ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
میں اپنی کرسی پر آرام سے بیٹھا کمر ٹکائے پاؤں پھیلائے فکرِ سخن میں مصروف تھا کہ اچانک کرسی کےبرابر سے کسی کے سبکیاں لینے کی آواز آئی۔ کاغذ قلم گود میں رکھ کر میں نے ہاتھوں سے عینک درست کی۔ دیکھا تو ایک مطلع منہ بسورے کرسی کے برابر میں کھڑا سسک رہا تھا۔ کان سرخ ہورہے تھے ، گال سوجے ہوئے اور گردن پر خراشیں تھیں۔
"ہائیں ، یہ تمہیں کیا ہوا؟! ابھی کچھ دیر پہلے تو بالکل ٹھیک ٹھاک گئے تھے یہاں سے"۔ میں نے پوچھا۔ مطلع کی سبکیوں میں کچھ اضافہ ہوگیا۔
"ارے میاں بتاتے کیوں نہیں کیا ہوا تمہیں؟"
مطلع تو چپ رہا لیکن کرسی کے پیچھے سے ایک دوسرا شعر بولا۔ "نین انکل نے پٹائی کی ہے۔ کان بھی بہت زور سے کھینچے اور گلا بھی دبایا۔" یہ کہہ کر وہ شعر سامنے آیا تو دیکھا کہ اس کی حالت بھی مطلع سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتا ایک اور چھوٹا سا شعر کرسی کے پیچھے سے روتا ہوا سامنے چلا آیا۔ اس کا بھی چہرہ سرخ اور بدن خراش آلود تھا۔ ہچکیاں لے لے کر رورہا تھا۔
"ارے یہ کیا ہوا ہےتم تینوں کو۔ مطلعے کو تو نین انکل نے مارا لیکن یہ منجھلے کی دھنائی کس نے کی؟"
"نین انکل نے"۔ تینوں ہم زبان ہوکر بولے۔
"لیکن کیوں؟ کیا کیا تھا تم لوگوں نے؟"
"کچھ بھی نہیں۔ ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔"
"ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ بلاوجہ تم لوگوں پر کیوں ظلم کریں گے۔ نین انکل ہیں، نین کرنل تھوڑی ہیں۔"
"آپ نہیں جانتے انہیں۔ بہت ظالم ہیں وہ۔ ہر شعر ڈرتا ہے ان سے۔ ردیف قافیہ ایک کردیتے ہیں مار مار کے۔" منجھلا حشو و زوائد سے ناک پونچھتے ہوئے بولا۔
"یہ کیا کہہ رہے ہو۔ ابھی تین ہفتے پہلے تو وہ تم لوگوں کی اتنی تعریفیں کرکے گئے تھے۔ کہہ رہے تھے ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔"
مطلع بولا ۔"اجی وہ تو آپ کے سامنے تعریفیں کررہے تھے۔ جاتے وقت آنکھ بچا کر ہم سے کہہ رہے تھے بچّو تم لوگ ذرا اکیلے میں ملو پھر داد دیتا ہوں تم کو۔ اور جاتے جاتے زبان بھی چڑا ئی تھی۔"
"ہیں۔" میں نے ذرا حیرت سے کہا۔ "یہ کیا کہہ رہے ہو۔ ایسے ہیں کیا انکل نین؟!"
منجھلے کی ذرا ہمت بڑھی اور بولا۔ "اور نہیں تو کیا جی! غزل آپا تو ان کے سامنے گزرنے سے بھی ڈرتی ہیں۔ ہر وقت بس دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔۔۔ تشریح کردوں گا ، تشرٰیح کردوں گا۔"
اس پر چھوٹا بولا۔ "اور ابھی کچھ دن پہلے نا ایک مصرعے کو ڈانٹ ڈانٹ کر کہہ رہے تھے۔۔۔ "
"کیا کہہ رہے تھے؟" میں نے حیرت سے پوچھا۔
"کہہ رہے تھے میرے متّھے مت لگو ورنہ وزن برابر کردوں گا۔" چھوٹو نے سکتہ نگلتے ہوئے کہا ۔"اور نا پچھلے سال احمد انکل کی چھوٹی سی معصوم نظم کی ٹانگ بھی توڑدی تھی انہوں نے۔"
"اچھا ، اچھا۔ اگر تمہیں یہ سب باتیں معلوم تھیں تو ان کی طرف گئے کیوں؟"
میرا سوال سن کر تینوں کے تینوں نظریں جھکا کر چپ ہوگئے۔ ذرا گھبرائے گھبرائے پُر تعقید سے لگے۔
"تم بتاؤ کیا ہوا تھا؟" میں نے چھوٹے سے ذرا سختی سے پوچھا۔ وہ پھر چپ رہے۔
"وہ ۔۔۔ وہ ۔۔ اصل میں ۔۔۔" چھوٹا ہکلایا ۔
"بتاتے ہو یا کروں تقطیع؟" میں نے سختی سے گھورا تو بولا۔ "وہ جی ہم ان کے احاطۂ خیال میں کود گئے تھے۔"
"احاطۂ خیال میں کود گئے تھے؟! کیوں کود گئے تھے؟"
"نارنگیاں توڑنے کے لئے۔" منجھلا اپنی ردیف سہلاتے ہوئے ڈرتے ڈرتے بولا ۔
میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ "نارنگیاں؟ نارنگیاں؟! نین انکل کا ذہن ہے یا کمپنی باغ؟ تم سے کس نے کہا کہ وہاں نارنگیاں ہیں۔"
مطلع بولا۔ " جاسمن آپا کی رباعی نے بتایا تھا۔"
اب مجھے بات سمجھ میں آئی۔ "ہائیں! ابے نالائقو! نارنگیاں نہیں اس میں نیرنگیاں ہیں۔"
"نے۔۔رنگ۔۔گیاں۔۔" میں نے زور دے دے کر کہا۔
وہ تینوں کچھ خفیف سے ہوگئے۔ مطلع بولا۔"املا کی غلطی ہوگئی۔ معاف کردیجیے۔ آئندہ وہاں نہیں جائیں گے۔"
اس سے پہلے کہ میں انہیں مزید ڈانٹتا ڈپٹتا میری آنکھ کھل گئی۔ دور باورچی خانے سے بیگم کی آواز آرہی تھی۔ "یہ بھی خوب ہے۔ جب چاہے جہاں چاہے سوگئے۔ ذرا لیٹے نہیں کہ آنکھ لگ گئی۔ اٹھیے ! جائیے ذرا بازار سے کچھ نارنگیاں لادیجیے۔ فروٹ کیک بنانا ہے۔"
"ہائیں ، یہ تمہیں کیا ہوا؟! ابھی کچھ دیر پہلے تو بالکل ٹھیک ٹھاک گئے تھے یہاں سے"۔ میں نے پوچھا۔ مطلع کی سبکیوں میں کچھ اضافہ ہوگیا۔
"ارے میاں بتاتے کیوں نہیں کیا ہوا تمہیں؟"
مطلع تو چپ رہا لیکن کرسی کے پیچھے سے ایک دوسرا شعر بولا۔ "نین انکل نے پٹائی کی ہے۔ کان بھی بہت زور سے کھینچے اور گلا بھی دبایا۔" یہ کہہ کر وہ شعر سامنے آیا تو دیکھا کہ اس کی حالت بھی مطلع سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتا ایک اور چھوٹا سا شعر کرسی کے پیچھے سے روتا ہوا سامنے چلا آیا۔ اس کا بھی چہرہ سرخ اور بدن خراش آلود تھا۔ ہچکیاں لے لے کر رورہا تھا۔
"ارے یہ کیا ہوا ہےتم تینوں کو۔ مطلعے کو تو نین انکل نے مارا لیکن یہ منجھلے کی دھنائی کس نے کی؟"
"نین انکل نے"۔ تینوں ہم زبان ہوکر بولے۔
"لیکن کیوں؟ کیا کیا تھا تم لوگوں نے؟"
"کچھ بھی نہیں۔ ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔"
"ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ بلاوجہ تم لوگوں پر کیوں ظلم کریں گے۔ نین انکل ہیں، نین کرنل تھوڑی ہیں۔"
"آپ نہیں جانتے انہیں۔ بہت ظالم ہیں وہ۔ ہر شعر ڈرتا ہے ان سے۔ ردیف قافیہ ایک کردیتے ہیں مار مار کے۔" منجھلا حشو و زوائد سے ناک پونچھتے ہوئے بولا۔
"یہ کیا کہہ رہے ہو۔ ابھی تین ہفتے پہلے تو وہ تم لوگوں کی اتنی تعریفیں کرکے گئے تھے۔ کہہ رہے تھے ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔"
مطلع بولا ۔"اجی وہ تو آپ کے سامنے تعریفیں کررہے تھے۔ جاتے وقت آنکھ بچا کر ہم سے کہہ رہے تھے بچّو تم لوگ ذرا اکیلے میں ملو پھر داد دیتا ہوں تم کو۔ اور جاتے جاتے زبان بھی چڑا ئی تھی۔"
"ہیں۔" میں نے ذرا حیرت سے کہا۔ "یہ کیا کہہ رہے ہو۔ ایسے ہیں کیا انکل نین؟!"
منجھلے کی ذرا ہمت بڑھی اور بولا۔ "اور نہیں تو کیا جی! غزل آپا تو ان کے سامنے گزرنے سے بھی ڈرتی ہیں۔ ہر وقت بس دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔۔۔ تشریح کردوں گا ، تشرٰیح کردوں گا۔"
اس پر چھوٹا بولا۔ "اور ابھی کچھ دن پہلے نا ایک مصرعے کو ڈانٹ ڈانٹ کر کہہ رہے تھے۔۔۔ "
"کیا کہہ رہے تھے؟" میں نے حیرت سے پوچھا۔
"کہہ رہے تھے میرے متّھے مت لگو ورنہ وزن برابر کردوں گا۔" چھوٹو نے سکتہ نگلتے ہوئے کہا ۔"اور نا پچھلے سال احمد انکل کی چھوٹی سی معصوم نظم کی ٹانگ بھی توڑدی تھی انہوں نے۔"
"اچھا ، اچھا۔ اگر تمہیں یہ سب باتیں معلوم تھیں تو ان کی طرف گئے کیوں؟"
میرا سوال سن کر تینوں کے تینوں نظریں جھکا کر چپ ہوگئے۔ ذرا گھبرائے گھبرائے پُر تعقید سے لگے۔
"تم بتاؤ کیا ہوا تھا؟" میں نے چھوٹے سے ذرا سختی سے پوچھا۔ وہ پھر چپ رہے۔
"وہ ۔۔۔ وہ ۔۔ اصل میں ۔۔۔" چھوٹا ہکلایا ۔
"بتاتے ہو یا کروں تقطیع؟" میں نے سختی سے گھورا تو بولا۔ "وہ جی ہم ان کے احاطۂ خیال میں کود گئے تھے۔"
"احاطۂ خیال میں کود گئے تھے؟! کیوں کود گئے تھے؟"
"نارنگیاں توڑنے کے لئے۔" منجھلا اپنی ردیف سہلاتے ہوئے ڈرتے ڈرتے بولا ۔
میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ "نارنگیاں؟ نارنگیاں؟! نین انکل کا ذہن ہے یا کمپنی باغ؟ تم سے کس نے کہا کہ وہاں نارنگیاں ہیں۔"
مطلع بولا۔ " جاسمن آپا کی رباعی نے بتایا تھا۔"
اب مجھے بات سمجھ میں آئی۔ "ہائیں! ابے نالائقو! نارنگیاں نہیں اس میں نیرنگیاں ہیں۔"
"نے۔۔رنگ۔۔گیاں۔۔" میں نے زور دے دے کر کہا۔
وہ تینوں کچھ خفیف سے ہوگئے۔ مطلع بولا۔"املا کی غلطی ہوگئی۔ معاف کردیجیے۔ آئندہ وہاں نہیں جائیں گے۔"
اس سے پہلے کہ میں انہیں مزید ڈانٹتا ڈپٹتا میری آنکھ کھل گئی۔ دور باورچی خانے سے بیگم کی آواز آرہی تھی۔ "یہ بھی خوب ہے۔ جب چاہے جہاں چاہے سوگئے۔ ذرا لیٹے نہیں کہ آنکھ لگ گئی۔ اٹھیے ! جائیے ذرا بازار سے کچھ نارنگیاں لادیجیے۔ فروٹ کیک بنانا ہے۔"
آخری تدوین: