سرکار ۔۔ معافی چاہتا ہوں ۔۔ میرے خیال میں آپ مراسلات پڑھنا گوارا نہیںکرتے۔
یہ مراسلہ دیکھئے ۔۔ کوڑوں اور رجم /سنگساری کی سزا کے حوالے موجود ہیں۔
مزید یہ کہ یہ مراسلات بھی آپ نے نہیں پڑھے،۔
۱۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک مسلمان حاضر ہوا اور اس نے با آواز بلند کہا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں زنا کر بیٹھا ہوں مجھے پاک کردیجیے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس کی طرف سے منہ پھیرلیا۔ وہ شخص پھر سامنے آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زنا کا جرم سرزد ہوگیا ہے۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا یہاں تک کہ چار بار ایسا ہی ہوا۔ جب اس نے چار بار زنا کا اعتراف کرلیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے اسے قریب بلا کر دریافت کیا۔ کیا تم دیوانے (پاگل) ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ پھر حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا ہاں۔ یہ سن کر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو حکم دیا کہ اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔(شرح صحیح مسلم از مولانا غلام رسول سعیدی جلد رابع، کتاب الحدود صفحہ ۷۶۸)
ب) حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک اسلمی حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور زنا کا مرتکب ہوگیا ہوں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم (مجھ پر زنا کی حد جاری کرکے) مجھے پاک کردیجیے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک کو واپس کردیا۔ دوسرے روز دوبارہ حضرت ماعز حاضر خدمت ہوئے اور پھر عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں زنا کر بیٹھا ہوں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس کو واپس کردیا۔ اور اس کی قوم کی طرف پیغام بھیجا کہ کیا تم ماعز کی عقل میں کچھ فتور پاتے ہو؟ کیا تم اس کی کوئی بات بدلی ہوئی دیکھتے ہو؟ اہل قوم نے جواب میں عرض کیا، بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ ایک کامل عقل والے انسان ہیں۔
اس کے بعد حضرت ماعز بن مالک پھر تیسرے دن حاضر ہوئے۔ رسول اللہ نے پھر ان کی قوم کی طرف پیغام بھیجا اور ان کے متعلق لوگوں سے دریافت کیا۔ اہل قوم نے پھر یہی کہا کہ اس میں کوئی کمی نہیں ہے اور نہ اس کی عقل میں کوئی فتور ہے۔
جب وہ چوتھے روز آئے تو اس کے لیے گڑھا کھودا گیا۔ اور اس کے بعد حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ رجم (سنگسار ) کردیے گئے۔ سنن ابن ماجہ اور ترمذی میں مزید یہ بیان ہے کہ جب حضرت ماعز بن مالک کو سنگسار کیا جارہا تھا تو وہ پتھروں کی تکلیف سے بھاگنے لگے اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے مار ڈالا۔ جب حضور صلّی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا؟“ یا یوں فرمایا ”تم نے اسے کو چھوڑ کیوں نہ دیا، ہوسکتا ہے وہ توبہ کرلیتا اور اللہ کریم جل شانہ اس کی توبہ کو قبول کرلیتا۔“ (مشکوٰۃ، کتاب الحدود)
(ج) حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک غامدیہ عورت حاضر خدمت ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں نے زنا کیا ہے، مجھے پاک کردیجیے۔ رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس کو واپس کردیا۔ دوسرے دن وہ پھر آئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے کیوں واپس کرتے ہیں؟ شاید آپ مجھے ایسے ہی لوٹا رہے ہیں جیسے آپ نے ماعز بن مالک اسلمی کو واپس کردیا تھا۔ اللہ کی قسم میں تو زنا کے نتیجہ میں حاملہ ہوچکی ہوں۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو اپنے بیان سے رجوع نہیں کرتی تو بہرحال ابھی نہیں، اب چلی جا یہاں تک کہ بچہ پیدا ہوجائے۔ راوئ حدیث کہتے ہیں کہ جب اس کا بچہ پیدا ہوگیا تو ایک کپڑے میں بچہ کو لپیٹے ہوئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پھر حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں بچہ پیدا ہوگیا ہے۔
آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ابھی نہیں جا اور اس کو دودھ پلا یہاں تک کہ تو اس کا دودھ چھڑالے۔ چنانچہ وہ پھر بچہ کو لے کر حاضر خدمت ہوئی اس حال میں کہ اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا بھی تھا۔ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم میں اس کا دودھ چھڑا چکی ہوں اور اب یہ روٹی بھی کھانے لگا ہے۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ مسلمانوں میں سے ایک شخص کو (پرورش کرنے کے لیے) دے دیا۔ پھر اس عورت کے متعلق حکم دیا۔ اس کے لیے اس کے سینے تک گڑھا کھودا گیا۔ اس کے بعد رجم (سنگساری) کا حکم دیا تو لوگوں نے سنگسار کرنا شروع کردیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی ایک پتھر لے کر سامنے آئے اور اس کے سر پر مارا۔ اس سے ان کے چہرے پر خون کے چھینٹے گرگئے۔ انہوں نے عورت کو برا بھلا کہا۔ جب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا خالد ٹھہرو (اسے سخت سست نہ کہو) اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، اس عورت نے بلاشبہ ایسی توبہ کی ہے کہ اگر کوئی (ظلماً) ٹیکس والا بھی ایسی توبہ کرے تو اس کی مغفرت ہوجائے گی۔
اس کے بعد حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی تیاری کا حکم دیا اور نماز جنازہ ادا فرمائی اور اسے دفن کردیا گیا۔ (مشکوٰۃ، کتاب الحدود)
فاروق صاحب۔۔ آفرین ہے آپ پر۔
سرکار نے سنگساری کا حکم دیا۔۔ اسناد موجود ۔۔ اور آپ فرماتے ہیں ۔ سنت سے ثابت کرو
بھئ۔۔ سنت اور کیا ہوتی ہے۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟ اللہ نے کہا (بےشک) جو یہ رسول تمہیں دیں لے لو اور
جس سے باز رکھیں ۔۔ باز رہو۔۔
آپ اپنے ذہن شریف کو ذرا استعمال تو کیجئے۔
یا آپ کا مقصد محض ۔۔ ٹھٹھول ہے ۔
خیر اندیش
م۔م۔مغل