غزل قاضی
محفلین
بازار
وُہی ذِمہ دارانِ نامُوسِ اُمّت ، وُہی حامیانِ حَرَم بِک چُکے ہیں
جو لَوح و قلم کی حِفاظَت کو نِکلے تھے خُود اُن کے لَوح و قلم بِک چُکے ہیں
خطِیبانِ بزمِ صَفا لُٹ گئے ہیں ، حرِیفانِ بَیتُ الصَّنم بِک چُکے ہیں
کُچھ آدرش خندہ بہ لَب مر گئے ہیں ، کُچھ افکار با چشمِ نم بِک چُکے ہیں
اُصولوں کی مظلُومیت کون دیکھے ، کِسے اِس کی جُراءت کہ اِس کربلا میں
اماموں کا خُوں دربہ در بہہ چُکا ہے ، رسُولوں کے نقشِ قدم بِک چُکے ہیں
بڑے فخر سے بیچ منڈی میں نیلام کر دی گئی عِصمَتِ حَرف و حِکمت
بڑے ناز سے چَوک میں دَست و ذہنِ امیرانِ سَیف و قلم بِک چُکے ہیں
نَجِیبانِ خود دار و حق کوش نِکلے ہیں سَطوَت کی چوکھٹ پہ سجدے کی خاطر
اَدیبانِ والا تَبار و رَئیسانِ شہرِ و سَبا و صَنم بِک چُکے ہیں
ہَر اِک نَغمہ فریاد میں ڈھل گیا ہے ، ہر آواز دارو رسن بن چُکی ہے
یہاں زندگی مکر و فن بن چُکی ہے ، خلُوص و رواج و حشم بِک چُکے ہیں
یہاں ایک آنسُو کی پروا ہے کِس کو ، یہاں مرگِ انبوہ کا جشن ہو گا
یہاں ایک رستے کےمِٹنے کا کیا غم ، ہر اک راہ کے پیچ و خم بِک چُکے ہیں
مِری ایک مسجد ہے اَب تک فروزاں سو کب تک کہ بُجھنے کو ہے شمعِ ایماں
مِرا ایک جامِ سفالِیں بچا ہے سو کیا ہے کہ سب جامِ جم بِک چُکے ہیں
( مصطفیٰ زیدی از قبائے سَاز )
وُہی ذِمہ دارانِ نامُوسِ اُمّت ، وُہی حامیانِ حَرَم بِک چُکے ہیں
جو لَوح و قلم کی حِفاظَت کو نِکلے تھے خُود اُن کے لَوح و قلم بِک چُکے ہیں
خطِیبانِ بزمِ صَفا لُٹ گئے ہیں ، حرِیفانِ بَیتُ الصَّنم بِک چُکے ہیں
کُچھ آدرش خندہ بہ لَب مر گئے ہیں ، کُچھ افکار با چشمِ نم بِک چُکے ہیں
اُصولوں کی مظلُومیت کون دیکھے ، کِسے اِس کی جُراءت کہ اِس کربلا میں
اماموں کا خُوں دربہ در بہہ چُکا ہے ، رسُولوں کے نقشِ قدم بِک چُکے ہیں
بڑے فخر سے بیچ منڈی میں نیلام کر دی گئی عِصمَتِ حَرف و حِکمت
بڑے ناز سے چَوک میں دَست و ذہنِ امیرانِ سَیف و قلم بِک چُکے ہیں
نَجِیبانِ خود دار و حق کوش نِکلے ہیں سَطوَت کی چوکھٹ پہ سجدے کی خاطر
اَدیبانِ والا تَبار و رَئیسانِ شہرِ و سَبا و صَنم بِک چُکے ہیں
ہَر اِک نَغمہ فریاد میں ڈھل گیا ہے ، ہر آواز دارو رسن بن چُکی ہے
یہاں زندگی مکر و فن بن چُکی ہے ، خلُوص و رواج و حشم بِک چُکے ہیں
یہاں ایک آنسُو کی پروا ہے کِس کو ، یہاں مرگِ انبوہ کا جشن ہو گا
یہاں ایک رستے کےمِٹنے کا کیا غم ، ہر اک راہ کے پیچ و خم بِک چُکے ہیں
مِری ایک مسجد ہے اَب تک فروزاں سو کب تک کہ بُجھنے کو ہے شمعِ ایماں
مِرا ایک جامِ سفالِیں بچا ہے سو کیا ہے کہ سب جامِ جم بِک چُکے ہیں
( مصطفیٰ زیدی از قبائے سَاز )