار تر غافل و ہشیار تر
(۱۲)
"گاو" میں واو پر ہمزہ نہیں آئے گا۔ اس کی ہندی صورت "گئو" ہے اس کو اسی طرح لکھا جائے گا، جیسے: گئو شالا، گئو دان، گئو ہتیا، گئوپُتر، گئو لوچن، گئو گھاٹ۔
ہمزہ اور ہاے مختفی
جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے، لفظ کے آخر میں ہاے مختفی ہو تو عطف کی صورت میں صرف عطف کا واو لکھا جائے گا، ہمزہ کہیں نہیں آئے گا. جیسے: گزشتہ و آیندہ، نغمہ و رقص، غنچہ و گل، پردہ و جلوہ۔ ہاے مختفی کے ساتھ ہمزہ صرف آضافت اضافت کی علامت کے طور پر آئے گا یعنی جب لفظ کے آخر میں ہاے مختفی ہوگی اور وہ لفظ مضاف یا موصوف ہوگا؛ تب اس ہاے مختفی پر ہمزہ لکھا جائے گا، جیسے:
غنچۂ نازک، پیمانۂ مے، نغمۂ بہار، پردۂ مجاز، جلوۂ حقیقت، کعبۂ مقصود، بت خانۂ سومنات، قبلۂ دیدہ و دل، مژدۂ آمدِ فصلِ بہار، مرثیۂ انیس، نظریۂ اضافت،
صدمۂ جان کاہ، شعلۂ عشق۔
قبلۂ نورِ نظر، کعبۂ اعجازِ مسیح
تیرا پیمانۂ مے ، نسخۂ ادوارِ ظہور
مژۂ دیدۂ نخچیر سے نبضِ بیمار
ہمزہ اور ي
سب سے زیادہ غلطیاں ہمزہ اور ي کے انتخاب میں ہوتی ہیں۔ یعنی ي کی جگہ ہمزہ کو لکھا جاتا ہے؛ مگر سب سے بڑی غلطی اس وقت ہوتی ہے جب ي اور ہمزہ کو جمع کردیا جاتا ہے. جیسے: "لیے" کو "لئے" یا " لیئے" لکھنا۔ لکھنے والوں کو اس سلسلے میں بہے بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ہمزہ اور ي کے قاعدوں کو لکھا جاتا ہے، ان کو اچھی طرح ذہن میں بٹھانا چاہیے۔
(1)
پیا، سیا، کیا، لیا، جیا؛ یہ فعل ہیں، ان کی مختلف صورتوں میں ہمزہ کبھی نہیں آئے گا، اس طرح:
پیا، پیے، پیو، پییں، پیے گا، پیو گے، پییں گے۔
سیا، سیے، سیو، سییں، سیے گا، سیوگے، سییں گے۔
دیا، دیے،۔
کیا، کیے۔
جیا، جیو، جیے، جییں، جیے گا، جیو گے، جییں گے۔
لیا، لیے۔
(فائدہ) "لیے" فعل ہو (جیسے: ہم نے دو قلم لیے) یا لاحقے کے طور پر آئے (جیسے: میرے لیے، ان کے لیے، تمھارےلیے) ہر صورت میں آخر میں دو ي ہوں گی ( لِ ي ے = لیے)
اس سلسلے میں ایک قاعدے کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بھی لفظ میں جب ي سے پہلے والے حرف پر زیر ہوگا، تو وہاں دو ي آیئں گی۔ پہلی ي کی جگہ ہمزہ کبھی نہیں آئے گا، جیسے: لیے ( ل ي ے)، دیے ( د ي ے) پیے ( پ ي ے) وغیرہ۔
ہمزہ صرف اس صورت میں آئے گا جب ي سے پہلے والے حرف زبر ہو یا الف یا واو ساکن ہو، جیسے: گئے، نئے، لائے، گائے، کھوئے، بوئے
(2)
کیجیے، دیجیے، لیجیے وغیرہ فعلِ امر کی تعظیمی صورتیں ہیں۔ ایسے افعال کے آخر میں دو ي ہوتی ہیں ( د ي ج ي ے)، ان میں پہلی ي کی جگہ پر ہمزہ لکھنا ( دیجئے) غلط ہوگا۔ اس کو یوں بھی دیکھیے کہ " دیجیے" کی ایک صورت "دیجیو" ہے اور اس میں پہلی ي اپنی جگہ پر برقرار ہے، آخری ي واو میں تبدیل ہو گئ ہے ( د ي ج ي ے + د ي ج ي و = دیجیو) اس سے پوری بات واضح ہو جاتی ہے کہ "دیجیے" جیسے افعال میں آخر میں دو ي ہیں۔ اس قاعدے کا پہلی ہی ذکر آچکا ہے کہ پہلے حرف پر اگر زیر ہو تو اس کے بعد لازمی ي ہوتی ہے۔ وہی صورت یہاں بھی ہے ( د ي ج ي ے۔۔ ل ي ج ي ے)۔ یہی صورت "لیے" اور "دیے" وغیرہ کی ہے۔ ایسے کچھ فعل:
کیجیے، کیجیو۔ دیجیے، دیجیو۔ پیچیے، پیچیو کھینچیے، کھینچیو
لیجیے، لیجیو بخشیے، بخشیو پڑھیے، پڑھیو لکھیے، لکھیو
دیکھیے، دیکھیو پکڑیے، پکڑیو لڑیے، لڑیو بولیے، بولیو
کھولیے، کھولیو
ایسے ہی کچھ فعل وہ ہیں جن کے آخر میں دو یاؤں سے پہلے کسی اور حرف کے بجاے، ہمزہ ہے۔ جیسے: جائیے ( ج ا ءِ ی ے) ان کو بھی اس طرح لکھا جائے گا کہ آخر میں دو ي ہوں گی۔ " دیجیے" میں تیسرا حرف ج ہے، اسی طرح جائیے میں تیسرا حرف ہمزہ ہے، آخر کے دونوں حرف اپنی جگہ محفوظ ہیں:
لائیے ( ل ا ء ي ے)، لائیو پائیے( پ ا ء ي ے)، پائیو آئیے ، آئیو کھائیے، کھائیو
اٹھائیے، اٹھائیو پڑھائیے، پڑھائیو
اس کا اصول یہ ہے کہ جن مصدروں علامتِ مصدر " نا " سے پہلے الف یا واو ہوتا ہے (جیسے: جانا اور رونا) جب ان سے بعض فعل بنتے ہیں تو ان میں " ءے " آتا ہے جیسے جائے، لائے، پائے، روئے، دھوئےکھوئے۔ ان مصدروں میں جب امرِ تعظیمی بنیں گے تو اس آخرے ي کے آگے ایک ے اور بڑھا دی جائے گی، علامت کے طور پر جیسے: لائے سے لائیے ( ل ا ءِ ي ے)، پائے سے پائیے، آئے سے آئیے، کھوئے سے کھوئیے وغیرہ۔ جن مصدروں میں : نا" سے پہلے الف یا واو کے بجائے کوئ اور حرف ہو، ان سے جب فعلِ امر بنتے ہیں تو ان کے آخر میں صرف ایک ے ہوتی ہے، جیسے: چلنا سے چلے اور بننا سے بنے اور کرنا سے کرے۔ ان سے جب تعظیمی فعل بنیں گے تو اس ے کے آگے ایک اور ے (علامت کے طور پر) بڑھائ جائے گی، جیسے: کرے سے کریے، بنے سے بنیے، سنے سے سنیے وغیرہ
بعض مثالیں:
دن ہنس کے کاٹ ڈالیے، ہمت نہ ہاریے
باتیں اِدھر کو کیجیے اُدھر آنکھ ماریے
کیا بیاں کریے کہ شرم آتی ہے عرضِ حال سے
جی چاہتا ہے کہ شیخ کی پگڑی اتاریے
دروازہ کھلنے کا نہیں گھر کو سدھاریے
بانگِ جرس کی طرح کہاں تک پکاریے
ایک مشہور مثل ہے: اپنی ران کھولیے، آپ لاجوں مریے
لکھیے اسے خط میں کہ ستم اٹھ نہیں سکتا
زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کھیے
رہیے اب ایسی چل کر جہاں کوئ نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئ نہ ہو بیماردار
چاہیے اچھوں کو، جتنا چاہیے
(3)
(الف) یہ بات پہلے لکھی جا چکی ہے کہ جن لفظوں کے آخر میں واو ساکن ہو، ان میں واو پر ہمزہ نہیں آسکتا۔ جیسے: دیو، جنیو۔ اسی طرح جن لفظوں کے آخر میں "ے" ساکن ہوتی ہے (اور اس سے پہلے واو یا الف ہوتا ہے) اس پر بھی ہمزہ نہیں آسکتا، جیسے: گاے۔ اگر اس کو "گائے" لکھا جائے تو لفظ ہی بدل جائے گا اور اب یہ :"گانا" مصدر کا ایک فعل ہوگا، جیسے: اسے کہو کہ گانا گائے۔۔۔۔۔ ایسے لفظ:
راے، گاے، ہاے، چاے، واے، براے، سواے، بجاے، سہاے، سراے، وائسراے، آبناے، اُپاے
بعض مثالیں:
ہر وقت چاے کا وقت۔ آپ کی راے کیا ہے۔ گاے کا دودھ پی لو، بابو جگدیش سہاے آئے تھے، رام سہاے آج ملے تھے۔ ان کی بجاے کون آئے گا۔ ہندوستان کا آخری وائسراے کون تھا۔ ہر وقت ہاے ہاے مت کیا کرو۔ راے بہادر نے کیا کہا تھا
ایسے لفظوں کےلکھنے میں یہ غلطی اکثر دیکھنے میں آتی ہے کہ ے پر ہمزہ کو بھی مسلط کر دیا جاتا ہے اور اس سے املا چوپٹ ہو جاتا ہے، مثلاً چاے تین حرفی لفظ ہے جس کے آخر میں ے ہے اور سے پہلے الف ہے، اگر اس کو "چائے" لکھا جائے تو یہ چار حرفی لفظ ہوجائے گا اور الف اور ے کے بیچ میں ایک اور حرف (ہمزہ) آبراجے گا، جب کہ اس کے لیے گنجایش ی نہیں ۔ تین حرفی لفظ چار حرفی بن جائے؛ اس سے لفظ بھی بگڑے گا اور املا بھی۔
(ب) اسی چرح طرح جن لفظوں کے آخر میں ے ہو اور اس سے پہلے والے حرف پر زبر ہو، جیسے: مے؛ تو ایسے لفظوں میں بھی ہمزہ کے لیے کوئ جگہ نہیں۔ ایسے لفظ:
مَے، نَے، لَے، شَے، پَے، پیاپے، درپے، بے درپے، قے، جے، ہے ہے،
طے، رَے (ایک شہر کا نام)، اجے، ابھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔