محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
بازار تو ہیں لیکن آفت کی گرانی ہے
جس شہر میں یوسف ہے وہ شہر بھی فانی ہے
جو بیت گئی دل پر آنکھوں کو سنانی ہے
مجرم کی کہانی ہے محرم کی زبانی ہے
وہ حسن کا موجد ہے جو عشق کا بانی ہے
دل اس کا نشانہ ہے درد اس کی نشانی ہے
جوبن پہ ہے یارانہ زاری میں جوانی ہے
مٹی ہے ہواؤں میں اور آگ پہ پانی ہے
دانش کی تو دانش ہی خود دشمنِ جانی ہے
آثارِ جنوں میں سے اک فلسفہ دانی ہے
سننے کی جو ہمت ہو کہنے کا جو ہو یارا
ہر زندگی افسانہ ہر شخص کہانی ہے
فطرت میں نہیں ملتے رقت کے یہ نظارے
جھیلوں میں نہیں ہوتا آنکھوں میں جو پانی ہے
الفاظ و معانی خود نامہ بر و قاصد ہیں
شعروں کی روانی بھی پیغام رسانی ہے
تو چیز سہی لیکن چیزیں ہیں زمانے میں
ہر ذات کا پرتو ہے ہر شخص کا ثانی ہے
سرمایۂِ اہلِ فن کچھ آگ ہے کچھ پانی
یا اشک فشانی ہے یا شعلہ بیانی ہے
رستہ بھی پکڑنا ہے منزل ہی سے منزل کا
منزل بھی ہمیں گویا رستے سے اٹھانی ہے
راحیلؔ ہم اہلِ دل ہانکے ہوئے ہر دم ہیں
پہلو میں قیامت ہے آنی ہے نہ جانی ہے
راحیلؔ فاروق
جس شہر میں یوسف ہے وہ شہر بھی فانی ہے
جو بیت گئی دل پر آنکھوں کو سنانی ہے
مجرم کی کہانی ہے محرم کی زبانی ہے
وہ حسن کا موجد ہے جو عشق کا بانی ہے
دل اس کا نشانہ ہے درد اس کی نشانی ہے
جوبن پہ ہے یارانہ زاری میں جوانی ہے
مٹی ہے ہواؤں میں اور آگ پہ پانی ہے
دانش کی تو دانش ہی خود دشمنِ جانی ہے
آثارِ جنوں میں سے اک فلسفہ دانی ہے
سننے کی جو ہمت ہو کہنے کا جو ہو یارا
ہر زندگی افسانہ ہر شخص کہانی ہے
فطرت میں نہیں ملتے رقت کے یہ نظارے
جھیلوں میں نہیں ہوتا آنکھوں میں جو پانی ہے
الفاظ و معانی خود نامہ بر و قاصد ہیں
شعروں کی روانی بھی پیغام رسانی ہے
تو چیز سہی لیکن چیزیں ہیں زمانے میں
ہر ذات کا پرتو ہے ہر شخص کا ثانی ہے
سرمایۂِ اہلِ فن کچھ آگ ہے کچھ پانی
یا اشک فشانی ہے یا شعلہ بیانی ہے
رستہ بھی پکڑنا ہے منزل ہی سے منزل کا
منزل بھی ہمیں گویا رستے سے اٹھانی ہے
راحیلؔ ہم اہلِ دل ہانکے ہوئے ہر دم ہیں
پہلو میں قیامت ہے آنی ہے نہ جانی ہے
راحیلؔ فاروق