باعزت اسلامی قتل، پتھر مار مار کر انسانوں کا شکار

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
شکریہ بھیا،۔
اگر نہیں مانتے تو نہ مانیں ۔۔ قرآن سے بھی ثابت کیا ہے ۔۔ موصوف اب کیا قرآن کو بھی جھٹلائیں گے۔
جناب آپ نے قرآن کی آیت سے سو کوڑے مارنے کر سزا فراہم کی۔ بہت شکریہ۔ لیکن سوال یہاں ہے عوامی سنگساری کرکے ہلاک کرنے ک نہ کہ سو کوڑے مارنے کا۔

سو کوڑے مارنے میں اور سنگساری کرکے ہلاک کرنے میں‌ بہت بڑا فرق ہے، امید ہے آپ پر اس سوال کی نوعیت اب واضح ہوگئی ہوگی۔ لہذا سنگساری کرکے ہلاک کردینے والی آیت عنایت فرمادیجئے یا پھر ایس سنت رسول جہاں رسول اکرم نے خود سنگساری کی ہے اور ہلاک ہوجانے تک موجود رہے ہوں۔ وہ سنت رسول فراہم کردیجئے۔

والسلام
 

مغزل

محفلین
سرکار ۔۔ معافی چاہتا ہوں ۔۔ میرے خیال میں آپ مراسلات پڑھنا گوارا نہیں‌کرتے۔
یہ مراسلہ دیکھئے ۔۔ کوڑوں اور رجم /سنگساری کی سزا کے حوالے موجود ہیں۔

مزید یہ کہ یہ مراسلات بھی آپ نے نہیں پڑھے،۔

۱۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک مسلمان حاضر ہوا اور اس نے با آواز بلند کہا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں زنا کر بیٹھا ہوں مجھے پاک کردیجیے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس کی طرف سے منہ پھیرلیا۔ وہ شخص پھر سامنے آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زنا کا جرم سرزد ہوگیا ہے۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا یہاں تک کہ چار بار ایسا ہی ہوا۔ جب اس نے چار بار زنا کا اعتراف کرلیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے اسے قریب بلا کر دریافت کیا۔ کیا تم دیوانے (پاگل) ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ پھر حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا ہاں۔ یہ سن کر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو حکم دیا کہ اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔(شرح صحیح مسلم از مولانا غلام رسول سعیدی جلد رابع، کتاب الحدود صفحہ ۷۶۸)

ب) حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک اسلمی حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور زنا کا مرتکب ہوگیا ہوں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم (مجھ پر زنا کی حد جاری کرکے) مجھے پاک کردیجیے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک کو واپس کردیا۔ دوسرے روز دوبارہ حضرت ماعز حاضر خدمت ہوئے اور پھر عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں زنا کر بیٹھا ہوں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس کو واپس کردیا۔ اور اس کی قوم کی طرف پیغام بھیجا کہ کیا تم ماعز کی عقل میں کچھ فتور پاتے ہو؟ کیا تم اس کی کوئی بات بدلی ہوئی دیکھتے ہو؟ اہل قوم نے جواب میں عرض کیا، بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ ایک کامل عقل والے انسان ہیں۔

اس کے بعد حضرت ماعز بن مالک پھر تیسرے دن حاضر ہوئے۔ رسول اللہ نے پھر ان کی قوم کی طرف پیغام بھیجا اور ان کے متعلق لوگوں سے دریافت کیا۔ اہل قوم نے پھر یہی کہا کہ اس میں کوئی کمی نہیں ہے اور نہ اس کی عقل میں کوئی فتور ہے۔

جب وہ چوتھے روز آئے تو اس کے لیے گڑھا کھودا گیا۔ اور اس کے بعد حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ رجم (سنگسار ) کردیے گئے۔ سنن ابن ماجہ اور ترمذی میں مزید یہ بیان ہے کہ جب حضرت ماعز بن مالک کو سنگسار کیا جارہا تھا تو وہ پتھروں کی تکلیف سے بھاگنے لگے اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے مار ڈالا۔ جب حضور صلّی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا؟“ یا یوں فرمایا ”تم نے اسے کو چھوڑ کیوں نہ دیا، ہوسکتا ہے وہ توبہ کرلیتا اور اللہ کریم جل شانہ اس کی توبہ کو قبول کرلیتا۔“ (مشکوٰۃ، کتاب الحدود)

(ج) حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک غامدیہ عورت حاضر خدمت ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں نے زنا کیا ہے، مجھے پاک کردیجیے۔ رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس کو واپس کردیا۔ دوسرے دن وہ پھر آئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے کیوں واپس کرتے ہیں؟ شاید آپ مجھے ایسے ہی لوٹا رہے ہیں جیسے آپ نے ماعز بن مالک اسلمی کو واپس کردیا تھا۔ اللہ کی قسم میں تو زنا کے نتیجہ میں حاملہ ہوچکی ہوں۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو اپنے بیان سے رجوع نہیں کرتی تو بہرحال ابھی نہیں، اب چلی جا یہاں تک کہ بچہ پیدا ہوجائے۔ راوئ حدیث کہتے ہیں کہ جب اس کا بچہ پیدا ہوگیا تو ایک کپڑے میں بچہ کو لپیٹے ہوئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پھر حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں بچہ پیدا ہوگیا ہے۔

آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ابھی نہیں جا اور اس کو دودھ پلا یہاں تک کہ تو اس کا دودھ چھڑالے۔ چنانچہ وہ پھر بچہ کو لے کر حاضر خدمت ہوئی اس حال میں کہ اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا بھی تھا۔ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم میں اس کا دودھ چھڑا چکی ہوں اور اب یہ روٹی بھی کھانے لگا ہے۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ مسلمانوں میں سے ایک شخص کو (پرورش کرنے کے لیے) دے دیا۔ پھر اس عورت کے متعلق حکم دیا۔ اس کے لیے اس کے سینے تک گڑھا کھودا گیا۔ اس کے بعد رجم (سنگساری) کا حکم دیا تو لوگوں نے سنگسار کرنا شروع کردیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی ایک پتھر لے کر سامنے آئے اور اس کے سر پر مارا۔ اس سے ان کے چہرے پر خون کے چھینٹے گرگئے۔ انہوں نے عورت کو برا بھلا کہا۔ جب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا خالد ٹھہرو (اسے سخت سست نہ کہو) اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، اس عورت نے بلاشبہ ایسی توبہ کی ہے کہ اگر کوئی (ظلماً) ٹیکس والا بھی ایسی توبہ کرے تو اس کی مغفرت ہوجائے گی۔

اس کے بعد حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی تیاری کا حکم دیا اور نماز جنازہ ادا فرمائی اور اسے دفن کردیا گیا۔ (مشکوٰۃ، کتاب الحدود)



فاروق صاحب۔۔ آفرین ہے آپ پر۔
سرکار نے سنگساری کا حکم دیا۔۔ اسناد موجود ۔۔ اور آپ فرماتے ہیں ۔ سنت سے ثابت کرو
بھئ۔۔ سنت اور کیا ہوتی ہے۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟ اللہ نے کہا (بےشک) جو یہ رسول تمہیں دیں لے لو اور
جس سے باز رکھیں ۔۔ باز رہو۔۔
آپ اپنے ذہن شریف کو ذرا استعمال تو کیجئے۔
یا آپ کا مقصد محض ۔۔ ٹھٹھول ہے ۔

خیر اندیش
م۔م۔مغل
 

وجی

لائبریرین
بھائی م م مغل کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی بات منوانے کے لیئے کئی مستند احادیث کا انکار کرتے ہی‫ں لیکن باربار قرآن و سنت کی دلائل دینے کی باتیں کرتے ہیں میرے خیال میں ایسے لوگوں کو انکے حال پر چھوڑ دینا چاہیے
 
یہ سن کر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو حکم دیا کہ اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔
پھر سے پڑھئے۔ کسی بھی روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی عمل سنگساری کے بارے میں نہیں‌ ہے۔ رسول اللہ نے حکم دینے کی بابت لکھا ہے اور لوگوں نے یہ عمل کیا۔ آخری روایت میں بھی رسول اکرم پتھر نہیں مار رہے ہیں۔ جی؟ مزید یہ کہ جب قانون رجم، قرآن میں موجود ہی نہیں‌تو یہ رسول اکرم کو چلتا پھرتا قرآن (صلعم) ہیں کس طور ایک غیر قرآنی عمل سر انجام دے رہے ہیں؟۔ صاحب صاف صاف 4:48 اور 49 کی خلاف ورزی ہورہی ہے اس روایت میں کہ جہاں حکم الہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کہ فیصلہ قرآن سے کرو۔ تو یہ کس آیت کی پیروی ہو رہی ہے؟ ضوء القرآن سے ثابت ہونے والا اصول کیا ہم ختم کردیں؟ اگر کسی کتاب میں لکھا ہے تو بھائی ٹھیک، لیکن کیا تقلید بھی اندھی ہوگی یا خواہشات کی پیروی میں؟ کہاں کوڑے اور کہاں‌موت؟ کیا مشکواۃ‌ شریف بھی صد فی صد صحیح روایات پر مشتمل ہے؟

آپ نے حوالہ تو فراہم کردیا، باقی سوال کے جوابات بھی دے دیجئے جو ساتھ ہی کئے تھے۔
 

وجی

لائبریرین
مجھے یہ بتا دیں کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو کوڑے مارے ہیں ؟؟
 
اللہ تعالی کا حکم ہے کوڑے مارنے کا لیکن رجم کرنے کا نہیں۔ آپ دیکھئے کہ رجم یعنی سنگساری کس قدر استعمال ہوئی ہے سابقہ کتابوں میں اور قران میں‌ بھی تو ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے بھولے سے کوڑے لگانے کی سزا دے دی ہو۔ یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور یہاں‌بھی ہوسکتا تھا۔ اگر یہ قانون قرآن میں‌موجود ہوتا تو پھر کوئی سوال ہی نہیں‌تھا۔
http://www.openburhan.net/ob.php?root=رجم

کوڑے لگانے کے بارے میں اس لئے نہیں پوچھا کہ یہ واضح حکم ہے۔ جبکہ رجم کرنے کا قانون قرآن میں نہیں ہے۔
آپ دیکھئے کہ قران نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ قرآن سابقہ کتب کی توثیق کرتا ہے۔ جو کچھ الہامی اور الوہی ہے وہ قران نے مظبوط قرآر دے دیا۔ جو کچھ الہامی اور الوہی ان کتب میں نہیں‌ہے وہ قرآن نے اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔ میں ضد نہیں‌کررہا آپ سے استدعا کررہا ہوں کہ اس بہت ہی صاف نکتے پر غور کیجئے۔ رسول اکرم کی سنت (اعمالی) رجم کی غیر موجودگی کی وجہ تلاش کیجئے۔ کوڑے اور جان لینے میں‌بہت فرق ہے۔ کیا ہم اللہ تعالی سے زیادہ حکیم ہیں کہ کوڑے لگانے کی جگہ جان لے لیں اور وہ بھی سنگساری کرکے۔

اگر قرآن سے سنگساری ثابت نہیں اور رحمت للعالمین سے عمل سنگساری ثابت نہیں تو یہ ہم سب کے لئے غور کرنے کا مقام ہے کہ یہ توراۃ‌ کی سزا اسلام میں کیسے در کر آئی۔

گوگل کی ایک سرچ ایسے بہت سے لنک دیتی ہے جو یہ بتاتے ہیں کہ سنگساری کرکے ہلاک کرنا توراۃ‌ میں‌تو ملتا ہے لیکن قران میں نہیں اور اعمالی سنت میں‌بھی نہیں۔ ، دیکھئے
http://quranbible.wordpress.com/2007/05/11/old-testament-stoning-verses/
کیا ہم عیسائی ہیں یا یہودی ہیں کہ وہ سزائیں چن رہے ہیں جو غیر قرانی اور غیر از سنت رسول ہیں؟ آپ تھوڑی تکلیف کیجئے اور اوپن برہان پر لفظ زنا سرچ کیجئے۔ پھر اس لفظ کی روٹ کو کلک کیجئے اور وہ تمام آیات دیکھئے جو زنا کی سزاؤں کے بارے میں ہیں۔ اور پھر سوچ کر بتائیے کہ رسول اکرم کے پاس وہ کیا وجہ تھی کہ انہوں نے اللہ تعالی کے حکم میں‌ایک بڑھی تبدیلی کی؟

آپ درج ذیل آیت دیکھئے۔ بدکار مرد و عورت کے آپس میں شادی یا نکاح کرنے کے بارے میں اللہ کا حکم۔ اگر ان کی سزا موت ہے ، سو کوڑے نہیں تو پھر اس آئت کی کوئی ضرورت ہی نہیں‌رہ جاتی۔
[AYAH]24:3[/AYAH][ARABIC] الزَّانِي لَا يَنكِحُ إلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [/ARABIC]
Tahir ul Qadri بدکار مرد سوائے بدکار عورت یا مشرک عورت کے (کسی پاکیزہ عورت سے) نکاح (کرنا پسند) نہیں کرتا اور بدکار عورت (بھی) سوائے بدکار مرد یا مشرک کے (کسی صالح شخص سے) نکاح (کرنا پسند) نہیں کرتی، اور یہ (فعلِ زنا) مسلمانوں پر حرام کر دیا گیا ہے



یہ لوگ کیوں رسول اکرم کو ایک ظالم اور قرآن پر عمل نہ کرنے والا رسول قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں؟ میں یہ بحث یہاں‌ختم کرتا ہوں۔ یہ علم اب آپ پر حاصل کرنا فرض ہے کہ رسول اکرم قرآن سے باہر کیونکر جاسکتے ہیں؟
 

وجی

لائبریرین
فاروق صاحب میرا سوال ابھی بھی وہی ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو کوڑے مارے اگر نہیں تو بھی کیوں نہیں ؟؟
اگر احادیث میں سنگسار کا ذکر ہے تو مجھے یہ بتا ئیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا کیوں نہیں ؟؟

فاروق صاحب قرآن میں تو نماز کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے پھر نماز کیسے اور کیوں پڑھیں نماز قائم کرنے کا طریقہ کہا درج ہے ؟؟

غور کریں کہ اگر قرآن سے ہی ساری چیزیں ملنا ہوتیں تو بھائی اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں بھیجا ہمیں اسلام پر عمل کرنے کے لئے سنت و احادیث کی ضرورت بھی ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں ایک اہم بات پوچھی تھی کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا دین پہنچا دیا ؟؟
 
قرآن ہدایت ہے اور نبی اکرم اس پر عمل کرنےوالے اور اس طرح اپنی سنت کو قائم کرنے والے۔ اس قرآن کے حساب سے، اسی کے اصولوں سے، ان کا یہ اعجاز کچھ کم نہیں بھائی۔ جناب رسول اکرم نے ہمیشہ قرآن کے مطابق عمل کیا - قانون اور اصول دینے والا اللہ تعالی ہے۔ اس کو پہنچانے والے ہمارے پیارے رسول اکرم۔ یہ توقع کرنا کہ رسول اکرم قرآن کے احکامات کی خلاف ورزی کریں گے اور اس میں اپنے مرضی کی ترمیم کرتے رہیں‌گے ، رسول اکرم کو مطلق العنان قرار دینا ہے اور یہ ثابت کرنا ہے کہ قرآن ان کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا، یہ سراسر توہین رسالت ہے۔

کیوں آپ ایسی باتیں‌رسول اکرم سے منسوب کرتے ہیں جو ضوء القرآن میں‌پوری نہیں اترتی ہیں؟

سابقہ کتب کے قوانین کے بارے میں ان آیات کو بغور دیکھئے۔ اس قدر سخت حکم کے باوجود کہ رسول اکرم نے اس کے علاوہ جو ان پر اتارا گیا ہے فیصلہ نہیں‌کرنا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اکرم نے اس حکم الہی کو نظر انداز کرکے انجیل کے قانون پر عمل کیا؟

[ayah]5:43[/ayah] اور کس طرح حکم بنائیں گے یہ تم کو حالانکہ اُن کے پاس تو رات ہے جس میں (لکھا) ہے اللہ کا حُکم پھر بھی مُنہ موڑلیتے ہیں یہ (اس سے) اس کے بعد بھی۔ (اصل بات یہ ہے کہ) نہیں ہیں یہ ایمان والے۔
[ayah]5:44[/ayah] بے شک ہم نے نازل کی تورات جس میں ہے ہدایت اور روشنی فیصلہ کرتے تھے اسی کے مطابق انبیا جو فرمانبردار تھے (اللہ کے)، ان لوگوں (کے معاملات) کا جو یہودی کہلائے اور (فیصلہ کرتے ہیں) درویش اور علما بھی (اسی کے مطابق) کیونکہ وہ محافظ ٹھہرائے گئے تھے کتاب اللہ کے اور تھے وہ اس پر گواہ سو تم مت ڈرو لوگوں سے اور مجھ ہی سے ڈرو اور نہ بیچو میری آیات کو حقیر معاوضہ پر۔ اور جو لوگ فیصلہ نہ کریں ان احکام کے مطابق جو نازل کیے ہیں اللہ نے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔
[ayah]5:45[/ayah] اور لکھ دیا تھا ہم نے اُن کے لیے تورات میں (یہ حکم) کہ جان کا بدلہ جان ہے اور آنکھ کا بدلہ آنکھ، ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت ہے اور زخموں کا بدلہ ویسا ہی زخم ہے پھر جو شخص معاف کردے تو وہ کفّارہ ہے اس (کے گناہوں) کا۔ اور جو لوگ فیصلہ نہ کریں اس (قانون) کے مطابق جو نازل کیا ہے اللہ نے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔
[ayah]5:46[/ayah] اور بھیجا ہم نے ان نبیوں کے نقوشِ قدم پر عیسیٰ ابن مریم کو تصدیق کرنے والا بنا کر اس حصّہ کا جو موجُود تھا اس سے پہلے تورات میں سے اور عطا کی ہم نے اس کو انجیل جس میں ہدایت اور روشنی ہے اور تصدیق کرتی ہے اس حصّہ کتاب کی جو موجود تھا تورات میں سے اور ہدایت اور نصیحت پرہیز گاروں کے لیے۔
[ayah]5:47[/ayah] اور چاہیے کہ فیصلے کریں اہلِ انجیل اس قانون کے مطابق جو نازل کیا اللہ نے اس میں اور جو نہیں فیصلہ کرتے اس کے مطابق جو نازل کیا اللہ نے تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں۔

[ayah]5:48[/ayah] پھر نازل کی ہم نے تم پر (اے نبی) یہ کتاب حق کے ساتھ جو تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو موجود ہے اس سے پہلے الکتاب میں سے اور نگہبان ہے اس کی سو فیصلے کرو تم اُن کے درمیان اس کے مطابق جو نازل کیا اللہ نے اور مت پیروی کرو اُن کی خواہشات کی، (منہ موڑ کر) اس سے جو آگیا ہے تمہارے پاس حق۔ ہر ایک کے لیے تم میں سے مقّرر کی ہے ہم نے شریعت اور راستہ اور اگر چاہتا اللہ تو بنادیتا تم کو ایک ہی اُمّت لیکن (یہ اس لیے کیا) کہ آزمائے تم کو ان احکام کے بارے میں جو اس نے تم کو دیے ہیں سو تم سبقت لے جاؤ نیکیوں میں۔ اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے تم سب کو پھر آگاہ کرے گا وہ تم کو اِن اُمور سے جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔
[ayah]5:49[/ayah] اور (حُکم دیتے ہیں ہم تم کو) کہ فیصلہ کیا کرو اُن کے معاملات کا اس کے مطابق جو نازل کیا ہے اللہ نے اور نہ پیروی کرنا اُن کی خواہشات کی اور محتاط رہنا کہ مبادا یہ لوگ تم کو فتنے میں مبتلا کردیں (اور منحرف کردیں) کسی ایسے حُکم سے جو نازل کیا ہے اللہ نے تم پر۔ پھر اگر وہ منہ موڑ جائیں تو جان لو کہ چاہتا ہے اللہ کہ مُبتلائے مصیبت کرے اُن کو پاداش میں ان کے بعض گناہوں کی۔ اور بے شک انسانوں میں سے اکثر نافرمان ہیں۔
[ayah]5:50[/ayah] تو کیا پھر یہ لوگ زمانہء جاہلیّت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ کون بہتر ہے اللہ سے فیصلہ کرنے والا اُن لوگوں کے نزدیک جو اس پر یقین رکھتے ہیں۔
[ayah]5:51[/ayah] اے ایمان والو! نہ بناؤ یہود و نصاریٰ کو دوست۔ وہ باہم دوست ہیں ایک دوسرے کے اور جو کوئی دوستی کرے گا اُن سے، تم میں سے تو وہ انہی میں سے ہے۔ بے شک اللہ نہیں ہدایت دیتا ظالم لوگوں کو۔
[ayah]5:52[/ayah] اسی لیے دیکھتے ہو تم ان کو جن کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے کہ وہ دوڑ کر گھستے ہیں ان میں کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں نہ آجائے ہم پر گردش ز مانہ سو قریب ہے کہ اللہ ہمکنار کردے (تمہیں) فتح سے یا کوئی اور صُورت (غلبے کی پیدا کردے) اپنی جناب سے اور ہو جائیں وہ۔ اس پر جو چُھپارکھا تھا انہوں نے اپنے دلوں میں، پشیمان۔
[ayah]5:53[/ayah] اور کہیں (اس وقت) اہلِ ایمان کہ کیا یہی ہیں وہ لوگ جو قسمیں کھاتے تھے اللہ کی، پکّی قسمیں کہ بے شک ہم تمہارے ساتھ ہیں، برباد ہوگئے اُن کے اعمال اور ہوگئے وہ خسارہ اٹھانے والے۔
[ayah]5:54[/ayah] اے ایمان والو! جو کوئی پھرے گا تم میں سے اپنے دین سے تو عنقریب لائے گا اللہ ایسے لوگوں کو جو محبوب ہوں گے اللہ کو اور انہیں اللہ سے محبت ہوگی مہربان، مسلمانوں پر اور سخت، کفّار کے لیے جہاد کریں گے وہ اللہ کی راہ میں اور نہ ڈریں گے ملامت سے کسی ملامت کرنے والے کی، یہ فضل ہے اللہ کا جو دیتا ہے وہ جسے چاہے۔ اور اللہ وسیع ذرائع کا مالک اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
[ayah]5:55[/ayah] حقیقت یہ ہے کہ تمہارا دوست تو بس اللہ اور اس کا رسُول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے (اللہ اور رسول پر) وہ لوگ جو قائم کرتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکوٰۃ اور وہ جُھکنے والے ہیں (اللہ کے حضور)۔
[ayah]5:56[/ayah] اور جو کوئی دوست بن جائے گا اللہ اور اس کے رسُول کا اور ان کا جو ایمان لائے تو بے شک اللہ کی جماعت ہی سب پر غالب رہنے والی ہے۔
[ayah]5:57[/ayah] اے ایمان والو! مت بناؤ۔ ان لوگوں کو جنہوں ے بنالیا ہے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل ان میں سے جنہیں دی گئی تھی کتاب تم سے پہلے اور کفّار کو۔ اپنا دوست- اور ڈرتے رہو اللہ سے اگر ہو تم ایمان والے۔[ayah]5:58[/ayah] اور جب منادی کرتے ہو تم نماز کی تو بنالیتے ہیں وہ اُسے مذاق اور کھیل۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ لوگ بے عقل ہیں۔
[ayah]5:59[/ayah] کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب! نہیں ضد اور نفرت کرتے تم ہم سے مگر اس وجہ سے کہ ایمان لائے ہم اللہ پر اور اس پر جو نازل ہوا ہماری طرف اور اس پر جو نازل ہُوا (ہم سے) پہلے، واقعہ یہ ہے کہ تم میں اکثر نافرمان ہیں۔


افسوس ناک بات یہ ہے کہ قانون رجم قرآن میں نازل نہیں ہوا۔
اگر یہ درست ہے کہ
اور (حُکم دیتے ہیں ہم تم کو) کہ فیصلہ کیا کرو اُن کے معاملات کا اس کے مطابق جو نازل کیا ہے اللہ نے اور نہ پیروی کرنا اُن کی خواہشات کی اور محتاط رہنا کہ مبادا یہ لوگ تم کو فتنے میں مبتلا کردیں (اور منحرف کردیں) کسی ایسے حُکم سے جو نازل کیا ہے اللہ نے تم پر

تو پھر توراۃ کا قانون کس طور اسلام میں جاری و ساری ہو سکتا ہے؟ ان آیات کو پڑھنے کے بعد یہ بتائیے کہ قانون و اصول کہاں سے لئے جائیں گے ؟ اگر قران سے تو پھر یہ بتائیے کہ قرآن میں سنگسار کرکے ہلاک کرنے کا حکم کہاں ہے۔ آپ اوپن برہان ڈاٹ نیٹ پر اب گوگل سرچ بھی کرسکتے ہیں۔ لفظ سنگسار ڈھونڈھ کر دیکھیئے۔
 

طالوت

محفلین
"اس کتاب کی پیروہ کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کی گیی ہے" (سورہ 7 آیت 3)"غور کرو ہم اپنی آیتوں کو کس طرح پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ تفقہ کریں" (سورہ 6 آیت 65)
"اے نبی کہہ دو ! اور میری طرف یہ قران اتارا گیا ہے کہ میں تم کو اس کے ذریعے آگاہ کروں اور ان کو بھی جن تک یہ پہنچے" (سورہ 6 آیت 19)"اور جو لوگ اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہ کریں فاسق ہیں" (سورہ 5 آیت 47)
"لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کا وقت پوچھتے ہیں۔۔۔ آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا تعلق ہے؟۔۔۔اس کے علم کی انتہا تو اللہ کی جانب ہے۔۔۔ آپ تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کو آگاہ کرنے والے ہیں۔۔(سورہ 79 آیت 42-43-44)" رب اعوذ بک من ھمزت الشیطین۔۔ و اعوذ بک رب ان یحضرون" (سورہ 23 آیت 97۔۔98)
یہ وہ تعوذ ہے جو اللہ نے قران میں بیان کر دیا ہم میں سے کتنے لوگ قرانی تعوز پڑھتے ہیں ؟ یا کتنے اس کے بارے میں جانتے ہیں کیا یہ قران سے دوری کی نشانی نہیں ؟
" سلم علی المرسلین" (سورہ 37 آیت 181) مجموعی سلام تمام انبیا پر قران میں موجود ہے کیا ہم نے کبھی اسے اختیار کیا ہے ہم صرف انسانی سلام کو ہی جانتے ہیں اور اس پر کیا لے دے ہوتی رہتی ہے وہ سبھی جانتے ہیں۔۔۔
"تیری طرف ایک کتاب نازل کی گیی ہے " (سورہ 7 آیت 1)
" ہم نے آپ پر ایک اکلوتی کتاب نازل کی۔۔کھول کھول کر خود کو بیان کرنے والی"
" یقناََ اس کا (قران) کا جمع کرانا اور اس کا پڑھانا ہمارے ذمہ ہے" (سورہ 75 آیت 17)
" یقیناََ ہم نے اس کو نصیحت کے لیے نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں' (سورہ 15 آیت 9)


دوستو ایسی بے شمار آیات ہیں جو بڑی واضح اور کھلی ہوئی ہیں اس کے بعد بھی ہم اگر قران کو فرقان نہیں بناتے تو سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وسلام
 

وجی

لائبریرین
بھائیوں میرے سوال ابھی بھی وہی ہیں

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو کوڑے مارے اگر نہیں تو بھی کیوں نہیں ؟؟
اگر احادیث میں سنگسار کا ذکر ہے تو مجھے یہ بتا ئیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا کیوں نہیں ؟؟

قرآن میں تو نماز کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے پھر نماز کیسے اور کیوں پڑھیں نماز قائم کرنے کا طریقہ کہا درج ہے ؟؟

غور کریں کہ اگر قرآن سے ہی ساری چیزیں ملنا ہوتیں تو بھائی اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں بھیجا ہمیں اسلام پر عمل کرنے کے لئے سنت و احادیث کی ضرورت بھی ہے
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں ایک اہم بات پوچھی تھی کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا دین پہنچا دیا ؟؟

ایک بات جو واضع کرنا چاہتا ہوں
انجیل ،توریت اور زبور یہ کتابیں اپنی اصلی حالت میں نہیں ہیں اسی لئے قرآن کا نزول ہوا اگر اگر ان کتابوں میں سے کوئی ایک بھی کتاب صحیح ہوتی تو قرآن کے نزول کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے مسلمانوں کو ان کتابوں سے کچھ بھی غرض نہیں ہونا چاہیئے اب جب موسیقی کے حرام و حلال کی بات آتی ہے تو اکثر صاحبان دوسری الہامی کتب سے آیات نکالتے نہیں تھکتے بھائی یہ تصاد کیوں ہے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کوئی آلاتِ موسیقی استعمال نہیں کیا تو کیوں ہمارے کچھ بھائی ان سے اس بات کو منصوب کرتے ہیں اورجب سنگسار کی کرنے کی لاتعداد احادیث کے ہونے کے باوجود ان احادیث کا انکار کرتے ہیں

آخر کیوں
ان احادیث کا انکار کیوں ہوتا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سنگسار کرنے کا ذکر آتا ہے
ان احادیث کو کیوں مانا جاتا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آلاتِ موسیقی کا استعمال ہوا ہے

 

مغزل

محفلین
اسی کو تو منافقت کہتے ہیں۔۔
دورِ رسالت سے منفافقین بہ زعمِ خود نبی سے ٹھٹھول کرتے اور احکامات میں مضحکہ اڑاتے
حتی کے سرکار علیہ صلوۃ و تسلیم کو پکارنے میں بھی منافقت کرتے ۔۔
عبداللہ بن اوبیی جو منافقوں کا سردار تھا۔۔ میے خیال میں اس کی نسل آگے چل نکلی ہے۔
ہمارے اطراف ایسے ایسے منافق ظہور پزیر ہونے لگے ہیں جن کا شجرہ منفاقینِ مکہ سے
جاملتا ہے۔۔ جو اپنی مرضی سے کیڑے نکالتے ہیں۔ ۔۔ طعن طرازی کرتے ہیں جب جواب دیا
جائے تو آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔۔ اصطلاح ِ ناچیز میں انہیں بغل جھانک کہا جاتا ہے۔
ہم ایسی لاکھ احادیث لے آئیں ۔۔ یا قرآنی احکامات جو اللہ اور رسول صل اللہ کی سنت (موصوف کے معنی کے مطابق عمل)
ثابت نہ ہوں۔۔ مگرحکم یا رضامندی ہو۔۔ یہ نہ مانیں گے۔
سورۃ البقرۃ میں انہی لوگوں کے بارے میں باری تعالی ٰ فرماتا ہے
کہ’’ پس ان نے دلوں میں مرض ہے ، جس میں اللہ اضافہ فرماتا ہے، اور بے شک ان کیلئے عذابِ علیم ہے ‘‘

اب آپ ہی کہیئے ۔۔۔ جب اللہ ہی ان کو عقل نہ دے تو ہم کون ہوتے ہیں انہیں قائل کرنے والے۔
بالکل ایسے ہی جیسے ابوجہل ۔۔سب جانتے ہوئے نہ مانتا تھا۔

والسلام
 

مغزل

محفلین
سرکار صل اللہ علیہ وسلم کا عمل گیارہ ازواج ۔۔۔ (سنت ہے نا ؟ )
موصوف کیلئے چار کی اجازت (حکم / قول) ۔۔ اب کیا مانیں گے ۔۔ سنت (عمل) یا قول (حکم) ۔۔۔؟؟
سرکار صل اللہ علیہ وسلم کا عمل (سنت )۔۔چاند کے ٹکڑے کرنا ۔۔
کیا موصوف کو بھی روا ہے۔۔ اگر ہے تو کیجئے بسم اللہ ۔
سرکار صل اللہ علیہ وسلم کا عمل (سنت ) انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری کرنا ۔۔
موصوف اس سنت (عمل) پر عمل پیر اکیوں‌نہیں ہوتے ؟؟
سرکار صل اللہ علیہ وسلم کا عمل (سنت ) خالد بن ولید کو سیف اللہ کا خطاب دینا۔
موصوف بھی کسی کو یہ خطاب عطا کردیکھیں ۔۔
سرکار صل اللہ علیہ وسلم کا عمل (سنت ) درخت کو اشارے سے بلانا۔
درخت کا چل کر آنا سجدہ کرنا۔۔
موصو ف کیا کیجئے گا۔۔ ؟؟
سرکار صل اللہ علیہ وسلم کا عمل (سنت) طائف کے لوگوں کے پتھر کھاکر ۔۔۔ دعا دینا۔
موصوف ۔۔ یہ آسان سا عمل (سنت ) جاری کردیکھیں۔ ۔۔ کوشش تو کیجئے ۔۔
بازار میں آئیے میں پتھر مارتا ہوں آپ کو ۔۔ دیکھئے آپ کیا کیجئے گا۔۔۔

وجی صاحب ۔۔ فاروق صاحب کو ابھی تک واقعہ اور علّتِ واقعہ کی خبر نہیں
اور آئے دن کھول بیٹھتے ہیں خود اپنے خلاف محاذ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو کہتے ہیں جس کی جوتی اس کے سر۔
(جیسے نمرود کے پڑتی تھیں ) :)
 
بھائی کیوں گھڑی ہوئی خلاف قرآن روایات پر یقین رکھتے ہو؟ 1500 سال پرانی ایک روایات کی کتاب ہی نکال لاؤ ۔ نہ رسول اکرم نے خلاف قرآن جاکر موسیقی سے منع فرمایا ، کوئی روایت نہیں‌ اور نہ ہی خلاف قرآن جاکر رجم کا حکم دیا۔ کوئی سنت یعنی عمل نہیں۔ یہ اسلام نہیں یہودیت ہے۔ کہ قرآن کو چھوڑ کر توریت کی سزا مانی جائے۔
 
بھائی جب دلیل ختم ہو جاتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ سمجھدار لوگ جا کر قرآن کھولتے ہیں اور پڑھتے ہیں اور اللہ سے ہدایت طلب کرتے ہیں اور جو لوگ سمجھ نہیں رکھتے وہ کردار کشی پر اتر آتے ہیں۔

بھائی درست سنت جو قرآن سے ثابت ہو اس پر کیا جھگڑا۔ لیکن اگر کوئی حکم سرے سے نہ قرآن سے ثابت ہو اور نہ ہی سنت رسول سے تو پھر کیوں‌نہیں اس اللہ کی کتاب سے ہدایت طلب کرتے ہو جو کہ حق ہے۔
 

وجی

لائبریرین
فاروق صاحب
بھائی میرے سوال ابھی بھی وہی ہیں جو پہلے پوچھ چکا ہوں
ایک بات بتائیں کہ کیا قرآن میں قصاص میں سو اونٹوں کے بارے میں کہیں کوئی حکم آیا ہے ؟؟
 

مغزل

محفلین
آپ بد دماغ ہونے کے ساتھ ساتھ بد تمیز بھی ہیں۔۔:mad:۔۔۔۔۔

طالوت صاحب
کیا بدتمیزی ہے ۔۔؟؟ فرمائیے۔۔۔ اور بددماغی بھی خوب کہی۔۔
ان دونوں حوالوں سے میری کوئی ایک بات مجھے بتا دیجئے۔۔
میں ممنون ہوں گا،
اور رہی بات اس کی تو یہ زبان کا محاورہ ہے ،۔۔
جہاں اطلاق ہوگا اسے ہی تکلیف ہوتی ہے۔
پہلے زبان جانیئے ۔۔ پھر مجھ سے بات کیجئے گا۔

ست سری اکال (آپ کیلئے)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top