حسان خان
لائبریرین
میں امریکا میں ہوں اور عجائب کی اس سرزمین کے شہروں میں گھومتے گھومتے تھک گیا ہوں۔ یہاں کی آسماں بوس عمارتوں کو دیکھتے دیکھتے میری گردن دُکھنے لگی ہی۔ ان عمارتوں کو دیکھنے کا آرام دہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی سڑک کے کنارے کسی عمارت کے سائے میں لیٹ جائے اور ان عمارتوں کی آسماں بوسی کا نظارہ کرتا رہے۔ سچی بات یہ ہے کہ امریکا اپنے تماشائی کو حواس باختہ کر دیتا ہے۔
نیویارک اور شکاگو کو دیکھ کر مجھے دنیا کا ایک قدیم ترین مشرقی شہر یاد آیا۔ اس شہر کو مُلکوں کی ملکہ اور شہروں کی شہزادی کہا جاتا تھا اور ایسا ہی تھا۔ وہ شہر بھی عجائب کا شہر تھا۔ آسمان کے دو باشندے ہاروت اور ماروت اس شہرے کے ایک کنوئیں میں قید تھے۔ اس شہر کا نام بابل تھا۔ اس شہر میں ایک بُرج تھا۔ کہتے ہیں کہ ہفت اقلیم میں اس برج سے اونچی کوئی عمارت نہ تھی۔ وہ برج ہفت اقلیم کے سر کی کلاہ تھی۔
یونان کا مشہور مؤرخ ہیروڈوٹس جب بابل پہنچا تو اس شہرہ آفاق برج کو دیکھنے گیا۔ وہ اس برج کی بلندی کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ اس کو بابل کے بوڑھے کاہنوں نے بتایا کہ اس برج کی سب سے اوپر کی منزل میں ایک چھپرکھٹ ہے اور اس چھپرکھٹ پر دیوتاؤں کا دیوتا آرام کر رہا ہے۔
مگر امریکا میں ایسے کتنے ہی برج ہیں جن کے سامنے بابل کا برج بہت نیچا دکھائی دیتا ہے اور ان برجوں کی اوپر کی منزلوں میں دیوتاؤں کے دیوتا آرام نہیں کر رہے، گناہ گار انسان کام کر رہے ہیں۔
اس سرزمین میں آ کر میرا قد گھٹ گیا ہے۔ میں اپنے آپ کو ایک بونا، ایک بالشتیا دکھائی دیتا ہوں اور ایسا تو ہونا ہی تھا۔ ہمارے شہروں اور شہریوں نے سیکڑوں سال سے اپنا قد و قامت بڑھانے کی کوشش ہی کب کی ہے۔ ہم نے تو بلند ہونے کے بجائے پست ہونے کا ہنر دکھایا ہے۔
بابل کی سرزمین بھی دانش، دانائی اور ہنرمندانہ معجز نمائی کی سرزمین تھی اور امریکا بھی دانش، دانائی اور ہنرمندانہ معجز نمائی کی سرزمین ہے، مگر یہ کہ بابل، امریکا کا بعید ماضی تھا اور امریکا، بابل کا بعید مستقبل ہے۔
بابل کی سرزمین بھی بدی اور بدکاری کی سرزمین تھی۔ وہ بھی تاریخ کے بالاخانے کی مشہورِ زمانہ قحبہ تھی، جس کے نخرے ساری دنیا میں مشہور تھے اور امریکا بھی اس زمانے کی شہرہ آفاق فاحشہ ہے، جس کے چھل فریب نے بڑے بڑے نیک ناموں کو خراب کیا ہے اور ان کی طاقت اور توانائی کو چوس لیا ہے۔
مگر مجھے اس وقت امریکا کے جس پہلو پر زور دینا ہے، وہ اس کی دانش، دانائی اور ہنرمندانہ معجز نمائی ہے۔ یہ دانش، دانائی اور ہنرمندانہ معجز نمائی کیا ہے؟ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہے اور انہی کی وجہ سے آج یہ سرزمین ملکوں کی ملکہ اور قوموں کی مالکہ بنی ہوئی ہے۔ اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ ساری دنیا کا مرکز ہو اور سارے راستے اسی کی طرف آتے ہوں جیسے کسی زمانے میں سارے راستے بابل اور اس کے بعد روم کی طرف جاتے تھے۔
یہاں کے لوگ اس دنیا میں رہنے کا ہنر جانتے ہیں۔۔۔ انہیں زندگی گزارنے کا وہ فن آتا ہے جس میں کوئی قوم بھی ان کی برابری نہیں کر سکتی، اس لیے کہ امریکا اپنی ہی زندگی گزارنے کا فن نہیں جانتا، دوسری قوموں کی زندگی گزارنے کا حیران کن فن بھی جانتا ہے۔ اس نے اپنی زندگی کے لیے دوسروں کی زندگی دوبھر کر رکھی ہے کیونکہ اس کے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی کی طاقت ہے۔
میرے عزیز معراج اور میرے برادرِ عزیز جمال احسانی! میں بار بار ایک بات سوچتا ہوں اور اداس ہو جاتا ہوں۔ وہ بات یہ ہے کہ ہمارے حکمراں طبقے کے لوگ یہاں آتے ہی رہتے ہیں۔ وہ یہاں آ کر عیش مناتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہماری سرزمین بھی زندگی کے رنگوں اور امنگوں سے سرشار ہو۔ جس دانش نے اس سرزمین کی حوصلہ مندی کو آسمان تک پہنچا دیا ہے، ہماری سرزمین میں بھی اس دانش کو اپنایا جائے۔
مگر ہمارے حکمراں طبقے کے اتالیقوں نے تو دانش کو گمراہی ٹھہرایا ہے اور ہمارے حکمراں طبقے نے ان کے سامنے سر جھکایا ہے اور انہیں ایسا ہی کرنا بھی چاہیے تھا، اس لیے کہ ہماری سرزمین کے بے دانش رہنے ہی میں اس طبقے کی فلاح ہے۔
امریکا، مغرب کا سرغنہ ہے اور مغرب جیت گیا ہے۔ مشرق ہار گیا ہے۔ مشرق کی زبانیں، مغرب کی زبانوں سے، مشرق کی تہذیب، مغرب کی تہذیب سے اور مشرق کا ذہن، مغرب کے ذہن سے ہار گیا ہے۔
کیا ہمیں اس حقیقت کو ہمیشہ کے لیے تسلیم کر لینا چاہیے؟ کیا یہ کوئی سرنوشت ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا؟ یہ وہ بات ہے جو میں بار بار سوچتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ بھی یہ بات بار بار سوچیں۔ بار بار۔۔۔
(سسپنس ڈائجسٹ، فروری ۱۹۹۱)
نیویارک اور شکاگو کو دیکھ کر مجھے دنیا کا ایک قدیم ترین مشرقی شہر یاد آیا۔ اس شہر کو مُلکوں کی ملکہ اور شہروں کی شہزادی کہا جاتا تھا اور ایسا ہی تھا۔ وہ شہر بھی عجائب کا شہر تھا۔ آسمان کے دو باشندے ہاروت اور ماروت اس شہرے کے ایک کنوئیں میں قید تھے۔ اس شہر کا نام بابل تھا۔ اس شہر میں ایک بُرج تھا۔ کہتے ہیں کہ ہفت اقلیم میں اس برج سے اونچی کوئی عمارت نہ تھی۔ وہ برج ہفت اقلیم کے سر کی کلاہ تھی۔
یونان کا مشہور مؤرخ ہیروڈوٹس جب بابل پہنچا تو اس شہرہ آفاق برج کو دیکھنے گیا۔ وہ اس برج کی بلندی کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ اس کو بابل کے بوڑھے کاہنوں نے بتایا کہ اس برج کی سب سے اوپر کی منزل میں ایک چھپرکھٹ ہے اور اس چھپرکھٹ پر دیوتاؤں کا دیوتا آرام کر رہا ہے۔
مگر امریکا میں ایسے کتنے ہی برج ہیں جن کے سامنے بابل کا برج بہت نیچا دکھائی دیتا ہے اور ان برجوں کی اوپر کی منزلوں میں دیوتاؤں کے دیوتا آرام نہیں کر رہے، گناہ گار انسان کام کر رہے ہیں۔
اس سرزمین میں آ کر میرا قد گھٹ گیا ہے۔ میں اپنے آپ کو ایک بونا، ایک بالشتیا دکھائی دیتا ہوں اور ایسا تو ہونا ہی تھا۔ ہمارے شہروں اور شہریوں نے سیکڑوں سال سے اپنا قد و قامت بڑھانے کی کوشش ہی کب کی ہے۔ ہم نے تو بلند ہونے کے بجائے پست ہونے کا ہنر دکھایا ہے۔
بابل کی سرزمین بھی دانش، دانائی اور ہنرمندانہ معجز نمائی کی سرزمین تھی اور امریکا بھی دانش، دانائی اور ہنرمندانہ معجز نمائی کی سرزمین ہے، مگر یہ کہ بابل، امریکا کا بعید ماضی تھا اور امریکا، بابل کا بعید مستقبل ہے۔
بابل کی سرزمین بھی بدی اور بدکاری کی سرزمین تھی۔ وہ بھی تاریخ کے بالاخانے کی مشہورِ زمانہ قحبہ تھی، جس کے نخرے ساری دنیا میں مشہور تھے اور امریکا بھی اس زمانے کی شہرہ آفاق فاحشہ ہے، جس کے چھل فریب نے بڑے بڑے نیک ناموں کو خراب کیا ہے اور ان کی طاقت اور توانائی کو چوس لیا ہے۔
مگر مجھے اس وقت امریکا کے جس پہلو پر زور دینا ہے، وہ اس کی دانش، دانائی اور ہنرمندانہ معجز نمائی ہے۔ یہ دانش، دانائی اور ہنرمندانہ معجز نمائی کیا ہے؟ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہے اور انہی کی وجہ سے آج یہ سرزمین ملکوں کی ملکہ اور قوموں کی مالکہ بنی ہوئی ہے۔ اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ ساری دنیا کا مرکز ہو اور سارے راستے اسی کی طرف آتے ہوں جیسے کسی زمانے میں سارے راستے بابل اور اس کے بعد روم کی طرف جاتے تھے۔
یہاں کے لوگ اس دنیا میں رہنے کا ہنر جانتے ہیں۔۔۔ انہیں زندگی گزارنے کا وہ فن آتا ہے جس میں کوئی قوم بھی ان کی برابری نہیں کر سکتی، اس لیے کہ امریکا اپنی ہی زندگی گزارنے کا فن نہیں جانتا، دوسری قوموں کی زندگی گزارنے کا حیران کن فن بھی جانتا ہے۔ اس نے اپنی زندگی کے لیے دوسروں کی زندگی دوبھر کر رکھی ہے کیونکہ اس کے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی کی طاقت ہے۔
میرے عزیز معراج اور میرے برادرِ عزیز جمال احسانی! میں بار بار ایک بات سوچتا ہوں اور اداس ہو جاتا ہوں۔ وہ بات یہ ہے کہ ہمارے حکمراں طبقے کے لوگ یہاں آتے ہی رہتے ہیں۔ وہ یہاں آ کر عیش مناتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہماری سرزمین بھی زندگی کے رنگوں اور امنگوں سے سرشار ہو۔ جس دانش نے اس سرزمین کی حوصلہ مندی کو آسمان تک پہنچا دیا ہے، ہماری سرزمین میں بھی اس دانش کو اپنایا جائے۔
مگر ہمارے حکمراں طبقے کے اتالیقوں نے تو دانش کو گمراہی ٹھہرایا ہے اور ہمارے حکمراں طبقے نے ان کے سامنے سر جھکایا ہے اور انہیں ایسا ہی کرنا بھی چاہیے تھا، اس لیے کہ ہماری سرزمین کے بے دانش رہنے ہی میں اس طبقے کی فلاح ہے۔
امریکا، مغرب کا سرغنہ ہے اور مغرب جیت گیا ہے۔ مشرق ہار گیا ہے۔ مشرق کی زبانیں، مغرب کی زبانوں سے، مشرق کی تہذیب، مغرب کی تہذیب سے اور مشرق کا ذہن، مغرب کے ذہن سے ہار گیا ہے۔
کیا ہمیں اس حقیقت کو ہمیشہ کے لیے تسلیم کر لینا چاہیے؟ کیا یہ کوئی سرنوشت ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا؟ یہ وہ بات ہے جو میں بار بار سوچتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ بھی یہ بات بار بار سوچیں۔ بار بار۔۔۔
(سسپنس ڈائجسٹ، فروری ۱۹۹۱)