فاخر
محفلین
باغپت سانحہ ارتداد :آنسو نہ بہائیں ، اقدام کریں!
احمد خان سہسوانی ،رام پور،انڈیا
میڈیا رپورٹ کے مطابق باغپت میں آج ایک ہی گھر کے بیس افراد اجتماعی طور پر اسلام سے خارج ہو کر کفر کی ظلمتوں کے آغوش میں چلے گئے تاہم اسی طوفان ارتداد سے یہ بھی ’’خوش کن‘‘ خبر مل رہی ہے اسی خاندان کی بہو نے ارتداد سے منع کردیا اوراپنے بچوں کے ساتھ مائیکہ چلی گئی۔ اگر واقعتا وہ لوگ مسلمان تھے اوران کا ایمان ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ پر تھا تو یقینا یہ افسوسناک ہے۔ اس کی مذمت نہیں ؛بلکہ اس کے عوامل و اسباب پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر بیس افراد کیوں ظلمتوں کے اسیر ہوگئے؟ ان کے ارتداد کی جو وجہ بیان کی جاتی ہے وہ سرے سے ناقص اور بے جان ہے اس میں کوئی دم خم نہیں ہے، اور پھر ‘‘ارتداد کے لیے کوئی وجہ نہیں ہوتی’’۔ واٹس ایپ مسیج کے مطابق مولانا راشد قاسمی (جو اسی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں ) نے جو حقیقت بیان کی ہے اس سے کوئی اور چیز معلوم ہوتی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
”باغپت یوپی کے موضع ‘‘بدر خا’’ کے ایک مسلم پریوار کے 20 افراد نے اپنا مذہب تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا اور آج انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کرلیا ہے۔ اصل میں یہ واقعہ ایک ذا تی رنجش سے شروع ہوا تھا جس میں ایک شخص کا قتل ہوگیا تھا(میڈیا رپورٹ کے مطابق مقتول اسی خاندان کا تھا جس کی لاش اس کی دوکان پر لٹکی ہوئی ملی تھی ) علاقے کے کافی لوگوں نے اس قضیہ کو حل کرا نے کی کوشش کی ؛لیکن کوئی مسلہ حل نہیں ہو سکا اور ان لوگوں نے مذہب تبدیل کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ خبر جیسے ہی ہندو تنظیموں کو پہنچی انہوں نے فوراً انکو کیچ کرلیا(ان مرتدین کے پاس آکر ڈیرہ جمالیا)۔ واضح ہو کہ ان افراد کا تعلق‘‘جوگی برادری’’ سے ہے جو ایک پسماندہ برادری ہوتی ہے، زیا دہ تر ان کے رسم و رواج ہندوانہ طور طریقے کے ہوتے ہیں اکثر لوگ‘‘بھیک’’ ما نگ کر زندگی بسر کرتے ہیں ۔ان کو سمجھا نے(افہام و تفہیم کی) بہت کوششیں کی گئی ،داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی نے مولانا راشد قاسمی جو اس علاقہ میں ایک بڑے مدرسہ کے مہتمم ہیں، ان کوکئی مرتبہ ملاقات کے لیے بھیجا ،اس گاؤں کی مسجد کے امام مولانا عرفان نے بھی بہت کوششیں کی؛ لیکن ان کے اوپر ہندو تنظیموں کا بہت گہرا رنگ چڑھ گیا اور انہوں نے علماءاور مسلم قائدین کی بات نہیں مانی اور آج با قاعدہ ہندو مذہب قبول کرلیا۔ “
یہ میسیج واٹس ایپ کے کئی گروپ میں گردش کررہا ہے ۔ تاہم حقیقت حال یہ ہے کہ ان کا رشتہ ایمان سے مضبوط نہیں تھا۔ پھر طرہ یہ کہ مرتدین کا تعلق ’’جوگی‘‘ برادری سے بھی تھا کہ جن کا معاش ہی ’’گداگری‘‘ تھا۔ ایک قتل کی غیر معقول وجہ سے اسلام کی لازوال دولت کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر ذلت اور جہنم کے آگ کو گلے لگانا کئی سوالات کھڑے کرتا ہے۔ اس کی ذمہ داری کس پر ہوتی ہے؟ جواب مختصر سا بھی ہے اور تلخ بھی۔ اورپھر جب انہوں نے ارتداد کا اعلان کیا تو علاقہ کے ‘‘ہندویووا واہنی ’’ کے ذمہ دار کی باچھیں کھل گئیں۔ ہندو تنظیمیں جو سرکارکے پشت پناہی میں اپنے عزائم کے تئیں پرعزم ہیں ان کے لیے ان کا اعلانِ ارتداد ’’لقمہءتر‘‘ بن گیا۔ اب اس کے عواقب جو بھی ہوں ؛لیکن ملت اسلامیہ کو اس کے اسباب و محرکا ت پر غور کرنے چاہیے کہ آج ملت جو فرقوں میں تقسیم ہوکر بے جان ہوچکی ہے اس کے اتحاد پر غور کیا جانا چاہیے۔ باہمی رنجش اور حسد نے آج اس مقام پر پہنچادیا ہے کہ بات بات میں جھگڑے، بات میں مسلکی نزاع، بات بات میں مادر پدر اور دست و گریباں ۔جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ یہ کہ اس سے نہ تو اسلام کا کچھ بگڑا ہے ؛لیکن اخروی نعمتوں اور آسائشوں کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر بظاہر مقدس اسلام کی توہین کی گئی ہے کہ اسلام سے نعوذباللہ ہمیں کچھ فائدہ نہیں ہے ۔ اب علاقہ کے علماء و ذمہ داران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں مثبت اقدامات کریں تاکہ وہ پھردائرہ اسلام میں داخل ہوکر ایمان کی تجدید کریں۔ جوگی برادری کے افراد جوعمومی دبے کچلے، پست خوردہ ، گنوار اور اجڈ ہواکرتے ہیں ان تک اسلام کی درست تعلیم اور تبلیغ نہ ہوسکی تھی۔ ورنہ اگراسلام کی روشنی ان تک پہنچی ہوتی اسلام کی حقیقت سے وہ آشنا ہوتے تو پھر یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ارتداد کی نوبت ہی نیہں آتی۔ مغربی یوپی بالخصوص بجنور ، سہارن پور، دیوبند ، مظفر نگر میرٹھ میں کئی ایسی برادریاں ہیں جو تمام طرح سے پست خوردہ اور تعلیم سے ناآشنا ہیں جن کو اسلام کے ارکان ‘‘دیکھا دیکھی’’ ہی آتے ہیں ۔ باپ دادا نماز پڑھتے تھے ، وہ بھی سال میں ایک بار یا ہفتہ میں ایک بار نماز پڑھ لیتے ہیں ۔ باپ دادا گوشت کھاتے تھے وہ بھی کھالیتے ہیں، ان کے سوا ان کے لباس ، ہیئت، زبان ، نشست و برخاست سے شعائر اسلام کی شناخت نہیں ہوتی ہے ۔ اس سمت میں قوم کے رہنماکو توجہ صرف دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ اسی خطہ زرخیز میں علم و عرفان کے کئی ادارے ہیں جو آفتاب و ماہتاب ہیں۔ ام المدارس دارالعلوم، وقف دارالعلوم دیوبند ، مظاہر علوم سہارن پور، جامعة الامام محمد انور شاہ وغیرہم ادارے ہیں ۔ اور علماء کی کثیر تعداد بھی ہے ؛لہٰذا اس سمت غور کیا جانا چاہیے ۔ دفاع کے بجائے اب اقدام پر غور کیجئے ! دفاعی پوزیشن پر بزدل ہوا کرتے ہیں جو حوصلہ مند اور جذبہ اسداللہی سے سرشار ہوتے ہیں وہ بڑھ کر اقدام کرتے ہیں ۔ آج بیس لوگوں نے ایک طرف دونوں جہاں کی زندگی کو جہنم کا ’’ایندھن‘‘ بنادیا وہیں اپنے عمل سے دشمنان کو خوش بھی کرگئے۔ اس ذیل میں غور کرنے اور دفاع کے بجائے اقدام کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اس ارتداد کی چنگاری ایک بڑے حلقہ کو متاثر کرسکتی ہے۔
احمد خان سہسوانی ،رام پور،انڈیا
میڈیا رپورٹ کے مطابق باغپت میں آج ایک ہی گھر کے بیس افراد اجتماعی طور پر اسلام سے خارج ہو کر کفر کی ظلمتوں کے آغوش میں چلے گئے تاہم اسی طوفان ارتداد سے یہ بھی ’’خوش کن‘‘ خبر مل رہی ہے اسی خاندان کی بہو نے ارتداد سے منع کردیا اوراپنے بچوں کے ساتھ مائیکہ چلی گئی۔ اگر واقعتا وہ لوگ مسلمان تھے اوران کا ایمان ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ پر تھا تو یقینا یہ افسوسناک ہے۔ اس کی مذمت نہیں ؛بلکہ اس کے عوامل و اسباب پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر بیس افراد کیوں ظلمتوں کے اسیر ہوگئے؟ ان کے ارتداد کی جو وجہ بیان کی جاتی ہے وہ سرے سے ناقص اور بے جان ہے اس میں کوئی دم خم نہیں ہے، اور پھر ‘‘ارتداد کے لیے کوئی وجہ نہیں ہوتی’’۔ واٹس ایپ مسیج کے مطابق مولانا راشد قاسمی (جو اسی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں ) نے جو حقیقت بیان کی ہے اس سے کوئی اور چیز معلوم ہوتی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
”باغپت یوپی کے موضع ‘‘بدر خا’’ کے ایک مسلم پریوار کے 20 افراد نے اپنا مذہب تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا اور آج انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کرلیا ہے۔ اصل میں یہ واقعہ ایک ذا تی رنجش سے شروع ہوا تھا جس میں ایک شخص کا قتل ہوگیا تھا(میڈیا رپورٹ کے مطابق مقتول اسی خاندان کا تھا جس کی لاش اس کی دوکان پر لٹکی ہوئی ملی تھی ) علاقے کے کافی لوگوں نے اس قضیہ کو حل کرا نے کی کوشش کی ؛لیکن کوئی مسلہ حل نہیں ہو سکا اور ان لوگوں نے مذہب تبدیل کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ خبر جیسے ہی ہندو تنظیموں کو پہنچی انہوں نے فوراً انکو کیچ کرلیا(ان مرتدین کے پاس آکر ڈیرہ جمالیا)۔ واضح ہو کہ ان افراد کا تعلق‘‘جوگی برادری’’ سے ہے جو ایک پسماندہ برادری ہوتی ہے، زیا دہ تر ان کے رسم و رواج ہندوانہ طور طریقے کے ہوتے ہیں اکثر لوگ‘‘بھیک’’ ما نگ کر زندگی بسر کرتے ہیں ۔ان کو سمجھا نے(افہام و تفہیم کی) بہت کوششیں کی گئی ،داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی نے مولانا راشد قاسمی جو اس علاقہ میں ایک بڑے مدرسہ کے مہتمم ہیں، ان کوکئی مرتبہ ملاقات کے لیے بھیجا ،اس گاؤں کی مسجد کے امام مولانا عرفان نے بھی بہت کوششیں کی؛ لیکن ان کے اوپر ہندو تنظیموں کا بہت گہرا رنگ چڑھ گیا اور انہوں نے علماءاور مسلم قائدین کی بات نہیں مانی اور آج با قاعدہ ہندو مذہب قبول کرلیا۔ “
یہ میسیج واٹس ایپ کے کئی گروپ میں گردش کررہا ہے ۔ تاہم حقیقت حال یہ ہے کہ ان کا رشتہ ایمان سے مضبوط نہیں تھا۔ پھر طرہ یہ کہ مرتدین کا تعلق ’’جوگی‘‘ برادری سے بھی تھا کہ جن کا معاش ہی ’’گداگری‘‘ تھا۔ ایک قتل کی غیر معقول وجہ سے اسلام کی لازوال دولت کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر ذلت اور جہنم کے آگ کو گلے لگانا کئی سوالات کھڑے کرتا ہے۔ اس کی ذمہ داری کس پر ہوتی ہے؟ جواب مختصر سا بھی ہے اور تلخ بھی۔ اورپھر جب انہوں نے ارتداد کا اعلان کیا تو علاقہ کے ‘‘ہندویووا واہنی ’’ کے ذمہ دار کی باچھیں کھل گئیں۔ ہندو تنظیمیں جو سرکارکے پشت پناہی میں اپنے عزائم کے تئیں پرعزم ہیں ان کے لیے ان کا اعلانِ ارتداد ’’لقمہءتر‘‘ بن گیا۔ اب اس کے عواقب جو بھی ہوں ؛لیکن ملت اسلامیہ کو اس کے اسباب و محرکا ت پر غور کرنے چاہیے کہ آج ملت جو فرقوں میں تقسیم ہوکر بے جان ہوچکی ہے اس کے اتحاد پر غور کیا جانا چاہیے۔ باہمی رنجش اور حسد نے آج اس مقام پر پہنچادیا ہے کہ بات بات میں جھگڑے، بات میں مسلکی نزاع، بات بات میں مادر پدر اور دست و گریباں ۔جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ یہ کہ اس سے نہ تو اسلام کا کچھ بگڑا ہے ؛لیکن اخروی نعمتوں اور آسائشوں کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر بظاہر مقدس اسلام کی توہین کی گئی ہے کہ اسلام سے نعوذباللہ ہمیں کچھ فائدہ نہیں ہے ۔ اب علاقہ کے علماء و ذمہ داران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں مثبت اقدامات کریں تاکہ وہ پھردائرہ اسلام میں داخل ہوکر ایمان کی تجدید کریں۔ جوگی برادری کے افراد جوعمومی دبے کچلے، پست خوردہ ، گنوار اور اجڈ ہواکرتے ہیں ان تک اسلام کی درست تعلیم اور تبلیغ نہ ہوسکی تھی۔ ورنہ اگراسلام کی روشنی ان تک پہنچی ہوتی اسلام کی حقیقت سے وہ آشنا ہوتے تو پھر یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ارتداد کی نوبت ہی نیہں آتی۔ مغربی یوپی بالخصوص بجنور ، سہارن پور، دیوبند ، مظفر نگر میرٹھ میں کئی ایسی برادریاں ہیں جو تمام طرح سے پست خوردہ اور تعلیم سے ناآشنا ہیں جن کو اسلام کے ارکان ‘‘دیکھا دیکھی’’ ہی آتے ہیں ۔ باپ دادا نماز پڑھتے تھے ، وہ بھی سال میں ایک بار یا ہفتہ میں ایک بار نماز پڑھ لیتے ہیں ۔ باپ دادا گوشت کھاتے تھے وہ بھی کھالیتے ہیں، ان کے سوا ان کے لباس ، ہیئت، زبان ، نشست و برخاست سے شعائر اسلام کی شناخت نہیں ہوتی ہے ۔ اس سمت میں قوم کے رہنماکو توجہ صرف دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ اسی خطہ زرخیز میں علم و عرفان کے کئی ادارے ہیں جو آفتاب و ماہتاب ہیں۔ ام المدارس دارالعلوم، وقف دارالعلوم دیوبند ، مظاہر علوم سہارن پور، جامعة الامام محمد انور شاہ وغیرہم ادارے ہیں ۔ اور علماء کی کثیر تعداد بھی ہے ؛لہٰذا اس سمت غور کیا جانا چاہیے ۔ دفاع کے بجائے اب اقدام پر غور کیجئے ! دفاعی پوزیشن پر بزدل ہوا کرتے ہیں جو حوصلہ مند اور جذبہ اسداللہی سے سرشار ہوتے ہیں وہ بڑھ کر اقدام کرتے ہیں ۔ آج بیس لوگوں نے ایک طرف دونوں جہاں کی زندگی کو جہنم کا ’’ایندھن‘‘ بنادیا وہیں اپنے عمل سے دشمنان کو خوش بھی کرگئے۔ اس ذیل میں غور کرنے اور دفاع کے بجائے اقدام کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اس ارتداد کی چنگاری ایک بڑے حلقہ کو متاثر کرسکتی ہے۔